ڈاکٹر انور سدید(لاہور)
ڈاکٹر وزیر آغا کے خطوط پر ایک کتاب مرتب کرتے وقت میں نے ’’مقدمہ‘‘ میں لکھا تھا:’’خطوط نگاری انسان کا نجی فعل ہے۔ اس لیے اسے با لعموم فن کا درجہ نہیں دیا جاتا ۔ وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ فن شخصیت کا پردہ ہے لیکن خط کسی پردے کو قبول نہیں کرتا۔ فن ابلاغ عام کا تقاضا کرتا ہے لیکن خط شرکتِ عام سے گریز کرتا ہے۔ خط کی غائت روئی خبر رسانی بھی ہے اور مخاطب کو رازداں بنانا اور اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنا بھی، اس میں جو کچھ لکھا جاتا ہے یہ سمجھ کر لکھا جاتا ہے کہ اس کی تشہیر نہیں ہو گی اور مکتوب نگار اپنی شخصیت کو آشکار کررہا ہے تو اس کی حقیقت مکتوب الیہ تک ہی محدود رہے گی۔‘‘(۱)
ڈاکٹر خورشید الاسلام نے اچھی زندگی بسر کرنے کو فن کا درجہ دیا تو خط نگاری کو بھی ایک فن قرار دیا۔ تاہم انہوں نے اس حقیقت کو بھی تسلیم کیا کہ
’’اس فن میں کمال حاصل کرنے کے لیے کسی کوشش کی ضرورت نہیں، فنونِ لطیفہ میں کمال حاصل کرنے کے لیے دنیا میں کچھ اصول ہیں، کچھ ضابطے ہیں لیکن محبت کرنے کے لیے نہ علمِ سینہ درکار ہے اور نہ علم سفینہ، اس لیے اگر کہا جائے کہ خط لکھنے کے لیے صرف قلم اور کاغذ کی ضرورت ہے تو خط لکھنے پر حرف آتا ہے اور نہ خط لکھنے والے پر، کاغذ اور قلم ہی تو نہیں ، اس میں خونِ جگر بھی شامل ہے اور جہاں دل کی نسبت ہو وہاں بے اصولی بھی ایک اصول بن جاتی ہے۔ لغزشیں حسین ہو جاتی ہیں، لکنت میں رقص پیدا ہو جاتا ہے ستارے ، چاند، سورج خود بنتے، سنورتے اور غروب ہو جاتے ہیں ‘‘(۲)
اسلوب احمد انصاری کے خیال میں ’’اچھے اور مزے کے خطوط لکھنا ایک جبلی عطیہ ہے ‘‘(۳) میری رائے میں خط لکھنا انسان کی جبلت میں بھی شامل ہے اور یہ اس کی ایک سماجی ضرورت بھی ہے لیکن اچھا خط لکھنا واقعی قدرت کا عطیہ ہے اور فطرت نے اس عطیے کی تقسیم عام نہیں کی، اکثر خطوط اطلاع رسانی کا فریضہ ہی ادا کرتے ہیں لیکن بعض اوقات دور افتادہ ادیبوں میں سلسلہ مراسلت جاری ہو تو یہ نہ صرف فکری اور با معنی مطالعے کی صورت اختیار کرتی جاتی ہے بلکہ اجنبی ہونے کے باوجود خلوص اور محبت کا رشتہ بھی استوار ہوتا چلا جاتا ہے اور مکتوب نگار کے نہاں خانہ خیال تک رسائی حاصل کرنے میں بھی معاونت کرتا ہے۔ ادیبوں کے خطوط اس کے حقیقی باطن میں جھانکنے اور اس کی غیر آرائشی اور غیر مرصع شخصیت کے علاوہ اس کے فن کے بعض نقوش کے مطالعے کا موقع بھی فراہم کرتے ہیں اور ادیب کے نجی خطوط کو ادب کی اقلیم میں شامل کر لیا جاتا ہے ۔
یہ طویل تمہید میں نے اس لیے باندھی ہے کہ پچھلے دنوں مجھے منٹو کے خطوط کا ایک مجموعہ لمبے عرصے کے بعد دوبارہ پڑھنے کا موقعہ ملا تو ان خطوط میں منٹو کی معلوم شخصیت کی متعدد پرتیں میرے سامنے کھلتی چلی گئیں، یہ خطوط احمد ندیم قاسمی کے نام ہیں اور جنوری ۱۹۳۷ء سے لے کر فروری ۱۹۴۸ء تک کے اس دور سے تعلق رکھتے ہیں ۔ جب سعادت حسن منٹو بمبئی کی فلمی دنیا میں عملی زندگی کے جھمیلوں میں الجھے ہوئے تھے اور حوادثِ زمانہ کے تھپیڑوں کی زد میں تھے، احمد ندیم قاسمی لاہور میں اپنی ادبی زندگی کے ابتدائی مراحل طے کر رہے تھے اور اس دور کے ایک ممتاز اور معروف افسانہ نگار کو نہ صرف حیرت سے دیکھ رہے تھے ، ان کی تعریف و تحسین سے مزید لکھنے کی تحریک حاصل کر رہے تھے بلکہ ان کی تنقید و تنقیص کو مشعل راہ بھی قرار دے رہے تھے۔
منٹو جیسے عظیم افسانہ نگار کا اختر شیرانی کے ماہنامہ ’’رومان‘‘ میں ان کا افسانہ ’’بے گناہ‘‘ پڑھ کر انہیں دریافت کرنا اورا حمد ندیم قاسمی ، بی اے سے تعارف کی خواہش پیدا کرنا قاسمی صاحب کا اعزاز تھا جسے انہوں نے عقیدت کے جذبات سے موسوم کیا اور ان سے خطوط کے تبادلے میں قائم بھی رکھا۔ تاہم منٹو کے ذہن کے کسی گوشے میں قاسمی صاحب کے خطوط سے یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ وہ مختلف راہوں کے مسافر ہیں اس کا ذکر ’’منٹو کے خطوط ‘‘۔۔کے پیش لفظ میں اس طرح کیا گیا ہے ۔
’’دہلی میں منٹو سے میری (احمد ندیم قاسمی کی ) ملاقات ہوئی تو مجھے ایک ہی دن میں معلوم ہو گیا کہ منٹو کے ذہن میں اپنے اور میرے دوستانہ رشتے کے یکایک ختم ہو جانے کا امکان کیوں موجود تھا۔(۴)تاہم انہوں نے لکھا۔
’’یہ ملاقات ہمارے رشتے کا کچھ نہ بگاڑ سکی، اس لیے کہ اگر منٹو کی روز مرہ کی بیشتر دلچسپیاں میرے معمولاتِ حیات سے قطعی مختلف تھیں تو کم سے کم وہ سطح تو جب بھی محفوظ تھی جس پر ہم ایک دوسرے سے پیار کرنے والے دوستوں کی حیثیت سے مل سکتے تھے اور یہ سطح باہمی خلوص اور ایثار نے مہیا کر رکھی تھی۔‘‘(۵)قاسمی صاحب کے حالیہ عدم برداشت اور عدم تحمل کی روشنی میں آخری بات کو ’’جملہ معترضہ ‘‘ کے طور پر بھی قبول کر لیا جائے تو منٹو سے ان کی مرعوبیت کا یہ زاویہ اہم ہے کہ انہوں نے منٹو کے اپنے نام خطوط کو حفاظت سے رکھا اور ۱۹۶۲ء میں اس وقت ایک مجموعے کی صورت میں شائع کر دیا جب منٹو کو فوت ہوئے سات برس ہو چکے تھے۔ ‘‘(۶)
قاسمی صاحب نے ہندو پاک کے ادیبوں سے، منٹو کے دوستوں اور عزیزوں سے بھی ان کے خطوط حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں کامیابی نہ ہوئی ، چنانچہ انہوں نے اپنے ذخیرے میں محفوظ خطوط پر ہی انحصار کیا اور ’’منٹو کے خطوط‘‘ کے نام سے ایک کتاب اپنے ادارہ ’’کتاب نما‘‘ سے شائع کر دی۔ یہ کہنا تو ممکن نہیں کہ منٹو نے دوسرے متعدد ادیبوں سے کبھی خط و کتابت ہی نہیں کی۔ جس باقاعدگی سے انہوں نے احمد ندیم قاسمی کو خطوط لکھے اور باہمی باتوں کے سلسلے کو آگے بڑھایا ہے اس سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ خط نگاری منٹو کی جبلت میں شامل تھی۔ چنانچہ انہوں نے ادبی مسائل اور ذاتی امور پر متعدد ادیبوں کو خطوط لکھے ہوں گے، ان پر مقدمات کے دور میں تو خط نگاری کی ضرورت زیادہ نمایاں قرار دی جا سکتی ہے لیکن اب افسوس سے یہی کہنا پڑتا ہے کہ ادیبوں نے سہل نگاری کا ثبوت دیا اور منٹو کے قیمتی خطوط کا تحفظ نہ کیا اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ قاسمی صاحب نے منٹو کے خطوط تلاش کرنے میں پوری کوشش نہیں کی جب کہ یہ بکھرے ہوئے خطوط اب بھی جمع کیے جا سکتے ہیں تاہم یہ مجموعہ غنیمت ہے جو منٹو کے مطالعے میں ایک بنیادی حوالے کی کتاب ہے۔ منٹو کے اس وسیلے سے احمد ندیم قاسمی بھی زندہ رہیں گے اور منٹو کے خطوط کا ذکر آئے گا تو ا ن کا نام بھی لیا جائے گا۔(۷)
منٹو کی پہلی کتاب’’ اسیری کی سر گزشت‘‘ ۱۹۳۴ء میں شائع ہوئی، جو وکٹر ہو گو کی کتاب ’’لاسٹ ڈیزآف کنڈمڈ‘‘ کا ترجمہ تھا ا۔س سے پہلے ان کے مطالعے کے آثار توملتے ہیں لیکن کسی تخلیقی سرگرمی کا نشان نہیں ملتا۔ چنانچہ منٹو کی ادبی زندگی صرف ۲۵برس پر محیط ہے۔ اس میں سے ۱۱سال کا عرصہ (جنوری ۱۹۴۸ء ) احمد ندیم قاسمی کے نام خطوط میں محفوظ ہے ۔(۸) منٹو کے پہلے خط سے ہی ان کی ادب دوستی اور اچھی تخلیق کے مطالعے پر گلاب کے پھول کی طرح شگفتہ ہو جانے اور پھر تخلیق کے مصنف کو تلاش کرنے اور اس کی طرف محبت کا ہاتھ بڑھانے کا رجحان ملتاہے ۔ انہوں نے اختر شیرانی کے رسالہ ’’ رومان‘‘ لاہور میں احمد ندیم قاسمی کا ایک افسانہ پڑھا تو اختر شیرانی کو ایک خط میں لکھا:
’’رومان ‘‘صحیح معنوں میں ’’جوان افطار‘‘ کا علمبردار ہے۔ اس شمارے میں جتنے افسانے شائع ہوئے ہیں سب کے سب فنی نقطہ نگاہ سے معیاری ہیں۔ خاص کر ’’بے گناہ‘‘ مجھے بے حد پسند آیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ میں اس کے قابل مصنف جناب احمد ندیم قاسمی بی ۔اے سے تعارف حاصل کرنا چاہتاہوں۔ براہِ کرم ان کے پتے سے واپسی ڈاک مطلع فرما کر ممنون کریں۔‘‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ چند سطروں کے بعد منٹو تاکید مزید کے طور پر لکھتے ہیں جس سے ان کا اشتیاق ظاہر ہوتا ہے۔
’’احمد ندیم قاسمی کے پتے سے ضرور آگاہ فرمائیں۔‘‘
اختر شیرانی کے تعارف کرنے پر قاسمی صاحب نے منٹو کو جو خط لکھا وہ دستیاب نہیں تاہم انہوں نے خود لکھا ہے کہ ’بے گناہ‘‘افسانہ کم اور داستان زیادہ تھا اور
’’مجھے آج تک حیرت ہوئی ہے کہ منٹوا س افسانے سے کیوں متاثر ہوا؟‘‘
احمد ندیم قاسمی کے نام پہلے خط سے ہی منٹو کی عالی ظرفی، کشادہ نظری اور ایک جونیئر ادیب کی جو افسانے کی دہلیز پر ابھی قدم ہی رکھ رہا تھا او رافسانہ لکھنے کی بجائے داستاں نگاری کر رہا تھا۔۔حوصلہ افزائی کا رجحان نمایا ں نظر آتا ہے۔ انہوں نے پہلے ہی خط میں تحسین سخن شناس کا در کشادہ کر دیا اور مصنف کی تعریف اس موثر انداز میں کی کہ وہ اپنے فن کے ارتقاء کا اگلا قدم اٹھا سکے۔منٹو کی بے لاگ توصیف دیکھئے جو مدلل بھی ہے اور بامعنی بھی اور اسے مبالغے سے عاری بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔
’’آپ کا افسانہ ’’بے گناہ‘‘ واقعتا میں نے بے حد پسند کیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس قسم کے جذبات میں ڈوبے ہوئے افسانے اردو میں بہت کم شائع ہوئے ہیں آپ کے ہاتھ پلاسٹک (plastic) ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ افسانے کے موضوع کو آپ نے نہ صرف محسوس کیا ہے بلکہ اسے چھوکر بھی دیکھا ہے۔ یہ خصوصیت ہمارے ملک کے افسانہ نگاروں کونصیب نہیں۔ میں آپ کو مبارک باد دینا چاہتاہوں کہ آپ میں یہ خصوصیت بدرجہ اتم موجود ہے۔‘‘
منٹو اُن دنوں رسالہ ’’مصور‘‘ کی ادارت کرنے کے علاوہ فلمی دنیا کے ساتھ بھی وابستہ تھے اور سلور سکرین کے لیے کہانیاں لکھ رہے تھے جن کے ناظرین جذباتی مناظر ، جذباتی مطالعے اور جذباتی گیت زیادہ پسند کرتے تھے، منٹو نے افسانہ ’’بے گناہ‘‘ میں بھی عام لوگوں کی پسند کو ہی مد نظر رکھا اور قاسمی صاحب کو لکھا:
’’افسانے میں آبجیکٹو ( معروض) ٹچ بہت پیارے اور موزوں و مناسب ہیں، کئی عرصے سے میں فلمی افسانوں کی ماہیت پر غور کر رہا ہوں۔ چنانچہ میں نے آپ کے افسانے کو غیر ارادی طور پر فلم ہی کی عینک سے دیکھا ور اسے بہت خوب پایا۔ Atmosphericٹچ بے حد رہے ہیں۔ مثال کے طورپر:
’’اس دن شام کو رحمان آٹا گوندھ رہا تھا۔ چڑیوں کے لا تعداد غول ’’شی‘‘ کی آواز سے اس کے مکان پر سے گزر جاتے تھے۔ چمگادڑیں بیری کی سوکھی ہوئی ٹہنیوں سے ٹکرا کر پھڑ پھڑاتی تھیں اور پھر ہوا میں تیرنے لگتی تھیں۔ بیل جگالی کر رہے تھے، ایک بکری اپنے ننھے سے بچے کے ماتھے پر منہ رکھے کھڑی تھی۔ رحمان دھیمے دھیمے سُروں میں یہ گیت گا رہا تھا:
’’کوئی نئیں سُندا، دکھ چا جمع کراں ، ماہیا‘‘
منٹو نے رائے دی:
’’فلمی افسانے میں اس قسم کی تفصیل بہت کار آمد اور مفید ہوتی ہے اور میرا خیال ہے کہ آپ ’’منظر نامہ‘‘ بخوبی لکھ سکتے ہیں۔‘‘
منٹو کے ابتدائی خطوط سے یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ وہ فن پارے کے عقب سے مصنف کو اس کی تمام سماجی ضرورتوں سمیت دریافت کر لیتے تھے اور پھر اس کی مستقبل سازی کے لیے بھی کوشاں ہو جاتے تھے ، دوست کی معاونت کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے سے دریغ نہیں کرتے تھے ۔ انہوں نے قاسمی صاحب کو بھی لکھا:
آپ ’’بے گناہ‘‘جیسا کوئی اور افسانہ لکھیں،میں کوشش کروں گا کہ وہ فلم ہو جائے یہاں کے چند ڈائریکٹروں سے میرے اچھے مراسم ہیں۔ افسانہ لکھتے وقت یہ خیال رکھیے کہ اس میں پبلک کی دلچسپی کا کافی سامان ہو۔ دیہاتی رقص، دیہاتی گانے اور اسی قسم کی دوسری چیزیں آپ بڑی آسانی سے اپنے افسانے میں رکھ سکتے ہیں۔‘‘
ایک اور خط میں لکھتے ہیں:
’’جو کچھ میں نے سیکھاہے ، میں چاہتا ہوں کہ آپ بھی اس کو سیکھ لیں، مگر مشکل یہ ہے کہ تحریر کے ذریعے سے یہ نہیں ہو سکتا ۔ منظر نگاری ایک فن ہے جس کو باقاعدہ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ بہر حال میں آپ کی خواہش کے مطابق آپ کو چند نمونے بھیج رہا ہوں۔شاید آپ ان سے کچھ سمجھ سکیں۔‘‘
اپنے خطوط کے کینوس پر منٹو ہمیں بے حد مخلص، بے لوث اور بے ریا شخص نظر آتے ہیں۔ اس دور میں وہ خود مشکلات میں گھرے ہوئے تھے۔مالی حالات اچھے نہیں تھے ،مزاج میں انتہا درجے کی انا پسندی تھی لیکن کسی دوسرے کو تکلیف میں مبتلا دیکھ کر منٹو پگھل جاتے تھے۔ قاسمی صاحب نے ایک خط کے حاشیے میں لکھا ہے کہ ’’وہ ان دنوں گریجوایشن کے بعد بیکاری کی زندگی بسر کر رہے تھے۔‘‘منٹو نے ان کی اس مشکل کو ابتدا میں ہی بھانپ لیا تھا وہ ان سے ہمدردی کا اظہار بھی کر رہے تھے اور زندگی کے حقیقی نشیب و فراز سے بھی با خبر کر رہے تھے۔ میرا قیاس ہے کہ فلمی دنیا کی چکا چوند سے قاسمی صاحب بھی متاثر تھے اور انہوں نے شاید کسی خط میں فلم کی دنیا میں آنے کا خیال بھی ظاہر کیا ہوگا ۔ منٹو نے انہیں لکھا:
’’فلمی دنیا میں قدم رکھنے کی خواہش کالج کے ہر طالب علم کے دل میں ہوتی ہے۔ آج سے کوئی عرصہ پہلے یہی جنون میرے سر پر بھی سوار تھا۔ چنانچہ میں نے اس جنون کو ٹھنڈا کرنے کے لیے بڑے جتن کیے اور انجام کار تھک ہار بیٹھ گیا۔ احمد ندیم صاحب!دنیاوہ نہیں جوہم اور آپ سمجھتے ہیں اور سمجھتے رہے ہیں، اگر آپ کو کہیں سٹڈیو کی سیاسیات مطالعہ کرنے کا موقعہ ملے تو آپ چکر ا جائیں۔ فلم کمپنیوں میں ان کو زیادہ اثر ہے جن کے خیالات بوڑھے اور پیش پا افتادہ ہیں، جو جاہل مطلق ہیں اور وہ لوگ جو اپنے سینوں میں فن صحیحہ کی پرورش کرتے ہیں، انہیں کوئی نہیں پوچھتا۔‘‘
لیکن اس سب کے باوجود احمدندیم قاسمی کی مدد کرنے پر ہمہ وقت تیارتھے۔ان کے باطن سے اس فنکار کو برآمد کر رہے تھے جو فلم کی ضرورت کے مطابق ان کا اور ریڈیو کی ضرورت کے مطابق ’’اوپیرا‘‘ لکھ سکے، وہ اپنی مالی حالت پر کوئی پردہ نہیں ڈالتے اور اپنے عادت و خصائل کو بھی منکشف کرتے چلے جاتے ہیں:
’’میں بمبئی میں پچاس روپے ماہوار کما رہا ہوں اور بے حد فضول خرچ ہوں، آپ یہاں چلے آئیں تو میرا خیال ہے کہ ہم دونوں گزر کر سکیں گے۔ میں اپنی فضول خرچیاں بند کر سکتا ہوں۔ یہ بھی آپ کی مجبوریوں کا کامل احساس ہے۔ اس لیے کہ میں ان مجبوریوں سے گزر چکا ہوں۔‘‘
منٹو کا یہ انتباہ معنی خیز لیکن ان کی صاف گوئی اور حقیقت بیانی کا مظہر:
’’آپ یہاں تشریف لا سکتے ہیں مگر ہر بات یاد رکھیے کہ آپ کو میری زندگی کی دھوپ چھاؤں میں رہنا ہو گا میرے پاس چھوٹا سا کمرہ ہے جس میں ہم دونوں رہ سکتے ہیں۔ کھانے کو ملے نہ ملے مگر پڑھنے کو کتابیں مل جایا کریں گی۔‘‘
’’اگر آ پ بمبئی آنا چاہیں تو میں ’’ مصور‘‘ کی ادارت کے لیے بات چیت کر سکتا ہوں۔ تنخواہ ۴۰روپے سے زیادہ نہ مل سکے گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ جیسے ادیب کے لیے یہ رقم باعثِ ہتک ہے مگر کیا کیا جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان خالصتاً نجی خطوط میں منٹو اپنی ذات کے بارے میں کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہیں۔انہوں نے اپنے سر پر فن کی کوئی زریں کلاہ سجا نہیں رکھی، تن پر ریشمیں قبا نہیں پہنی ہوئی ، ان کے ظاہر اور باطن کا ایک ہی رنگ ہے اور قاسمی صاحب نے انہیں اہمیت اور اہلیت کا احساس دلانے اور انا کے غبارے میں ہوا بھرنے کی کوشش کی تو منٹو نے ترت جواب دیا:
’’آپ نے میری قابلیت اور اہلیت کا اندازہ لگانے میں جلدی سے کام لیا ہے۔ شاید آپ کو معلوم نہیں کہ میں نے خود کو کبھی ادیب کی حیثیت میں پیش نہیں کیا۔ میں ایک شکستہ دیوار ہوں جس پر سے پلستر کے ٹکڑے گر گر کر زمین پر مختلف شکلیں بناتے رہتے ہیں۔ ‘‘
’’مجھ میں بحیثیت ایک انسان کے بے حد کمزوریاں ہیں اس لیے مجھے ہر وقت ڈر رہتا ہے کہ یہ کمزوریاں دوسروں کے دل میں میرے متعلق نفرت پیدا کرنے کاموجب نہ ہوں اور اکثر اوقات ایسا ہوا ہے کہ ان ہی کمزوریوں کے باعث مجھے کئی صدمے اٹھانے پڑے ہیں۔ میں اسی تلخ حقیقت کے پیش نظر شاید آپ سے کئی بار کہہ چکا ہوں کہ آپ میرے متعلق کوئی رائے مرتب نہ کریں۔‘‘
’’میری زندگی ایک دیوار ہے جس کا پلستر میں ناخنوں سے کھرچتا رہتا ہوں۔ کبھی چاہتا ہوں کہ یہ سب اینٹیں پراگندہ کر دوں ۔ کبھی یہ جی میں آتا ہے کہ اس ملبے کے ڈھیر پر ایک نئی عمارت کھڑی کر دوں……میں سمجھتا ہوں کہ زندگی اگر پرہیز میں گزاری جائے تب بھی قید ہے اگر بدپرہیزیوں میں گزاری جائے تو بھی قید۔کسی نہ کسی طرح ہمیں اس ادنیٰ جراب کے دھاگے کاایک سرا پکڑ کر اسے ادھیڑتے چلے جاناہے اور بس۔میں اپنا کام آدھے سے زیادہ کر چکا ہوں۔ باقی آہستہ آہستہ کردوں گا۔ اس لیے کہ میں بہت جلد مرنانہیں چاہتا۔‘‘
منٹو کے خطوط سے یہ اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے باری علیگ سے فیض حاصل کیا تھا تو اس فیض کی تقسیم عام دوسروں میں کرنے کی سعی بھی کی۔ احمد ندیم قاسمی کے خطوط میں وہ اپنے مخاطب کے ذوق کو باری علیگ کے استوار کئے ہوئے خطوط پر مائل بہ ارتقاء کر رہے ہیں اورانہیں بڑے قیمتی مشورے دے رہے ہیں، مثلاً ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’ناولوں کو فلم کے لیے ’’اڈاپٹ‘‘(Adopt|) کرنے کا خیال اچھا ہے مگر معاف کیجئے جو مصنف آپ نے چنا ہے وہ میری نظر میں کوئی خاص وقعت نہیں رکھتا ۔ ایسی داستانیں ان رنگین پردوں کے مترادف ہوتی ہیں جن کے پیچھے کچھ نہ ہو۔ میں اس افسانہ نگار کا قائل ہوں جس کی تخلیق دیکھنے کے بعد ہم کچھ دیر سوچیں۔‘‘
اس مقام پر وہ قاسمی صاحب کو مندرجہ ذیل مصنفین میں سے کسی ایک کی کتاب فلم کے منتخب کرنے کے یے کہتے ہیں :’’چیخوف، طالسطائی، میکسم گور کی، تورگنیف ، دوستوفسکی، اندریف، میری کوریلی، وکٹر ہیو گو، گستاؤ فلابیئر، ایمل زولا ، پیر لوئی۔ڈکنز۔‘‘
ایک اور خط میں لکھتے ہیں:
’’مارگریو کی کتاب کا ضرور مطالعہ کیجئے اور اگر ہوسکے تو روسی ڈائریکٹر پڈوکن (pudocvkin) کی کتاب بھی پڑھ ڈالیے۔ آپ کو اس میں ٹمپو (Tempo)کے متعلق بہت مفید باتیں معلوم ہو ں گی۔ ‘‘
اس دور میں احمد ندیم قاسمی ممتاز مزاح نگار محمد خالد اختر کے سحر میں تھے جو آر، ایل ،اسٹیونسن کے عاشق تھے، چنانچہ انہوں نے منٹو سے اسٹیونسن کی کتابوں کا ذکر کیا تو منٹو نے بڑے سلیقے سے روسی ناول نگاروں کی عظمت کا ذکر کیا: اقتباس حسب ذیل ہے۔
’’اسٹیونسن کی جن تصانیف کا آپ نے ذکر کیا ہے۔ وہ بہت اچھی ہیں، فنی اور ادبی نقطہ نگاہ سے بھی ان کا مرتبہ بلند ہے لیکن جو چیز آپ کو روسی ناول نویسوں کے افکار میں ملے گی اس کا ان کتابوں میں نام و نشان بھی نہیں۔‘‘
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قاسمی صاحب کے افسانے ’’بے گناہ‘‘ نے منٹو کے ذہن پر جو اثر پیدا کیا تھا وہ لمبے عرصے تک قائم رہا لیکن بعد میں وہ ان پر کڑی تنقید کرنے لگے تو یہ کہنا درست ہو گا کہ قاسمی صاحب کے نئے افسانے انہیں کچھ زیادہ قبول خاطر نہیں ہوئے۔مثلاً افسانہ ’’مسافر‘‘ کو دیہات کے اس کچے مکان کے مترادف قرار دیا جس کو ایک نو خیز معمارنے تیار کیا ہو۔ ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’آپ کی اسٹوری میں سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ وہ فلمی نہیں، وہ فلمی کس طرح نہیں، اس سوال کے جوا ب کے لیے کئی صفحات درکار ہوں گے……فلمی افسانہ نگاری سمجھنے کے لیے اسٹوڈیو بہترین استا دہے۔‘‘
منٹو تعریف و توصیف سے تنقید کی طرف آئے تو انہوں نے قاسمی صاحب کو لگی لپٹی رکھے بغیر آگاہ کیا کہ :
’’آپ بقدرِ کفایت ضبط کو کام میں نہیں لاتے ۔ آپ کا دماغ اسراف کا زیادہ قائل ہے ایک چھوٹے سے افسانے میں آپ نے سینکڑوں چیزیں کہہ ڈالی ہیں……آپ کا یہ افسانہ پڑھ کر آپ مجھے اس بچے کی مانند نظر آئے جو سینما ہال میں فلم دیکھتے دیکھتے بیچ میں کئی بار بول اٹھتا ہے۔‘‘
افسانہ ’’ماں‘‘ کے بارے میں منٹو نے خیال ظاہر کیا کہ:
’’ایک اچھے افسانے کو خراب ایڈیٹنگ نے پھیکا بنا دیا ہے۔ آپ ترتیب کا خیال رکھا کریں۔اس کے علاوہ ’’ماں‘‘میں آپ نے گرم اور سرد پانی کو سمونے کی کوشش کی ہے جس میں آپ ناکام رہے ہیں۔‘‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ منٹو نے ’’گنجے فرشتے ‘‘ لکھنے سے بہت پہلے قاسمی صاحب اور ان کے چند مداحوں کا اپنے خطوط میں ہی ’’دھڑن تختہ‘‘ کر دیا۔ انہوں نے اختر شیرانی سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا تو منٹو نے لکھا:
’’اختر شیرانی سے آپ کو عقیدت ہے۔ کسی سے عقیدت رکھنا بڑی بات نہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ آپ غایت درجہ سادہ لوح ہیں اور ہڈیوں کے گودے تک جذباتی……‘‘
’’آپ نے ہیرو کے رول کے لیے دو ایکڑوں کا نام تجویز کیا ہے۔ ان ناموں نے آپ کے خط کی ساری شعریت کا ناس مار دیا ہے۔ وہ بالکل جاہل ہیں۔ کاٹھ کی پتلیاں ان سے کہیں اچھا ایکٹ کر سکتی ہیں۔‘‘
ان خطوط میں منٹو کا اپنے معاصرین کے بارے میں اپنی کھر دری لیکن سچی رائے دینے کا رجحان بھی نمایاں ہے۔ مثلاً دیویندر ستیار تھی کے ذکر میں لکھتے ہیں:
’’دیویندر ستیار تھی کا ٹیلی فون آیا۔ میں نے اس کو گالیاں دیں، میرے دل میں اس کے متعلق جو خیالات بھی تھے ان کا اظہار کر دیا اوراسے کھلے لفظو ں میں کہہ دیا کہ میں تم سے ملنا نہیں چاہتا……صفیہ نے فون پر میری باتیں سنیں،مجھے برا بھلا کہا لیکن میں نے اس سے کہا کہ میں دل میں نفرت رکھتے ہوئے زبان پر پیار اور محبت کے الفاظ نہیں لا سکتا۔‘‘
’’اختر حسین رائے پوری کا افسا نہ پڑھ کر افسوس ہوا۔’’ محبت اور نفرت‘‘کا مصنف ایسی پوچ چیز لکھے!!‘‘
ان خطوط میں منٹو زندگی کے جھمیلوں میں الجھا ہوا ، بادِحوادث کا سامنا کر رہا ہے، فضول خرچیوں کا دائرہ وسیع اور آمدنی کے وسائل کم ہیں،منٹو ان نا مساعد حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں لیکن جب ’’بے مہر‘‘ اور ’’طوطا چشم‘‘لوگوں سے پالا پڑتا ہے تو منٹو غمزدہ ہو جاتے ہیں۔ ان کو کرب میں مبتلا کرنے اور ذہنی اذیت دینے والے دو کر دار نذیر لدھیانوی اور پنڈت کر پارام ہیں، نذیر لدھیانوی ہفتہ و ار رسالہ ’’مصور‘‘کا مالک تھا جسے منٹو نے ۶سال تک اپنے خون سے پروان چڑھایا تھا، لیکن نذیر لدھیانوی نے دوستی اور گہرے تعلقات کو خاطر میں نہ لا کر منٹو کو ملازمت سے برطرف کر دیا۔ پنڈت کر پار ام’’ فلم موویز‘‘ کے ایڈیٹر اور نذیر لدھیانوی کے دوست تھے۔منٹو کو خدشہ تھا کہ ’’مصور‘‘ سے برخاستگی کے بعد کرپارام بھی ان سے ناراض ہو جائیں گے۔چنانچہ انہوں نے اپنی خودداری اور انا کو قائم رکھا اور ’’فلم انڈیا‘‘ کے ایڈیٹر بابوراؤپٹیل کے پاس لے گئے جس نے رسالہ ’’کا رواں ‘‘کی ادارت منٹو کے سپرد کر دی۔ مصور سے انہیں ایک سوبیس روپے ماہوار کی آمدن تھی،پٹیل سے ساٹھ روپے ماہوار پر ملازمت طے ہوئی لیکن قابل تحسین بات یہ ہے کہ دوستی کو گزوں سے ناپنے والوں کے سامنے منٹو نے گردن نہیں جھکائی۔ منٹو نے کرپارام کا مکروہ کردار ان الفاظ میں پیش کیا ہے:
’’پنڈت جو فوج میں رہ چکے تھے اس لیے وہ ہر شے کو فوجی نظر سے دیکھتے ہیں ،جب وہ کسی سے دوستی کرتے ہیں تو فوجی خطوط پر اورجب کسی سے دشمنی اختیار کرتے ہیں تو ان کے دماغ میں مورچہ بندی کا خیال آ جاتا ہے۔‘‘
پٹیل کے پاس ملازمت نصف مشاہرے پر ملنے کے بعد منٹو کی ملاقات کرپارام سے ہوئی توا س کے یہ الفاظ منٹو کے دل کو لہو لہان کر گئے میرا خیال تھا کہ نوٹس ملتے ہی تم اور صفیہ میرے پاس آ ؤ گے۔ ہم کوئی مصالحت کی صورت پیدا کرلیں گے مگر تم نہ آئے اور بابو راؤ پٹیل کے پاس چلے گئے۔ ‘‘
منٹو نے لکھا ہے:
کرپارام کے یہ الفاظ بستر مرگ پر بھی مجھے یاد رہیں گے…… ان کو شاید معلوم نہیں تھا کہ بعض آدمی ایسے بھی ہوتے ہیں جو ایک سو بیس روپے کھو دینے پر بھی بھیک نہیں مانگتے……جب میرے جذبات کی قدر ہی نہیں کی گئی تو میں کیوں انہیں پامال کراتا۔‘‘
منٹو کے خطوط میں یہ سب سے طویل اور سب سے درد ناک خط ہے جس میں منٹو ٹوٹا ہوا اور شکستہ دل نظر آتا ہے لیکن اب بھی آتش انتقام ان کے دل میں بھڑک رہی ہے اور وہ کہہ رہے ہیں۔
’’خد ا کی قسم میں ان کو رلا سکتا ہوں…… میں انہیں ایک روز ضرور اپنے سامنے بٹھاؤں گا اور اتنا بولوں گا، اتنا بولوں گا کہ ان کے کان بہرے ہو جائیں گے۔ انہوں نے مجھے بہت دکھ دیا ہے۔‘‘
اس خط میں منٹو نے اپنی دوستی کی ڈاکٹرائن بھی پیش کر دی ہے اور واضح کیا ہے کہ
’’جب میں کسی سے دوستی کرتا ہوں تو مجھے اس بات کی توقع ہوتی ہے کہ وہ اپنا آپ میرے حوالے کر دے گا۔ دوستی کرنے کے معاملے میں میرے اندر یہ ایک زبردست کمزوری ہے جس کا علاج مجھسے نہیں ہو سکتا۔ ‘‘
اس مرحلے پر وہ قاسمی صاحب کو بھی یاد دلاتے ہیں کہ
ــ’’جب آپ نے اپنی دوستی کا ہاتھ میری طرف بڑھایا تو میں نے آپ سے کئی بار کہا تھا کہ آپ مجھے دوست نہ بنائیں، صرف اسی کمزوری کے باعث میں نے آپ سے درخواست کی تھی۔ اب بھی آپ سے میری یہی درخواست ہے …… میں اب ہر وقت سہما سا رہتا ہوں کہ ممکن ہے کہ آپ بھی میرے ساتھ یہی سلوک نہ کریں؟‘‘
خوفزدہ منٹو کی آخری بات کے سلسلے میں احمد ندیم قاسمی کے پیش لفظ سے مندرجہ ذیل اقتباس پیش کرنا ہی کافی ہے:
’’جب میں ۱۹۴۸ء میں پشاور چھوڑ کر لاہور آگیا تو منٹو بمبئی چھوڑ کر وہاں آ چکا تھا اور یہاں ہمارے درمیان سب سے پہلے نظر یات کی جنگ ہوئی۔ اس جنگ میں بھی ہم دونوں کا خلوص محفوظ رہا مگر پھر میں نے دو تین بار منٹو کی ذات پر تنقید کردی۔ ساتھ ہی اس کے چند دوستوں کو بھی برا بھلا کہہ دیا جو مارے خلوص کے اس کی بربادی کی رفتار تیز تر کرتے رہتے تھے۔ اس پر منٹو مجھ سے بگڑ گیا اور مجھے اس کا یہ فقرہ کبھی نہیں بھولے گا۔’’میں نے تمہیں اپنے ضمیر کا امام مقرر نہیں کیا ہے۔ صرف دوست بنایا ہے ‘‘نتیجہ یہ ہے کہ میں نے منٹو سے کترا کر نکل جانے ہی میں اپنی اور اپنے جذبے کی عافیت سمجھی۔‘‘
تاریخ میں یہ بات بھی مذکور ہے کہ انجمن ترقی پسند مصنفین نے جن ادباء پر اپنے رسائل کے دروازے بند کر دیے تھے، ادب پر پہلا مارشل لاء جاری کیا تھا اور غیر ترقی پسندوں کی اشاعت ممنوع قرار دی تھی ، ان میں سعادت حسن منٹو کا نام بھی شامل تھا۔ بقول احمد بشیر مرحوم، پابندی کی یہ قرار داداحمد ندیم قاسمی صاحب کے ڈرائنگ روم میں منعقد کیے جانے والے اجلاس میں منظور کی گئی تھی۔
یہ خطوط لکھے جانے کے بعد سعادت حسن منٹو پاکستان میں سات برس تک زندہ رہے، اس عرصے میں انہوں نے مالی تنگ دستی کے کرب ناک ایام گزارے، تخلیق کاری کی رفتار تیز کر دی اور اپنے افسانے اونے پونے فروخت کر کے اپنی عائلی زندگی اور شراب نوشی کی ضرورتیں پوری کرنے کی سعی کی اور اس خطرے کا انجام بھی سامنے آیا جو وہ بمبئی سے خطوط لکھتے وقت محسوس کر رہے تھے کہ جب احمد ندیم قاسمی کو انہیں نزدیک سے دیکھنے کا موقعہ ملے گا تو ان کا طلسم ٹوٹ جائے گا اور دوستی میں دراڑ پڑ جائے گی۔ منٹو کے یہ خطوط ذاتی نوعیت کے ہیں لیکن ان میں وہ حقیقی منٹو موجود ہے جس نے ’’نیا قانون‘‘۔’’خوشیا‘‘ ۔’’کالی شلوار‘‘۔’’ دھواں‘‘ اور ’’ہتک‘‘ جیسے افسانے لکھے تھے اور جو باری علیگ کی روایت کی پاسداری میں فکشن کا شوق اور مطالعے کا ذوق اپنے ایک معاصر کے دل میں جگا رہا تھا اور اس کی معاونت کے لیے بار بار بمبئی بلانے کی پیشکش کر رہا تھا۔ منٹو کے خطوط سے احمد ندیم قاسمی کی خود نمائی کا کوئی پہلو سامنے نہیں آتا اور ان خطوط کے حوالے سے احمد ندیم قاسمی کے بعض خدو خال کا مشاہدہ کرنے کا موقعہ بھی ملتا ہے اور یہ بین السطور مطالعہ بڑا دلچسپ ہے۔منٹو نے ان کی نا کام تحریروں کی طرف جا بجا اشارے کئے ہیں توا ن کی تحسین اور تعریف بھی فراوانی سے کی ہے۔ انہیں جذبات زدہ قرار دیا ہے تو ان کی راہنمائی کا فریضہ بھی ادا کیا ہے اور اب یہ کہنا مناسب ہے کہ قاسمی صاحب نے منٹو کے خطوط کا یہ مجموعہ شائع کر کے ایک بڑی خدمت انجام دی ہے۔ وہ منٹو جو اپنے افسانوں ، خاکوں اور طنزیہ مضامین کے علاوہ اپنی فلموں میں بھی موجود ہے اس کا ایک سچا اور خالص روپ ان خطوط میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
قاسمی صاحب!اس پیشکش پر میں آپ کو مبارک باد پیش کر تا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱۔’’وزیر آغا کے خطوط۔انور سدید کے نام‘‘۔۔ صفحہ ۷۔ (مکتبہ فکر و خیال ۔۱۷۲ستلج بلاک ۔ لاہور ۔ مارچ ۱۹۸۵ء)
۲۔’’اردو نثر کا فن ارتقاء‘‘۔ صفحہ ۳۹۵۔ مولفہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری۔ مقالہ ’’خاکہ نگاری از ڈاکٹر خورشید الاسلام ‘‘ (الوقار پبلی کیشنز ۔ لاہور ۔۲۰۰۳ء
۳۔اسلوب احمد انصاری۔ بحوالہ ’’وزیر آغا کے خطوط‘‘حولہ ایضاً ص۔۸
۴۔ ’’منٹو کے خطوط‘‘ ۔صفحہ ۶۔حوالہ ایضاً
۵ ۔ ایضاً
۶۔ منٹو۔پیدائش ۱۱مئی ۱۹۱۲ء ۔وفات ۱۸جنوری ۱۹۵۵ء
۷۔علی عباس جلدی پوری کی کتاب ’’روحِ عصر‘ کے دیباچے میں قاسمی صاحب نے لکھا تھاکہ
’’یہ کتاب زندہ رہے گی اور اس کے ساتھ اس کا دیباچہ نگار بھی زندہ ہے گا۔‘‘
۸۔منٹو کے خطوط ۔مرتبہ احمد ندیم قاسمی۔ کتاب نما ۔ لاہور۔ ۱۹۶۲ء اس مقالے کے تمام اقتباسات متذکرہ کتاب سے لیے گئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’در اصل تقسیم کے بعد ہمارے ہاں اچھے اور نامور فنکاروں کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے۔جو چند
ایک ہیں ،ان میں آپ نمایاں مقام رکھتے ہیں۔اس بنا پر حسن عسکری کو اچانک آپ کی فنی عظمت کا شعورو الہام
ہوا اور انہیں پتہ چلا کہ منٹو تو بہت اچھا افسانہ نگار ہے!۔۔۔اور آپ نے یہ کیسے مان لیا کہ حسن عسکری تو پاکستان
کا بہت بڑا نقاد ہے!۔۔۔لطف یہ ہے کہ اس تعریف و توصیف کے عین وسط میں رسالہ’’اردو ادب‘‘ خیمہ زن
ہے جس کو آپ دونوں مرتب کر رہے ہیں۔منٹو اور عسکری۔۔زندگی اور خوابیدگی!۔۔۔آگ اور پانی!‘‘
(احمد ندیم قاسمی بنام منٹو
مطبوعہ ’’سنگِ میل‘‘ پشاور ۱۵؍ستمبر ۱۹۴۸ء، بحوالہ سہ ماہی تشکیل کراچی شمارہ: دسمبر ۲۰۰۵ء)
منٹو نہ صرف کھوکھلی اقدار کے بخیے اُدھیڑ کر رکھ دیتے ہیں بلکہ عام انسانوں کے کو بھی اُلٹ
دینے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔۔۔۔اقدار کے سلسلے میں منٹو کا دوسرا زاویۂ نگاہ ان بیرونی سیاسی اور
معاشی تبدیلیوں کا جائزہ ہے جو ان کے گردو پیش کے سماجی حالات،ثقافت اور اقتدار پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔۔۔پاکستان کے لئے امریکی فوجی اور معاشی امداد کا پیش منظر وہ یوں بیان کرتے ہیں:’’امریکی اوزاروں
سے کتری ہوئی بسیں ہوں گی،امریکی مشینوں سے سِلے ہوئے شرعی پاجامے ہوں گے۔امریکی مٹی کی
اَن ٹچڈ بائی ہینڈ(Untouched by Hand) قسم کے ڈھیلے ہوں گے۔امریکی رحلیں ہوں گی اور امریکی
جائے نمازیں ہوں گی۔بس آپ دیکھئے گا چاروں طرف آپ ہی کے نام کے تسبیح خواں ہوں گے‘‘
ترنم ریاض کے مضمون منٹو:نظریے اور سماج سے اقتباس۔
بحوالہ کتاب چشمِ نقشِ قدم صفحہ نمبر۹۰۔۹۱)