” السلام علیکم” فرقان صاحب اور آفتاب صاحب نے ایک ساتھ کہا
” وعلیکم السلام ” رضا نے سلام کا تو جواب سے دیا تھا مگر ساتھ ہی میں سوالیہ نظروں سے سلیم صاحب کی طرف دیکھا
” رضا، یہ آسیہ کے بھائی ہیں، شہریار کو دیکھنے آۓ ہیں”
سلیم کی بات سنتے ہی رضا اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور آفتاب صاحب اور فرقان صاحب سے ہاتھ ملایا
” آئیں بیٹھیں ” صائمہ نے کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا
“نہیں بہن آپ بیٹھی رہیں، ہم کھڑے ٹھیک ہیں” آفتاب صاحب کو صائمہ بیگم کا کھڑا ہونا مناسب نہیں لگا
” آپ لوگ بیٹھیں، میں ملازم سے کہہ کر آپ لوگوں کے لیے کچھ منگواتا ہوں” رضا صاحب نے اٹھتے ہوئے کہا
” نہیں اس کی ضرورت نہیں ہے، ہم کھانا کھا کر آۓ ہیں، آپ ہمارے پاس ہی بیٹھیں رہیں ”
” اچھا پھر رکیں، میں آپ کے لیے ملازم سے کہہ کر کرسیاں منگواتا ہوں” رضا نے کہا
” نہیں رضا تم بیٹھو رہو، میں منگواتا ہوں ” سلیم نے اٹھتے ہوئے کہا
” شہریار اب کیسی طبعیت ہے آپ کی ” آفتاب صاحب نے شہریار سے پوچھا
” اب بہتر محسوس کر رہا ہوں، بس تھوڑا سر میں درد ہے باقی سب ٹھیک ہے ” شہریار نے بیڈ پر ٹیک لگاتے ہوئے کہا
” یہ تو بہت اچھی بات ہے، دیکھنا اب بہت جلد پھر چل پھر رہے ہوگے، بس آپ نے ٹینشن نہیں لینی. یہ اللہ کے کام ہیں تو بس اللہ پر بھروسہ کرو” فرقان صاحب نے کہا
” جی انکل”
**************************
تقریباً رات بار بجے کا وقت تھا جب حیا کو اچانک پیاس لگی. اُس نے کمرے کی لائٹ آن کرکے بیڈ کے ساتھ رکھے گے ٹیبل پر پانی کے جگ سے پانی پینا چاہا مگر جگ میں پانی نہیں تھا. حیا نے غصے سے ساتھ ہوئی رانیہ کو دیکھا جس نے سارا پانی حیا کے منع کرنے کے باوجود فاطمہ کے اوپر پھینکنے پر ضائع کردیا تھا. حیا کا بس نہیں چل رہا تھا کہ سوئی ہوئی رانیہ کو جگایا اور اُس سے پانی منگوایا مگر یہ کرکے اُس نے رانیہ سے جوتے تھوڑے ہی کھانے تھے تو اس لیے ناچاہتے ہوۓ بھی ڈرپوک حیا کو خود رات کے بارہ بجے کچن میں جانے کا شرف حاصل ہوا. وہ جونہی کچن میں انٹر ہوئی اُسے سلیم صاحب کچن میں پسنی پیتے ہوئے دیکھائی دیۓ. ان کو دیکھ کر حیا کے بےجان جسم میں جان آئی کہ چلو شکر ہے کہ بابا کچن میں ہی ہیں.
” بابا آپ کب آۓ” حیا نے سلیم صاحب سے پوچھا
” بس ابھی تھوڑی ہی دیر پہلے، آپ سوئی نہیں ہو ابھی تک”
” سوئی ہوئی تھی، پیاس لگنے کی وجہ سے آنکھ کھل گئی تو کچن میں ہانی پینے کے لیے آئی ہوں”
” اچھا، باقی لوگ کہاں ہیں”
” سعدیہ ممانی، زوہیب اور سالار تو نو بجے ہی چلے گے تھے، عالیہ ممانی، فاطمہ اور رانیہ ادھر ہی ہیں ” حیا نے فریج سے پانی کی بوتل نکالتے ہوئے کہا
” اچھا میری بیٹی نے کھانا کھایا ہے” سلیم صاحب نے مسکراتے ہوئے ہوچھا
” جی بابا، کھا لیا ہے، آپ نے کھایا ہے”
” میں نے بھی ہسپتال میں کھا لیا تھا”
” او ہاں، بابا شہریار کیسا ہے” حیا نے اس انداز میں سلیم صاحب سے پوچھا جیسے اُسے اچانک سے کچھ یاد آگیا ہو
“الحمداللہ ٹھیک ہے وہ اب ” سلیم صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا
” میں بھی اُسے کل دیکھنے جاؤں گی” حیا نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا
” ہاں ضرور، میں اپنی بیٹی کو خود لے کر جاؤں گا ”
” اچھا بابا، میں سونے جارہی ہوں، اب بھی آپ جاکر ریسٹ کریں، شب بخیر ”
” شب بخیر”
*************************
” شہریار آنکھیں کھولو، دیکھو کون ملنے آیا ہے تم سے” صائمہ بیگم نے شہریار کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا
ان کے ہاتھ پھیرنے کی وجہ سے شہریار نے ایک آنکھ کھول کر دیکھا تو سامنے سدرہ کھڑی تھی. جس کو دیکھتے ساتھ ہی اُس نے اپنی دونوں آنکھیں کھول کر بیٹھنے کی کوشش کی.
” تم دونوں باتیں کرو، میں آتی ہوں اپنی جان کے لیے ناشتہ لے کر”
” سدرہ تم…… کہاں تھی تم….. کل کیوں نہیں آئی مجھ سے ملنے…. اتنا انتظار کیا میں نے تمھارا…. بس ایک بار مجھے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے دو، حیا کے گھر میں خود تصویریں بھیجواؤں گا، دیکھو تم ناراض نہ ہونا،میں ٹھیک ہونے کے بعد سب سے پہلے تمھارا کام کروں گا، میں کل بھی حیا ہی کے گھر جارہا تھا کہ گاڑی کی بریک فیل ہوگئی اور میرا ایکسیڈنٹ ہوگیا” شہریار نے سدرہ کا ہاتھ پکڑتے ہوۓ کہا
” مجھے تمھاری کوئی مدد نہیں چاہیے، تم نے جتنی میری مدد کی، اُس کے لیے تمھارا بہت شکریہ” سدرہ نے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا
” ناراض کیوں ہورہی ہو سدرہ، میں نے تمھیں بتایا بھی ہے کہ میں بس ٹھیک ہو جاؤ، پھر سب سے پہلے تمھارا کام ہی کرو گا” شہریار نے سدرہ کو دیکھتے ہوئے کہا
” میں تم سے نہیں ناراض ”
سدرہ کا رویہ شہریار کی سمجھ سے باہر تھا. اُس کی آنکھوں میں اپنے لیے کوئی جزبات نہ دیکھ کر اُس کی روح تک کو تکلیف ہوئی تھی.
” تو پھر منہ کیوں بنایا ہوا ہے” شہریار نے سدرہ سے ہوچھا
” کیا کروں، منہ ہی ایسا ہے” سدرہ نے معصومیت سے جواب دیا
” سدرہ میرے پاس ایک بہت اچھی خبر ہے، جس کو سن کر تم بہت خوش ہوجاؤ گی” شہریار نے مسکراتے ہوئے کہا
” کیا خبر” سدرہ نے بس اتنا ہی کہنے میں اکتفا کیا
” اگلے مہینے میرا اور تمھارا نکاح ہے، ماما مان گئی ہیں”
” یہ کیا کہہ رہے ہو تم، نکاح وہ بھی میرا اور تمھارا، لگتا ہے کچھ زیادہ ہی چوٹ لگی ہے تمھارے دماغ پر ” سدرہ نے غصے سے کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا
” ایسا کیوں کہہ رہی ہو” شہریار نے پوچھ تو لیا تھا مگر ایک انجان خوف اُسے اندر ہی اندر کھا رہا تھا.
” شہریار تم اتنے بھی بچے نہیں ہو کہ میری بات کا مطلب نہ سمجھ پاؤ، میں مانتی ہوں کہ ہماری منگنی بھی ہوئی تھی مگر تب کی بات اور تھی. اب تم ایک معزور انسان ہو، اور میں ایک معزور انسان سے شادی کرکے اپنی زندگی تھوڑے ہی خراب کر سکتی ہوں، میں آج ہسپتال بھی تم سے اِسی بارے میں بات کرنے آئی تھی. شہریار تم مجھے بھول جاؤ کیونکہ تمھاری وجہ سے میں اپنی زندگی داؤ پر نہیں لگا سکتی. میں بہت جلد تمھیں انگوٹھی اور تمھارے باقی تحائف بھیجوا دوں گی”
” یہ کیا کہہ رہی ہو تم سدرہ، تم میری محبت ہو تم میرے ساتھ ایسا نہیں کرسکتی، اور تمھیں بھی تو مجھ سے محبت ہے”
” محبت وہ بھی تم سے، ہے کیا تمھارے پاس سوائے دولت کے، میں نے صرف دولت کی وجہ سے ہی تم سے منگنی کی تھی مگر میں دولت کی اتنی بھی پوچاری نہیں ہوں کہ دولت کی خاطر اپنی زندگی قربان کردوں، میں جارہی ہوں، باۓ، آئی ہوپ، آئی ول نیور سی یو ان مائی ہول لائف ” سدرہ نے بیگ اٹھاتے ہوئے کہا
” سدرہ تم میرے ساتھ ایسا نہیں کرسکتی، پلیز مجھے چھوڑ کر مت جاؤ، میں تمھارے بغیر نہیں رہ سکوں گا، دیکھو یہ سب میں نے تمھارے ہی لیے کیا ہے، اگر میں تمھارے باربار کال کرنے کی وجہ سے گاڑی تیز نہ چلاتا تو میں آج تمھارے سامنے کھڑا مسکرا رہا ہوتا، تمھارے لیے میں نے اپنی جان تک کی پروا نہ کی اور تم میرے ساتھ یہ کر رہی ہو ”
” ہاہاہاہا میرے لیے کیا ہے، کیا بات ہے شہریار، میں نے تو تمھیں نہیں کہا تھا کہ حیا کے گھر جاؤ، تمھیں یاد ہوتو تم نے ہی کہا تھا کہ میں اس طرح حیا کو مزا چکھاؤں گا، یہ سب تمھارا پیلن تھا، اب تم ہی بھگتو ”
” مگر یہ سب تمھیں ہی تو خوش کرنے کے لیے کیا تھا” سدرہ کی باتیں شہریار کے دل کو نہیں روح کو تکلیف دے رہی تھی.
” تم بچے نہیں تھے جو میری باتوں میں آگے یہ سب تم نے اپنی انا کی تسکین کے لیے کیا اور اب الزام مجھ پر لگا رہے ہو، آج اگر تم ہسپتال کے بستر پر پڑے ہو تو اپنے کرتوتوں کی سزا بھگت رہے ہو، اور تمھارے لیے ایک اہم خبر، اگلے مہینے میرا، زین شیخ جو کہ مشہور بزنس مین ہے، کے ساتھ نکاح ہے تم ضرور آنا، مجھے تمھارا انتظار رہے گا، میں بھی تو دیکھوں گی کہ تم ویل چیئر پر کیسے دکھائی دیتے ہو ”
یہ کہہ کر سدرہ روتے ہوئے شہریار کو اکیلا چھوڑ کر کمرے سے باہر نکل جاتی ہے
__________
سدرہ کے الفاظ شہریار کے دل پر کسی خنجر کا کام کرگے۔ اُسے لگا کہ اب وہ کبھی بھی سر اٹھا کر نہیں چل سکے گا، آج ایک سال بعد اُس کو اُسی کے ہی الفاظ لوٹاۓ گے، وہ اللہ کے انصاف پر رشک اور اپنی بربادی پر پچھتاتا رہ گیا. اُس نے سدرہ کے پیچھے جانا چاہا، مگر جونہی اُس نے اٹھنے کی کوشش کی، وہ اپنے ٹانگوں کو ہی دیکھتا رہ گیا کیونکہ وہ چاہا کر بھی اُس کے پیچھے نہیں جاسکتا تھا. شہریار کو دکھ اس بات کا نہیں تھا کہ سدرہ کی وجہ سے وہ ہسپتال میں پڑا ہے بلکہ اُسے تو دکھ اس بات کا تھا کہ اتنا کچھ کرنے کے باوجود بھی وہ اُسے چھوڑ گئی. اُس نے گھڑی کو دیکھتے ہوئے اپنے ہاتھوں کی مدد سے اپنی آنکھوں میں آۓ ہوئے آنسوؤں کو چہرے پر آنے سے روک دیا کیونکہ وہ کسی بےوفا کے لیے آنسو بہا کر محبت کی توحین نہیں کرسکتا تھا. گزشتہ ایک سال اُس کی آنکھوں کے سامنے گھوم رہا تھا. اُسے آج بھی وہ دن اچھی طرح سے یاد تھا کہ جب اُس کی کلاس فیلو، صباحت نے سدرہ اور اُس کے تعلق کے بارے میں سدرہ کے گھر والوں کو بتایا تھا، تو سدرہ کے گھر والوں نے کتنا مارا تھا اُسے، کتنا روئی تھی سدرہ اُس کے سامنے، تو بدلہ لینے کی خاطر اُس نے اور سدرہ نے صباحت کے گھر اُس کی پیکچرز ایڈیٹنگ کرکے بھیجوائی تھی جس کے نتائج سے سدرہ اور شہریار کو تو کوئی فرق نہیں پڑا تھا مگر صباحت کی دو سالہ منگنی ٹوٹ گئی. صباحت کے ماں باپ بدنامی کے ڈر سے صباحت کو لے کر اپنا آبائی گھر چھوڑ کر دوسرے شہر میں چلے گے. اتنا کچھ ہونے کے باوجود بھی اُسے اور سدرہ کو پچھتاوا نہ ہوا. لیکن آج شہریار کو پتا چلا کہ ٹھکرا جانے کا درد کیا ہوتا ہے، اُسے اپنے الفاظ یاد آنے لگے جو اُس نے صباحت کو کہہ تھے.
” اففف صباحت، تم اتنا کیوں رو رہی ہو، دیکھو غلطی ساری تمھاری ہی تھی، میرے اور سدرہ کے بارے میں، سدرہ کے گھر والوں کو بتانے کی کیا ضرورت تھی، تمھیں ہمارے معاملے میں ٹانگ نہیں اڑانے چاہیے تھی ،تمھارے ساتھ جو بھی ہوا، وہ تمھارے ہی کرتوتوں کی سزا ہے، تم نے میری سدرہ کو رولایا تھا نہ، اب میں نے تمھیں ایسا دکھ دیا ہے کہ تم ساری زندگی روتی رہوگی، اور ہاں اگلے سال میری اور سدرہ کی منگنی ہوگی، تم ضرور آنا، مجھے تمھارا انتظار رہے گا، میں بھی تو دیکھوں گا کہ تم اجڑا چمن بن کر کیسے دکھائی دیتی ہو”
اپنی بات مکمل ہونے کے بعد وہ روتی ہوئی صباحت کو جو کہ اپنا کریکٹر سرٹیفکیٹ لینے آخری بار کالج آئی تھی، کو اکیلا چھوڑ کر کلاس روم سے باہر نکل گیا.
قدرت کا انصاف تو دیکھو ذرا کہ شہریار جس نے سدرہ کے رونے پر صباحت کی منگنی تڑوائی تھی، آج اپنی منگنی ٹوٹنے پر رو رہا تھا. صباحت کے معاملے میں تو وہ بالکل بےحس ہوگیا تھا مگر اُس نے حیا کے ساتھ کون سا اچھا کیا تھا. اور جو کرنے جارہا تھا، اُس کے بارے میں اب وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا. ایک ہی مہینے میں حیا اُس پر کتنا بھروسہ کرنے لگ گئی تھی. مگر اُس نے اُس کی بھی قدر نہیں کی، سدرہ کی کی، تو سدرہ نے اُس کی قدر نہ کی. “نجانے میں کیسے سدرہ کی باتوں میں آگیا، نہیں شاید اس میں سدرہ کی کوئی غلطی نہیں تھی بلکہ مجھے ہی لڑکیوں کی عزت سے کھیلنے میں مزا آگیا تھا، اب میں کیسے حیا سے نظریں ملاؤں گا کہ حیا تم جیت گئی، میں ہار گیا، اور ماما، ماما کو کیا بولوں گا کہ آپ صحیح کہتی تھی کہ سدرہ میرے معیار کی نہیں، بلکہ میرے معیار کی تو کوئی لڑکی نہیں ہوگی، میں تو دھتکارا ہوا انسان ہوں۔سدرہ کے برتاؤ نے اُسے عرش سے اٹھا کر فرش پر پھینک دیا. اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کس منہ سے اللہ کے سامنے سدرہ کی بےوفائی کی شکایت کرۓ. اُس نے اللہ اور اپنے درمیان اتنی لمبی دیواریں کھڑی کر دی تھی کہ وہ صرف ندامت کے آنسو سے توڑی نہیں جاسکتی تھی۔وہ بےحسی کی آخری حد تک پہنچ گیا تھا، اُس کا گرنا ضروری تھا. “سدرہ صحیح کہتی ہے کہ میں اپنے کرتوتوں کی سزا بھگت رہا ہوں، لیکن یہ سزا تو بہت چھوٹی ہے، مجھے تو مر جانا چاہیے، میں یہ کیسے بھول گیا تھا کہ کسی کی زندگی برباد کرکے میں خود بھی خوش نہیں رہ سکتا، میں نے صباحت سے اُس کا منگیتر چھینا، اللہ نے مجھ سے میری منگیتر چھین لی، ہاں مجھے مر جانا چاہیے، شاید اسی طرح کوئی اور لڑکی میرے ہاتھوں برباد ہونے سے بچ جائے گی، میری جانے سے کوئی دوسری لڑکی صباحت اور حیا بننے سے بچ جائے گی”
یہ کہہ کر روتے ہوئے شہریار نے آکسچن ماسک اُتار دیا.
*************************
” زوہیب تمھارے ابو کو تم سے ضروری بات کرنی ہے” ناشتے کی میز پر سعدیہ بیگم نے زوہیب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
” جی ابو بولیں” زوہیب نے سعادت مند بنتے ہوئے جواب دیا
” سالار تم سے صرف کچھ مہینے بڑا ہے، مگر اُس کا رشتہ طے ہوگیا ہے اور تم ابھی تک ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ ہو”
” تو ابو کیا نچانا شروع کردو” زوہیب نے صرف سوچا کیونکہ فرقان صاحب کے آگے بول کر اپنے دانت نہیں تڑوانے تھے۔
” زوہیب تمھارے ابو کچھ کہہ رہے ہیں تم سے” سعدیہ بیگم نے زوہیب کو یاد دلاتے ہوئے کہا جیسے وہ بھول گیا ہو کہ اُس کے ابو، اُس سے بات کر رہے ہیں
” وہ تو ٹھیک ہے، ابو پر میں کیا کرسکتا ہوں” زوہیب نے بات کو سنبھالتے ہوئے کہا
” تم نے کچھ نہیں کرنا، صرف ہاں کرنی ہے، لڑکی ہم دیکھ چکے ہیں ” فرقان صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا
” ککککک… کون لڑکی” زوہیب نے چیختے ہوۓ کہا
” حیا کی دوست رانیہ” سعدیہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا
رانیہ کا نام سن کر زوہیب کے بےجان جسم میں جان آئی
“برخوردار تمھیں کوئی اعتراض تو نہیں” فرقان صاحب کو پتا تھا کہ زوہیب انکار نہیں کرۓ گا، اتنا تو وہ جانتے ہی تھے، آخر کو باپ جو تھے اُس کے، مگر پھر بھی اُسے چھیڑتے ہوۓ کہا
” نہیں ابو، آپ سب کی خوشی میں خوش” زوہیب نے سعادت مندی کا ثبوت دیتے ہوئے کہا
” سعدیہ یہ ہمارا ہی بیٹا ہے نہ، مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا، اتنی سعادت مندی وہ بھی زوہیب سے، واہ زوہیب دل خوش کردیا تم نے میرا” فرقان صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا، حالانکہ وہ جانتے تھے کہ زوہیب رانیہ کو پسند کرتا ہے
” جی ابو بس میرے لیے دعا کیا کریں” زوہیب نے مسکراتے ہوئے کہا
” ضرور، میرے بچے خوش رہو ہمیشہ، اللہ تمھیں نظرِبد سے بچاۓ” فرقان صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا
” آمین ” سعدیہ بیگم اور زوہیب نے ایک ساتھ کہا
” تو پھر کیا خیال ارم کی امی ، کب چلنا ہے رانیہ کے گھر”
” آج ہی، کیونکہ میرے خیال سے نیک کام کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے ” سعدیہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا
” ہاں یہ زیادہ بہتر رہے گا، میں آج دوکان سے چار بجے تک واپس آجاؤں گا، تم ارم کو بھی بلا لینا پھر اکٹھے ہی چلیں گے” فرقان صاحب نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا
” جی ٹھیک ہے” سعدیہ بیگم نے جواب دیا
جبکہ زوہیب دل ہی دل خوش ہورہا تھا، یہ مسئلہ اتنی آسانی سے حل ہوجائے گا ایسا اُس نے سوچا بھی نہیں تھا. اُسے ایک پل کے لیے یہ لگا کہ دنیا میں اُس سے زیادہ خوش نصیب کوئی نہیں ہے. یہی تو قدرت کا قانون ہے کہ جو لوگ دوسروں کے راستے میں رکاوٹیں نہیں کھڑی کرتے ، اللہ اُن کے مشکلات خود ہی حل کر لیتا ہے
**************************
آج خلافِ معمول حیا کی آنکھ جلدی کھل گئی. اُس نے بیڈ پر لیٹے ہوۓ ہی اپنے بالوں کو باندھا اور ٹیبل سے موبائل اُٹھا کر استعمال کرنے لگی. آج جلدی جاگنے کی خاص وجہ شہریار کا ایکسیڈنٹ تھا۔چونکہ اُسے نہیں پتا تھا کہ اگر آج شہریار ہسپتال میں نہ ہوتا تو وہ آج اتنے سکون سے اپنے بیڈ پر بیٹھ کر موبائل استعمال نہ کر رہی ہوتی۔ اس لیے وہ اُس کی عیادت کرنے کے لیے ہسپتال جانے کے لیے پُرجوش تھی۔حقیقت نہ معلوم ہونے کی وجہ سے وہ شہریار کے ایکسیڈنٹ ہونے کے بعد اپنے دل میں اُس کے لیے نرم گوشہ رکھنے لگ گئی تھی. حیا ایسی ہی تھی، وہ کبھی بھی کسی سے زیادہ دیر تک ناراض نہیں رہ سکتی تھی، ہاں مگر ایک بار ٹھوکر لگنے کے بعد دوبارہ بھروسہ بھی نہیں کیا کرتی تھی۔
” تم کب جاگی ہو” رانیہ نے آنکھیں مَلتے ہوتے ہوئے کہا
” کچھ دیر پہلے ہی” حیا نے بیڈ سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا
” میرا موبائل پکڑانا ذرا” رانیہ نے حیا سے کہا جس پر حیا نے بیڈ کے قریب رکھے گے ٹیبل سے اُسکا موبائل اُٹھا کر اُسے دیا
ابھی بامشکل حیا کے کمرے کو چند منٹ کی ہی خاموشی نصیب ہوئی تھی کہ رانیہ نے زوردار چیخ ماری جس پر حیا کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی۔
” حیا…….. زوہیب کی امی ابو نے مجھے پسند کر لیا، وہ آج ہی میرے گھر آرہے ہیں” رانیہ نے چیختے ہوۓ کہا
” کیا فائدہ، زوہیب تو امریکہ بیٹھا ہوا ہے” حیا نے اُداس ہوتے ہوئے کہا
” ارے کیا ہوگیا ہے زوہیب، کہاں امریکہ بیٹھا ہوا ہے، ابھی کل ہی تو بےچارے نے ہمیں چکن کڑاہی کھلائی تھی ” رانیہ نے ہنستے ہوئے کہا
” ککککک….. یہ وہ زوہیب مگر اُس کی شکل تو کوئی اور تھی، یار یہ کیسے ہوسکتا ہے، تم نے مجھے کل کیوں نہیں بتایا ” حیا نے حیران ہوتے ہوئے کہا
” ہاں شکل تو واقعی بدل گئی ہے، پہلے تھوڑا موٹا ہوا کرتا تھا اور تب تو کلین شیو تھی نہ، مگر اب تو سمارٹ ہوگیا ہے اور داڑھی بھی ہلکی پھلکی رکھ لی ہے، اس لیے تم نہیں پہچان سکی” رانیہ نے مسکراتے ہوئے کہا
” مگر تم نے مجھے کل کیوں نہیں بتایا یہ سب”
” یار وقت کہاں ملا ہے، سارا ٹائم تو ہم فاطمہ کے ساتھ رہیں ہیں، اب میں تمھیں فاطمہ کے سامنے کیسے بتاتی” رانیہ نے حیا کی عقل پر ماتم کرتے ہوئے کہا
” یار اب کتنا مزا آئیگا، میں اور تم ہمیشہ ساتھ رہیں گے، میں جیھٹانی، تم دیوانی ” حیا نے مسکراتے ہوئے کہا
” انشاءاللہ ” رانیہ نے مسکراتے ہوئے کہا
” انشاءاللہ ”
**************************
” ڈاکٹر میرا بیٹا اب کیسا ہے” رضا صاحب نے ڈاکٹر سے پوچھا
” اب وہ ٹھیک ہیں، ہم نے ابھی انھیں نیند کی گولیاں دے کر سلایا، آپ کے بیٹے نے اپنے ساتھ بہت غلط کرنے کی کوشش کی، وہ تو شکر ہے کہ ہسپتال کے انتظامیہ نے کیمرے میں آپ کے بیٹے کو ایسا کرتے ہوئے دیکھ لیا ورنہ آپ کا بیٹا شاید ابھی ہمارے درمیان میں نہ ہوتا، پتا نہیں ایسا کیوں کیا اُس نے” ڈاکٹر نے مشکوک نظروں سے رضا صاحب کو دیکھا
” ڈاکٹر ان کے بیٹے نے حادثے میں اپنی چلنے کی صلاحیت کھوئی ہے، شاید اس لیے، اُس نے مرنے کی کوشش کی ہے” ساتھ کھڑی نرس نے کہا
” سو سیڈ ، مسٹر رضا میں تو آپ سے یہی کہوں گا کہ اپنے بیٹا کا خیال رکھیں، ایسے کیسز میں پیشنٹ زیادہ طرح خودکشی کرنے کی ہی کوشش کرتے ہیں” ڈاکٹر نے حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہا
” جی ڈاکٹر ” رضا صاحب نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا
اپنی بات مکمل کرنے کے بعد ڈاکٹر چلا گیا۔
*************************
” مام آپ نے بلایا ” تابش نے روم میں داخل ہوتے ہوۓ کہا
” ہاں بیٹھو، ہم نے تم سے بات کرنی ہے” سحرش بیگم نے تابش کو صوفے پر بیٹھنا کا اشارہ کیا
” تابش، میں اور تمھاری مام نے ایک اہم فیصلہ کیا ہے”
” کیا فیصلہ” تابش نے سوالیہ نظروں سے سحرش بیگم کو دیکھا
” تمھاری شادی کرنے کا، ہم چاہتے ہیں کہ تمھاری اور رانیہ کی شادی ایک ساتھ ہی کردی جاۓ، تمھارا کیا خیال ہے اس بارے میں ” ارشد صاحب نے لیپ ٹاپ بیڈ کے ساتھ رکھے گے ٹیبل پر رکھتے ہوۓ کہا
” مجھے تو کوئی اعتراض نہیں، کیا آپ نے کوئی لڑکی پسند کی ہوئی ہے” زوہیب نے کہا
” ہم نے تو نہیں کی، مگر اگر تمھیں کوئی پسند ہے تو تم ہمیں بتا سکتے ہو ” سحرش بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا
” جی مجھے پسند ہے، زوہیب کی کزن فاطمہ، رانیہ کی کلاس فیلو ہے” تابش کو اس زیادہ مناسب موقعہ نہیں مل سکتا تھا اپنی بات منوانے کا، اس لیے اُس نے اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سچ بول دیا
” مجھے تم سے امید بھی یہی تھی کہ تم کوئی مڈل کلاس لڑکی ہی پسند کرو، ویل، یہ تمھاری اپنی زندگی ہے تو جو دل چاہے وہ کرو، مجھے کوئی مسئلہ نہیں مگر تم کب لے کر جانا چاہتے ہو اُن کے گھر ، مجھے ابھی ہی بتا دوں تاکہ میں اپنی اُس دن کی میٹنگ کینسل کردوں ” ارشد صاحب نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا
” آج ہی ” تابش نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا
” آج تو نہیں، کیونکہ آج تو زوہیب کے گھر والے ادھر آرہے ہیں، ہم تمھارے ساتھ کل جائیں گے” سحرش بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا
” تھینک یو سو مچ مام ڈیڈ، میری بات سننے کے لیے”
” ہمممم، اب تم جاکر رانیہ کو تو لے کر آؤ، نجانے کب واپس آئیگی، کل سے گھر سے باہر ہے” سحرش بیگم نے کہا
” ہممم، اوکے جاتا ہوں” تابش نے صوفے سے اٹھتے ہوئے کہا
**************************
” السلام علیکم” حیا نے ہسپتال کے روم میں داخل ہوتے ہوۓ کہا
” وعلیکم السلام” صائمہ بیگم اور آسیہ بیگم نے ایک ساتھ کہا
” حیا ، آپ کے بابا کدھر ہے، آؤ اِدھر بیٹھو میرے پاس، آپ کی ماما نے بتایا ہے کہ آپ کا رشتہ طے ہوگیا ہے، بہت بہت مبارک ہو آپ کو” صائمہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا
” تھینک یو آنٹی، بابا گاڑی پارک کررہے تھے تو میں خود ہی اندر آگئی ”
” اچھا کیا آپ نے” صائمہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا
” حیا عالیہ بھابی اور فاطمہ کیا چلی گئیں ہیں اپنے گھر؟ ”
” جی ماما، وہ صبح ناشتہ کرنے کے بعد ہی چلی گئیں تھیں” حیا نے جواب دیا
” شہریار میرا بیٹا اُٹھو، آنکھیں کھولو، دیکھو حیا آئی ہے آپ کا پتا کرنے” صائمہ بیگم نے شہریار کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا
جبکہ حیا کا نام سنتے ہی شہریار کی آنکھیں کھل گئی وہ حیا سے معافی مانگنے چاہتا تھا مگر کمزوری کے باعث وہ زیادہ بول نہیں سکتا تھا مگر اُس نے فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ ٹھیک ہوتے ساتھ ہی حیا اور صباحت سے معافی مانگے گا، اُس نے موت کو گلے لگانا چاہا مگر اُسے موت بھی نہ نصیب ہوئی، شاید اس لیے کہ برے لوگوں کو موت بھی جلدی نہیں آتی، اُس نے اپنے آپ کو مارنے کی بھرپور کوشش کی مگر اللہ نے اُسے زندہ رکھ کر ایک اور موقعہ دیا کہ وہ اپنے گناہوں کی معافی مانگ لے، اس لیے وہ اب اس موقعے سے بھرپور فائدہ اٹھا کر صباحت اور حیا سے معافی مانگنے چاہتا تھا۔
” ماما یہ عالیہ ممانی نے آپ لوگوں کے لیے ناشتہ بھیجا ہے” حیا نے ناشتے کا شاپر آسیہ بیگم کو پکڑاتے ہوۓ کہا
” اوہو، آپ کو منع کرنا چاہیے تھا نہ ان کو” آسیہ بیگم نے حیا کو ڈانٹتے ہوئے کہا
” میں نے کہا بھی تھا اُن کو مگر اُن نے نہیں سنی میری بات” حیا نے منہ بناتے ہوئے کہا
حیا کی بات سن کر صائمہ بیگم اور آسیہ بیگم ہسنے لگیں جبکہ شہریار ایک بار پھر خیالوں کی دنیا میں کھو گیا ۔