وہ رات اس کے بیاہ سے ایک دن پہلے کی رات تھی۔
نیند اس سے کوسوں دور تھی، وہ اپنے نرم نرم بستر پر کروٹیں بدل رہی تھی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے بستر میں کانٹے چبھے ہوئے ہوں۔ اس کا دل ایک نامعلوم خوف سے دھڑک رہا تھا۔ اس کی روح اپنے بو جھل بدن سے نکل کر کمرے کی ہر بڑی چھوٹی چیز سے لپٹ لپٹ کر روتی ہوئی، گھر کی دیواروں سے گلے ملتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔
نصف سے زیادہ رات تک پورا گھر جاگتا رہا تھا، دھوم دھام، چہل پہل، گہما گہمی، گانا بجانا ہوتا رہا تھا۔ اس وقت رات کے دو بج رہے تھے۔ رات کا سناٹا دبی دبی سرگوشیاں کر رہا تھا۔ برا بر ہی ایک چارپائی پر اس کی دادی موٹی سی رضائی میں سمٹی سمٹائی گٹھری سی بنی پڑی تھیں۔ ان کے خراٹے کمرے اور دالان میں چھائے ہوئے خواب ناک سکوت کوچونکا چونکا دیتے۔ برابر والے کمرے میں اس کا باپ، ماں اور چھوٹا بھائی اور دالان میں مہمان عورتیں اور بچے سوئے ہوئے تھے۔ لمبی بوجھل رات اس کے دل پر چٹان کی مانند چھاگئی تھی۔ وہ بار بار پہلو بدلتی رہی، جلتی آنکھوں سے خلا میںنجانے کیا تلاش کرنے کی کوشش کررہی تھی۔ اس کے کمرے کے بڑے سے طاق میں ایک چھوٹی سی لالٹین روشن تھی، ہلکی ہلکی روشنی کی زرد کرنیں تاریکی کے پردے پر جال سا بن رہی تھیں۔ دالان میں ایسی دو اور لالٹین اندھیرے سے کش مکش کر رہی تھیں۔ ایک اس کے کمرے کے دروازے کے پاس اور دوسری کچھ فاصلے پر دالان سے صحن تک پہنچنے والی سیڑھیوں کے نزدیک رکھی تھی۔
وہ آہستہ سے اُٹھی، پلنگ پر سے اُتر کر دالان میں سوئی عورتوں اور الٹے سیدھے پڑے ہوئے بچوں سے بچتی بچاتی دالان کی سیڑھیوں تک پہنچ گئی۔ اس نے سیڑھیوں کے ساتھ رکھی ہوئی گھڑونچیوںپر ہاتھ رکھا احساسات کی انگلیوں سے ان مٹکیوں کو چھوا پھر اس کی نگاہیں سیڑھیوں پر سے اُتر کر آنگن میں پھیل گئیں۔ وہ وہیںسیڑھیوںپر بیٹھ گئی۔ چاروں اور رات کا پورا تسلط تھا۔ تاریکی سائیں سائیں کرتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی، اس نے آنکھیں ملیں اور غور سے تاریکی میں جھانکا۔ اسے نہ تو بیچ آنگن میں کھڑا امرود کا درخت نظر آیا اور نہ اس کی نگاہیں اس پیڑتک پہنچ سکیںجس کے سایے میںاس کی پیاری لیلیٰ اس کی مانند جاگ رہی تھی یا شاید نیند کے آغوش میں پہنچ گئی تھی۔ اس نے باہر کی جانب اپنے کان لگائے کہ شاید لیلیٰ کی گردن میں پڑے ہوئے گھنگھرو بج رہے ہوں، لیکن اسے کچھ سنائی نہیں دیا۔ اس نے ڈالیوں اور پتوں کی سرسراہٹ کی آہٹ لی، لیکن وہاں سناٹے کے سوا کچھ نہ تھا۔ البتہ جھینگروں کا شور اس کے اعصاب پر اُبھر نے لگا۔
رات کے چار بج گئے، صبحِ کاذب کی ہلکی سی روشنی سارے آنگن میں رینگنے لگی۔ امرود کے پیڑ کی ڈالیاں، ٹہنیاں، پتوں کے جھنڈ کسی غیرمرئی مخلوق کی مانند دکھائی دینے لگے۔ آسمان پر دودھ کے چھینٹے پڑگئے اور دور آنگن کے ایک کنج میں پیڑ کا سایہ کسی لاٹھی ٹیک کر چلنے والے بو ڑھے کی مانند دکھائی دینے لگا۔ اس کی نگاہیں نیچے اتریں لیلیٰ کا سفید بدن کسی معصوم فرشتے کا روپ دھا رے پیپل تلے کھڑا تھا۔ وہ یوں ہی سوچتی رہی۔ اسے اچانک خوف ہوا اگر اسے کسی نے یہاں دیکھ لیا تو کیا سو چے گا؟
دوبارہ تاریکی اپنے کالے کالے پر پھیلانے لگی تو اسے اطمینان ہوا۔ وہ اُٹھی اور آنگن کی ٹھنڈی ٹھنڈی مٹی پر چلنے لگی۔ سردی کی ایک لہر پیروں سے دماغ تک پہنچ گئی اور آنکھوں میں سلگتے ہوئے اشکوں کے دیپ ٹمٹمائے، مگر جلد ہی سرد ہوا کے جھونکوں نے انھیںبجھا دیا۔ وہ اپنے دل میں احساسات کو لہریں مارتا ہوا محسوس کر رہی تھی، لیکن اس جذبے کی وہ کوئی تفسیر نہیں کر سکتی تھی جس نے اس مایوں بیٹھی دلہن کو اس کے پیروں پر اتنی رات گئے کھڑا کر دیا تھا۔
آج وہ اس گھر سے رخصت ہو رہی ہے۔ وہ اس گھر کو، لیلیٰ کو، پیپل کے پیڑ کو، امرود کے درخت کو، اپنے بابا کو، ماںکو، بھائی بہنوںکو، سکھیوںکو، اپنی آرزوئوں اور ارمانوں کو سب کو چھوڑ کر جا رہی ہے۔
جھینگروں کا شور دب گیا۔ امرود کی ڈالیاں، ٹہنیاں، پتے سب آ ہستہ آہستہ ہلنے لگے، مٹی کی ہلکی ہلکی خوش بو ماحول میں جذب ہونے لگی۔ ہلکی ہلکی سرمئی روشنی تمام فضا میں پھیلنے لگی۔ اس کے اپنے ننگے پائوں کی دھیمی چاپ اس کے احساسات میں بلند ہوگئی، وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی گھروندے کے چبوترے تک گئی جہاں وہ اپنی سکھیوں حنا، سارا، زینب اور گلابو کے ساتھ ہنڈ کلیا کھیلتی تھی، اپنی گڑیا کی شادی کرتی تھی اور جب وہ اپنی گڑیا کو رخصت کرتی تھی تو سچ مچ بہت روتی تھی۔ سب اس کا مذاق اڑاتیں، زینب اس کو لپٹا لیتی اور کہتی، ’’تو نہ رو، جب کہے گی تیری دھی کو تیرے پاس بھجوا دوں گی۔‘‘ اس کا جی چاہا دروازہ کھول کر باہر نکل جائے اور آزاد پنچھی کی طرح گائوں کی اونچی نیچی پگڈنڈیوں پر اپنی سہیلیوں کے ساتھ اُڑتی پھرے۔
اچا نک لیلیٰ کی گر دن میں پڑی گھنٹی نغمہ بار ہوگئی۔ ننھے گھنگرو گنگنانے لگے اور سارا ماحول موسیقی کے تاروں پر رقص کرنے لگا۔ مہرالنسا سے مزید ضبط نہ ہوسکا۔ اس نے احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا، دوڑتی ہوئی آگے بڑھی، لیلیٰ سے لپٹ گئی اور اس کے کانوں میں سرگوشی کرنے لگی، ’’لیلیٰ! آج میں دلہن بنائی جائوں گی، ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں ہوں گی، باجے بج رہے ہوں گے، بوڑھے مسکرا رہے ہوں گے، جوان قہقہے لگا رہے ہوں گے، بچے تالیاں بجا بجا کر ناچ رہے ہوں گے، مہاجن رام لعل جس سے ابا نے میرے بیاہ کے لیے قرض لیا ہے، اصل اور سود کے حساب کتاب پر جی ہی جی میں خوش ہو رہا ہوگا۔‘‘ بولتے بولتے وہ ایک دم چپ ہوگئی، اس نے دیکھا لیلیٰ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ ’’لیلیٰ! تو رو رہی ہے تو نے بھی میرے دکھ کو محسوس کرلیا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنی باہیں لیلیٰ کی گر دن میں حمائل کر دیں۔
سسکیوں اور آہوں سے بھری ہوئی رات جلد جلد وقت کی پگڈنڈیوں پر دوڑنے لگی۔ درختوں کی ٹیڑھی میڑھی ڈالیوں پر پتوں کے نیچے سوئی ہوئی چڑیاں جاگیں اور ساتھ ہی ان کے چہچہے بھی جاگے۔ مہرالنسا کی باہیں لیلیٰ کے گلے سے جدا ہوئیں، بوجھل پائوں سے دھیرے دھیرے چلتی ہوئی وہ اندر کی طرف چلی گئی۔ دالان میں سب لوگ اسی طرح سوئے ہوئے تھے۔ دھڑکتے دل کے ساتھ اس نے کمرے میں قدم رکھا، اس کی دادی بھی اسی طرح بے ہوش پڑی سو رہی تھی۔
نیم روشن، نیم تاریک ماحول میں مہرالنسا کی ماں کا تھکا تھکا سا بوڑھا جسم دھیرے دھیرے اجاگر ہو تا چلا گیا جیسے وہ عدم وجود سے اچانک وجود میں آیا ہو۔ مہرالنسا کی چارپائی کے سرھا نے پہنچ کر اس وجود کا بو ڑھا جسم تھو ڑا سا آگے کی جانب جھکا۔ مہرالنسا چارپائی پر بے سدھ پڑی تھی۔ اس وجود نے اپنی بیٹی سے سرگوشی کے لہجے میں کہا، ’’بیٹی ہمیں معاف کر دینا۔ ہم نے تو پوری برادری کے سامنے تجھے شہاب الدین کے نام کر دیا تھا۔ سب ہی جانتے تھے کہ تم ایک دوسرے کو پسند کرتے ہو مگر کیا کریں۔ زمیں دار کے بندو قوں والے آئے، گلی میں ہمارے گھر کے چاروں گوشوں میں بندوقیں چلا کر اعلا ن کردیا، ’مہرالنسا زمیں دار صاحب کے بیٹے کی ہوئی۔ سب خبر دار ہو جائو۔‘ جس لڑکی کے لیے بندوقیں والے اعلان کرتے ہیں اس کا رشتہ کوئی نہیں لاتا۔ شہاب کے لوگ بھی پیچھے ہٹ گئے۔ یہی شا ید رب کی مرضی ہے۔‘‘ اس وجود نے بیٹی کے آگے ہاتھ جوڑے اور آگے بڑھ کر اس کی پیشانی کو چوما، جو بے جان اور سرد تھی۔ قریبی مسجد میں فجر کی اذان بلند ہوئی۔ تڑکا ہوا دن نکل گیا۔ ایک ایک کر کے سارے سونے والے جاگ اُٹھے۔ مہرالنسا نہیں جاگی، کیسے جاگتی۔ وہ اپنی رخصتی سے پہلے ہی رخصت ہو چکی تھی۔ اس نے اپنی جان دے کر زمیں دار اور اس کے کارندوں کی بندوقیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بے کار کر دی تھیں۔