نوٹ:صبا اکبر آبادی کلاسیکی غزل کی روایت کا ایک اہم نام ہے۔غزل کے علاوہ صبا صاحب کا شمار جدید مرثیہ کے بانی شعراء میں بھی ہوتا ہے۔انہوں نے اپنی بہتر(۷۲) برس کی ادبی زندگی لفظوں کے مکانوں میں گزاری ہے اور کوئی صنفِ ادب ایسی نہیں ہے جہاں اُن کے قلم نے فکر و خیال کی رنگینیوں کے نقوش نہ چھو ڑے ہوں۔غالب کے مکمل دیوان کی تضمین اور تمام فارسی رباعیات کے اردو رباعی میں ترجمہ کے تذکرے کے ساتھ ’’جدیدادب‘‘ شمارہ ۸میں اپنے قارئین کو یہ بھی بتا چکے ہیں کہ صبا صاحب کو یہ اولیت بھی حاصل ہے کہ انہوں نے عمر خیام کی بارہ سو رباعیات کا رباعی میں ترجمہ کیا ہے اور غالباََ امیر خسروؒ کی بھی تمام فارسی رباعیات کو اردو رباعی میں منتقل کرنے والے وہ پہلے شاعر ہیں،اِس مرتبہ ہم امیر خسروؒ کی چند فارسی رباعیات کے ساتھ صبا صاحب کا ترجمہ پیش کر رہے ہیں۔۔۔۔(نذر خلیق)
یارب کہ امان نہ آب و گل دہ مارا توبہ زنگاران چگل دہ مارا
در عالم بیدلی نما رہ وانگاہ چون دل برود ز دست دل دہ مارا امیر خسرو
توفیقِ پناہِ آب و گل دے یارب یا حسن کا قربِ مستقل دے یارب
مایوسی میں اک راہ دکھا، اس کے بعد قابو میں رہے دل وہ دل دے یارب صبا اکبرآبادی
اے آنکہ شدہ طفیلت آدم پیدا گشت از سببِ تو چرخِ اعظم پیدا
نو ر تو نگنجید چو در یک عالم بہر تو خدا ، کرد دو عالم پیدا امیر خسرو
صدقے میں ترے ہوئے تھے آدم پیدا ہے تیرے سبب سے چرخِاعظم پیدا
جب نور سما یا نہ ترا عالم میں اِس واسطے کر دیئے دو عالم پیدا صبا اکبر آبادی
شیخی بحق نظام الدین شد مارا گنجور خدا ست عالم بالا را
صاحبِ قدمیست ہر مریدش کہ کند بر کشتیء کفش عبرہ نہ دریا را امیر خسرو
جب شیخ نظام دین خدا نے بخشا پھر ہوگیا کونین پہ قبضہ اپنا
ہے اِن کے مریدوں کو یہ طاقت حاصل صحرا کی طرح سے پار کر لیں دریا صبا اکبر آبادی