ایک خاص موضوع جس پر میں نے عرق ریزی کی حد تک کام کیا، وہ اردو میں صنف غزل کے منفی اثرات کی وجہ سے آزاد نظم (یعنی بلینک ورس۔۔ فری ورس نہیں، جسے آج کل نثری نظم کہا جاتا ہے) میں رن، آن سطروں سے لا تعلقی کا رویّہ تھا۔ طوالت یا اختصار کی بنا پر سطور کی قطع برید بہت پرانی بات نہیں ہے۔ یہاں تک کہ تصدق حسین خالدؔ سے چل کر میراؔ جی اور ن۔ م۔ راشدؔ تک پہنچ چکنے کے بعد تک، (بلکہ مجید امجدؔ اور اخترؔ الایمان تک) شیوہ یہ رہا کہ اگر ایک سطر بہت طویل ہو گئی ہے اور صفحے کی چوڑائی اس بات کی متحمل نہیں ہو سکتی کہ شاعر اس کو قطع کیے بغیر لکھ سکے، تو ـرن۔ آنلائنزکےقاعدےکواسشرطپربروئےکارلایا جائے کہ باقی کا متن پیوستہ سطر کے وسط سے شروع کیا جائے۔ ایک مثال دے کر اپنی بات واضح کرتا ہوں۔
اے سمندر! پیکر شب، جسم، آوازیں
رگوں میں دوڑتا پھرتا لہو
پتھروں پر سے گزرتے، رقص کی خاطر
اذاں دیتے گئے۔
(ن۔ م۔ راشد: ’’اے سمندر‘‘ )
یہ بحر رمل (فاعلاتن) کی تکرار ہے۔ غور فرمایئے : اے سمندر (فاعلاتن)، پیکر شب (فاعلاتن)، جسم آوا (فاعلاتن)۔۔۔۔ [ یہاں اب ’’زیں ‘‘ کو رن۔ آن کر کے پیوستہ سطر کے ’’رگوں میں ‘‘ سے ملا دیا گیا ہے ]یعنی۔۔ زیں رگوں میں (فاعلاتن)، دوڑتا پھر (فاعلاتن)، تا لہو (فاعلن)۔۔ گویا سطر کی برید اس لیے کی گئی کہ چھ (۶) فاعلاتن کے بعد ’فاعلن‘ کا اختتامیہ آیا ہے، ( جو کہ غزل کا وزن عام طور پر نہیں ہے )۔ لیکن راشد نے یہ تمیز روا رکھی ہے کہ اگر رن۔ آن لاین کا چلن ضروری ہو گیا ہے تو گذشتہ سے پیوستہ سطر کو بیچ میں سے شروع کیا جائے۔ اسی طرح : پتھروں پر (فاعلاتن)، سے گذرتے (فاعلاتن) رقص کی خا (فاعلاتن)۔۔۔ اب یہاں ’’طر‘‘، جو ’’خاطر‘‘ کا اختتامیہ ہے، پیوسطہ سطر کے پہلے لفظ سے منسلک ہونا ضروری ہو گیا ہے، اس لیے دوسرا ٹکڑا سطر کے عین درمیان میں سے شروع کیا گیا۔ تر اذاں دے (فاعلاتن)، تے گئے (فاعلن)۔
ان شعرا نے رمل کے علاوہ ہزج (مفاعلین کی تکرار)، رجز (مستفعلن کی تکرار)، متدارک (فاعلن کی تکرار)، متدارک سالم (فعلن کی تکرار)، متقارب سالم (فعولن کی تکرار)، متقارب مقبوض (فعول فعلن) اور کامل (فاعلن کی تکرار)۔۔۔ یعنی لگ بھگ سبھی مروج بحور میں یہ چلن اختیار کیا۔
راقم الحروف نے 1960ء کے لگ بھگ اس سے انحراف کیا تھا اور حیدر آباد میں قیام کے دوران تک لگ بھگ پچاس نظموں میں نثری جملے کی منطقی ساخت کو برقرار رکھتے ہوئے (سبھی متعلقات فعل کو ان کی صحیح جگہ پر مستعدی سے کھڑا رکھتے ہوئے )، رن آن لاینز کو اس طور سے برید کیا تھا کہ نفس مضمون گذشتہ سطر سے تجاوز کرتا ہوا، ما بعد سطر کے وسط یا آخر تک، اور بسا اوقات، ما بعد سطر سے بھی منسلک ہونے والی اگلی سطر تک flux and flow کے ناتے سے بہتا چلا جائے۔ اب یاد آتا ہے کہ حیدر آباد کا دقیانوسی ماحول اول تو آزاد نظم کو قبول کرنے کے لیے ہی تیار نہیں تھا، اس پر رن آن لاین کی ’زیادتی‘ ؟ ظاہر ہے کہ محفلوں میں تو کم کم، مگر مشاعروں میں مجھے ہوُٹ بھی کیا گیا اور کوسا بھی گیا۔