“ہرش زالی”۔۔۔؟
فزا نام پڑھ کر چونک سی گئی اور اپنا سر کھجانے لگی۔۔
یہ نام کہیں تو سنا ہے پر کہاں؟؟
کچھ ٹھیک سے یاد نہیں آرہا تھا کہ جبھی اسکی نظر اندر آتے صورب پر پڑی۔۔
ارے یہ کہاں سے ا گیا اس وقت۔۔
فزا نے جلدی سے لیپ ٹاپ پلنگ کے نیچے سرکادیا۔۔
صورب اندر آچکا تھا۔۔
صورب: کیا کررہی تھیں فزی ۔۔؟
فزا:
کچھ نہیں ۔۔
میں تو ابھی آئی ہوں اور تم پھر میرے پیچھے پیچھے چلے ائے۔؟؟
صورب :وہ تمہارے ڈی جے کا پروگرام شروع
ہونے کا ٹائم ہو گیا ہے نا ۔۔
اس لیئے اگیا۔۔
صورب تیز تیز قدم اٹھاتا میز کی طرف بڑھا اورریڈیو اٹھا کر لے ایا۔۔۔
فزا چہکی: کیا سچ میں؟؟ارے ہاں ۔۔
تو لگاؤ۔۔
بیٹھے ہوئے کیوں ہو۔۔
جلدی سے۔۔
فزا جلدی سے چھلانگ مار کر پلنگ سے اتری اور ریڈیو بٹن آن کیا تو اچانک ایک آواز پورے کمرے میں گنگنا اٹھی اور فزا اس میں گم ہوگئی۔۔۔
روس:
ہیلو فرینڈز !
جیسا کہ آپ سب جانتے ہی ہیں ویوا کی طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے میں یعنی روس زالی آپ کا ساتھ
دونگا جب تک کہ آپکے پیارے ویوا جی پوری طرح ٹھیک نہیں ہوجاتے ۔۔۔
جی جی بالکل ۔۔
پچھلی بار کی طرح اس بار بھی ہمارا اور
آپکا ساتھ خطوط کے ذریعے سے بھی جڑ سکتا ہے تو دیر مت کیجیئے کیونکہ آج کا موضوع گفتگو یعنی
” ہمارا ٹوپک” کچھ اور نہیں بلکہ میں خود روس زالی ہوں تو دیر مت کیجیئے اور لکھ دیجیئے اپنے دل کی آواز اپنے قلم کو ہمنوا بنا کر ۔۔۔
تو فرینڈز اسکے ساتھ ہی ہم اپنے پہلے
فرینڈ کا بھیجا ہوا خط پڑھنے جارہے ہیں مگر اس سے پہلے پیارے فرینڈز ۔۔
ایک چھوٹا سا بریک ۔۔۔۔۔۔
تو کہیں مت جائیے گا اپنی آواز ہم تک پہنچائیے ۔۔
اور ہمیں خط لکھیئے ۔۔۔۔
کیابھروسہ مجھ سے ملاقات کرنے کا موقع۔۔۔
آپ میں سے کسی لکی فرینڈ کو مل ہی جائے۔۔۔
سو ۔۔۔۔۔
تھوڑی دیر کیلیئے انجوائے میوزک اور خط لکھنا بالکل مت بھولیئے گا۔۔۔
اوراس کے ساتھ ہی میوزک اسٹارٹ ہوگیا تھا۔۔۔
فزا آواز بند ہوتے ہی
ایک دم ہوش میں اگئی۔۔۔
ہاہ ہ ہ ۔۔۔
صورب جا و ۔۔۔
جلدی سے پین اور کاپی لے آؤ۔۔۔!!!
فزا جلدی سے صورب کو بھگاتے ہوئے بولی۔۔
مگررر فزی ۔۔۔؟
صورب اٹکا۔ ۔۔
اوہو اب کیا ہے جاؤ نا جلدی ۔۔
فزی اس پاس دیکھتی ہوئی جھنجھلائی۔۔۔
صورب:
فزی مم مجھے نہیں لگتا تم کچھ لکھ پاوگی ۔۔
کیا لکھوگی تم ؟
صورب بڑی بڑی آنکھوں سے اسے غور سے دیکھتے ہوئے بولا تو فزا کا جوش بھی تھوڑا ٹھنڈا پڑ گیا
اور وہ ایک دم پلنگ پر گرتے ہوئے بیٹھ گئی۔۔
ارے ہاں یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں۔۔۔
کیا لکھونگی ۔۔؟؟؟
فزا ہاتھ پر ہاتھ مارتی کھوئے کھوئے انداز میں بولی۔۔۔
صورب:
اچھا تم ایسا کرو جو تم ہر وقت بولتی رہتی ہو نا۔
وہی کیوں نہیں لکھ دیتیں وہ وہ کیا
کہتی ہوں تم۔۔۔؟؟
صورب یاداشت پر زور دیتے ہوئے بولا۔۔
ہاں ں ں۔۔
ہی از اینجل ۔۔۔
اور اچھے دل والے جو بھی وہ لکھو نا۔۔۔
صورب پین اور کاپی گود میں دباکر فزا کے پاس بیٹھتے ہوئے جوش سے چلایا۔۔
مگر ر۔۔۔
فزا کچھ کہنے ہی لگی تھی کہ۔۔۔
ارے فزی بیٹا ۔۔۔
باہر سےبیدی چاچا کی آواز سنائی دی۔۔
بیدی چاچا:
ارے اس صورب کی وجہ سے ہماری بھی عادت ہوگئی ہے نام بگاڑنے کی۔۔۔
باہر سے چاچا فزا کو آواز دیتے ہوئے اسی طرف چلےآرہے تھے۔۔۔
فزا نے آوازیں سنکر جلدی سے پین اور کاپی پیٹھ کے پیچھے چھپا لیئے۔۔۔
فزی او فزا بٹیا ۔۔
ہمارا ایک کام کردو گی ۔۔۔؟
وہ اکیلے نہیں آئے تھے انکے پیچھے پاپا بھی کاپی پینسل لیئے کھڑے مسکراتے دکھائی دے رہے تھے اور جیسے ہی
وہ کمرے میں آئے تارا اور اسکی گینگ بھی فزا کو دروازے سے چپکی دکھائی دے گئیں ۔۔۔
ویسے تو وہ فزا سے چھپ کر کھڑیں تھیں مگر ایک دوسرے کو لگتے دھکوں کی وجہ سے فزا انکی جھلک دیکھ چکی تھی اور اسے پتہ تھا پاپا ،چاچو کے بعد لکھوانے کا نمبر اسی گینگ کا ہونا تھا۔۔۔
فزا:
افف۔۔
اتنا طویل انتظار کرنے کا سوچ کر فزا کا موڈ ایک دم خراب ہوگیا۔۔
پاپا جلدی سے آگے بڑھے:
بیٹا دیکھ پہلے میری چٹھی لکھ دے ۔۔
یہ رہا پین اور لکھنے کیلیئے صفحے بھی
ساتھ لایا ہوں۔۔!
پاپا نے کاپی اور پین فزا کی طرف بڑھاتے ہوئے دانت چمکائے۔۔۔
بیدی چاچا:
ارے تو چل ہٹ جا ابھی تو تو گھر میں ہی رہتا ہے فزا بیٹی پہلے میری چٹھی لکھے گی۔۔
چاچا پین کوپی آگے کرتے ہوئے پاپا کو ڈانٹنے لگے۔۔
پاپا :بولا نا میری لکھے گی۔۔!
چاچا :میری لکھے گی۔۔۔
اففف۔۔
دونوں میں اس معاملے کو لیکر بحث چھڑ گئی۔۔
بیدی چاچا:
تم بتاو بٹیا پہلے کس کی چٹھی لکھو گی۔۔؟؟
(اصل میں جس کی چٹھی پہلے لکھی جاتی وہ سب سے پہلے پوسٹ کر پاتا اور اگر پوسٹ جلدی ہوتی تو چٹھی کے روس تک پہنچنے کے چانسس زیادہ ہوجاتے)…
چاچا منہ پھلائے کھڑے ہوگئے تاکہ انکا کام جلدی ہوجائے۔۔فزا کی مسکراہٹ بےساختہ تھی یہ پورا گھر تو روس کا دیوانہ تھا۔۔۔
صورب:
آپ کوں لکھ وارہے ہو ؟چٹھی ۔۔
لڑکیوں کی تو عمر ہی ہوتی ہے انہیں آواز اچھی لگ جاتی ہے پر آپ کیوں مچل رہے ہو۔۔
صورب اپنی فزی کا لیٹر نا لکھ پانے پر خاصا ناراض تھا ۔۔
چاچا:
ارے کیوں بھائی یہ کیا بات ہوئی ۔۔؟؟؟
ہم بڈھے ہوگئے تو کیا ہم کسی کو پسند نہیں
کرسکتے کیا۔۔؟؟
چاچا کو یہ بات بالکل ہضم نہیں ہوئی۔۔
پاپا :
پتر ہے بھی تو کتنا پیارا ہمارا راجکمار۔۔
کام ایسے کہ لاجواب،،۔۔۔۔
باتیں بے مثال
اور بندہ؟؟؟؟
بندے کی تو بات ہی مت کرو ووو۔۔۔
ابھی وہاں کا ماحول ہی کچھ الگ تھا پاپا اور چاچا ایک دم مچلتے ہوئے کالج بوائے لگ رہے تھے اور فزا سے ہنسی کنٹرول نہیں ہوپارہی تھی۔۔۔
چاچا :
کیا بتاؤں ۔۔۔
میں نے تو ایک پلان بھی بنالیا ہے تو بس چٹخارے ہی لیتا رہ یہاں بیٹھا بیٹھا۔۔!!
اب بھلا چاچا کیوں پیچھے رہتے وہ بھی پاپا کے ساتھ شروع ہوگئے۔۔۔
چاچاصفحے ہوا میں
لہراتے ہوئے بولے۔۔
پاپا :
کیا مطلب کیا پلان۔۔۔؟
تو جانتا بھی ہے وہ راجکمار ہے پھر بھی پلان بنا رہا ہے پانی پھیرنے کیلیئے۔۔۔
تو باز آجا!
پاپا نے چاچا کو ٹھوکا دیا۔۔
چاچا :ہاں۔۔ہاں
سب معلوم ہے۔۔۔!
چاچا پاپا کی بات ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکالتے ہوئے بےپروائی سےبولے۔۔
لگتا کہاں ہے وہ راجکمار وہ تو دلوں کا راجا ہے دیکھو کیسے ہم لائن میں کھڑے لڑ رہے ہیں۔۔
کیوں۔۔؟
چاچا فخر سے اپنا سینہ چوڑا کرتے ہوئے بولے ۔۔
پاپا: یہ تو ہے۔۔۔
ویسے تیرا پلان تھا کیا ویسے ۔۔؟
پاپا اور چاچا دونوں کاپیاں ،پین رکھ کر آپس میں باتوں میں مصروف تھے مگر سبھی کے کان متوجہ تھے انکی طرف۔۔
چاچا :
ارے اور کیا میری بیٹی ہے نا تارا۔۔۔
میں اسکی شادی کرواونگا روس پتر سے۔۔۔
پھر جاکر میرا ارمان پورا ہوگا۔۔۔
اور وہ تو ہے بھی بڑا فرمابردار منع تو کر ہی نہیں پائے گا۔۔
پتا ہے ایک دفعہ جب ملا تھا تو کیا کھ رہا تھا۔۔۔
چاچا اپنی ہی دھن میں مست تھے۔۔
وہ ما ن جائے گی؟؟
پاپا کو ابھی بھی شک تھا۔۔
صورب کی ہنسی نکلنا اسٹارٹ ہوگئی اور وہیں دوسری طرف باہر سن گن لیتی کان لگائے کھڑی تارا اندر اکر آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑی۔۔۔
تارا:
ہاں ہاں کیوں نہیں۔۔
فرشتے جیسا بچہ ہے اپکااور میرا کیا ہوگا ۔۔؟
تارا تیز آواز میں چلائی۔۔۔
اور وہ بھی تیس فٹ لمبی پونچھ رکھنے والے کے ساتھ
رہ کر کیا بنے گا میرا یہ سوچا ہے۔۔۔
تارا کاتو دل ہی باہر آگیا تھا انکے بھیانک ارمان سنکر۔۔
چاچا :
کیا مطلب پتر ۔۔؟؟
تجھے بھی تو پسند ہے وہ ۔۔۔
میں نے دیکھا ہے تجھے تو بھی فزا سے چٹھیاں لکھوا لکھوا کر جاتی ہے ایسے ہی تھوڑی تیری شادی کا ارمان سجایا تھا۔۔۔
تارا کے چلانے پر
چاچا ایک دم روہانسے ہوگئے۔۔
تارا :
ارے وہ تو ایسے ہی۔۔۔یہ۔۔
تو نے بتایا ہے نا یہ سب انہیں۔۔
تارا صورب کو کڑے تیوروں سے گھورنے لگی اور غصے سے اسکی طرف بڑھی۔۔۔
چغلخور کہیں کے۔۔۔
تجھے تو نہیں چھوڑونگی۔۔
فزا:
وہ منع کررہا ہے نا کچھ نہیں کیا اس نے ۔۔
فزا کھڑے ہوکر تارا کو روکنے لگی۔۔۔
یہ اجکل کے بچے ماں باپ کو کچھ سمجھتے ہی نہیں۔۔۔
چاچا روہانسے ہوئے جارہے تھے۔۔۔
تارا:
جو بھی کھ لیں مجھے نہیں شادی کرنی اپکے اس پونچھ والے ہیرو سے ۔۔
اور بھی تو ہیں ۔۔
ان پر اپنے ارمان پورے کرلیں۔۔
تارا ٹھنکتی ہوئی اکڑ کر بولی
اور دروازے کی طرف جاکر واپس آگئی کہ ابتو اسکی پول کھل ہی چکی تھی ۔۔۔
ا ا ا۔۔
ارے تو کیوں رو رہا ہے ابھی کونسا بارات نے دروازے پر آجانا ہے ؟؟
پاپا بیدی چاچا کی ہائے ہائے سے چڑ کر بولے۔۔
تارا:
اور ہاں اپکو بتادوں میرے پاس کچھ پوسٹر بھی ہیں آپکے لاڈلے کے جس میں اسکی پوجا کی جارہی ہے۔۔
گلی میں لگے ہوئے تھے سوچا تھا تحفہ دے دونگی آپ کو۔۔۔
اگر آپ کہیں تو پیش کردوں تاکہ اپنی بیٹیوں کو دکھاکر پسند کروالیں۔۔۔
تارانمک چھڑکتے ہوئے طنزیہ مسکرائی۔۔۔
چاچا کافی دکھی لگ رہے تھے تبھی فزا آگے آئی اور تارا کو وہاں سے دوسرے کمرے میں جانے کو کہا۔۔
کیونکہ ابھی چاچا نے وہی باتیں پھر دہرانی تھیں اور اگر کمرے میں تارا موجود ہوتی تو لڑائی نے تو دوبارہ شروع ہوجانا تھا اسلیئے تارا فزا کے کہنے پر بڑبڑاتی ہوئی پیر پٹختی وہاں سے چلی گئی تھی۔۔۔
گرمائش بڑھنے پر ہرش کی آنکھ کھلی تو وہ ایک جھٹکے میں اٹھ بیٹھا۔۔۔
ہرش نے دلاور کو چیک کیا مگر وہ اس وقت گہری نیند میں ڈوبا ہوا تھا ۔۔
ہرش:
سو رہا ہے آئی تھنک مجھے اپنا کام کرلینا چاہیئے۔۔
ہرش بڑبڑاتا ہوا گاڑی کے اندر گھس گیا اور ایک رومال ڈھونڈ لایا۔۔۔
ہرش نے رومال لیکر آہستہ سےدلاور کی آنکھوں پر رکھا اور دبے پاؤں محتاط انداز لیئے پہاڑوں کی طرف دوڑتا چلا گیا اور کافی دیر بھول بھلیوں سے گزرنے کے بعد اب وہ ایک پہاڑی سرنگ کے سامنے کھڑا ہانپ رہا تھا۔۔۔
وقت بہت کم تھا کیونکہ کہ دلاور کسی بھی وقت اٹھ سکتا تھا اور پھر اسے مطمئین کرنا کافی مشکل امر ہوجاتا۔۔
ہرش پہاڑی سرنگ کے سامنے کھڑا ہوگیا اور اپنے دونوں ہاتھ آگے کرکے جوڑے تو ہرش اگلے ہی لمحے سانپ روپ میں بدل چکا تھا اور اب نہایت تیزی سے رینگتا ہوا پہاڑی سرنگ کا راستہ طے کر رہا تھا۔۔۔
ریچا یہاں قید تھی اور کوئی بھی انسان یا سانپ اس راستے کو پار نہیں کرسکتا تھا کیونکہ یہاں جو چاروں طرف جال بچھا تھا وہ ایک گہرا راز تھا مگر روس کے چھوٹا بھائی ہونے کا کچھ تو فائدہ ہونا ہی تھا نا ہرش کو۔۔
تو وہ اس وقت پہاڑی سرنگ طے کر کے اب ایک قید خانے میں پہنچ گیا تھا اور اب اسکے سامنے سلاخوں کے پیچھے وہ سر جھکائے بیٹھی تھی۔۔
ہرش دوبارہ سے انسانی روپ میں آگیا اور آگے بڑھا۔۔
ریچا۔۔ہرش کی آواز میں نمی نمایاں تھی۔۔
آواز سنکر ریچا نے جھٹکے سے سر اٹھایا اور ہرش کی طرف لپکی۔۔۔
ریچا :
ہرش میرے بھائی۔۔
مجھے ممم مجھے آزاد کرانے آئے ہونا ۔۔اپنی بہن کو ۔۔ہاں۔۔تمہیں ۔۔تم نے روس سے طریقہ معلوم کرلیا نا مجھے باہر نکالنے کا؟؟
مجھے معلوم تھا میرے بھائی کہ مجھے تم یہاں سے ضرور نکالوگے۔۔
مجھے گھٹن ہورہی ہے ۔۔جلدی۔۔۔
جلدی سے باہر نکالو۔۔۔ریچا جنونی انداز میں سلاخیں پکڑ کر ہلاتے ہوئے بولی تو ہرش ایک دم آبدیدہ ہوگیا۔۔
ہرش:میں نے بہت کوشش کی۔۔
اس روس سے کہ وہ کوئی حل بتادے بہت منت کی اس روس کی مگر ر وہ۔۔کمینہ راز دفن کیئے بیٹھا ہے ۔۔۔
ہرش آنسوؤں کی وجہ سے ٹھیک طرح بول نہیں پارہا تھا۔۔۔
ریچا :
تو کیوں آئے ہو یہاں۔۔۔؟
ریچا پھٹ پڑی۔۔
تماشا دیکھنے آئے ہو۔۔ہاں۔۔
تم اور کرو اسکی چمچہ گری ۔۔
دیکھنا ایک دن وہ تمہارے ساتھ بھی یہی کرے گا۔۔۔
مجھے باہر آجانے دو پھر دیکھنا میں تم دونوں کا کیا حال کرتی ہوں ۔۔۔
ریچا بے قابو ہوئی چلائے جارہی تھی۔۔۔
ہرش سے مزید ریچا کی یہ حالت نہیں دیکھی جارہی تھی تو وہ واپس لوٹ ایا۔۔۔
کیا حالت بنا دی ہے ریچا کی۔۔۔
روس س س۔۔۔
ہرش مٹھیاں بھینچتے ہوئے ایک دم چلایا ۔۔۔
آئی ہیٹ یو۔۔ائی ہیٹ یو۔۔۔۔
منہ پر ایک دم گیلا گیلا احساس ہونے پر دلاور اچانک چونک کر اٹھ بیٹھا۔۔۔
ارے یار یہ کیا بلا ہے۔۔۔؟
چہرے پر ہاتھ ملتے ہوئے دلاور اٹھ بیٹھا ہرش کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔۔۔
گاڑی کے مررمیں دیکھنے پر دلاور اچھلتا کودتا، جھلانگے لگانے لگا۔۔۔
ارے یار افف یہ۔۔۔
انہیں اور کوئی جگہ نہیں ملی تھی ۔۔۔؟؟
دلاور آنکھوں پر ہتھیلی سے چھجا بنا کر آسمان پر اڑتے پرندوں کو دیکھنے لگا۔۔
یہ بندر کہاں چلا گیا۔۔۔؟؟
کہاں جائے گا السی یہی کہیں ہوگا۔۔۔
کہتے ہوئےدلاور اس پاس کا جائزہ لینے لگا کہ اسے سامنے سے ہرش آتا دکھائی دیا۔۔۔
کہاں چلا گیا تھا ۔۔؟؟
مجھے اٹھایا کیوں نہیں۔۔
مجھے کوئی کھا جاتا آکر تو۔۔۔؟؟
اسے دیکھ کر دلاور تیر کی رفتار سے دوڑتا ہوا پاس پہنچ گیا اور ایک دم سوالوں کی بوچھاڑ کردی ہرش پر۔۔۔
مگرایک دم ٹھٹھک کر رک گیا۔۔
یہ تیری آنکھیں کیوں لال ہورہی ہیں؟؟
دلاور اسکی آنکھوں کا معائنہ کرتے ہوئے بولا۔۔
ہرش :
کچھ نہیں ہوا تیز چل رہی ہے کب کیا ہوجائے کچھ پتا نہیں۔۔
ہرش سرد لہجے میں بڑبڑایا۔۔۔
دلاور :ہاں بھائی بالکل ٹھیک کہا ۔۔۔
نکل چلو یہاں سے ۔۔۔کچھ پتا نہیں کب اوپر سے کیا ٹپک جائے۔۔۔دلاور کھ کر خود ہی ایک دم ہنس پڑا۔۔۔
دلاور نے زیادہ دھیان نہیں دیا اور اوپر اڑتے پرندوں کو دیکھ کر بولا۔۔۔
چلو چلتے ہیں اب تو سب اٹھ گئے ہونگے گاؤں میں ۔۔
ہاں بالکل۔۔
سنا ہے گاؤں والے سویرے اٹھنے کے عادی ہوتے ہیں ۔۔کوئی نا کوئی تو مل ہی جائے گا۔۔۔
یہ کہتے دونوں دوست پہاڑی اترنے لگے۔۔۔