وزارت صحت کی خالی اسامیوں کے لئے انٹرویو کا سلسلہ جاری تھا۔ دوسو انار بیس ہزار بیمار ایک عظیم مسئلہ تھا اس لئے درخواستیں ان کلرکوں کے حوالے کر دی گئیں جو علم طب کی الفب سے بھی واقف نہیں تھے۔ ان بیچاروں کا کام مختلف تکنیکی وجوہات کی بناء پر درخواستوں کو رد کرنا تھا۔ ان لوگوں نے یہ کام بڑی بیدردی سے کیا اور کاٹ چھانٹ کر اس فہرست کو بیس گنا مختصر کر دیا لیکن ایک ہزار امیدوار اس چھلنی سے بھی نکل گئے۔
اب ان سب کو انٹرویو کیلئے بلانا ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ ایک امیدوار کے لئے تین منٹ کا وقفہ بھی رکھا جاتا تو تین ہزار منٹ یعنی پچاس گھنٹہ گویا دس دن، ہر ہفتہ میں دو دن چھٹیاں تواس طرح دو ہفتوں کی مصروفیت طے ہو گئی۔ لیکن ان دو ہفتوں کی محنت و مشقت کے بعد انتخاب و تعین کا مرحلہ مزید دشوار گذار تھا۔
اس مشکل کا آسان سا حل یہ نکلا کہ پہلے سفارشی امیدواروں کو نمٹایا جائے۔ سفارشات کی فائل منگوائی گئی وہ بھی اچھی خاصی طویل تھی۔ وزراء کی سفارشات کو بے چوں چرا صاد کہہ دیا گیا۔ اس کے بعد دوسرے اہم سرکاری ملازمین اور سیاسی رہنماؤں کی باری آئی اور ان کا بھی حسب حیثیت احترام کیا گیا اب کمیٹی کے ممبران نے اپنی اپنی فہرستیں نکالیں اور صدر نشین نے اپنی بیوی کے سالے کی بھتیجی کا نام بھی پیش کر دیا۔
دیکھتے دیکھتے خالی اسامیوں کے خانے بڑی تیزی کے ساتھ پر ہوتے چلے گئے اور جب یہ سلسلہ تمام ہوا تو کونے میں ایک اسامی ہنوز اپنی تنہائی پر مغموم کھڑی تھی۔ کمیٹی کے سارے لوگ خوش تھے کہ تمام کام نہایت خوش اسلوبی سے ہوئے۔ ایک آخری اسامی کے لئے دوبارہ فائل کی دیکھنے کے بجائے یہ طے پایا کہ قرعہ اندازی کی بنیاد پر کسی امیدوار کو منتخب کر کے دفتر بند کر دیا جائے۔ اس تجویز پر بھی اتفاق رائے ہو گیا اور اس طرح انتخاب عالم وزارت صحت میں منتخب ہو گیا۔
اس کاروائی کا دوسرا مرحلہ امیدواروں کے تقرری کا تھا۔ بڑے شہروں میں بڑے سفارشی اور پھر درجہ بدرجہ امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ ہوتا گیا۔ سب سے آخر میں انتخاب عالم کو چٹا گانگ سے ایک سو تیس کلومیٹر دور پہاڑی پر واقع بندر بن کے ابتدائی طبی مرکز کے حوالے کر دیا گیا۔ لوگ باگ ایک دوسرے کو مبارک سلامت کرتے ہوئے اپنے فرض منصبی کی ادائیگی پر نازاں اور شاداں گھروں کی جانب روانہ ہو گئے۔
ڈاکٹر انتخاب عالم کو اس بات کا یقین تھا کہ وہ اس بار بھی ناکام ہو جائے گا۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ اس کے اندر خود اعتمادی کی کمی تھی۔ یا اس نے تیاری نہیں کی تھی۔ انتخاب کا شمار کالج کے ذہین طلباء میں ہوتا تھا۔ لوگ اس کی شرافت کی قسمیں کھاتے تھے۔ لیکن جس دورِ پر فتن میں نہ تو مارکسیٹ دیکھی جاتی ہو اور نہ کردار کے بے معنی سرٹیفکیٹس پر نگاہ غلط ڈالی جاتی ہو۔ اور پھر سوالات بھی ایسے کئے جائیں کہ جس سے امیدوار کو اپنے جوہر دکھانے کا موقع میسر نہ آئے تو انتخاب عالم جیسا ہونہار امیدوار کچھ کرنا چاہے بھی تو کیا کرے؟
سرکاری ملازمت میں سفارش کا خط تیر بہدف کا کام کرتا تھا۔ انتخاب عالم کے پاس اس کے علاوہ سب کچھ تھا جو سود تھا۔ انتخاب اس قدر مایوس ہو چکا تھا اس نے درخواست نہ دینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ وہ تو نہ جانے کیوں آخری دن اس نے بادل ناخواستہ اپنی بوڑھی ماں کے کہنے پر درخواست روانہ کر دی اور تاخیر سے ہونے والی یہ حرکت اس کی کامیابی کا ضامن بن گئی۔
اپنی اس غیر متوقع کامیابی پر وہ قدر خوش تھا کہ اس نے یہ بھی پتہ لگانے کی کوشش نہیں کی کہ تقرر کہاں ہوا ہے؟ ویسے کوشش بھی رائے گاں ہی جاتی۔ بندربن کا نام کسی نقشہ میں موجود نہیں تھا۔ وہاں ہوائی جہاز تو درکنار ریل گاڑی بھی نہیں جاتی تھی۔ کافی محنت کے بعد پتہ چلا چٹا گانگ سے تقریباً ڈیڑھ سو کلومیٹر کا پہاڑی فاصلہ خراماں خراماں بس کے ذریعہ پانچ چھ گھنٹوں میں طے کیا جاتا ہے تب جا کر بندربن نظر آتا ہے۔
انتخاب عالم کو ان سب چیزوں کی پرواہ کب تھی۔ وہ ملازمت کے لئے بے حد ترسا ہوا تھا اس لئے جلد از جلد ڈیوٹی پر پہونچ جانا چاہتا تھا۔ ڈھاکہ سے چٹا گانگ کے راستے میں اس نے ہم سفر سواریوں سے بندربن کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی تو صرف یہ معلوم کر سکا ان پہاڑیوں کے دشوار گذار راستوں پر شام میں بس نہیں جاتی۔ وہ چونکہ شام میں چٹاگانگ پہونچنے والا تھا اس لئے ان کی بات پر یقین کرنا نہیں چاہتا تھا۔ اس نے حیرت سے سوال کیا یہاں کی بسوں میں بتی نہیں ہوتی؟ لوگوں نے بتایا گاڑی میں تو بتی ہوتی ہے لیکن سردیوں میں دھند کے باعث رات کے وقت بس چلانا ممکن نہیں ہوتا۔
انتخاب کے لئے شب گذاری ایک مسئلہ تھا وہ اسٹیشن سے سیدھا بس اڈہ پہونچا۔ اور اسے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ بندربن کی ایک بس کھڑی تھی اور سامان سے لدے پھندے مسافر اس کے آس پاس جمع تھے۔ انتخاب نے اپنی پیٹھ تھپتھپائی اور سخود سے کہا اچھا ہی ہوا ان بے وقوفوں کی بات نہیں مانی۔ لیکن خوش فہمی جلد ہی رفع ہو گئی۔ دیگر مقامات پر جانے والی بسیں تو کچھ دیر میں اِدھر اُدھر نکل گئیں مگر بندربن کی بس اپنی جگہ ساکت و جامد تھی
ایسا لگتا تھا گویا کہیں جانے کا ارادہ نہیں ہے۔ دریافت کرنے پرڈرائیور نے بتایا کہ صاحب ہم بھی انسان ہیں دن میں کام کرتے ہیں رات میں آرام کرتے ہیں۔ آپ بھی جا کر آرام کیجئے اور صبح میں آئیے ہم آپ کو لے چلیں گے۔ اچانک انتخاب عالم کی انسان دوستی پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا گیا تھا۔
اس نے کہا اچھا تو آپ صبح جاتے ہو اور شام کو آرام کرنے کیلئے واپس آ جاتے ہو؟
ڈرائیور مسکرایا اور بولا جناب آرام کی خاطر واپس آنا ضروری تو نہیں؟ ہمارے لئے تو یہ ساری دنیا سرائے ہے۔ یہاں کیا اور وہاں کیا؟ ایک دن یہاں سو جاتے ہیں اور دوسرے دن بندربن میں اسی طرح گذر رہی ہے اپنی زندگی۔
بہت خوب کیا میں کل صبح کے لئے اپنی نشست مختص کروا سکتا ہوں۔
ڈرائیور نے پھر حیرانی سے اس کی جانب دیکھا اور بولا صاحب کل صبح کا کیا بھروسہ کل ہو نہ ہو؟
کیا مطلب؟
مطلب یہ کہ اگر ہو بھی تو ممکن ہے ہمارے مقدر میں نہ ہو۔
کیسی عجیب باتیں کرتے ہیں آپ؟
یہ عجیب بات نہیں ہے صاحب نہ جانے کتنے لوگ ایسے ہیں جو کل ہمارے ساتھ تھے آج نہیں ہیں اور نہ جانے کتنے آج ہیں جو کل نہ ہوں گے۔
ہاں ہاں وہ تو ٹھیک ہے لیکن میں بس کی نشست کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔ دیکھئے اس بس میں اندر باہر اور اوپر نیچے جس قدر جگہ ہے اسی قدر مسافر آتے ہیں اور کہیں نہ کہیں سما جاتے ہیں اس لئے آپ زیادہ فکر نہ کریں رات آرام سے سوئیں اور صبح سات بجے سے قبل آ جائیے گا ورنہ پھر پرسوں میرے بھائی کے ساتھ آپ کو جانا ہو گا۔
کیا مطلب؟
مطلب یہ ہے کہ ہم دو بھا ئی ہیں ایک آتا ہے تو دوسرا جاتا ہے۔ ایک جاتا ہے تو دوسرا آتا ہے۔ بس اسی طرح زندگی کا سفر طے ہوتا جاتا ہے۔ اور میں بھی چلتا ہوں۔ سارے مسافر اپنے سامان لے کر جا چکے ہیں۔
انتخاب عالم نے مایوسی کے عالم میں بس اڈے کے چاروں جانب دیکھا تو اسے دور سواگت لاج کا بورڈ دکھائی پڑا۔ اس سے پہلے اس نے نہ جانے کتنی بار مختلف اسٹیشنوں اور بس اڈوں کے باہر اسی طرح بورڈ دیکھے تھے جن پر سواگت لاج لکھا ہوتا تھا۔ وہ سوچتا تھا کہ آخر ہر جگہ یہ سواگت لاج کیوں ہوتی ہے؟ لیکن آج اس کی سمجھ میں سواگت کے معنی اور اس کی ضرورت آ گئی تھی۔ وہ انتخاب کی اپنی ضرورت جو تھی اگر ضرورت کسی مشترک مفاد سے وابستہ ہو جائے تو بامعنی ہو جاتی ہے ورنہ بے معنی ہی رہتی ہیں۔
انتخاب امید کے اس ٹمٹماتے ہوئے دیئے کی جانب چل پڑا۔ سرائے کے راستے میں اسے کئی ہوٹلوں کی بلند بانگ عمارتیں نظر آئیں لیکن انتخاب جانتا تھا ان میں قیام فی الحال اس کے بس کی بات نہیں ہے۔ ابھی تو اسے اپنی پہلی تنخواہ کے لئے اچھا خاصا انتظار کرنا ہے۔ اسے یقین تھا کہ خستہ حال سواگت لاج ضرور اس مفلوک الحال مسافر کو اپنے دامن میں پناہ دے گی۔ اس دنیا میں لوگ اپنوں کا یعنی اپنے جیسوں کا خیال تو رکھتے ہی ہیں۔ یا یوں کہہ لیں کہ لوگ اپنا خیال اپنے جیسوں سے رکھواتے ہیں یہ سوچتا ہوا جب وہ سواگت لاج کے مد مقابل پہونچا تو کیا دیکھتا ہے کہ یہ دروازہ بھی بند ہے۔
یہ کیسا استقبال ہے؟ ایک مدھم سے بلب کے نیچے گھنٹی کا بٹن دیکھ کر امید کی ایک اور کرن جاگی۔ اپنا سامان نیچے زمین پر رکھ کر انتخاب نے سرخ بٹن دبا دیا۔ چند لمحوں کے بعد قدموں کی آہٹ سنائی دی اور دھڑ سے دروازہ کھلا۔ سامنے کیشو بنیان اور نیکر پہنے مسکرارہا تھا۔ اس سے پہلے کہ انتخاب کچھ بولتا کیشو بولا آیئے صاحب تشریف لائیے ہم آپ کا سواگت کرتے ہیں۔
انتخاب نے پوچھا یہ بتاؤ کہ رات گذارنے کے لئے کوئی کمرا ہے۔
کیشو بولا صاحب اندر تو آئیے۔ کچھ نہ کچھ انتظام ہوہی جائے گا۔ کیشو نے ایک بیگ اٹھایا انتخاب دوسرا اٹھا کر اندر آ گیا۔
اب کیشو نے پوچھا فرمائیے صاحب آپ کو کیسا کمرا چاہئے؟
کیسا کیا مطلب کمرا کیسا ہوتا ہے تم نہیں جانتے؟
کیشو نے دانت نکال دیئے اور بولا صاحب کمرے کے بارے میں تو جانتا ہوں لیکن آپ کی جیب کے بابت میں میری معلومات کم ہے اس لئے پوچھ رہا تھا ہمارے پاس پانچ سو سے لے کر دوسو تک کے کمرے ہیں۔
کیا؟ پانچ سو سے دو سو۔ کیسامذاق کر تے ہو کیشو؟ یہ بات تم باہر بتلا دیتے تو ہم وہیں سے لوٹ جاتے۔ بھئی ایک رات بسر کرنے کی خاطر پانچ سو تو بہت ہوتے ہیں۔
کیشو بولا صاحب لوٹ کر کہاں جاتے؟ اس شہر میں سب سے سستا لاج یہی ہے ویسے ہم سے بھی سستے کچھ ہیں لیکن یہاں سے اس قدر دور کہ آٹو رکشا سے آنے جانے میں پچاس روپئے کا خرچ الگ اور دوسری مصیبتیں اور خطرات اضافی۔
لیکن بھئی پانچ سو روپئے ہم کہاں سے لائیں یہ تو بہت زیادہ ہے؟
دیکھئے جناب قیمت زیادہ ہوتی نہیں لگتی ہے۔ وقت وقت کی بات ہوتی ہے کچھ لوگوں کو پہلے ہمارے پانچ سوزیادہ لگتے تھے بعد میں ویلکم انن کے پانچ ہزار بھی زیادہ نہیں لگتے ویسے دو سو بھی تو کہا تھا آپ پانچ میں اٹک گئے۔
انتخاب بولا بھائی سچ تو یہ ہے کہ دو سو بھی فی الحال میرے لئے زیادہ ہیں۔
اچھا تو کوئی بات نہیں میرے پاس اس کا بھی حل ہے۔ آپ میرے کمرے میں ٹھہر جائیے۔
کیا مطلب؟
مطلب یہ ہے کہ میرے کمرے میں دوبستر ہیں ایک میرا اور ایک میرے بھائی مادھو کا۔
انتخاب کو ڈرائیور کا بھائی یاد آ گیا وہ بولا جو ابھی بندربن گیا ہوا ہے؟
جی ہاں صاحب آپ تو انتریامی ہیں آپ نے بالکل صحیح پہچانا۔
اور جو کل صبح آ جائے گا۔
جی ہاں جی ہاں صاحب آپ کا اندازہ درست ہے۔
اور پھر تم چلے جاؤ گے اور پھر وہ چلا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔
جی ہاں صاحب آئیے میں آپ کو مادھو کے بستر کی جانب لے چلتا ہوں۔
کیشو کے ساتھ انتخاب ایک نیم تاریک کمرے میں داخل ہوا جہاں دو بستر بچھے ہوئے تھے۔ کیشو نے کہا وہ والا۔ کھڑکی کے پاس۔ آپ جب چاہیں کھڑکی کھولیں۔ جب چاہیں بند کریں یہ کھڑکی اور کمرا دونوں آپ کے ہیں؟
لیکن اس کا کرایہ؟
آپ سوچ سمجھ کر دے دیجئے گا۔
نہیں بھائی میں صبح صبح کسی بحث و تکرار میں نہیں پڑنا چاہتا۔
ارے صاحب اگر ہم ویسے آدمی ہوتے تو دروازے سے ہی لوٹا دیتے۔
اب آپ آرام فرمائیے صبح ملیں گے۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...