بتاریخ 17؍ ماہ اپریل 1847 عیسوی وقت یک پاس شب گذشتہ ہمراہ صاحب ممدوح بسواری فیل لاہور سے روانہ ہوا۔ اثناے راہ میں مقام ننگل سے دو سوار بطور اردلی سواے سواران لاہور ہمراہ ہوے۔ شباشب سفر کر کے بتاریخ ۱۸؍ وقت یک پاس روز برآمدہ بمقام قلعہ نودہ سنگھ جو بفاصلہ بیس کوس مقام لاہور سے بجانب جموں واقع ہے، فروکش ہوے۔ یہ مقام قابل فرودگاہ کے نہیں بلکہ اس میں فقط ایک دکان بقال کی اور قریب ساٹھ مکان باشندوں کے تھے۔ سردار جواہر سنگھ بستنی وہاں کا علاقہ دار تھا۔ وقت سہ پہر مسمیٰ رتّا چودھری مع دو تین اور اشخاص کے ملاقات کو آیا۔ رعایا وہاں کی بہت خوش معلوم ہوتی تھی۔
بتاریخ ۱۹؍ وقت صبح روانہ پیشتر ہوے۔ چار کوس راستہ طے کر کے مقام گوجرالوالہ پہنچے۔ وہاں ایک قلعہ سردار ہری سنگھ نلوا نے تعمیر کیا ہے، اس کو دیکھا چنداں مستحکم نہیں۔ بطور باغ ہے مگر چار دیواری پختہ اور بروج سے آراستہ ہے۔ سیر قلعۂ مذکور کر کے وہاں سے بھی روانہ ہوے اور دو کوس آگے جا کر بمقام لوئیانوالہ قیام کیا۔ وہ مقام بہ نسبت مقام اول کے بہت اچھا ہے۔ اس میں بارہ دکانیں ہیں اور سو سے زیادہ مکانات۔ علاقہ دار وہاں کا دیوان گنپت رائے میگزینیا ہے اور اس کی طرف سے شام سنگھ کارندہ حاضر باش ہے۔
بتاریخ ۲۰؍ وقت صبح روانہ ہو کر بمقام جامگی جو بفاصلہ ۱۳ کوس کے ہے، وارد ہوے۔ یہ بہت بڑا اور اچھا مقام ہے۔ قریب آٹھ سو کے مکانات ہیں اور ڈیڑھ سو سے زیادہ دکانیں ہیں۔ وہ مقام بہت پر رونق ہے، متعلق بضلع وزیر آباد۔ اور رام چند پسر ورما وہاں کا علاقہ دار ہے اور اس کی طرف سے گورو داس اور سوکھا نند کار پرداز ہیں اور تمام علاقہ نہایت سر سبز و شاداب نظر آتا ہے۔ ہر طرف زراعت سبز ہے اور زمیندار بھی اپنے کام میں مشغول اور مطمئن معلوم ہوتے ہیں۔ نیشکر بھی وہاں اچھی پیدا ہوتی ہے۔
بتاریخ ۲۱؍ صبحی روانہ ہو کر بمقام سیالکوٹ بفاصلہ آٹھ کوس کے پہنچے۔ دیکھا تو بہت اچھا اور قدیم شہر ہے۔ مشہور ہے کہ راجا شالواہن نے اس کی بنا ڈالی تھی اور راجا مذکور تین سو برس قبل از پیدائش حضرت عیسی کے حکمران تھا۔ اس میں ایک قلعہ نہایت مستحکم تعمیر ہے۔ قلعے کے اندر آبادی مکانات کی نہیں ہے، صرف چار دیواری از بس پختہ اور سنگین بنی ہوئی ہے اور بروج بہت مضبوط اور بکثرت اب تک موجود ہیں۔ آبادی اس شہر کی بہت اچھی ہے۔ ہر شے دستیاب ہوتی ہے اور ہر قسم کی اجناس بکثرت بازاروں میں نظر پڑتی ہیں۔ دیوان ٹیک چنڈ وہاں کا علاقہ دار ہے اور اس کی طرف سے گور دتّامل اور گنڈا مل کارندے ہیں۔ بندو خان پنچ اس شہر کا اور اکثر زمیندار ہماری ملاقات کو آئے تھے۔ یہاں ایک چھاؤنی ریاست لاہور کی اب قرار پائی ہے اور کرنیل رچھپال سنگھ بسرکردگی ایک پلٹن سردار تیج سنگھ اور چھ ضرب توپ کے وہاں مقیم ہیں۔ آب و ہوا اس شہر کی بہت خوش اور صاف ہے اور باشندے خوش رو و خوش خو۔
بتاریخ ۲۲؍ وقت صبح کوچ کر کے بمقام بڈھیال برہمنان جو بفاصلہ ۱۱ کوس کے سیالکوٹ سے ہے وارد ہوے۔ یہ مقام علاقہ مہاراجا جموں میں ہے اور دیہ کلاں ہے۔ بلند زمین پر آباد ہے، قریب ایک سو پچاس مکانات خام پختہ اور پچاس دکانوں کے اس میں واقع ہیں۔ اور ایک قلعہ بھی ہے گو چندان مستحکم نہیں مگر آباد ہے۔ اثناے راہ میں سیالکوٹ سے سوچت گڑھ تک جو بفاصلہ 7 کوس کے ہے کہیں نشان زراعت کا نظر نہیں آیا اور سوچت گڑھ سے بڈھیال تک البتہ زراعت موجود ہے اور عملداری جموں سوچت گڑھ سے ایک کوس آگے چل کے شروع ہوتی ہے۔ اور اس عملداری میں زراعت بھی اچھی نسبت علاقہ سیالکوٹ کے نظر آئی۔ ارجن سنگھ کارندۂ مہاراجا صاحب ملاقات کے واسطے آیا اور چودھری بشن مع دو تین زمینداروں کے بھی ڈیرے پر آیا۔ اس وقت ابر آسمان پر نمودار تھا اور باد تند چل رہی تھی۔ طوفان گرد زمین آسمان تک اُڑ رہا تھا۔
بتاریخ ۲۳؍ صبحی بجانب جموں روانہ ہوے اور سات کوس راہ طے کرکے برلب دریاے توی وارد ہوے، عبور دریا کیا اور داخل جھاڑی جموں ہوے۔ وہ جھاڑی بہت مشہور اور معروف گویا حصن حصین جموں ہے۔ ایک کوس اس جھاڑی کا راستہ طے کیا اور بدروازۂ جموں جو بنام گومٹ دروازہ مشہور ہے پہنچے۔ دیکھا تو دروازہ کچھ چنداں مضبوط نہیں مگر بلندی پر ہے اور ساری آبادی جموں کی بلندی پر واقع ہے۔ کمیدان سوکھا سنگھ مع ایک اور مصاحب مہاراجا صاحب اور چند سوار واسطے استقبال صاحب بہادر کے موجود تھے اور ہمراہ ہوے۔ دروازے میں جا کر دیکھا تو کہیں نشان آبادی کا نمودار نہ تھا مگر ایک راستہ بنا ہوا تھا اور اسی راستے ہمارے ہمراہی ہم کو بروم صاحب کی کوٹھی پر لے گئے اور وہاں ہمارا مقام ہوا۔ بعد تھوڑی دیر کے وزیر زور آور اور دیوان جوالا سہاے اور دیوان کرم چند اور ایک دو مصاحب آئے اور صاحب سے ملاقات کی۔ بہت دیر تک قیل وقال عرفیہ رہا اور رسوم تواضع و پیشکش ادا ہوتے رہے۔ یہاں راقم کا یہ کام تھا کہ جو دیوان جوالا سہاے منجانب مہاراجا صاحب کہتے تھے، اس کو راقم بزبان انگریزی صاحب کو سمجھا دیتا تھا اور جو صاحب بہادر بزبان انگریزی اس کا جواب دیتے تھے اس کو بزبان ہندی دیوان جوالا سہاے کو بتلا دیتا تھا۔ بعد اس گفت و شنود کے سخن مطلب بمیان آیا یعنی صاحب نے دریافت کیا کہ کشمیر جانے کو کونسا راستہ یہاں سے ہے۔ اس کے جواب میں دیوان جوالا سہاے نے کہا کہ راستہ بانہال بھی اچھا تھا مگر اس میں ابھی برف بہت ہوگی اور وہ راستہ قابل چلنے کے نہیں اس واسطے بنا چاری صاحب نے راستہ راجوری کا اختیار کیا اور یہ سب صاحب رخصت ہوگئے۔ بعد ازیں اداے رسوم ضیافت وغیرہ ہوتی رہی۔ بوقت سہ پہر راقم ہمراہ صاحب بہادر کے واسطے دیکھنے شہر جموں کے بسواری فیل گیا۔ دیکھا تو کوئی شے دیدنی نہ تھی، دکان نہایت پست اور بے ترتیب و بے رونق۔ آبادی مثل آبادیِ کوہستان، گلی کوچہ غلیظ اور تنگ، عمارات سنگین اور چوبی؛ البتہ محلات اور دیگر تعمیرات مہاراجا صاحب بہت رفیع اور خوش قطع و پر تکلف تھے۔ غرض کہ واپس آکر صاحب نے سواران و پیادگان ریاست لاہور کو جو ہمراہ آئے تھے رخصت کیا اور یہاں سے سپاہی جموں کے ہمراہ لیے۔
بتاریخ 24؍ جموں میں مقام کیا اور صبح کو واسطے دیکھنے باہو کے قلعے کو گئے۔ یہ قلعہ بر لب دریاے توی ایک پہاڑی پر تعمیر کیا گیا ہے، بہت مستحکم اور جنگی ہے۔ اس میں ایک ضرب توپ کلاں اور سترہ ضرب خرد اور پانچ غبارے موجود ہیں۔ بلندی اس کی قریب ایک میل کے ہوگی۔ راستہ اوپر جانے کا ایک ہے اور سب طرف جھاڑی اور جنگل متراکم ہیں۔ گذر پیادے آدمی کا بھی اس میں دشوار ہے اور قلعہ بروج اور دیوار سے استحکام تمام رکھتا ہے۔ بعد سیر و تماشا بمقام قیام واپس آئے اور وقت سہ پہر دیوان جوالا سہاے واسطے لے جانے صاحب بہادر کے آیا اور سوار کروا کر راقم کو بھی ساتھ لےگیا۔ ٹکّا صاحب یعنی رنبر سنگھ صاحب بہادر ولی عہد مہاراجا گلاب سنگھ بہادر مع میان جواہر سنگھ فرزند اکبر راجا دھیان سنگھ بہادر تا بدروازہ استقبال کو آئے اور ایک مکان وسیع و فسیح میں لے جا کر بٹھایا۔
بعد کلمات شوقیہ و عرفیہ سخن یہاں تک پہنچا کہ صاحب نے بڑی سیر دیار و امصار کی کی ہے۔ اس کے جواب میں صاحب نے فرمایا کہ علاوہ اور ملکوں کہ ہم نے لنکا بھی دیکھی ہے اور جنوبی ملک چین کی بھی ہم نے سیر کی ہے۔ یہ سن کر ٹکّا صاحب بہت متعجب ہوے کہ لنکا میں تو سواے دیوؤں کے اور کوئی نہیں رہتا، صاحب کا کیونکر گذر ہوا۔ صاحب یہ سن کر بہت ہنسے اور کہا کہ یہ امر بوقت راجا رام چندر کے تھا، اب نہیں ہے۔ اور در باب چین کے ٹکا صاحب نے کہا کہ شمالی طرف چین کے تو مہاراجا صاحب نے بھی فوج بھیجی تھی اور اول مرتبہ تو شکست ہوئی تھی مگر دوسری مرتبہ فتح ہوئی۔ چنانچہ کچھ پوشاک بھی چینیوں کی وہاں سے لائے ہیں اور وہ وہشاک ٹکا صاحب نے منگوا کر صاحب کو دکھائی اور کہا کہ اب تک قریب تین سو سپاہی ہمارے چین میں قید ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ صاحبان انگریز بہادر کچھ مدد کریں تو وہ لوگ پھر اپنے وطن کو آجاویں۔ صاحب نے فرمایا کہ مہاراجا صاحب بڑے دوست سرکار انگلشیہ کے ہیں، کیا عجب کہ سرکار کچھ تحریک اس معاملے میں کرے۔ غرض ایسے ایسے کلمات تا بہ ایک گھنٹہ ہوتے رہے اور راقم ٹکا صاحب کی طرف سے اور صاحب کی طرف سے گویا کام زبان کا کرتا تھا۔
بعد ایک گھنٹے کے حسب معمول رخصت ہوے اور راقم اور صاحب بہادر اپنے قیام گاہ پر آئے۔ اس جلسے میں میاں جواہر سنگھ بھی شریک تھے مگر کچھ گفتگو کی نوبت ان سے نہ آئی۔ یہاں کچھ مختصر احوال اور شجرہ خاندان مہاراجا گلاب سنگھ بہادر کا واسطے آگہی سیاران اوراق ہذا ذیل میں مندرج ہوتا ہے۔
شجرۂ خاندان مہاراجا گلاب سنگھ بہادر
مختصر احوال ترقی مہاراجا گلاب سنگھ بہادر
مدت دراز سے راجا رگھوبنسی جانب پورب سے آکر یہاں مقام جموں میں دخیل ہوے تھے اور رفتہ رفتہ جس قدر راجسی یہاں تھیں، ان سب پر غالب آکر تمام علاقے کو تحت حکومت کر لیا تھا اور حکمرانی ان رگھوبنسیوں کی تا بہ راجا رنجیت دیو بہت اچھی رہی۔ بعد ازاں اس کے پوتے راجا چیت سنگھ کے وقت میں مہاراجا رنجیت سنگھ بزور شمشیر سب علاقہ جموں کو قبضہ اقتدار میں لاکر خود قابض اور متصرف ہوے۔ زاں بعد گلاب سنگھ اور دھیان سنگھ اور سوجیت سنگھ ملازم مہاراجا رنجیت سنگھ ہو کر شدہ شدہ مہاراج رس ہوے۔ اس عرصے میں ایک شخص ڈیڈو نامے نے جو خاندان گلاب سنگھ میں سے تھا طریقہ رہزنی و قطاع الطریقی اختیار کیا اور ایسا زور پکڑا کہ عملدرای مہاراجا رنجیت سنگھ میں خلل واقع ہوا اور کسی طرح اس کا تدارک نہ ہو سکا۔ لاچار ہو کر مہاراج نے یہ فرمایا کہ افسوس اس کا تدارک کرنے والا کوئی ہماری ریاست اور ملازمان میں سے نہیں ہوتا۔ کسی رئیس نے عرض کی کہ گلاب سنگھ اسی کے خاندان کا ہے اور بھی دلاور اور مدبر ہے۔ اگر حکم ہو تو اس کو روانہ کیا جاوے۔ یہ عرض قبول ہوئی اور مہاراجا رنجیت سنگھ نے اسی روز گلاب سنگھ کو ٹیکہ راجگی کا لگایا اور راجا جموں مقرر کیا۔ اس نے عرض کی کہ میں چھوٹا بھائی ہوں اور بڑے بھائی کے ہوتے چھوٹا بھائی مستحق ریاست نہیں ہو سکتا۔ اور اب کہ مجھ کو مہاراج نے راجا بنایا، میں یہ چاہتا ہوں کہ میرا بڑا بھائی بھی اسی خطاب سے سرفراز ہو۔ مہاراجا صاحب نے یہ عرض اس کی قبول کی اور دھیان سنگھ کو بھی خطاب راجگی کا عطا فرمایا۔ راجا گلاب سنگھ جموں میں گئے اور تدبیرات صائب و تجویزات کامل سے ڈبڈو مذکور کو گرفتار کیا۔ زاں بعد شدہ شدہ یہ نوبت پہنچی کہ راجا دھیان سنگھ تو وزیر اعظم سرکار لاہور کا ہوا اور ہر ایک شخص ان کے خاندان کا راجا ہوا۔ بعد جنگ پنجاب سرکار انگلشیہ نے راجا گلاب سنگھ کو مہاراجا بنایا اور ملک کشمیر وغیرہ بعوض پچہتر ۷۵؍ لاکھ روپے کے جو باقی ذمہ سرکار لاہور کے بابت اخراجات نعلبندی کے رہا تھا ان کو نسلاً بعد نسل و بطناً بعد بطن عطا ہوا، فقط۔
اب اپنے روزنامچے کی طرف پھر متوجہ ہوتا ہوں۔
بتاریخ ۲۵؍ اپریل 1847ء وقت صبح جموں سے روانہ ہو کر اور عبور دریاے چیناب کرکے وارد بمقام اکھنور ہوے۔ یہ مقام بارہ کوس جموں سے بر لب دریاے چیناب واقع ہے اور یہ دیہ بہت کلاں ہے اور ایک قلعہ بر لب دریا بہت مستحکم تعمیر کیا ہوا زمانۂ سلف کا قائم اور موجود ہے۔ اس مقام پر دریاے چیناب بہت زور و شور سے جاری ہے۔ کشتی بہت مشکل سے عبور کرتی ہے۔ بباعث بارش باران راقم واسطے دیکھنے دیہ اکھنور کے نہ گیا۔
بتاریخ 26؍ روانہ ہو کر بمقام ڈاب جو کوہستان میں واقع ہے پہنچے۔ مقام اکھنور سے کوہستان شروع ہوتا ہے۔ اس مقام ڈاب میں جو بفاصلہ ۱۲ کوس کے اکھنور سے واقع ہے، صرف دو مکان باقی تھے اور اس میں سے ایک نیم سوختہ تھا۔ وزیر زور آور وزیر مہاراجا گلاب سنگھ جو ہمارے ساتھ تھے ان سے دریافت ہوا کہ جب سال گذشتہ میں راجا بہمبر نے بمقابلہ مہاراجا صاحب کے سر بشورش اٹھایا تھا، یہ دیہ بھی اس کے شامل تھا، بروقت سزا دہی راجا مذکور کے اس دیہ کو ویران کر دیا تھا اور بعد اس کے اب تک یہ دوبارہ آباد نہیں ہوا۔ یہ مقام مقام پونی سے جہاں کادار مہاراجا صاحب رہتا ہے، دو کوس کے فاصلے پر ہے اور مقام پونی بڑا دیہ کلاں ہے بلکہ رسد وغیرہ ہمارے واسطے اسی مقام سے آئی تھی۔
بتاریخ 27؍ ڈاب سے روانہ ہو کر بمقام دیوکا جو آٹھ کوس ہے وارد ہوے۔ یہ بھی دیہ کوہی ہے اور تمام راستے میں کوہ اور جوہاے کوہی واقع ہیں۔ اس میں آبادی نسبت بدیہ سابق زیادہ ہے اور کوئی شے قابل بیان کے نہیں مگر یہ کہ یہ دیہ بعلاقہ میان جواہر سنگھ خلف راجا دھیان سنگھ کے واقع ہے۔
بتاریخ ۲۸؍ بمقام دھرم سال بعد طے آٹھ کوس راہ کوہ کے پہنچے۔ یہ گاؤں بہت وسیع اور آباد ہے، مکانات بھی بہت ہیں زراعت بھی نسبت بدیگر منازل کوہستان اچھی ہے۔ مویشی بھی اس دیہ میں بکثرت ہیں۔ یہ بھی علاقہ میان جواہر کا ہے۔ راستہ کوہستانی ہے اور نشیب و فراز بھی اس راہ میں بہت ہے۔
بتاریخ ۲۹؍ بعد طے آٹھ کوس راہ کوہ کے بمقام سیال سوئی وارد ہوے۔ یہ دیہ چھوٹا ہے اور مقام اس گاؤں سے ایک کوس آگے جا کر ہوا۔ اس واسطے یہاں کا کچھ حال معلوم نہیں ہوا۔
بتاریخ ۳۰؍ صبحی مقام قیام سے روانہ ہوے۔ اثناے راہ میں دیوان گور دتّامل، برادر کوچک دیوان کرم چند اور جمعدار چرتو مع چند سواروں کے ملے۔ یہ سب ہمارے استقبال کے واسطے مقام راجوری سے آئے تھے۔ ان کے ساتھ گفتگو ہر طرح کی ہوتی رہی۔ انھوں نے ہم کو لے جا کر بمقام راجوری خاص محل راجا میں فروکش کیا۔ دیوان مذکور نے یہاں صاحب کو نذر دکھائی۔ بر سبیل مذکور ذکر معاملہ سرکاری کا آیا تو ظاہر ہوا کہ اس ملک کوہستان میں تین ربع معاملہ فصل برنج سے و ایک ربع فصل گندم و جواری سے ادا ہوتا ہے۔ دو پوتے یعنی نبیرگان راجا رحیم اللہ خان کے واسطے ملاقات صاحب کے آئے۔ یہ دو لڑکے بہت صغیر سن ہیں اور بظاہر نہایت شکستہ حال پائے گئے۔ معلوم ہوا کہ راجا رحیم اللہ خان کا بیٹا میان منور خان نامی جس کے یہ دونوں لڑکے ہیں مہاراجا گلاب سنگھ کی طرف سے بمقابلۂ راجا فقیر اللہ خاں جنگ میں مارا گیا تھا۔ اس کی عوض مہاراجا صاحب ان کے مع اور سب لواحقوں کے صرف کو پانچ سو روپے سالیانہ دیتے ہیں اور اس میں ان کی بسر نان بھی نہیں ہو سکتی۔ یہ مقام راجوری سیال سوی سے آٹھ کوس ہے اور ایک بڑا شہر ہے۔ سب طرح کے دکاندار یہاں موجود ہیں۔ مکانات راجا راجوری بہت اچھے اور خوش قطع بنے ہوے ہیں۔ ایک جوے کوہی اس کے نزدیک روان ہے، دوسری جانب جو کے ایک باغ نہایت پر شجر و پر ثمر واقع ہے۔ اس میں ایک بارہ دری بہت تحفہ تعمیر ہے اور تہ خانہ ایسا ہے کہ اس کا ایک راستہ بجانب جوے آب بنا ہوا ہے۔
بتاریخ یکم مئی مقام راجوری میں قیام رہا۔ صاحب اس کے نواح کی سیر کے واسطے تشریف لے گئے۔ نواح یہاں کی نہایت پر فضا ہے۔ کوہ سبز اور درخت گل خود رو بکثرت ہیں۔ مدد خان جمعدار ملاقات کے واسطے آیا اور سیر میں ہمراہ گیا۔
بتاریخ دوم صبحی راجوری سے روانہ ہو کر بمقام تھنہ چھ کوس پر مقام کیا۔ راستے میں سواے پہاڑ اور جوے بار کے اور کچھ نظر نہیں آیا۔ زراعت بالکل نہیں ہے۔ یہ مقام بہت بڑا شہر ہے۔ آبادی کشمیریوں کی ہے اور زبان بھی کشمیری بولتے ہیں۔ اس مقام کی آب و ہوا بہت خراب ہے، تپ و لرزہ بکثرت آیا کرتا ہے۔ خصوصاً ماہ ہاے کنوار اور کاتک میں بیماری تپ و لرزہ کی ہمیشہ بڑی کثرت سے ہوا کرتی ہے۔ مشہور ہے کہ یہاں ان دونوں مہینوں میں پتھر کو بھی لرزہ آتا ہے اور جانوروں کو تو آتا ہی ہے۔ راقم نے بچشم خود دیکھا کہ ایک کوا درخت پر سے یکایک نیچے گر پڑا اور تھوڑی دیر کانپتا رہا۔ بعد ازاں پھر اڑ کر درخت پر جا بیٹھا اور اس صدمے سے ایسا ضعیف ہوگیا تھا کہ دیر تک سر ڈالے بیٹھا رہا گویا بے جان تھا۔ ہرچند بمقام راجوری بھی بیماری تپ و لرزہ کا نہایت زور رہا کرتا ہے مگر اس قدر نہیں ہوتا جیسا اس مقام تھنہ میں ہوتا ہے۔ یہاں کے باشندے از بس ضعیف اور زرد رو ہیں اور کوئی ایسا شخص نظر نہ آیا جو بیمار نہ تھا یا جس نے بیماری نہیں اٹھائی تھی۔
بتاریخ سوم راہ چھ کوس راہ طے کر کے بمقام بہرم گلہ وارد ہوے۔ اوس دن ایک پہاڑ کلاں جس کو رتن پنچال کہتے ہیں ہم نے طے کیا۔ اس کی بلندی مقام تھنہ سے جہاں ہم نے کل مقام کیا تھا، شروع ہوتی ہے اور نو ہزار فٹ بلند ہے۔ اس پہاڑ پر مزار کسی بزرگ کا ہے، اس کو اس نواح میں بہت مانتے ہیں۔ یہاں سے قریب ایک کوس نشیب میں جاکر مقام بہرم گلہ ہے۔ یہ مقام پہاڑوں کے بیچ میں ہے، دونوں طرف دو بڑے بلند پہاڑ ہیں اور ان کے بیچ میں راستہ ہے۔ اسی سبب سے اس کا نام بہرم گلہ پڑا کیونکہ یہاں کی زبان میں جو راستہ دو پہاڑوں میں ہوا کرتا ہے اس کو گلہ کہتے ہیں۔ بہرم گلے میں ایک چوکی سایر مہاراجا گلاب سنگھ بہادر نے مقرر کر رکھی ہے اور خراج حسب تفصیل ذیل یہاں لیا جاتا ہے:
نمک: 4 من
پارچہ سفید: 9من
شکرتری: 4 من
سواے ان تین چیزوں کے اور کوئی شے اس راستے سے نہیں جاتی۔ رعایا یہاں کی بہت نالاں اور پریشان پائی گئی۔
بتاریخ 4؍ بہرم گلے سے کوچ کرکے اثناے راہ میں جوے بار کو ہر قدم پر طے کرتے ہوے بمقام پوشانہ پہنچے۔ یہ مقام پیر پنچال کے پہاڑوں میں ہے اور چھ کوس بہرم گلے سے ہے۔ اس چھ کوس میں قریب دو سو مرتبہ کے پانی طے کرنا پڑتا ہے کیونکہ راستہ صرف گلے کا ہے اور جوے بار جو اس میں رواں ہے کہیں بیچ میں راستے کے آگئی ہے اور کہیں بجانب راست اور کہیں بجانب چپ۔ غرض کہ پانی پانی یہ منزل طے ہوتی ہے۔ صرف وہ بلندی جس پر پوشانہ آباد ہے خشک ہے۔ یہاں صرف تین گھر آباد تھے اور باقی سب پہاڑ کے نیچے تھے۔ یہاں کا یہ قاعدہ ہے کہ وقت بارش برف کے سب نیچے پہاڑ کے چلے جاتے ہیں اور جب موسم گرما آتا ہے تو پھر آکر یہاں آباد ہو جاتے ہیں۔ مکان سب کے قائم ہیں مگر سواے تین گھروں کے اور کوئی ابھی تک نہیں آیا ہے۔ یہاں ہم نے سنا کہ پپر پنچال پر ابھی برف ہے اور راستہ بند ہے۔ یہ سن کر ہم کو فکر پیدا ہوا کہ آگے کیوں کر چلنا ہوگا۔ مگر سپاہیان مہاراجا نے صلاح دی کہ مزدور آج روانہ کر دو کہ برف کاٹ کر راستہ بنا دیں اور کل صبح یہاں سے روانہ ہو جاؤ۔ اگر ایسا نہ کرو گے تو کل چلنا متعذر ہوگا۔ یہ صلاح صاحب کے بہت پسند آئی اور پچاس نفر مزدور جمع کرکے روانہ کیے اور تاکید بلیغ ان کو کی کہ راستہ حتی الامکان اچھا بنا رکھیں۔
بتاریخ ۵؍ پوشانہ سے بہت جلد وقت صبح کوچ کیا کیونکہ صاحب نے کہا کہ برف کے اوپر قبل از طلوع آفتاب سفر کرنا اچھا ہے اور اگر آفتاب نکل آوے اور تابش اس کی تیز ہو جاوے تو برف پر چلنا خالی از خطرہ نہیں۔ الغرض یہاں سے روانہ ہو کر آفتاب کے نکلنے تاک پیر پنچال کے اوپر جا پہنچے۔ راستے میں دو تین کوس برابر برف پر چلتے رہے، ہرچند شب تار تھی مگر برف کی یہ روشنی تھی کہ گویا ماہتاب نکلا ہوا تھا اور راستہ بخوبی معلوم ہوتا تھا۔ اس پیر پنچال کی بلندی بارہ ہزار فٹ ہے یعنی تین ہزار فٹ کوہ رتن پنچال سے زیادہ ہے۔ یہاں برف بہت دیر تک رہتی ہے اور اس کے گرد نواح میں تو ہمیشہ برف بنی رہتی ہے۔ یہاں پر کی اوپر کوئی مقام نہیں کرتا۔ اندیشہ برف ریزی کا بہت رہتا ہے۔ اس واسطے یہاں سے کوس بھر کے فاصلے پر ایک سراے تعمیر ہے اس کو سراے علی آباد کہتے ہیں اور وہ چھ کوس مقام پوشانہ سے ہے۔ وہاں جاکر ہم نے مقام کیا۔
شب کو سردی کا یہ عالم تھا کہ آگ بھی سرد ہوئی جاتی تھی اور اس شب پیر پنچال کے اوپر اور سراے کے گرد پھر برف برسی اور سردی کی زیادہ گرم بازاری ہوئی۔ اس سراے میں آبادی نہیں ہے اور نہ کوئی چیز خوردنی دستیاب ہوتی ہے۔ صرف مکانات بنے ہوے ہیں تاکہ مسافر برف سے بچ کر شب بسر کرے۔ اس سرزمین کی تعریف بیان سے باہر ہے گو اس قدر برف باری ہوتی ہے مگر جو جگہ برف سے خالی ہوتی جاتی وہ سبز ہوتی ہے اور یہ سبزی کے ٹکڑے برف میں کیا کہوں کیسے خوش نما معلوم ہوتے ہیں گویا ہیرے کی پٹری میں زمرد جڑے ہوے ہیں اور اس سبزے میں جو کوئی پھول کھلا ہوتا ہے تو گویا سبزے میں لعل جڑا ہوا نظر آتا ہے۔ اس پہاڑ پر زیارت ایک پیر کی ہے اس میں مجاور دن کو آجاتے ہیں اور رات کو نہیں رہتے۔
بتاریخ 6؍ یہاں سے روانہ ہو کر نشیب میں قریب دو کوس راہ طے کر کے ایک نالہ کہ بڑے زور و شور سے بہتا ہے ملا۔ اس پر پل بندھا ہے، براہ پل مذکور عبور کرکے آگے بڑھے۔ اب نشیب و فراز کم ہیں مگر راستے میں پتھر اور نالے بہت ہیں۔ اس طرح پانچ کوس اور طے کرکے بمقام ہیرپور پہنچے۔ اثناے راہ میں قریب ایک کوس مقام ہیر پور سے دیوان گوبند جس کا علاقہ دار اور لالہ جیدیال اخبار نویس اور ایک جمعدار جن کو مہاراجا گلاب سنگھ بہادر نے صاحب کے استقبال کے واسطے کشمیر سے بھیجا تھا، آکر دوچار ہوے اور پیغام اشتیاقیہ مہاراج کی طرف سے ادا کیا۔ یہ مقام بھی بہت آباد ہے، سب شے خوردنی ملتی ہے اور میوے مثل سیب و بٹنگ وغیرہ بکثرت ہیں۔ یہاں ایک سراے بہت وسیع ہے اور دکانیں مثل حلوائی وغیرہ موجود ہیں۔
بتاریخ 7؍ ہیر پور میں مقام کیا کیونکہ صاحب کا ارادہ ہوا کہ یہاں سے بجانب شاہ آباد و اسلام آباد سیر کرکے پھر کشمیر کو جاویں۔ اس واسطے اس دن واسطے سیر مقام شپین کے گئے۔ شپین یہاں سے قریب پانچ کوس کے فاصلے پر براہ کشمیر ہے۔ بڑی آبادی ہے مکانات بلند اور باغات بکثرت، باشندے سب کشمیری۔ اس مقام کے اور اس کے گرد نواح کی سیر کرکے وقت شام واپس ہیر پور میں آئے۔
بتاریخ ۸؍ ہیر پور سے کوچ کیا اور بدست راست کشمیر کو چھوڑ کر بجانب شاہ آباد روانہ ہوے۔ قریب دو نیم کروہ راہ طے کرکے بمقام سدو وارد ہوے۔ یہاں کے راستے سے علاحدہ یک و نیم کروہ جاکر ایک جھرنا پانی کا ہے جس کو اہربل کہتے ہیں۔ یہ آبشار پہاڑوں کے بیچ میں ہے، راستہ بہت ناقص ہے، پیادہ بھی بمشکل چل سکتا ہے۔ اس کے کنارے پر جا کر بیٹھے اور اس کا تماشا کیا۔ ایک قدرت خدا کی نظر آتی تھی کہ ایک چادر پانی کی پہاڑ کے اوپر سے اس زور سے گرتی تھی کہ اس کے صدمے سے پانی کئی گز اونچا اچھلتا تھا اور چھینٹیں اس کی تو کوئی بیس یا پچیس گز اونچی اڑتی تھیں، اور اس چادر پر جو شعاع آفتاب گرتی تھی تو رنگا رنگ کی تحریریں اس میں نمودار ہوتی تھیں گویا پچ رنگی دوڑی کی چادر برابر اوپر سے نیچے تک گر رہی تھی۔ عجب تماشا یہاں دیکھنے میں آیا کہ تحریر میں راست نہیں آتا۔ یہاں چلغوزے کے درخت بکثرت ہیں اور کوئی اس کا مالک سواے جانوران صحرائی مثل بندر اور ریچھ کے نہیں ہے۔ یہاں سے خوب سیر کرکے اور تعریف قدرت کرتے ہوے پھر راستے پر آئے اور وہاں سے روانہ ہو کر بمقام دلو جو چھ کوس ہیر پور سے ہے پہنچ کر قیام کیا۔ یہ دیہ بہت کلاں نہیں، قریب بیس گھر کے اس میں آباد ہیں۔ یہاں کے باشندے بھی بیماری تپ و آشوب چشم و درد دندان میں مبتلا پائے اور کوئی حکیم یا بید یہاں موجود نہیں۔ صاحب کے پاس کچھ ادویہ تھیں اس میں سے کچھ کچھ کسی کسی کو دی گئیں اور یہ مقام پرگنہ دیوسر میں ہے۔
بتاریخ ۹؍ صبحی روانہ ہو کر بمقام کول گام چھ کوس راہ طے کر کے مقام کیا۔ اثناے راہ میں اکثر تالاب اور چشمے دیکھے مگر آبادی بہت کم۔ یہ دیہ بھی پرگنہ دیوسر میں ہے اور کول کام دریاے دتہہ کے کنارے پر جس کو یہاں دیشو کہتے ہیں، آباد ہے دریا یہاں بہت زور سے بہتا ہے۔ فتو چودھری کول گام کا ملاقات کو آیا۔ یہ گاؤں بڑا قصبہ ہے اور آبادی اچھی ہے۔ راستے میں پہاڑ نہیں مگر جا بجا نشیب و فراز ہیں۔
بتاریخ ۱۰؍ صبحی روانہ ہو کر بعد طے پانچ کوس کے بمقام چوگام پہنچے اور اسباب وغیرہ سب وہاں چھوڑ کر واسطے دیکھنے ایک چشمے کے جو پہاڑ میں وہاں سے چار کوس کے فاصلے پر ہے، گئے۔ وہاں جا کر دیکھا کہ ایک چشمہ پانی کا ہے اور اس میں سے پانی بکثرت نکلتا ہے۔ بیچ میں چشمے کے معلوم ہوتا ہے کہ زمین سے پانی بطور فوارہ نکلتا ہے اور یہ فوارہ سطح پانی سے کوئی آدھ گز بلند اٹھتا ہے اور اس چشمے سے ایک رود آب مثل دریا جاری ہے۔ پانی اس کا نہایت صاف و خوش گوار اور ہاضم ہے۔ اس کے قرب و جوار باشندے جس روز خوش روزہ کیا چاہتے ہیں اس روز بکرے وغیرہ لے کر اس چشمے پر جاتے ہیں اور وہاں کھانا پکا کر کھاتے ہیں۔ روایت یہ ہے کہ اس کے پانی کی تاثیر سے ایک ایک آدمی ایک ایک بکرا کھا جاتا ہے، یعنی اپنی اشتہاے معمولی سے دو چند بلکہ سہ چند کھا جاتا ہے۔ راقم نے بھی اس چشمہ کا پانی پیا مگر چونکہ کچھ خورش ساتھ نہ تھی اس واسطے امتحان ہضمیت اس پانی کا نہ ہوا۔ اس چشمے کو واسوکھ ناگ کہتے ہیں۔ قریب شام یہاں سے واپس قیام گاہ کی جانب روانہ ہوے، راستے میں بارش ژالہ شروع ہوئی اور ایسی تکلیف ہوئی کہ بیان اس کا احاطۂ تحریر سے باہر ہے۔ کیونکہ کوئی چیز ایسی ہمراہ نہ تھی جس سے پانی یا ژالے سے بچتے۔ ناچار تمام پوشاک تر تھی اور ہوا کا یہ عالم تھا کہ باد سموم کو پیچھے چھوڑتی تھی اور سردی بھی اپنا گرم بازار کر رہی تھی۔ غرض ایسی تکالیف میں قریب پہر رات گئے کے قیام گاہ میں پہنچے اور جسم کو گرم کرتے کرتے نصف شب سے زیادہ گذر گئی۔ راستے میں نصف راہ درمیان چوگام اور واسوکھ ناگ کے ایک دیہ ہے مشہور بنام رزلو، یہاں بھی ایک چشمۂ آب جس کو ناگ کہتے ہیں جاری ہے مگر اس قدر کلاں نہیں ہے جیسے واسوکھ ناگ ہے۔ جب راقم واپس قیام گاہ پر آیا تو زبانی ایک شخص کے جو باورچی نہایت خوش پَز ساکن اس دیہ کا ہے اور اکثر لکھنؤ وغیرہ شہروں میں بھی اس کی خوش پَزی کا شہرہ ہے اور اسی سبب سے اس کو سب لوگ بنام لطیف مشہور کرتے ہیں، گو اس کا نام لچھی رام ہے۔ معلوم ہوا کہ اس چشمہ واسوکھ ناگ میں یہ قاعدہ عام ہے کہ جو کوئی وہاں جاکر بکرا حلال کرتا ہے اور خوش روز کرتا ہے وہ تو بخوشی اور آرام تمام اپنے مکان کو واپس آتا ہے اور جو کوئی جاکر خشک وہاں سے واپس آتا ہے اس کو ضرور کچھ نہ کچھ تکلیف اور خواری راستے میں ہوتی ہے۔ میں نے کہا کہ اگر پہلے یہ خبر ہوتی تو ہم بھی بکرا لے جاتے اور وہاں خوش روز کرتے تاکہ ایسی مصیبت شاقہ سے امان میں رہتے۔ چوگام پرگنہ دیوسر میں ہے اور آبادی اچھی ہے۔
بتاریخ ۱۱؍ بباعث کثرت بارش باراں و ژالہ چوگام میں مقام رہا اور کوئی وقت سیر نواح کا میسر نہ ہوا۔
بتاریخ 12؍ مقام سابق سے روانہ ہو کر اثناے راہ میں قریب نصف راہ شاہ آباد میں ایک چشمہ ہے کہ اس کو بانرت ناگ کہتے ہیں اور اس کے قریب ایک اور چشمہ بنام کانا ناگ مشہور ہے۔ اس کانا ناگ میں لوگ کہتے ہیں کہ جتنی مچھلیاں ہیں سب یک چشم ہیں اور اسی سبب سے اس کا نام کانا یعنی یک چشم ناگ مشہور ہے، مگر راقم نے کوئی ایسی ماہی نہ دیکھی۔ شاید سابق میں ہوں یا اب بھی بعض بعض ہوں۔ جب ایک کوس مقام شاہ آباد رہا تو نور شاہ کاردار شاہ آباد کا استقبال کو آیا اور اس کے ساتھ کوتوال شاہ آباد بھی تھا۔ تمام راستے میں گفتگوے شوقیہ اور در باب انتظام کے رہی۔ شاہ آباد میں وارد ہو کر بمقام ڈورو کہ مزرعہ شاہ آباد کا ہے مقیم ہوے۔
ڈیرہ اس مقام میں چھوڑ کر براے سیر ویر ناگ کہ ہندوستانی اس کو بیری ناگ بھی کہتے ہیں گئے۔ یہ ایک نہایت کلاں چشمہ ہے، پانی بہ افراط اس میں سے نکلتا ہے اور تالاب پختہ بنا ہوا ہے۔ پانی اس کا بہت صاف اور خوشگوار ہے۔ مچھلیاں بکثرت ہیں اور تعمیر پادشاہی بحکم جہانگیر بادشاہ چہار طرف چشمے کے بنی ہے اور چاردیواری چشمہ کے باہر ایک چھوٹے سے مکان میں ابیات ذیل کندہ ہیں۔ ابیات:
حیدر بحکم شاہ جہاں بادشاہِ دہر
شکر خدا کہ ساخت چکین آبشار و جوی
این جوی داده است زجوے بهشت یاد
زین آبشار یافتہ کشمیر آبروے
تاریخ جوی آب بگفتا سروش غیب
از چشمۂ بہشت برون آمد ست جوی
اور عبارت ذیل ایک سنگ سیاہ پر کندہ چار دیواریِ چشمہ میں ایک مقام پر موجود ہے:
“بادشاہ ہفت کشور شہنشاہ عدالت گستر ابو المظفر نور الدین جہانگیر بادشاہ ابن اکبر بادشاہ غازی بتاریخ سنہ 15 جلوس دریں سر چشمۂ فیض آئین نزول اجلال فرمودند واین عمارت بحکم آنحضرت صورت اتمام یافت ؎
از جہانگیر شاہ اکبر شاہ
این بنا سر کشید بر افلاک
بانی عقل یافت تاریخش
حضرآباد و چشمۂ ورناک”
اس مقام کی خوب سیر کرکے واپس اپنے مقام قیام پر آئے اور شب بہ صحبت نور شاہ وغیرہ بسر کی۔ شاہ آباد مقام سابق سے پانچ کوس کے فاصلے پر واقع ہے۔
بتاریخ 13؍ مقام شاہ آباد میں رہے اور براے سیر بجانب راہ بانہال گئے۔ اس مقام پر پیر پانچال کا راستہ بہت خراب نہیں ہے۔ ایسا ہے کہ یابوے کوہی اس پر گذر سکتے ہیں۔ راستے میں پانی کم ہے، اثناے راہ میں مجھے تشنگی غالب ہوئی مگر پانی کہیں نظر نہیں آتا تھا اس واسطے اور بھی دل گھبرایا مگر بظاہر کوئی چارہ نہ تھا اور میں نہایت دق تھا کہ چند پہاڑی آدمی جو ہمارے ساتھ تھے چھوٹی چھوٹی شاخیں سبز لیے کھاتے تھے۔ میں نے ان سے جو دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ اس کو چوک ہڈر کہتے ہیں اور اس کے کھانے سے تشنگی کم ہو جاتی ہے۔ چونکہ میں بھی ایسی ہی چیز کا خواہاں تھا، میں نے ان سے دو ایک شاخیں لیں اور کھائیں تو ذائقہ اس کا کچھ ترش تھا اور فی الحقیقت نہایت تسکین بخش تھیں۔ اس کے کھانے سے تشنگی میری فرو ہوئی۔ جب پر کے اوپر پہنچا تو ہواے سرد ایسی زور سے چلتی تھی کہ قیام مشکل تھا۔ غرض کہ وہاں میں بیٹھا اور بانہال کی خوب سیر کی۔ دوسری جانب کوہ پر کے کشت زار نہایت سبز روشنی بخش دیدہ تھی اور یہ قطعہ بہت آباد معلوم ہوا۔ تھوڑی دیر سیر کرکے واپس قیام گاہ کو آئے۔ شاہ آباد میں بادام پیدا ہوتا ہے اور بلبل ہزار داستان بھی اسی مقام کا تمام کشمیر میں مشہور ہے۔
بتاریخ 14؍ ماہ مئی شاہ آباد سے روانہ ہو کر بفاصلہ چھ کوس کے بمقام سوف آہن قیام کیا۔ یہ مقام پرگنہ اسلام آباد میں واقع ہے اور کان آہن اس مقام میں ہے۔ ہم اس کے دیکھنے کو گئے اور ہم نے بھٹی بھی دیکھی جس میں آہن صاف ہوتا ہے۔ آہن کانی میں ایک قسم کی مٹی ملا کر پکاتے ہیں تو اس مٹی کی مدد سے میل دور ہو جاتا ہے اور اس مٹی کا پہاڑ بھی قریب کان کے واقع ہے۔ اس سے قریب دو کوس کے فاصلے پر ایک چشمہ بنام کوکر ناگ واقع ہے مگر راستے سے علاحدہ ہے اس واسطے قصداً وہاں جانا ہوا۔ یہ چشمہ بھی خوب مصفا پانی کا ہے اور پانی یہاں کا بہت ہاضم ہے۔ میں نے بھی یہاں کھانا کھایا اور اس چشمے کا پانی پیا، نہایت خوشگوار تھا اور سرد اور شیریں؛ اور کچھ عجب نہیں کہ ہاضم بھی ہو کیونکہ اس کے پینے سے کچھ بار یا سنگینی معدے میں معلوم نہیں ہوتی تھی بلکہ جو کچھ بار غذا کا تھا وہ بھی کم ہو گیا تھا۔
بتاریخ 15؍ مقام سابق سے کوچ کرکے بفاصلۂ پانچ کوس بمقام نبوک نئی قیام کیا۔ یہ مقام دامن کوہ میں بہت پر فضا سبزہ اور آبشار فرحت دہِ نظارگیان و نزہت دہِ تماشائیان ہے۔ اس مقام میں بلکہ اور اکثر مقامات اس نواح میں حکیم یا بید کوئی نہیں۔ اور جو کوئی بیمار ہوتا ہے، اس کی دوا حکیم حقیقی ہی کرتا ہے۔
بتاریخ 16؍ مقام نبوک نئی میں قیام رہا۔ اس روز دیکھنے راستے داڑون کو گئے۔ یہ راستہ پیر پنچال کے اوپر جاتا ہے اور پر کی چڑھائی سات کوس کی ہے۔ اس پہاڑ پر اب تک برف موجود ہے، اس سے صاف ظاہر ہے کہ دوازدہ ماہ برف یہاں رہتی ہے۔ راستہ قریب پانچ کوس تک تو قابل گذر یابو ہے مگر آگے بہت خراب ہے۔ ہم جہاں تک یابو جا سکتا تھا وہاں تک تو سواری پر گئے اور آگے پیادہ ہو کر پر کے اوپر پہنچے اور شام تک واپس قیام گاہ پر آئے۔ اس کے اوپر سے عجب کیفیت نظر آتی ہے۔ تمام برف اور پہاڑ کے نیچے سبز کشت زار جیسے شب ماہ میں فرش مخمل سبز بچھا ہوا اور کشت زار ایسی تر و تازہ تھی کہ اس کے دیکھنے سے نگاہ کو نور پیدا ہوتا تھا۔ یہ راستہ تبت کو جاتا ہے۔
بتاریخ 17؍ نبوک نئی میں مقام رہا، اس روز بباعث کسل طبیعت کے راقم کہیں سیر کو نہ گیا۔
بتاریخ 18؍ نبوک نئی میں مقام رہا اور واسطے دیکھنے راستے دیئو سو کے گئے۔ یہ راستہ بھی پر کے اوپر جاتا ہے اور سات کوس کی چڑھائی ہے۔ اور قریب پانچ کوس کے پہنچے تھے کہ بارش برف شروع ہوئی اور پیشتر جانا متعذر رہا اور قریب شام کے قیام گاہ پر واپس آئے۔ یہ راستہ بھی کوہی ہے اور جا بجا یابو سے اتر کر پیادہ پا چلنے کا اتفاق ہوا۔
بتاریخ 19؍ اس روز منزل نو کوس کی طے کر کے بمقام اچھی بل وارد ہوے۔ اثناے راہ میں چشمہ اوما دیوی اور چشمہ کوٹھیر کو دیکھنے گئے۔ اوما دیوی میں دو تین چشمے قریب قریب ہیں اور ایک مندر اوما دیوی کا بہت قدیم موجود ہے اور کئی تعمیریں کہنہ ہیں۔ یہاں ہر وارد و مسافر کو کھانا بطور بھنڈارہ ملتا ہے۔ اور کوٹھیر کا چشمہ بھی قابل دید ہے۔ اچھی بل مقام بہت پر فضا ہے، ایک باغ بادشاہی ہے اس میں ایک چشمہ ہے جس میں سے پانی بکثرت مثل دریا نکلتا ہے اور اس چشمے میں ایک چبوترہ پختہ بنا ہوا ہے کہ وہ پانی میں غرق رہتا ہے۔ اس کے اوپر پانی ہاتھ بھر رہا کرتا ہے۔ معلوم ہوا کہ شاہ جہاں اس چبوترے پر شب کو خواب کیا کرتے تھے اور پانی کو جو چبوترے پر ہوتا تھا از راہ آب دُزد خالی کر دیتے تھے، اور جب چبوترہ پانی سے باہر آتا تھا تو باقی پانی چشمہ اس اندازے سے رکھتے تھے کہ جو پانی زیادہ آوے وہ براہ آب دزد نکل جاوے اور چبوترہ غرق نہ ہو۔ بعد ازاں اس پر پلنگ شاہی آراستہ ہوتا تھا اور گرد چشمے کے تعمیر پختہ واسطے چور پہروں کے بنائی تھی کہ اب تک اس کا نشان قائم ہے۔ اور سواے اس کے ایک حمام پادشاہی بھی اس باغ میں ہے بہت وسیع اور پر تکلف۔ یہاں ایک فقیر بنام بھولا ناتھ رہتا ہے اور یہ مقام اسی کے دھرم ارتھ میں ہے۔ یہ شخص بھی بہت رنگین ہے اور اکثر اپنے پاس سے خرچ کرکے باغ اور تعمیرات کو کچھ کچھ درست رکھتا ہے اور مسافروں کی بہت خاطر داری اور تواضع کرتا ہے۔ اچھی بل کو صاحب آباد بھی کہتے ہیں۔
بتاریخ 20؍ اس روز اچھی بل سے سوار ہو کر بمقام مٹن صاحب کہ جس کو مارٹنڈ بھی کہتے ہیں اور تین کوس کے فاصلے پر ہے آکر مقام کیا۔ راستے میں ایک شوالہ بہت قدیم قریب نصف کوس کے مٹن سے، موجود ہے جس کو پانڈو لڑی کہتے ہیں۔ اس میں بہت سی تصاویر دیوتاہاے ہنود کی دیواروں پر سنگ کی کندہ ہیں، اور ایک بڑا احاطہ سنگین اس کے گرد ہے۔ یہ تصاویر بہت شکستہ ہوگئی ہیں۔ مشہور ہے کہ چا ہزار برس گذرے جب راجا للتادت راجا کشمیر نے اس کی تعمیر کی تھی اور دوسو پچاس سال ہوے کہ جب بڑا شاہ بادشاہ اسلام نے اس کو شکستہ کیا تھا۔ یہ بڑا شاہ بڑا تعصبی بادشاہ مشہور ہے۔ اس نے اور کئی معبدگاہ ہنود کو خراب کیا تھا۔ سنا گیا کہ مہاراجا گلاب سنگھ بہادر واسطے اشنان کے یہاں آنے والے ہیں مگر چونکہ ایک دو روز کا توقف تھا۔ اس واسطے صاحب نے چاہا کہ قریب قریب کے مکانات کی سیر کرکے پھر یہاں واسطے ملاقات کے آجاویں گے۔
بتاریخ 21؍ مٹن سے روانہ ہو کر سات کوس راہ طے کرکے بمقام عیش مقام وارد ہوے۔ یہاں ایک زیارت گاہ بہت خوش قطع ہے اور اس کے دروازے کے قریب ایک مکان مثال بالادری بنا ہوا ہے۔ اس بالادری سے خوب کیفیت قرب و جوار کی نظر آتی ہے۔ چہار طرف دروازے اور دریچے بنے ہوے ہیں اور آستانے کے دروازے پر یہ اشعار کندہ ہیں:
ہر سحر خورشید میساید جبین
بر سر درگاه بابا زین دین
اقتباس نور زینجا میکند
تا فشاند بر ہمہ روی زمین
از طبع زاد مرزا عبد الفتح
اور ایک سنگ پر علاحدہ یہ کندہ نظر آیا:
“بتاریخ یک ہزار و ہشتاد ہجرت رسول قبر سنگین حضرت بابا مہدی ملک ساختہ و تاریخ خانہ غار غین است۔ استاد صادق ایں سنگ تراشیدہ۔”
اور دروازہ زیارت گاہ پر اشعار کندہ ہیں:
ز ہجرت شش صد و چہل و دو بوده
سوی حق شیخ نور الدین گذر کرد
پس از ده سال دیگر در پی او
مرید خاص زین الدین سفر کرد
یہاں زیارت ایک غار کی ہوتی ہے جس میں مشہور ہے کہ شیخ نور الدین اور زین الدین نے چلہ کھینچا تھا اور کچھ تبرکات بھی یہاں زائروں کو دکھائے جاتے ہیں۔
بتاریخ 22؍ ماہ مئی 1847 عیسوی ہم پھر دوبارہ مقام مٹن میں باستماع خبر تشریف آوری مہاراجا گلاب سنگھ بہادر بعد طے منزل دس کوس کے واپس آئے۔ اس مرتبہ ہم براستۂ ہاپت نار کہ جس میں تین کوس کا چکر ہے آئے تھے۔ اس واسطے ہم قریب شام کے مقام پر پہنچے۔ راستے میں سبزہ وغیرہ بکثرت ہے اور خوب سیر قدرت خالق کی نظر آتی ہے۔ بر وقت وارد ہونے مقام مٹن میں مہاراجا صاحب نے لالہ چند مال اخبار نویس کو واسطے خیریت پرسی مزاج صاحب بہادر بھیجا اور یہ بھی پیغام دیا کہ مہاراجا صاحب جس وقت صاحب بہادر کی طبیعت میں آوے ملاقات کرنے کو موجود ہیں۔ صاحب نے بجواب سلام کہلا بھیجا اور کہا کہ جس وقت مہاراجا صاحب کو فرصت ہو اس وقت ہم ملاقات کو آویں گے۔ غرض کہ لال چند مال یہ پیغام لے کر واپس گئے اور دوسرے روز
بتاریخ 23؍ دیوان ٹھاکرداس از جانب مہاراجا صاحب آئے اور استفسار خیریت مزاج کرکے بیان کیا کہ آج وقت شام مہاراجا صاحب آپ کی ملاقات کریں گے۔ یہ کہہ کر رخصت ہوے اور وقت سہ پہر پھر آکر صاحب بہادر کو اور راقم کو واسطے ملاقات مہاراجا صاحب بہادر کے لے گئے۔ مہاراجا صاحب تا بدروازہ استقبال کو آئے اور لے جا کر کرسی پر بٹھایا اور آپ بھی دوسری چوکی پر بیٹھے۔ بعد رسوم معمولی یعنی مراسم سرورانہ وغیرہ کے گفتگو در باب راہ کشمیر بمیان آئی، مہاراجا صاحب نے کل حال تمام راستوں کا بیان کیا اور آخرکار یہ قرار پایا کہ صاحب کا براہ دچھن پارہ اور اولرا اور پامپور کے جانا بہتر ہے۔ یہ سن کر صاحب نے فرمایا کہ ہم کوہستان بارہ مولہ و کامراج و گلمرگ کی بھی سیر کریں گے اور بعد ازاں کوہستان امرناتھ کو بھی دیکھیں گے۔ ان سب مقامات کا حال مہاراجا صاحب سے دریافت کیا۔ مہاراجا صاحب نے بجواب فرمایا کہ کوہستان امرناتھ پر ابھی دو مہینے تک برف رہے گی اور وہاں جانا مناسب نہیں، مگر بارہ مولہ کے پہاڑ ایک ہفتے میں برف سے صاف ہو جاویں۔ اس گفتگو میں راقم مہاراجا کی باتوں کا ترجمہ زبان انگریزی میں صاحب کو سناتا تھا اور صاحب کا جواب مہاراجا صاحب کو زبان ہندی میں کہتا تھا۔ الغرض بعد ازیں صاحب رخصت ہوے اور مہاراجا صاحب تا بدروازہ رخصت کرنے آئے اور چند مصاحب مہاراجا صاحب کے ہماری قیامگاہ تک ہمراہ آئے۔
اس روز راقم نے اس مقام کی سیر کی۔ یہاں ایک حوض ہے جس کے ایک کنارے سے پانی بکثرت نکلتا ہے اور اس حوض کو پر کرکے ایک نالی کی راہ سے جو سنگین بنی ہوئی ہے دوسرے حوض میں جو بہت وسیع ہے، جاتا ہے اور پھر میدان میں نکل کر بہ جاتا ہے۔ یہ دوسرا حوض جو وسیع ہے اس میں سب لوگ نہاتے ہیں اور پہلے حوض میں بخیال ادب نہیں نہاتے۔ پہلے کنڈ یعنی حوض کو سورج کنڈ کہتے ہیں اور اس مقام پر گیا بزرگوں کی ہوتی ہے۔ مچھلیاں ان حوضوں میں بکثرت ہیں اور جو وہاں جاتا ہے وہ کچھ پوری وغیرہ مچھلیوں کو ضرور کھلاتا ہے، اس وجہ سے وہ بالکل بےخوف ہیں۔ اور ان کے کھلانے میں عجب تماشا نظر آتا ہے، صدہا مچھلیاں ایک ٹکڑے کے گرد جمع ہوجاتی ہیں اور آپس میں چھین چھین کر کھا جاتی ہیں۔ اس چشمے کے گرد عمارات خوش وضع تعمیر ہیں اور بڑی سیرگاہ ہے۔ اس مقام کے قریب ایک کھو یعنی راستہ اندرون کوہ ہے جس کو لوگ مشہور کرتے ہیں کہ یہاں سے کشمیر تک کہ بفاصلہ بیس کوس کے ہے، برابر راستہ چلا گیا ہے۔ مگر صاحب نے اور راقم نے جو اس کےاندر جاکر دیکھا تو کوئی سو قدم سے زیادہ نہ تھا۔ اس راستے میں پانی اوپر پہاڑ سے بقطرات گرتا ہے اور راستے کو سیلاب اور متعفن کرتا ہے اور ہوا بھی وہاں بند ہے، اس واسطے اس کے اندر بہت گھبراتی ہے اور دم بند ہو جاتا ہے۔ اگر یہ راستہ دور تک ہوتا تو کچھ عجب نہیں کہ جانے والا اس میں دم بند ہو کر مرجاتا۔ تاریکی بھی اس میں بہت ہے، اس واسطے مشعل لے کر اسے دیکھنے جاتے ہیں۔ پس ایک تو تعفن سیلابی کا اور دوسرے بو مشعل کی اور تیسرے کمی ہوا کی، ان مصائب میں بے چارے سیار کا خدا ہی حافظ ہے۔
بتاریخ 24؍ مقام مٹن میں قیام رہا، صاحب بہادر اور راقم واسطے سیر مقام اسلام آباد کے قریب دو ڈھائی کوس کے فاصلے پر ہے گئے۔ اسلام آباد میں دو چشمہ کلاں برابر ایک دوسرے کے ہیں، جس کو انت ناگ کہتے ہیں اور معبدگاہ ہنود ہے۔ اس میں مچھلیاں بہت ہیں اور کوئی ان کو مارتا نہیں ہے، اس واسطے تعداد ان کی روز افزوں ہے۔ اس کے قریب ایک اور چشمہ ہے جس کو ملک ناگ کہتے ہیں، اس کا پانی کچھ گرم ہے اور اس میں گندک کی بو آتی ہے، بعض اوقات اس کا پانی بہت گرم ہو جاتا ہے، اور اس کے قریب ایک اور چشمہ ہے جس کو سونا ناگ کہتے ہیں مگر اس کا پانی بہت سرد اور بے بو ہے۔ کیا تماشا ہے کہ دو چشمے برابر ہیں مگر ایک میں گندک کی بو ہے اور پانی گرم ہے اور دوسرے میں بالکل بو نہیں اور پانی بھی سرد اور خوشگوار ہے۔ آبادی اسلام آباد کی بہت اچھی ہے، یعنی بازار بھی ہے اور مکانات بھی بہت ہیں، ایک اچھے قصبے کے برابر ہے۔ یہاں پشمینہ دھویا جاتا ہے اور سواے اس جگہ کے اور کہیں ایسی آب پشمینے میں نہیں آتی جیسی یہاں کے دھونے سے آتی ہے۔ سواے اس کے یہاں اور بھی سیر کوہ سبز کی جو قریب اس مقام کے ہے خوب ہے اور دو ایک مکان بھی اچھے بنے ہوے ہیں اور ایک باغ بھی خوب خوش قطعہ بنا ہوا ہے۔
بتاریخ 25؍ مقام مٹن سے روانہ ہو کر بمقام کیل ون کہ تین کوس مٹن سے ہے وارد ہوے، مگر ہم ایک اور راستے سے اس مقام میں آئے جس راہ سے ہم کو سات کوس طے کرنا پڑا۔ راستے میں کوئی شے عجیب قابل بیان کے نظر نہ پڑی، مگر اس نواح میں مریض آشوب چشم اور بخار کے بکثرت دیکھنے میں آئے اور آشوب چشم کی وجہ یہ معلوم ہوئی کہ اس کے گرد جو کوہ برفانی ہے اس پر جو شعاع آفتاب پڑتی ہے وہ آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے اور اسی صدمے سے آشوب اور سرخی تماشائیوں کی آنکھ میں پیدا ہو جاتی ہے۔
بتاریخ 26؍ مقام کیل ون سے روانہ ہوکر بمقام برجبارہ جو دو ڈھائی کوس کیل ون سے بر لب دریا واقع ہے وارد ہوئے۔ جو دریا زیر برجبارہ رواں ہے اس کا منبع خاص ورناگ ہے، جس کا ذکر مقام شاہ آباد میں ہو چکا ہے۔ یہ مقام بہت آباد ہے اور اچھے بڑے قصبے کے مانند ہے، یہاں سے کشتی پر سوار ہو کر مقام وانتی پور میں پہنچے۔ یہ مقام بہت قدیم ہے اور تخت گاہ راجگانِ سلف کا تھا۔ کئی عمارات کہنہ اس میں اب تک نمودار ہیں۔ الغرض یہاں سے بسواری کشتی روانہ ہو کر بمقام پانپور وقت شام وارد ہوے۔
بتاریخ 27؍ صبحی مقام پانپور کی سیر کی۔ یہاں ایک چشمہ للماجی کا مشہور ہے، اس للماجی کی بہت سی روایتیں ہیں، مگر اس میں شک نہیں کہ یہ عورت کچھ کرامات ضرور رکھتی تھی۔ اہل کشمیر اس کو کم از دیوی نہیں مانتے ہیں۔ اسی مقام میں زعفران پیدا ہوتی ہے، سوا اس مقام کے اور کہیں تمامی کشمیر میں یہ جنس گرانمایہ پیدا نہیں۔ زعفران کے کھیت راقم نے بھی دیکھے، تو جیسا شعراے سلف و حال کے کلام سے سنا تھا ویسا نہیں پایا، یعنی خندہ تو کیا اس کو دیکھ کر تبسم بھی نہیں آیا۔ مگر بباعث اس کے کہ بعد خشک ہونے کے اس کی خوشبو نہایت فرح انگیز ہوتی ہے، اس واسطے مبالغہ کر کے شعرا نے خندۂ زعفران قرار دے دیا ہے۔ بعد سیر مقام پانپور کے بسواری کشتی روانہ ہو کر اور ڈھائی کوس راہ طے کر کے ایک مقام میں جس کو باندرتھین کہتے ہیں پہنچے۔ اس مقام پر اکثر عمارات کہنہ نظر آئیں اور ایک بڑا بت پتھر کا بنا ہوا کنارۂ دریا پڑا ہے، اس کو بھسم اسر کہتے ہیں جو مہادیو کے سبب بھسم یعنی خاک ہوا تھا۔ یہ بت نہایت گراں سنگ اور مہیب بنا ہوا ہے۔ اس مقام کی بھی سیر کرکے یہاں سے روانہ ہوے اور قریب چار بجے شام کے بمقام کشمیر وارد ہوے اور شیخ باغ میں مقام کیا۔ وقت شام کشتی پر سوار ہو کر واسطے سیر دریاے وتستھا کے گئے۔ یہ دریا شہر کشمیر کے بیچ میں رواں ہے، دونوں جانب آبادی ہے اور سات پل چوب و سنگ کے بہت مضبوط اور کلاں تعمیر ہیں۔ ان پلوں کے دروں میں سے کشتیاں آمد و رفت رکھتی ہیں، وقت شام وزیر رتنو اور جمعدار کرما مہاراجا گلاب سنگھ کی طرف سے کچھ پیشکش نقد و شیرینی و میوہ ہاے سبز وغیرہ لائے۔ شب کو ایک خط احمد شاہ نقشبندی کہ بڑے خاندانی پیر اہل اسلام ہیں، آیا۔ در جواب ان کو لکھا گیا کہ دوسرے روز واسطے ملاقات کے تشریف لاویں۔
بتاریخ 28؍ مقام کشمیر اسی روز احمد شاہ نقشبندی واسطے ملاقات کے آئے اور دیر تک کلمات عرفیہ بمیان رہے۔ بعد ازاں مقامات سیر جو کشمیر میں ہیں ان کا ذکر ہوتا رہا۔ وقت رخصت مستدعی اس بات کے ہوے کہ صاحب ان کے مکان پر مثل دیگر صاحبان عالیشان تشریف لے جاویں اور صاحب بہادر نے بعد ملاحظہ چٹھیاتِ عطیہ صاحبان سابق اقرار جانے کا بعد سیر چند مقامات کے جہاں جانا پیش نہاد خاطر تھا کیا، یہ سن کر احمد شاہ صاحب تو رخصت ہوے اور صاحب بہادر اور راقم کشتی پر سوار ہو کر واسطے سیر چشمۂ ڈل کے گئے۔ یہ چشمہ بڑا وسیع قریب چھ یا سات کوس کے گرد میں ہے اور اس کے شروع میں جہاں دریاے وتستھا اس میں شامل ہوتا ہے ایک پل پختہ بنا ہوا ہے اور اس کے نیچے ایک دروازہ چوبی اس حکمت سے لگا ہوا ہے کہ جب دریاے مذکور طغیانی پر آتا ہے تو وہ دروازہ خود بخود بند ہوجاتا ہے اور پانی دریا کا چشمۂ مذکور میں زیادہ از اندازہ نہیں جا سکتا اور جو آبادی کنارۂ ڈل پر ہے اس کو کچھ آسیب طغیانی دریا سے نہیں پہنچتا۔ اور جب دریا پھر اپنی حد پر آ جاتا ہے تو دروازہ مذکور خود بخود کشادہ ہو جاتا ہے اور پانی دریا کا بدستور اس میں جانا شروع ہوتا ہے۔ اس دروازے پر مصرعۂ ذیل کندہ ہے۔ مصر؏:
بانیِ پل مہیش شنکر داس
اور تھوڑے فاصلے پر ایک اور دروازہ ہے، اس کی محراب پر یہ کندہ ہے ؎
مادۂ تاریخ شد مصرع پیراستہ
باد پل چودھری قائم و آراستہ
ڈل کے ایک جانب ایک زیارت گاہ اہل اسلام ہے جس کو حضرت بل کہتے ہیں۔ تعمیر اس کی بہت خوش اسلوب پادشاہی وقت کی ہے اور اس میں موے شریف حضرت نبی کی زیارت ہوا کرتی ہے۔ اس کے قریب باغ نسیم ہے۔ اس باغ میں ایک لاکھ درخت چنار کے ہیں اور شام کے وقت یہاں جانور بکثرت جمع ہوکر چہچہے کیا کرتے ہیں اور عجب کیفیت ہوتی ہے۔ اور ڈل مذکور کے دوسری جانب شالمار باغ ہے، ایسا باغ وسیع اور فسیح کہیں دیکھنے میں نہیں آیا، اگر انسان چاہے کہ اس کے تمام روشوں کی سیر کرے تو بدقت تمام ایک روز میں ہو سکتی ہے۔ اس باغ میں سات درجے ہیں اور ہر ایک درجے کے آخر میں ایک مکان پختہ پادشاہی وقت کا بنا ہوا ہے۔ نہریں بکثرت ہر وقت جاری رہتی ہیں اور ہر درجے کے آخر میں جو مکانات تعمیر ہیں ان کے بیچ میں ہو کر نہر بہتی ہے۔ اور تکلف یہ کہ ہر ایک مکان دوسری قطع سے نہیں ملتا اور ہر ایک اپنی طرح پر خوش قطع ہے۔ درخت میوہ دار ہر قسم کے موجود ہیں اور پھول طرح طرح کے شگفتہ اور خنداں۔ ہر ایک مکان کے روبرو تالاب بنے ہیں اور اس میں فوارے جاری اور علاوہ مکانات مذکورہ کے نہر کے دونوں جانب اور وسط میں فوارے لگے ہیں اور ہر وقت جاری رہتے ہیں۔ اس کی کیفیت کا کیا بیان کروں، دیکھنے سے تعلق ہے۔
تیسری جانب ڈل مذکور کے نشاط باغ ہے، یہ باغ بھی چار یا پانچ درجے کا ہے اور اس قدر وسیع نہیں جیسا شالمار باغ ہے، مگر خوبی اور خوش اسلوبی میں اس سے کم نہیں۔ درخت میوہ دار اور گلہاے گوناگوں بکثرت اس میں بھی ہیں اور فوارے بطور شالمار کے جاری بلکہ راقم کے نزدیک یہ باغ سیر کرنے کے واسطے شالمار سے بہتر ہے، کیونکہ وہ بہت وسیع ہے اور اس کی نگہبانی اور صفائی بمشکل ہوتی ہے اور یہ باغ سب طرح سے آراستہ اور پیراستہ ہے اور تعمیرات اس میں بھی قابل سیر کے ہیں اور اہل شہر بھی اسی باغ میں اکثر سیر کرنے جایا کرتے ہیں اور یہ مصرع ہر ایک کی زبان پر ہے، مصر؏:
صبح در باغ نشاط و شام در باغ نسیم
ڈل مذکور کے بیچ میں ایک تعمیر بنی ہوئی ہے جس کو چار چنار کہتے ہیں۔ یہ تعمیر بطور چبوترہ ہے اور درخت چنار اس میں اب تک قائم ہیں، گو چبوترہ کچھ شکستہ ہوگیا ہے۔ ان تمام مقامات کی سیر کر کے شام کو واپس قیام گاہ پر آئے۔
بتاریخ 29؍ مقام کشمیر، وقت صبح واسطے سیر کوہ شنکر اچارج کے گئے۔ اس کی چوٹی پر ایک شوالہ قدیم شنکر اچارج کا ہے۔ شیو لنگ بہت درشنیک اور اچھا ہے، مگر جب اہل اسلام کا زور کشمیر میں تھا تب بڑا شاہ نے اس لنگ کو بھی کھنڈت یعنی شکستہ کر دیا ہے۔ یہاں ایک دستور ہے کہ جو درشن کرنے جاتا ہے وہ ایک مکان پتھر کا اس کے قریب بنا کر چلا آتا ہے اور مشہور ہے کہ جو یہاں مکان بناوے گا اس کو سورگ یعنی بہشت میں بھی مکان ملے گا۔ راقم نے بھی ایک مکان دو منزلہ یہاں بنایا۔ اس پہاڑ پر سے شہر کشمیر کی سیر خوب نظر آتی ہے۔ آبادی کشمیر کی طویل بہت ہے اور عریض کم، طول میں قریب پانچ کوس کے ہوگی اور اس پہاڑ سے وہ سب آبادی بطور خیمہ ہاے لشکر نمودار ہوتی ہے، عرض میں آبادی کشمیر کی قریب کوس یا کہیں ڈیڑھ کوس کے ہوگی۔ بعد سیر واپس قیام گاہ پر آئے۔ وقت شام سیر شہر کے واسطے کشتی پر سوار ہو کر گئے اور شام تک کیفیت پانی کی خوب دیکھی۔
بتاریخ 30؍ وقت صبح واسطے دیکھنے قلعہ ہری پربت کے گئے۔ راستے میں ایک زیارت گاہ بنام زیارت شاہ ہمدانی ہے اور اس کے عقب دیوار میں طاق طاق بنے ہوے ہیں اور ہنود دیوی جی کی وہاں پرستش کرتے ہیں۔ ایک ہی مکان میں دونوں مذاہب کا یکجا جمع ہونا گویا اجتماع ضدین ہے، مگر یہاں موقع صلح کل کا سا پایا جاتا ہے۔ قریب قلعۂ مذکور کے ایک مسجد کلاں تعمیر ہے، اس کے دروازے پر تاریخ مندرجۂ ذیل کندہ ہے ؎
حمام نو و مسجدت ای دیدہ باز
گرم ست یکے یکے جماعت پرداز
تاریخ بناے ہر دو را گوید شاہ
یک جاے وضوے آمد و یک جاے نماز
اور اول دروازۂ قلعہ پر یہ اشعار کندہ ہیں۔ نظم ؎
بناے قلعۂ ناگرنگر شد
بحکم پادشاہ داد گستر
سر شاہان عالم شاہ اکبر
تعالی شانہ اللہ اکبر
شہنشاہے کہ در عالم مثالش
نبود ست و نخواہد بود دیگر
کرور و دہ لک از مخزن فرستاد
دو صد اوستاد ہندی جملہ چاکر
نکردہ ہیچ کس بیکار ایں جا
تمامی یافتہ از مخزنش زر
چل و چار از ظہور پادشاہی
ہزار و شش زتاریخ پیمبر
بناے قلعۂ ناگرنگر بعون اللہ
بحکم حضرت ظل الہ اکبر شاہ
بسعی خواجہ محمد حسین گشت تمام
حقیربندۂ از بندہ ہاے اکبر شاہ
بناے دولت ایں شاہ تا ابد بادا
بحق اشہد ان لاالہ الا اللہ
قلعے کے اندر جا کرخوب سیر کی۔ یہ قلعہ ایک پہاڑی پر بنا ہوا ہے اور اس کے اوپر سے سیر شہر کشمیر خوب ہوتی ہے۔ اور چشمۂ ڈل اور شالمار باغ کی کیفیت بھی یہاں سے دوبالا معلوم ہوتی ہے۔ اول تو ایک قطعہ آب مصفا اور دوسرا ایک گلزار پر فضا نظر آتا ہے۔ اس قلعے کے چار درجے بہت مستحکم ہیں اور قلعہ جنگی تعمیر کردہ بادشاہان سلف کا ہے۔ اس قلعے میں ایک مندر شارکا دیبی کا بھی ہے اور چھ بچے پانی کے اور رسد کے گودام بافراط ہیں۔ ہزار جوان اس میں بخوبی رہ سکتا ہے بلکہ زیادہ، اور وقت ضرورت تو کئی ہزار گذر کر سکتے ہیں۔ میگزین بھی خوب محفوظ جگہ میں بنا ہوا ہے۔ غرض کہ اس کی سیر کرکے واپس قیام گاہ پر آئے اور وقت شام واسطے سیر نشاط باغ کے گئے۔ صاحب بہادر نے بھی اس باغ کو بہت پسند فرمایا اور بڑی دیر تک سیر کرتے رہے، وقت شام مراجعت کی۔ اس روز راقم واسطے ملاقات رازدان صاحب کے گیا۔ یہ شخص بڑے خاندان عالی کا ہے، اس کے والد کے مرید بکثرت ہیں اور نام اس خاندان کا تمامی پنجاب میں مشہور ہے۔
بتاریخ 31 مئی 1847ء کشمیر سے بسواری کشتی روانہ ہو کر بمقام سنبل کہ بفاصلہ نو کوس کشمیر سے ہے مقام کیا۔ اس کے قریب ایک چشمہ ہے جس کو مانس بل کہتے ہیں، یہ چشمہ بھی بہت بڑا ہے اور عمیق اور پانی بکثرت اس میں سے نکلتا ہے۔
یکم جون سنہ 1847 عیسوی سنبل سے روانہ ہو کر مقام مٹن کو گئے۔ یہ مقام چھ کوس سنبل سے ہے۔ اور پانچ کوس تو بسواری کشتی اور ایک کوس بسواری یابو طے کیا۔ راستے میں ایک مقام بنام بلہالس مشہور ہے، اس میں ایک خانقاہ کسی بزرگ کی ہے اور پتن میں دو مکان بہت کہنہ اور پرانے ہیں مگر کسی سے ان کا حال کچھ معلوم نہیں ہوا۔
بتاریخ 2؍ پتن سے چل کر بمقام بابا پم ریشی بفاصلہ 6 کوس وارد ہوے۔ یہاں ایک زیارت بابا پم ریشی کی ہے اور بہت مشہور ہے۔ یہاں حکم نہیں کہ کوئی عورت زیارت کو آوے، اس واسطے سواے مرد کے اور کوئی وہاں نہیں رہتا اورمجاور یہاں کے شادی نہیں کرتے۔ اکثر مجاور ایسے ہیں کہ ان کے والدین نے منت کی تھی کہ اگر ہمارے اولاد ہوگی تو ہم پہلا لڑکا زیارت گاہ پر چڑھاویں گے اور جب قدرت حق سے ان کے اولاد ہوئی تو پہلا بیٹا انھوں نے بنام زیارت گاہ مذکور وہاں لا کر مجارورں کے سپرد کر دیا ہے اور بعضے مرید ہو کر رہتے ہیں۔
بتاریخ 3؍ بابا پم ریشی میں مقام ہوا اور وہاں سے واسطے سیر مقام گلمرگ کی جو پہاڑ پر قریب ایک کوس اس مقام سے ہے گئے۔ گلمرگ اس نواح میں مشہور جگہ گلہاے گوناگوں کی ہے۔ وہاں جا کر دیکھا کہ برف پہاڑ پر موجود ہے اور اب کہ موسم گرما ہے تو جا بجا سے برف گل گئی ہے۔ جہاں برف نہیں ہے وہاں پھول رنگ برنگ کے نمودار ہیں، کہیں سرخ اور کہیں زرد اور کہیں سفید اور کہیں سیاہ، اور جس قدر برف گلتی جاتی ہے اس قدر پھول نکلتے آتے ہیں، گویا برف کے نیچے پرورش پاتے ہیں۔ اسی وقت ایک گز بھر زمین برف سے صاف ہوئی تو معاً پھول اس میں نظر آنے لگے۔ اور کیفیت یہ ہے کہ یہ سب پھول رنگ برنگ اس طرح پیدا ہوتے ہیں جیسے چمن بندی میں ہوتے ہیں، یعنی اگر سیاہ ہیں تو برابر ایک تختہ سیاہ پھولوں کا نظر آتا ہے اور اگر سرخ ہیں تو ایک تختہ سرخ ہی کا دکھائی دیتا ہے، غرض اسی طرح ہر ایک رنگ کے پھولوں کے تختے برف کے نیچے سے نکلتے آتے ہیں۔ یہاں فی الحقیقت باغبان قدرت کی صنعت کا تماشا نظر آتا ہے، اس کی تعریف راقم سے تحریر نہیں ہوسکتی، دیکھنے سے تعلق ہے۔
بتاریخ 4؍ روانہ ہو کر بعد طے مسافت چھ کوس کے مقام بارہ مولہ وارد ہوے۔ یہ ایک بڑا قصبہ ہے اور یہاں سب چیزیں خور و نوش کی بکثرت مہیا ہیں۔ متھرا داس نائب کاردار بباعث بیمار ہونے گدامل کاردار کے ہمراہ رہا۔ یہاں بھی ایک پل مثال پل ہاے شہر کشمیر دریاے وتستھا پر قائم ہے، اس کے نواح نہایت پر فضا ہیں۔ اب یہ تجویز قرار پائی کہ یہاں سے اوریہ براہ شنکر گڑھ جاویں اور واپس براہ نوشہرہ اس مقام پر آویں کیونکہ دونوں راستوں کا دیکھنا منظور ہے اور پل جو قریب اوریہ کے ہے اس کا بھی دیکھنا پر ضرور مگر چونکہ پل مذکور پر سے عبور یابو وغیرہ ناممکن ہے لہذا یہ تجویز ہوئی کہ اپنی سواریاں براہ نوشہرہ روانہ کریں اور وہ پل مذکور کے قریب منتظر ہمارے پہنچنے کے رہیں اور ہم بسواری کرایہ براہ شنکر گڑھ روانہ ہو کر عبور پل کرکے ان سے جا ملیں اور کاردار نے بھی اقرار بہم پہنچانے سواری اور باربرداری کا کیا۔
بتاریخ 5؍ سواری کے یابو وغیرہ روانہ اوریہ ہوے اور ہم بھی سواری ہاے کرایہ لے کر روانہ ہوے۔ بعد طے مسافت پانچ کوس کے بمقام شنکر گڑھ وارد ہوے اور اس دن اسی مقام میں قیام کیا۔ راستے میں بمقام پیرنی جو قریب ایک کوس اس جانب اوریہ کے ہے، سلطان زبردست خان واسطے ملاقات صاحب بہادر کے آیا اور نذر دکھلا کر ملاقات کرکے ہمراہ رہا۔ یہ راستہ بہت پر فضا ہے، سبزہ بکثرت اور آبشار جا بجا جاری ہیں، قابل دید ہے۔
بتاریخ 6؍ روانہ ہو کر قریب اوریہ کے جو پل ہے وہاں پہنچے۔ پل کو دیکھ کر ہوش جاتے رہے کہ اس پر سے کیونکر عبور ہوگا، مگر مزدوروں کو جو دیکھا کہ وہ بے تکلف مع بار کے اس پر چلتے تھے۔ ہم نے بھی اپنے دل کو مضبوط کیا۔ جب تمام اسباب پار ہو گیا تو صاحب بہادر اور راقم دونوں اس پر چلے، اول راقم نے یہ چاہا تھا کہ مع پاپوش اس پر چلے، مگر چند قدم جا کر پیر میں لغزش معلوم ہوئی، اس واسطے پاپوش ملاح ہمراہی کو دے کر برہنہ پا اس پر سے بدقت عبور کیا۔ جس وقت بیچ میں پل کے پہنچے تو یہ معلوم ہوتا تھا کہ رسن پل کی پیر کے نیچے سے نکلی جاتی ہے، یہ دیکھ کر تمام بدن میں لرزہ آیا مگر ملاح جو ہمراہ تھا اس نے دیکھ کر کہا کہ گھبراؤ مت میں ساتھ ہوں، یہ سن کر کچھ دل مضبوط ہوا اور بصد خوف پل طے کیا۔ اب یہاں کچھ حال اس پل کا لکھتا ہوں، صورت پل کی یہ ہے:
اس میں نیچے کا جو رسّا ہے وہ پوست درخت کا بہت مضبوط بنا ہوا ہے اور بازو کے رسے بھی پوست درخت کے ہیں اور شاخ ہاے درخت مثل قینچی ہر قدم کے فاصلہ پر نیچے کے رسّے سے بازو کے رسّے تک باندھی ہوئی ہیں، اور ان شاخوں پر پیر رکھ کر چلنا پڑتا ہے۔ نیچے کا رسّا اس قدر گندہ ہے کہ پیر اس پر رکھا جاوے، اور بازو کے رسّے اس سے کچھ کم موٹے ہیں۔ دونوں ہاتھ ان پر رکھ کر اور پیر نیچے کے رسّے پر رکھ کر چلنا ہوتا ہے، اور چونکہ یہ پل قریب ستر گز کے دراز ہے تو رسّا ہر قدم پر لچکتا ہے اور اس کے لچکنے سے اور بھی خوف زیادہ معلوم ہوتا ہے، اور دریا نیچے قریب بیس پچیس گز کے بلکہ زیادہ بڑے زور شور سے بہتا ہے اور پانی اس کا کئی گز بلند بباعث پہاڑ کے اچھلتا ہے۔ جس وقت چلتے ہوے نیچے نگاہ پڑتی ہے تو بس یہ ہی معلوم ہوتا ہے کہ رسّا پیر میں سے نکل جائے گا۔ غرض ایسے پل دشوار گزار سے عبور کرکے دوسرے کنارے پر پہنچے اور وہاں اپنی سواریاں جو موجود تھیں ان پر سوار ہو کر تا بمقام اوریہ طے راہ کی اور وہاں مقام کیا۔ یہاں راجا نواب خان واسطے ملاقات صاحب بہادر کے آیا، اور چند ساعت گفتگوے شوقیہ بمیان رہی۔
بتاریخ 7؍ جون، صبح عطاء اللہ خان برادر کلاں راجا نواب خان واسطے ملاقات صاحب بہادر کے آیا اور بعد اداے رسوم نذر وغیرہ کلمات شوقیہ بمیان رہے۔ بعد غذاے صبح مقام اوریہ سے واپس بجانب بارہ مولہ روانہ ہوے اور بعد طے مراحل چھ کوس کے بمقام نوبہار وارد ہوے۔ راستے میں دو تین مقاموں پر چند تعمیرات کہنہ نظر پڑیں، نوبہار میں رحم دل خان کوچک برادر راجا نوبہار واسطے ملاقات کے آیا اور بیان کیا کہ اس کا برادر کلاں یعنی راجا نوبہار بباعث بیماری حاضر نہیں ہو سکا۔ یہ راستہ کوہی ہے، اکثر پہاڑ راہ میں پڑتے ہیں اور راستے خراب ہیں۔
بتاریخ 8؍ جون بمقام بارہ مولہ وارد ہوے۔ راستے میں قریب نصف کروہ نو شہرہ سے چند تعمیرات کہنہ عہد پانڈوان نظر پڑیں اور صاحب بہادر نے ان کا نقشہ کھینچا۔ یہ تعمیرات گو کہنہ ہیں مگر اب تک قائم ہیں، بعض بعض مقام شکستہ اور خستہ ہوگئے ہیں۔ راستہ کوہی ہے اور کوئی تازہ قابل تحریر نہیں۔ اس مقام سے قریب پندرہ کوس بجانب گوشۂ شمال و غرب ایک جگہ ہے جس کو سویم کہتے ہیں، یہاں زمین خود بخود جلتی ہے اور ارادہ صاحب بہادر کا یہ تھا کہ مقام مذکور کا بھی ملاحظہ کریں۔
بتاریخ 9؍ مقام بارہ مولہ میں قیام رہا اور کوئی حال تازہ قابل تحریر نہ پایا، صرف راقم واسطے سیر بازار بارہ مولہ کے گیا اور بازار آباد پایا۔ غلے کی کچھ قلت تھی مگر نسبت سابق کم تھی۔
بتاریخ 10؍ جون بارہ مولہ سے روانہ ہو کر بمقام ہندوارہ بفاصلہ نو کوس وارد ہوے۔ راستے میں بباعث شدت تمازت آفتاب مقام موند گاؤں میں جو بفاصلہ پانچ کوس بارہ مولہ سے ہے قیام کیا، اور وقت سہ پہر روانہ ہو کر مقام ہندوارہ میں پہنچے۔ رادھا کشن کاردار حاضر نہ تھا مگر اس کا گماشتہ آیا اور مصروف فراہمیِ رسد ہوا۔
بتاریخ 11؍ جون بمقام بخ ہامہ بفاصلہ سات کوس ہندوارہ سے وقت شام وارد ہوے۔ راستے میں سنا کہ قریب دو کوس راستہ چھوڑ کر ایک چشمہ ہے بنام بھدرکالی اور ارادہ ہوا کہ جاکر اس کو دیکھیے۔ وہاں گئے اور دیکھا تو چشمہ بہت مصفا اور قابل دید ہے، پانی بہت خوش گوار اور ہاضم، چند ساعت سیر کر کے اوراس کی فضا کا تماشا دیکھ کر روانہ ہو کر بمقام مقصود وقت شام وارد ہوے اور اسی وقت واسطے دیکھنے سویم کے جو بفاصلہ نصف کروہ کے ہے، گئے۔ اور دیکھا تو سواے زمین مذکور کے گاؤں جو متصل اس کے آباد ہے وہ بھی سوختہ نظر پڑتا تھا اور زمین تمام سوختہ تھی مگر شعلہ ور نہ تھی، اور زبانی چند باشندوں کےمعلوم ہوا کہ یہ زمین قریب پچیس تیس برس کے گذرا ہوگا کہ بارہ برس کے بعد ایک سال تک برابر جلا کرتی ہے، مگر اب نہیں جلتی۔ صاحب بہادر نے زمین کو دیکھا اور اس کا امتحان کیا تو معلوم ہوا کہ اس میں گو گرد وغیرہ کی آمیزش نہیں ہے مگر ایک قسم کی شے اور ہے جو بعض اوقات ہوا سے مل کر آگ پیدا کرتی ہے۔ اس مقام کی سیر کرکے واپس بمقام بخ ہامہ آئے اور شب بسر کی۔ راستے میں نادر علی خان ولد راجا مظفر خان واسطے ملاقات کے آیا اور شب باش رہا۔
بتاریخ 12؍ جون روانہ ہو کر بمقام پچکوٹ بفاصلہ سات کروہ منزل طے کرکے وارد ہوے۔ راستے میں کوئی شے لائق تحریر نہ پائی۔ یہاں کچھ فوج مہاراجا گلاب سنگھ بہادر کی واسطے تنبیہ باشندگان کرنا کے مقیم ہے، مگر فوج کرنائی ان سے سر نہیں ہوتی۔ کرنا ایک قلعہ پہاڑ پر ہے اور راستہ بہت قلب اور دشوار گزار ہے۔ گو جمعیت کرنائی نسبت فوج مہاراجا بہت قلیل اور بے سامان ہے مگر بباعث قلب ہونے مقام کے فوج مہاراجا کا کچھ پیش نہیں چلتا۔ راستہ پچکوٹ تک کوہی ہے اور پہاڑ راستے میں بہت ہے گو دشوار گزار نہیں۔ آبادی اس مقام کی مختصر ہے اور رسد وغیرہ بھی بہت کم دستیاب ہوتی ہے۔
بتاریخ 13؍ چار کوس راستہ طے کرکے بمقام میلیال پہنچے اور اسباب وغیرہ وہاں چھوڑ کر واسطے دیکھنے چشمہ سوتسر کے گئے۔ یہ چشمہ مقام مذکور سے ڈیڑھ کوس کےفاصلے پر ہے، پانی اس کا بہت صاف اور خوش گوار ہے اور چار چشمے برابر برابر ہیں۔ ان چشموں کا کچھ حال معلوم نہیں ہوا کہ بزرگی اس کی کیا ہے؟ مگر جگہ بہت دلچسپ ہے اور بڑی سیرگاہ ہے۔ کچھ حال کرنائی والوں کا اب معلوم ہوا کہ راجا کرنا کچھ بڑا سردار نہیں مگر اپنے قلعے میں رہ کر مہاراجا کی مالگزاری کرتا تھا، کسی سبب نامعلوم سے مہاراجا نے اس پر فوج کشی کی۔ اس کے پاس دو ہزار سپاہی قلمبند نوکر ہیں اور وقت ضرورت بیس ہزار آدمی تک اس کے پاس جمع ہو سکتے ہیں اور مقام قلب اور دشوار گزار ہے مگر سامان نہیں، اس واسطے وہ بمقابلہ فوج مہاراجا کچھ کام نہیں کر سکتا، مگر اپنی عزت اور آبرو کی حفاظت بخوبی کر سکتا ہے۔ اس اضلاع میں معاملہ بطور بٹائی وصول ہوتا ہے، نصف سرکار کا اور نصف معاملہ دار کا۔ اور زمین دار سواے نصف پیداوار کے اور حبوب بھی یعنی رقم سواے بھی دیتا ہے، اور وقت ضرورت معمولی حبوب سے بھی زیادہ ادا کرنا پڑتا ہے۔
بتاریخ 14؍ اسی مقام میلیال میں قیام کیا اور بعد غذاے صبح واسطے سیر کوہ ڈراوا جو ایک نہایت بلند پہاڑ ہے اور اس کے اوپر سے راستہ جاری ہے اور اس راستے کا بھی یہی نام ہے، گئے۔ شام تک خوب سیر اس پہاڑ کی کری، بہت سبز اور تر و تازہ پہاڑ ہے، درخت اور سبزہ بکثرت اور مقام قیام سے چار کوس کے فاصلے پر ہے۔ ایک جانور عجیب یہاں دیکھا کہ دور سے بعینہ ایک جانور طلائی معلوم ہوتا تھا، پر و بال اس کے برنگ طلا اور ایسے تابندہ تھے کہ مثل آفتاب اس میں سے شعاع نکلتی معلوم ہوتی تھی۔ ہم نے بہت چاہا کہ اس کو گرفتار کریں مگر ہاتھ نہ آیا اور جھاڑیوں میں متواری ہو گیا۔ سواے اس کے ایک پھول عجیب تر دیکھا کہ مثل گل کیوڑا اور قریب ایک ہاتھ کے طویل تھا اور گاؤدم ایسا تھا کہ کہیں ذرا بھی کمی بیشی نہ تھی۔ لطف یہ کہ اس ایک خوشے میں ہزارہا پھول خرد مثل گل سمن برنگ سفید شامل تھے اور انھیں پھولوں کے باعث وہ گاؤدم بنا ہوا تھا۔ ایک ایک پھول گویا گلدستۂ قدرت الہی تھا۔ الغرض ایسی ایسی عجائبات دیکھ کر وقت شام فرودگاہ پر واپس آئے اورشب باش ہوے۔
بتاریخ 15؍ مقام میلیال سے روانہ ہو کر سات کوس منزل طے کی اور وقت شام بمقام کوپوارہ وارد ہوے۔ راستے میں بمقام تیرہ گام سیر چشمہ چترناگ کی کری، یہ چشمہ بھی دم برابری چشمۂ آب حیات سے مارتا ہے۔ اس چشمے میں ریشم کی کرم پیدا ہوتی ہیں اور نرخ ریشم خام کا آٹھ روپے سیر ہے۔ کرم مثل کرم چن بوٹ ہوتا ہے اور بہت جلد بڑھتا ہے، یہاں تک کہ دس پندرہ روز کے عرصے میں کچھ سے کچھ ہو جاتا ہے اور غذا ان کی برگ توت ہے۔ شاخہاے توت کاٹ کر ایک مکان میں مع برگ ڈال دیتے ہیں اور انھیں شاخوں میں یہ کرم پرورش پاتے ہیں اور ریشم بناتے ہیں۔ ریشم خام کی اٹی ہوتی ہے اور اس کے اندر رہا کرتا ہے۔ جب موسم ان کی پیدائش کا ختم ہو جاتا ہے اور ریشم خام کی اٹی تیار ہو جاتی ہیں تو اٹی کو گرم پانی میں جوش کرکے خشک کر لیتے ہیں، وہی اٹی ابریشم ہوتی ہے، بعد ازاں بٹ کر اس کا ریشم بنتا ہے۔
بتاریخ 16؍ کوپوارہ سے روانہ ہو کر بعد طے کرنے سات کوس کے بمقام لولر وقت سہ پہر پہنچے، راستہ کوہی ہے اور کچھ حال قابل لکھنے کے نہیں۔
بتاریخ 17؍ وقت صبح روانہ ہو کر سہ پہرکو بمقام السو وارد ہوے، راستہ اس منزل میں بہت خراب ہے اور سواے پہاڑ کے اور کچھ نہیں نظر آتا۔ السو سات کوس ہے، اس میں سے چار کوس کی چڑھائی پہاڑ کی اور تین کوس کی اترائی۔ اس میں منزل طے کرنی پڑی اور کئی مقام پر پیادہ پا چلنا پڑا۔
بتاریخ 18؍ ماہ جون 1847ء مقام السو سے کشتی پر سوار ہو کر واسطے سیر اولر ڈل کے جو ایک چشمہ کلاں ہے اور درمیان میں اس کے راستہ واقع ہے، روانہ ہوے اور اسباب وغیرہ کو براہ خشکی مقام بنکوٹ کو جو بفاصلہ سات کوس مقام مذکور سے ہے روانہ کیا۔ مگر سائیس کو حکم دیا کہ گھوڑا بمقام بنڈ پورہ جو پانچ کوس ہے رکھے اور اسباب آگے جانے دے۔ راستے میں سیر اولر ڈل کرتے ہوے ایک تعمیر زمانۂ بادشاہان سلف دیکھی کہ وسط ڈل میں واقع ہے۔ بطور مسجد کے مشہور بنام لانک اور اس پر یہ کندہ ہے:
ایں بقعہ چوں بنیاد فلک محکم باد
مشہور بزین و زیب در عالم باد
شہ دین عباد تا درو جشن کند
پیوستہ چو تاریخ خودش خرم باد
اس مقام پر سے عجب کیفیت معلوم ہوتی ہے۔ چہار طرف اس کے آب عمیق ہے اور یہ بطور جزیرہ سمندر بیچ میں واقع ہے اور پانی ہر چہار طرف اس قدر ہے کہ نظر کنارے تک نہیں پہنچتی۔ مشہور ہے کہ اس اولر ڈل کے گرد تین سو ساٹھ گاؤں آباد ہیں اور سات یا آٹھ کوس کی طول اور اسی قدر عرض میں ہے۔ یہاں سے چل کر بنڈ پورہ میں پہنچے اور کچھ آرام کرکے بسواری اسپ آگے روانہ ہو کر وقت شام بمقام بنکوٹ وارد ہوے۔ اس مقام سے ارادہ بجانب گلگت اور گریز مصمم ہوا۔ اور چونکہ راستے میں کچھ اسباب رسد نہیں ملتا اس واسطے عزم خرید کرنے رسد پندرہ سولہ روز کا کیا، مگر اس دیہ میں کچھ نہ ملا۔ لاچار مہاراجا گلاب سنگھ کے کارداروں کو اس باب میں کہا گیا اور انھوں نے اقرار دینے رسد کا کیا۔
بتاریخ 19؍ باعث بیمار ہو جانے چند ملازمین کے اسی مقام بنکوٹ میں قیام رہا اور اس دن گوردت سنگھ کارندہ مہاراجا گلاب سنگھ چار روز کی رسد لایا اور کہا کہ یہ تا بہ گریز مکتفی ہوگی، اور وہاں سے دس روز کی اور بہم ہوجاوے گی اور گریز سے دس روز میں تا بمقام جسورہ پہنچ جاؤگے، اور جسورہ سے گلگت تک کی رسد مقام جسورہ سے لے لی جاوے گی۔ یہاں غلام وزیر جسورہ اور وزیرستان گلگت کا وارد ہوا، یہ دونوں کچھ تحفہ اسپ وغیرہ لے کر مہاراجا کے پاس کشمیر جاتے تھے۔ ان سے حال دریافت کیا، انھوں نے کہا کہ یہاں سے تا بہ گلگت راستہ ویرانی میں ہے، کچھ بھی نہیں ملتا، کہیں آبادی نہیں۔ یہاں تک کہ اکثر مقامات میں لکڑی جلانے کی بھی نہیں ملتی اور پانی برف جوش دے کر بہم پہنچتا ہے، اور یہاں سے مقام جسورہ تک تین گاؤں ہیں، حالانکہ جسورہ چودہ منزل ہے اور جسورہ سے گلگت تک بھی اسی قدر تین یا چار دیہ ہیں، یعنی کل آبادی یہاں سے گلگت تک چھ یا سات مقام پر ہے، اور یہ آبادی بھی براے نام یعنی ان میں رسد وغیرہ کچھ بھی نہیں مل سکتی۔ بلکہ وفادار گریز والہ سے بھی یہاں ملاقات ہوئی، یہ شخص یا بزرگ اس کے سابق میں مالک ایک علاقہ گریز کے تھے، مگر جرنیل میان سنگھ کے وقت میں علاقہ ان سے نکل گیا۔
بتاریخ 20؍ بنکوٹ سے روانہ ہو کر وقت شام بمقام پوچی باز بفاصلہ سات کوس کے پہنچے۔ راستے میں سواے پہاڑ کے اور کچھ نہیں تھا اور چڑھائی برابر سات کوس کی تھی، کہیں آبادی نہیں اور نہ پانی ملتا ہے اور پوچی باز میں بھی کچھ آبادی نہیں ہے، مگر ایک نہر پانی کی جاری ہے، اس واسطے یہاں مقام گاہ مقرر ہوئی ہے، اس پہاڑ پر اب تک برف موجود ہے اور لکڑی جلانے کی بہم نہیں پہنچتی اور نہ کوئی درخت ہے، اس واسطے ایک گھاٹی پہاڑ کی جو قریب اس کے ہے وہاں سے لکڑی آئی مگر تر تھی اور جلنے میں بہت خراب۔ ایک طرفہ ماجرا اب بیان کرتا ہوں کہ وقت شام جب ہم اس مقام پر پہنچے تو نہر جاری تھی اور اس کے کنارے پر ہم نے قیام کیا اور جب شب کو کھانا کھا چکے اور واسطے صاف کرنے ظروف کے پانی کی تلاش کی تو نہر خشک تھی اور پانی کہیں نہیں ملا، ناچار اسی طرح بے آب سو رہے۔ صبح جب اٹھے تو پانی موجود تھا۔ یہ حال دیکھ کر کچھ تعجب ہوا مگر بعد ازیں معلوم ہوا کہ یہ نہر برف سے آتی ہے اور وقت شب بباعث شدت سرما کے برف سخت ہو جاتی ہے تو پانی موقوف ہو جاتا ہے اور صبح کو بباعث تمازت آفتاب کے پھر پانی بہنا شروع ہوتا ہے۔ سردی یہاں بکثرت ہوتی ہے، برف بھی دوازدہ ماہ برستی ہے۔
بتاریخ 21؍ روانہ ہو کر بمقام دود کھوتو بفاصلہ دس کروہ قیام ہوا۔ یہاں بھی کوئی بستی نہیں اور نہ راستے میں کوئی آبادی ہے، مگر بباعث آبشار کے جو یہاں جاری ہے قیام گاہ مقرر ہو گیا ہے۔ راستہ بہت خراب اور پہاڑی ہے، برف اکثر مقامات میں راستے پر موجود ہے، اس کے اوپر پیادہ پا چلتے تھے۔ آخر کو وقت شام قیام گاہ پر وارد ہوے۔
بتاریخ 22؍ روانہ ہو کر بمقام ڈوبرو ایک گاؤں گریز کی گھاٹی میں واقع ہے اور پانچ کوس دود کھوتو سے ہے، وارد ہوے۔ اس گھاٹی میں چار گاؤں بڑے اور دو یا تین چھوٹے گاؤں آباد ہیں، اور زراعت اچھی ہے، مگر سواے ترونیہ کہ ایک قسم کا غلہ ہوتا ہے اور اس کی روٹی یہاں والے بناتے ہیں اور سواے مٹر کے اور کچھ پیدا نہیں ہوتا۔ پس باشندے اس گھاٹی کے ترونیہ کی روٹی اور مٹر کی دال بنایا کرتے ہیں۔ یہاں کشن گنگا بہت زور و شورسے بہتی ہے، اور پانی بہت سرد اور شیریں ہے، اور ایک قطعہ مکان بھی یہاں پر سر پل کشن گنگا تعمیر ہے اور اس میں بارہ تیرہ سپاہی ملازمان مہاراجا صاحب بہادر مقیم ہیں۔ راستہ کوہی ہے اور اول گاؤں بنام دانپورہ مشہور ہے۔ یہاں سے جسورہ دس کوس ہے، اس واسطے رسد دس روز کی یہاں سے لیتے ہیں اور جسورہ سے چودہ یا پندرہ منزل گلگت ہے، یہاں سے اب سپاہی پہرہ والے ہمراہی کے سب رخصت ہوں گے اور راقم کو صاحب بہادر نے رخصت نہیں فرمایا۔ اس گھاٹی کی زبان کشمیری زبان سے علاحدہ ہے اور یہ گویا سرحد کشمیر ہے۔ اب آگے کوہستان برفانی متعلقہ گلگت شروع ہوتا ہے۔
بتاریخ 23؍ مقام ڈائر میں ہوا اور سب کو رخصت کیا اور ارادہ روانگی بیشتر کا کل کے روز ہے۔ آج گربھا جمعدار مہاراجا صاحب بہادر آٹھ روز کی رسد لایا اور بعد دینے رسد کے رخصت ہو گیا مگر روانۂ کشمیر نہیں ہوا اور نہ اور سب رخصتی آج یہاں سے گئے۔ کل کے روز صاحب بہادر روانہ گلگت اور یہ لوگ روانۂ کشمیر ہوں گے۔
بتاریخ 24؍ بباعث بارش باراں اسی مقام ڈائر میں قیام رہا۔ آج ایک چٹھی جناب لفٹنٹ ٹیلر صاحب کی بدیں مضمون بنام صاحب بہادر آئی کہ پنڈت کنہیا لال یعنی راقم کو روانۂ کشمیر فرماویں کیونکہ وہاں کارِ سرکاری بہت ضروری ہے۔ اس واسطے صاحب بہادر نے راقم کو رخصت فرمایا اور تنہا چھ سپاہی قلعہ گریز کے ہمراہ لے کر بجانب گلگت جانے کا عزم کیا۔
بتاریخ 25؍ صاحب بہادر روانہ گلگت ہوے اور راقم اور جمیع ملازمان مہاراجا صاحب بہادر جن کو صاحب نے رخصت کیا تھا روانۂ کشمیر ہو کر بمقام دود کھوتو پانچ کوس آکر قیام پذیر ہوے۔
بتاریخ 26؍ دود کھوتو سے صبحی روانہ ہوکر اوپر پہاڑ ڈریہتن کے پہنچے اور دیکھا کہ یکایک تمام عیال گھوڑے کی سفید ہو گئی۔ راقم نے کبھی برف گرتے ہوے اس خوبی سے نہیں دیکھی تھی، متعجب ہو کر دریافت کیا کہ یہ کیا ہے؟ اور برف گرتے ہوے نظر نہیں آتی ہے کہ بباعث سردی کے تمام سر سے پیر تک چغہ وغیرہ پارچہاے اونی سے بند تھا، اور سواے آنکھ کے اور کوئی جزو بدن خالی نہ تھا۔ اور جو پارچہ اونی راقم کے اوپر تھا اس سے سب جسم لپٹا ہوا تھا، صرف آنکھ کھلی تھی اور وہ بھی اسی قدر کہ روبرو کچھ تھورا سا دیکھ پڑے۔ بروقت دریافت معلوم ہوا کہ برف گرتی ہے اور سب ہم یکجا جمع ہوئے اور صلاح کی کیا کرنا لازم ہے۔ راقم نے کہا کہ بارش برف میں ایک مکان محفوظ میں بدیں نظر ٹھہرنا کہ جب برف موقوف ہو تو چلیں بعید از دانائی ہے، کیونکہ برف کا کچھ اعتبار نہیں کہ کس قدر گرے گی اور پانی بھی نہیں کہ بہ جاوے گی۔ یہ جہاں گرتی ہے مثل پتھر جم جاتی ہے، اگر زیادہ گرے تو جہاں ہیں وہاں بند ہوگئے، اور اگر منفذ اس مقام کا بند ہوگیا تو وہیں کے ہو رہے اور زندگی ہاتھ سے گئی۔ اس سے بہتر یہ ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہو یہاں سے بھاگو، کیونکہ برف پہاڑ کے اوپر زیادہ گرتی ہے اور گھاٹی میں کم بلکہ بالکل نہیں برستی۔ یہ بات سب کے پسند آئی اور وہاں سے بھاگے۔ راقم نے گھوڑا چھوڑا اور پیادہ پا بھاگا اور سائیس کو یہ حکم دیا کہ اگر گھوڑا برابر بھاگتا آوے تو خیر لے آؤ ورنہ جہاں یہ نہ چل سکے وہاں اس کو چھوڑ کر تو اپنی جان سلامت لائیو۔ اسی طرح ہم سب بھاگتے بھاگتے تین کوس تک آئے۔ یہاں برف نہیں گرتی تھی بلکہ بباعث شدت سرما اور تکلیف دوا دوش یہاں سے آگے جانا ممکن نہ تھا، غرض کہ چقماق جھاڑ کر آگ نکالی اور جنگل سے لکڑی وغیرہ کچھ جمع کرکے آگ روشن کی اور سب نے اپنے جسم کو ذرا گرم کیا۔ اس عرصے میں سب ہمراہی آکر جمع ہو گئے اور وہاں سے آگے روانہ ہوے۔ جب بمقام پہوچی باز جہاں پہلے مقام کیا تھا پہنچے۔ گو سب آدمی شل ہو گئے تھے اور آپس میں تجویز کرنے لگے تھے کہ آگے جانا ممکن نہیں، مگر راقم نے یہ کہا کہ یہاں بھی اندیشہ برف کا ہے، اگر شب کو برف گرگئی تو کسی سے نکلا نہ جاوے گا اور سب یہاں دب کر رہ جاویں گے۔ جب کسی نے نہ مانا تو راقم نے کہا کہ جس کو رہنا ہے وہ یہاں رہے اور مرے میں تو آگے جاتا ہوں، اور یہ کہہ کر رونہ ہوا تو سب ہمراہی چلے۔ اور وقت پہر رات گئے بمقام بنکوٹ جو سترہ کوس مقام سابق سے تھا وارد ہوے۔ یہاں ملک صاحب کو طلب کیا اور اس کے حمام کو خالی کروا کر شب بسر کی۔ کھانا کسی کو نہیں ملا اور نہ اسباب آیا، مگر ملک نے بڑی مہمان نوازی کی، یعنی اسی وقت ایک دنبہ مچرب ذبح کیا اور راقم کے واسطے لے آیا، وہاں کچھ ظرف نہ تھا جس میں بناتا مگر ایک حکمت یاد آئی کہ اس کے پارچہ بنا کر ایک شاخ درخت میں پرو کر آگ میں خوب بھونا اور نمک لگا کر کھانا شروع کیا، ایک ایک سیخ شاخ پر تیار کرتا تھا اور نمک لگا کر کھاتا تھا۔ یہاں تک کہ اس گوشت میں سے کچھ تھوڑا بچا باقی سب کھا گیا، گو نیم پخت تھا اور مصالح بھی اس میں کچھ نہ تھا مگر اس کی لذت آج دن تک راقم کو نہیں بھولتی۔
بتاریخ 27؍ آج صبح اسباب بھی آگیا اور قلی تبدیل کرکے آگے روانہ ہوا اور بمقام بنڈ پورہ تین کوس طے کرکے قیام کیا اور تمام اسباب جو تر ہو گیا تھا اس کو خشک کیا۔
بتاریخ 28؍ کشتی پر سوار ہو کر براہ اولر ڈل سات کوس طے کرکے بمقام سنبل جس کا ذکر آگے ہو چکا ہے وارد ہوے اور شب بسر کی۔
بتاریخ 29؍ جون 1847ء دوبارہ بمقام کشمیر پہنچا اور لفٹنٹ ٹیلر صاحب بہادر سے ملاقات کی اور شیخ باغ میں مقیم ہوا اور قریب دو مہینے کار سرکار کرکے واپس بمقام لاہور آیا اور اپنے دفتر بورڈ میں مصروف بکار سرکار ہوا۔