کبھی کبھی کسی کی ایک نظر ہی ہر پل خوشیوں سے بھر دیتی ہے اور کبھی اسکی ذرا سی بے رخی سے زندگی ویران لگنے لگتی ہے۔ میری آنکھوں سے بے ساختہ آنسو چھلک پڑے۔ ہرے رنگ کا سوٹ ایک پل میں ہی بے رنگ ہوگیا تھا۔ جس کی خاطر میں آج اتنی سج دھج کے آئی تھی اس نے مجھے نظر بھر کے نہیں دیکھا ۔
جو لوگ مسکرانے کی وجہ ہوں آنسوؤں کا موجب بھی وہی بنتے ہیں۔ ۔۔
میں اس شش و پنج میں تھی کہ آخر کیا ایسی وجہ ہوئی جو جاسم مجھ سے اتنا خفا ہے۔ میری نظریں اب بھی اسی جگہ ٹکی تھیں جہاں کچھ پل قبل اسکی گاڑی آکے رکی تھی۔ جیسے میں اپنے آپ کو تسلی دے رہی تھی کہ وہ اب بھی وہاں موجود ہے اور ابھی میری طرف آئے گا ۔
کسی کے ہاتھ کی تھپکی جب میرے کاندھے پہ پڑی تو میں چونک کے پیچھے مڑی۔ میرے سامنے نادیہ آپی کی ساس کھڑی تھیں۔ مسکراتے ہوئے بولیں
“ارے بیٹا۔۔۔۔ ! کیوں اتنا رو رہی ہو؟ ماں ، باپ، بہن بھائیوں کو چھوڑ کے جاناتو بیٹی کے نصیب میں لکھ دیا جاتا ہے۔ اور تمہای بہن کونسا تم سے بہت دور ہوگی۔ ایک ہی شہر کی تو بات ہے۔ جب دل کرے آجانا اور مل لینا ” انھوں نے میرا گال تھپتھپایا
“نہیں آنٹی ۔۔۔۔ وہ ۔۔۔”میرا گلہ خشک ہورہا تھا
“بہنیں ہیں نا۔۔۔! ساتھ میں اتنا وقت گزارا ہے ۔ اب جدا ہورہی ہیں دکھی تو ہونگی ” امّی کی آواز میرے کان میں پڑی
“صحیح کہہ رہی ہیں آپ۔۔۔ چلو بہن اب رخصتی کی آخری رسمیں کر لیتے ہیں” نادیہ آپی کی ساس امّی سے مخاطب ہوئیں۔میں بھی ان دونوں کے پیچھے پیچھے چل پڑی۔
آپی کی رخصتی کے بعد ، شمسہ آپی کو انکے ساتھ بھیج دیا ۔ سارا ہال خالی ہوا تو امّی نے کہا چلو ہم بھی اب گھر چلیں، گھر واپسی پہ عابدہ آپی کے بیٹے کو میں نے گود میں لیا اور انکے شوہر ارشد بھائی کی گاڑی میں ہم گھر کی طرف چل پڑے۔ عابدہ آپی اور میں گاڑی کی پچھلی سیٹ پہ بیٹھ گئے، امّی ارشد بھائی کے ساتھ فرنٹ سیٹ پہ تھیں، راستے میں عابدہ آپی میرے ساتھ باتیں کرتی رہیں ،میں بس ہوں ہاں میں جواب دیتی رہی۔
“اے۔۔۔۔۔۔ ! کیا ہوا؟ اتنی اداس کیوں ہے؟” میرے اداس چہرے اور بار بار نم ہوتی آنکھوں کو دیکھ کے عابدہ آپی نے پوچھا
“نہیں کچھ نہیں۔۔۔بس وہ نادیہ آپی۔۔۔۔۔۔کی وجہ سے” مجھ سے زیادہ کچھ بولا نہیں گیا
“اوہ۔۔۔۔ میری شادی پہ تو اتنا نہیں روئی تم، نادیہ کی شادی پہ بہت دکھی ہورہی ہو” انھوں نے مجھے گھورا
“جھوٹی ہے۔۔۔۔ سارا دن تو نادیہ سے اسکا جھگڑا ہوتا تھا، آج بہت یاد ستا رہی ہے اسے، اپنا کوئی روگ لے کے بیٹھی ہوگی” امّی نے مڑ کے جواب دیا،
جواب میں عابدہ آپی مسکرانے لگیں
“امی آپ بھی نا۔۔۔ ! ہر وقت بیچاری کے پیچھے پڑی رہیتی ہیں، اور کیا روگ ہوگا بھلا، نادیہ نے اور اس نے زیادہ وقت ساتھ گزارا ہے، اب وہ چلی گئی ہے، اور یہ اکیلی رہ گئی، دکھ تو ہوگا نا” آپی نے میری طرفدار ی کی
“اکیلا تو اسے میں نہیں رہنے دوں گی، اب دیکھو کیسے میں دنوں میں اسکی شادی کرتی ہوں۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے جو تین بیٹیوں کا بوجھ میرے سر سے اترا، بس اب آخری ذمہ داری بھی سر سے اتر جائے تو سجدہ شکر بجا لاؤں”
شادی کی بات سن کے پھر سے جاسم میرے دل دماغ میں گھومنے لگا۔ “کیوں کررہے ہو ایسا میرے ساتھ؟” دل ہی دل میں میں اس سے سوال کرنے لگی۔
“ایک بیوہ کے لیے آسان تھوڑی تھا، چار چار بیٹیوں کا بوجھ اٹھانا، اللہ گواہ ہے جب تمہارے ابا تم لوگوں کو میری گود میں ڈال کے اس دنیا میں تن تنہا چھوڑ گئے تو کئی بار ایسے حالات آئے دل کرتا تھا خودکشی کرلوں۔ لیکن جب تم لوگوں کے معصوم چہرے دیکھتی تو بے بس ہوجاتی تھی۔ اس ذات پاک نے ہمت دی اور دیکھو آج میں سرخرو ہوئی ہوں۔ حمیدہ نے کئی بار کہا کہ آپا آخری عمر ہے حج کرلو، پر میں نے یہی جواب دیا کہ بیٹیوں کا بوجھ سر پہ لے کیسے حج کرنے چلی جاؤں ۔ بس اب تو یہی خواہش ہے کہ یہ آخری بوجھ سر سے اترے اور ایک بار ا خانہ کعبہ میں اس وحدہ لاشریک کے سامنے ماتھا ٹیک لوں، اسکے بعد بے شک وہ فرشتہ بھیج دے” امّی کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے
ہم لوگ واپس پہنچے، گھر میں ابھی بھی کچھ مہمان تھے۔ جاتے ہی انکے کے لیے چائے پانی کا انتظام کرنا تھا۔ میں امّی کے ساتھ پھر سے کام میں لگ گئی۔ حالانکہ امّی نے مجھے کہا بھی کہ تھوڑی دیر آرام کرلوں اسکے بعد کام میں ہاتھ بٹاؤں، لیکن میں اپنے آپکو کام مصروف رکھنے کی کوشش کررہی تھی، تاکہ بار بار جاسم کا خیال مجھے نہ ستائے۔ چھوٹے موٹے کام کرتے رات کا ایک بج گیا، پورے دن کی تھکان تھی جس کو جہاں جگہ ملی وہ سو گیا۔ میرے کمرے میں ارشد بھائی سمیت باقی مرد حضرات کو سلایا گیا۔ میں امی کے کمرے میں گئی تو وہاں پہ تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ امی کے بیڈ کی ایک سائیڈ پہ عابدہ آپی اپنے بیٹے کے ساتھ لیٹی تھیں، دوسرے طرف حمیدہ خالہ اپنی سات سال کی نواسی کے ساتھ خراٹے لے رہی تھیں۔ امی اور شمسہ آپی کے دونوں بڑے بیٹے جنھیں وہ یہاں چھوڑ کے نادیہ آپی کے ساتھ گئی تھیں کارپٹ پہ تکیے لگائے سو رہے تھے۔ اور انکے ساتھ حمیدہ خالہ کی بہو اپنے بیٹے کو بغل میں لٹائے اونگھ رہی تھیں۔ ‘یہاں تو سونے کا سوال ہی نہیں ہے’ میں نے دل ہی دل میں سوچا اور آہستہ سے دروازہ بند کرکے باہر نکل آئی، مجھے بھی بہت نیند ستا رہی تھی۔ کچھ دیر باہر رکی ، پھر سوچا کہ دوسرے کمرے کا جائزہ لیتی ہوں شائد وہاں کوئی جگہ میسر آجائے۔ پر دروزہ کھولتے ہیں، میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے، وہاں کی حالت تو اور زیادہ خراب تھی، خواتیں اور بچے ایکدوسرے کے ساتھ ایسے چمٹ کے سوئے تھے کہ کروٹ بدلنا دشوار تھا۔ میں جلدی سے باہر نکل آئی، اب میرے پاس دو ہی جگہیں تھیں یا کیچن میں جا کے سو جاؤں یا پھر میری دادی مرحومہ والا کمرہ، جسے ہم بھوت بنگلہ کہتے تھے۔ دادی کی وفات کے بعد امی نے اس کمرے کو سٹور روم بنا دیا تھا۔ وہ تاریک اور ڈراونا تھا، اس لیے ہم وہاں کم ہی جایا کرتے تھے۔ چارو ناچار میں کیچن میں پہنچی تو کیچن میں برتنوں کا انبار لگا تھا۔ فرش سے لے الماریوں تک کوئی حصہ ایسا نہ تھا جہاں برتن نہ پڑے ہوں۔ اوہ خدایا۔۔۔ آج کی رات تو جاگ کے گزارنی پڑے گی۔ سردیوں کا موسم تھا ، کافی ٹھنڈ پڑ رہی تھی،ورنہ تو باہر ہی چٹائی ڈال کے سو جاتی۔ میں جاکے سیڑھیوں میں بیٹھ گئی۔ ایکدم سے میرے دماغ میں خیال آیا کہ میں نے اپنا موبائیل کہاں رکھ دیا ہے۔ جب ہم شادی ہال سے واپس گھر پہنچے تو میں نے اپنا موبائیل آف کرکے امی کے کمرے کی الماری میں رکھ دیا تھا۔ میں جلدی سے امی کے کمرے میں پہنچی اور انکی الماری سے موبائیل نکال کے پھر سے واپس سیڑھیوں میں آکے بیٹھ گئی۔ موبائیل ہاتھ میں پکڑتے ہی جاسم کا خیال آیا اور میں پھر سے اداس ہوگئی۔ میرا دل کیا کہ موبائیل آن ہی نہ کروں۔ لیکن پھر بھی آن کرلیا۔ سب سے پہلے سینٹ میسجز میں جا کے اپنے آخری میسج پڑھنے لگی جو میں نے جاسم کو بھیجے تھے۔ آخری میسج بھیجے ہوئے اب دس گھنٹے بیت چکے تھے لیکن کوئی جواب نہ آیا۔ میں نے موبائل سائیڈ پہ رکھ دیا۔ اور اپنے گھٹنوں پہ ماتھا ٹیک کے آنکھیں بند کرلیں۔
موبائل فون کی وائیبریشن پہ میں چونکی جب اٹھا کے دیکھا تو ایک دم سے نو میسجز ریسیوو ہوئے۔ میں نے جلدی سے موئل ان لاک کیا اور انابکس میں گئی۔ جاسم کا نام پڑھتے ہی اتنے گھنٹوں سے دل میں جو آگ سلگ رہی تھی ٹھنڈی پڑ گئی۔ میں ایک ایک کرکے سارے میسجز پڑھنے لگی
“میڈم آپ نے ہی کہا تھا کہ آپکی بہن کی شادی ہونے تک میں آپ سے رابطہ نہ کروں”
“ہیلو۔۔۔ آر یو دئیر”
“لگتا ہے ابھی بھی میرے لیے وقت نہیں ہے آپ کے پاس”
“مرضی ہے آپکی”
“اب اپنی شادی کے بعد ریپلائی کریں گی آپ؟”
“نمبر بھی آف ہے”
“غصہ تو مجھے ہونا چاہیے ، لیکن یہاں معاملہ ہی الٹ ہے”
“آج بہن کی شادی ہے تو اتنا اگنور کر رہی ہو، کل کچھ اور مسئلہ ہوا تو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دو گی مجھے”
“اوکے یار، مسلسل نمبر آف ہے ، میں بھی اب سو رہا ہوں، اتنا ہی ویٹ کر سکتا تھا”
میں نے سارے میسج پڑھ کے سکون کا سانس لیا۔ جس دوران میرا نمبر بند تھا شائد تبھی وہ مجھے میسجز کرتا رہا ہے۔ میں سوچنے لگی کہ اب کیا ریپلائی دوں۔ صلح کرلوں یا پھر اس لڑائی کو مزید جاری رکھوں۔ کہیں نہ کہیں غلطی میری بھی تھی۔ شادی کی مصروفیت میں میں اسے اگنور کر تی رہی ہوں۔ اسکا غصہ بجا ہے۔ میں نے میسج بھیجنے کی بجائے اسے کال کی۔ بیلز جاتی رہیں لیکن اس نے فون نہیں اٹھایا، دوسری مرتبہ ٹرائی کیا تو اس نے کال اٹنڈ کی
“ہیلو۔۔۔ !” اسکی آواز میرے کانوں میں پڑی
“جی۔۔۔ !” میں نے اسے جواب دیا
“مل گیا ٹائم آپکو” اس نے تنزیہ کہا
“جی مل گیا، لیکن آپ خود بھی تو بہت مصروف ہوتے ہیں” میں نے بھی تنزیہ جواب دیا
“آپکے مہمان چلے گئے؟” اس نے بات بدلی
“نہیں۔۔۔ اتنی جلدی کہاں”
“ہوں۔۔۔۔ اچھا، سوئی نہیں ابھی تک؟”
“نہیں۔۔۔ گھر میں مہمان اتنے ہیں ، میرے لیے سونے کی جگہ ہی نہیں بچی، سیڑھیوں میں بیٹھی ہوں” میں نے اداس ہو کے جواب دیا
“پرفیکٹ۔۔۔ میں آرہا ہو پھر” اس نے کہا
“کہاں۔۔۔۔؟” میں چونکی
“تمہیں کمپنی دینے۔۔۔” وہ بولا
“نہیں نہیں۔۔۔ پلیز، گھر میں اتنے لوگ ہیں کوئی جاگ گیا تو؟” میں ڈر گئی
“ارے یار۔۔۔ کتنا ڈرتی ہو تم، کچھ نہیں ہوتا۔ اتنے دن ہو گئے تم سے ملے ہوئے” وہ خفا ہونے لگا
“اچھا ٹھیک ہے۔۔۔ آجاؤ لیکن اندر نہیں آنے دوں گی، بس ایک منٹ کے لیے دروازے تک آؤں گی” میں نے ڈرتے ڈرتے ہاں کردی
“اچھا ۔۔ دیکھتے ہیں۔۔۔ دروازے پہ پہنچ کے تمہیں میسج کرتا ہوں” یہ کہہ کے اس نے کال کٹ کردی
میں جلدی سے سیڑھیوں سے اٹھی اور ایک بار پھر سب کمروں کا جائزہ لینے لگی کہ کوئی جاگ تو نہیں رہا۔ سب ہی گہری نیند میں تھے۔ جاسم کا میسج آیا تو میں جلدی سے دروازہ کی طرف مڑی۔ میں نے دروازہ کھولا تو وہ اندر آگیا۔ میں نے اسے روکنے کی کوشش کی کہ کوئی اٹھ جائے گا لیکن اس نے میری ایک نہ سنی۔ وہ سیڑھیوں کی طرف بڑھا اور میں بھی اسکے پیچھے پیچھے چلی گئی۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ چھت پہ کوئی ہے تو نہیں؟۔ میں نے نفی میں سر ہلایا اور وہ جلدی جلدی سیڑھیاں چڑھتے چھت پہ چلا گیا۔ میں لمحہ بھر نیچے رکی۔ ادھر ادھر نظریں دوڑائیں جب تسلی ہوئی تو میں بھی اسکے پیچھے پیچھے سیڑھیاں چڑھنے لگی۔
میں آخری سیڑھی پہ پہنچی تو چھت پہ بہت اندھیرا تھا۔ میں دوقدم آگے بڑھی، جاسم نے میرا ہاتھ پکڑا۔ میں نے ہاتھ چھڑایا تو اس نے پھر سے پکڑ لیا،
“کیا مسئلہ ہے تمہیں۔۔۔۔؟” میں چڑی کے بولی
“تمہیں کیا مسئلہ ہے۔۔۔۔؟” اس نے جواب دیا
یہ کہہ کے وہ میرے قریب آگیا، اتنا قریب کے اسکی سانسیں میرے چیرے سے ٹکرا رہی تھیں۔ میں ہڑ بڑا کے پیچھے ہٹی
“جاسم۔۔۔ ! دور رہو مجھ سے” میں نے اسکی چھاتی پہ ہاتھ رکھ کے اسے پیچھے کیا
“میں تمہارے پاس نہیں آ سکتا کیا؟” اس نے پوچھا
“نہیں یہ غلط ہے۔۔۔” میں نے جواب دیا
“کچھ غلط نہیں ہے، میں تم سےپیار کرتا ہوں تم مجھ سے تو، پھر غلط کیا ہے؟ شادی کرنی ہے ہم نے” میرے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کے وہ سمجھانے لگا
“شادی کرنی ہے، ہوئی نہیں ابھی” میں نے اپنے ہاتھ چھڑائے
“میں کچھ غلط کرنے کا نہیں کہہ رہا، بس تھوڑی دیر کے لیے تمہارے قریب رہ کے تمہیں محسوس کرنا چاہتا ہوں” وہ اپنی ضد پہ اڑا تھا
“جاسم۔۔۔ کیا بچوں والی ضد ہے تمہاری؟۔۔۔ کہہ دیا نا یہ غلط، میں ایسا کچھ نہیں کرنا چاہتی جس کے لیے بعد میں مجھے پچھتانا پڑے”
“تمہیں پاس آنے کو کہہ رہا ہوں، اس سے زیادہ کچھ نہیں، کیا میں تمہیں چھو بھی نہیں سکتا؟” وہ خفا ہوا
“اگر تمہیں یہ سب کرنا ہے تو میں نیچے جارہی ہوں” میں سیڑھیوں کی طرف بڑھی
“اچھا بابا۔۔۔ ! ناراض مت ہو، تمہیں میرا پاس آنا پسند نہیں تو میں کبھی ایسی ضد نہیں کروں گا” اس نے مجھے روکا
مجھے اس پہ شدید غصہ آرہا تھا۔ میں نے اسے جانے کو کہا تو وہ بولا کہ اتنے دن بعد ملے ہیں تھوڑی دیر بیٹھ کے باتیں کرتے ہیں۔ میں نے اپنے غصے پہ قابو پایا۔ چھت پہ بیٹھنے کی کوئی جگہ نہیں تھی اس لیے ہم نیچے ہی بیٹھ گئے۔ بیتے دنوں کے شکوے شکائیتیں چلتی رہیں۔ کام کی مصروفیت میں جو میں اسکو وقت نہیں دے پائی اسکے لیے معافی مانگی۔ شادی پہ نہ آنے کے لیے وہ بھی معذرت کرنے لگا۔ کچھ دیر کے لیے ہم یونہی خاموش بیٹھے رہے، اس نے خاموشی توڑی
“ایک بات کہوں۔۔۔ مانو گی؟”
“ہاں بولو۔۔۔” میں نے جواب دیا
“پہلے وعدہ کرو کہ مانو گی”
“پہلے بات بتاؤ گے پھر۔۔۔”
“نہیں پہلے تم وعدہ کرو”
“میں پہلے وعدہ نہیں کر سکتی، یقین رکھو، ماننے والی بات ہوئی تو مان لوں گی”
“ہوں۔۔۔۔ اچھا۔۔۔ میں بتا رہا ہوں، پر غصہ مت کرنا”
“اب بتا بھی دو، خومخواہ پریشان کر رہے ہو”
“کیا میں تھوڑی دیر کے لیے تمہاری گود میں سر رکھ لوں؟بہت دل کررہا ہے، پلیز منع مت کرنا”
“شٹ اپ ۔۔۔ ! جاسم”
“پلیز۔۔۔ پلیز”
میں نے اسے گھورا
“اچھا تم چاہو تو جو چادر تم نے لپیٹی ہوئی ہے وہ اپنی گود میں رکھ لو میں اسکے اوپر سر رکھ لیتا ہوں”
“اچھا ٹھیک ہے” میں مان گئی
میں نے اپنی گود میں چادر رکھی اور اس نے چادر کے اوپر سر رکھ دیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ بولا اب میرے بالوں میں اپنی انگلیاں پھیرتی رہو۔ کچھ ہی دیر گزری تو اسکی آنکھ لگ گئی ۔ میں بھی تھکی ہوئی تھی ویسے ہی بیٹھے بیٹھے سو گئی۔
فجر کی اذان پہ میں چونکی ۔ جلدی سے جاسم کو اٹھایا۔ امی کے جاگنے کا وقت ہوگیا تھا۔ میں جلدی سے سیڑھیاں اتری اور نیچے کے حالات کا جائزہ لیا، ابھی تک کوئی نہیں جاگا تھا۔ میں نے اسے اشارہ کیا اور وہ بھی نیچے آیا اور جلدی سے دروازہ کھول کے باہر چلا گیا۔ میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ جاسم کا اور میرا رشتہ بے شک سالوں پہ محیط تھا لیکن اس طرح ہم پہلی بار ملے تھے۔ میں دروازہ بند کرکے پیچھے مڑی تو میرے سامنے عابدہ آپی کھڑی تھیں۔ انکے ہاتھ میں دودھ والا فیڈر تھا۔ اوہ میرے خدایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے پاؤں کے نیچے سے زمین سرکی۔۔۔ دل کر رہا تھا کہ ابھی زمین پھٹے اور میں اس میں غرق ہو جاؤں۔ میرے جسم پہ کپکی طاری ہوگئی ، پل بھر میں پورا جسم پیسنے سے شرابور ہوگیا۔۔۔۔۔ اور میں بت بن کے آنکھیں پھاڑے عابدہ آپی کو دیکھی رہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...