(Last Updated On: )
سانپ ڈستے رہے، زہر چڑھتا رہا
پربتوں پر کوئی منتر پڑھتا رہا
جس کے ہاتھوں میں میں نے ترازو دیا
میرے ہی سر وہ الزام مڑھتا رہا
دل کے ارمان دم توڑتے ہی رہے
اور آنکھوں کا دریا بھی چڑھتا رہا
دیکھ لینا مرے چہرے کا رنگ بھی
میرا اعمال نامہ وہ پڑھتا رہا
کوئی دریا تھا میری ہی تقدیر کا
روز اترتا رہا، روز چڑھتا رہا
ایک منزل ادھر، ایک منزل ادھر
پیچھے ہٹتا رہا، آگے بڑھتا رہا
وہ مسافر جو منزل پہ پہنچا ضیا!
گر کے اٹھتا رہا، رُک کے بڑھتا رہا
٭٭٭