دن کا آغاز معمول کے مطابق ہوا تھا وہ سب فجر پڑھنے کے بعد حسین صاحب کو زبردستی پارک لے گئی تھیں دادو پھوپھی بھی فجر میں ہی جاگ گئی تھیں اور ان سب کو جاتے دیکھ کر عادت سے مجبور بڑبڑا بھی رہی تھیں جنہیں ان سب نے اگنور کیا تھا
جاگنگ سے واپس آ کر مریم اور حسین صاحب کچن میں چلے گئے تھے اور باقی سب اپنے روم میں مریم جانتی تھی کہ حسین صاحب کو کچن میں دیکھ کر وہ ضرور کچھ نہ کچھ کہیں گی لیکن وہ حسین صاحب کو ان کے پاس جلی کٹی سننے کے لیے بیٹھا بھی نہیں سکتی تھیں
“بھائی ایسا نہ کہیں دیکھا نہ سنا کہ سات جوان بیٹیوں کے ہوتے ہوئے بھی باپ ناشتہ بنا رہا ہے” جب دادو سے زیادہ دیر باہر اکیلا بیٹھا نہ گیا تو وہ اٹھ کے کچن میں آ گئی تھیں اور حسین صاحب کو ناشتہ بناتے دیکھ کر انہوں نے کانوں کو ہاتھ لگائے تو حسین صاحب خوامخواہ ہی شرمندہ ہو گئے تھے
“آپ کا مسئلہ کیا ہے؟ مہمان ہیں تو مہمان بن کے رہیں ہمارے ذاتی معاملات میں دخل اندازی مت کریں آپ” مریم کا ضبط جواب دے گیا اور وہ پھٹ پڑی تھی
“مریم” حسین صاحب نے اس کا نام پکارتے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا تھا
“آئے ہائے حسین تم نے تمیز نہیں سکھائی اپنی بیٹیوں کو کہ بڑوں سے کیسے بات کرتے ہیں؟” انہوں تھوڑی پہ ہاتھ رکھتے مریم کو اک گھوری سے نواز حسین صاحب سے کہا تھا ان کی باتوں کی آواز سن کے وہ سب بھی کمرے سے باہر آ گئی تھیں
“ہاں نہیں سکھائی تمیز کیونکہ وہ اکیلے تھے سات بیٹیوں کو سنبھالنے والے ان کے کاموں اور روزی روٹی کا وسیلہ کرنے کے بعد ان کے پاس اتنا ٹائم نہیں بچتا تھا کہ وہ ہمیں تمیز سکھا سکیں اور اس ٹائم ان کے نام نہاد رشتے دار بھی پتہ نہیں کہاں تھے جو ہمیں تمیز سکھا دیتے” جواب مریم کی بجائے فاتینا کی طرف سے آیا تھا
“رشتے دار کیوں سکھاتے یہ تو ماں باپ کی ذمہ داری ہے” انہوں نے نخوت سے سر جھٹکا تھا
“ہاں بھئی رشتے داروں کی ذمہ داری بس باتیں بنانا اور طعنے دینا ہے آپ لوگ کیوں نہیں جینے دیتے ہمیں پہلے بیٹیوں کے طعنے دے دے کر ڈپریشن کا مریض بنا دیا ہے ہمارے باپ کو اب ہم انہیں اس سے باہر لانا چاہ رہے ہیں یہ بھی نہیں منظور آپ کو برائے مہربانی ہمارے گھر مت آیا کریں ہمیں نہیں ضرورت ایسے رشتے داروں کی” مریم انہیں کھری کھری سناتی آنکھوں میں آنسو لیے کچن سے واک آؤٹ کر گئی تھی
“پھوپھی معذرت چاہتا ہوں بچی ہے غصے میں کہہ گئی ہے سب آپ تو بڑی ہیں درگزر کر دیں” انہیں منہ کھولتے دیکھ کر حسین صاحب نے نرمی سے کہا تو وہ سر جھٹکتیں باہر چلی گئی تھیں
“کسی کو بھی افسردہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے فاتینا زینیہ تم دونوں ناشتہ اور تم سب اپنے اپنے سکول کالج جانے کی تیاری کرو میں دیکھتا ہوں مریم کو” حسین صاحب نے ان سب کو منہ لٹکائے دیکھ کر کہا تھا اور خود ان کے کمرے کی طرف گئے تھے وہ کمرے میں داخل ہوئے تو مریم بیڈ پہ بیٹھی آنسو بہا رہی تھی
“میرا بچہ تو بہت بہادر ہے پھر آج کیسے ضبط ٹوٹ گیا؟” اس کے پاس بیٹھتے انہوں نے مریم کے آنسو صاف کرتے نرمی سے پوچھا تھا
“بہادر لوگ بھی تو انسان ہوتے ہیں انہیں بھی تو دوسروں کی باتوں سے درد ہوتا ہے نا” اس نے شکایتی نظریں اٹھا کے انہیں دیکھا تھا
“ایسے لوگ تو تمہیں قدم قدم پہ ملیں گے کس کس کا منہ بند کراؤ گی؟ اور میں اچھی طرح جانتا ہوں میری بیٹیاں کیا ہیں اس کے لیے دوسروں کی گواہی کی کیا ضرورت ہے اور لوگوں کی باتوں کو خود پہ سوار کر کے میں جو ڈپریشن کا مریض بنا ہوں میں نہیں چاہتا میری بیٹیوں کے ساتھ بھی ایسا کچھ ہو ایسے لوگوں کی باتوں کو نظرانداز کر دیا کرو” انہوں نے نرمی سے سمجھایا تو اس نے سر ہلایا تھا
“شاباش میرا بچہ تم سب میرا فخر ہو اب جا کر دادو سے سوری کرو” انہوں نے مریم کا سر چوما تھا
“اگر مطلع صاف ہو گیا ہو تو ہم اندر آ سکتے ہیں وہ کیا ہے نا ہمیں سکول کے لیے تیار ہونا ہے” دروازے سے سر نکالتے روش نے کہا تو حسین صاحب اور مریم دونوں مسکرا دیے تھے
پھر مریم اٹھ کے باہر آئی تھی اور برآمدے میں بیٹھی دادو کو لٹھ مار انداز میں سوری کہتے کچن میں چلی گئی تھی وہ چاہ کے بھی ان کے ساتھ نرم رویہ اختیار نہیں کر پائی تھی اس کے کچن میں آتے ہی زینیہ اور فاتینا نے شکر ادا کیا اور پھرتی سے کچن سے نکل گئی تھیں انہیں جاتا دیکھ کر مریم نے افسوس سے سر ہلایا تھا
___________________________
اس دن کے بعد نویرہ نے سارہ لوگوں کے گھر آنا جانا بند کردیا تھا اک دو دفعہ سارہ نے اسے بلایا تھا مگر نویرہ نے سہولت سے انکار کر دیا تھا پھر سارہ خود ہی آ جاتی تھی
آج سنڈے تھا جو کہ معمول کے مطابق ہنگامہ خیز ہی تھا دوپہر کو وہ کھانا بنا رہی تھیں کہ سارہ کے ساتھ ارسلان وہاں آیا تھا سارہ کے ہاتھ میں اک ڈھکی ہوئی پلیٹ بھی تھی یقیناً کچھ سپیشل بنایا تھا وہی لے کے آئی تھی
ارسلان کو حسین صاحب بلکل بیٹوں کی طرح چاہتے تھے وہ حسین صاحب کی غیر موجودگی میں بھی آتا تھا گھر لیکن بہت کم وہ سب اس کے لیے سارہ کی طرح ہی تھیں سوائے نویرہ کے جس کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے وہ یہاں آیا تھا مگر دادو پھوپھی کے ہتھے چڑھ گیا تھا
“اے لڑکے تجھے کسی نے تہذیب نہیں سکھائی کے لڑکیوں سے بھرے گھر میں منہ اٹھا کے نہیں چلے جاتے” ارسلان کو اوپر سے نیچے تک دیکھتے انہوں نے سختی سے پوچھا تھا اور وہ بیچارہ بوکھلا کے رہ گیا تھا
“میں تو بچپن سے آتا جاتا ہوں یہاں اس گھر کا فرد ہی سمجھ لیں اور میں اکیلا نہیں آیا اپنی بہن کے ساتھ آیا ہوں” ارسلان نے جلدی سے وضاحت کی تھی جبکہ دادو نے اس کی وضاحت پہ بس ہنکارا بھرا تھا
“کرتے کیا ہو؟” انہوں نے عورتوں کا پسندیدہ کام یعنی اس کا انٹرویو لینا شروع کیا تھا
“جی پڑھتا ہوں” اس نے جواب دیتے خود کو کوسا تھا وہ یہاں آیا کیوں تھا
“یہ گھوڑے جتنا ہو گیا ہے اور ابھی تک پڑھتا ہے” انہوں نے تھوڑی پہ ہاتھ رکھتے کا اظہار کیا تھا ارسلان خود کو گھوڑا سے تشبیہ دیے جانے پی بلبلا کے رہ گیا تھا جبکہ ان کا کھانا لیے آتی نویرہ کا قہقہہ ضبط کرنے کے چکر میں چہرہ بلکل سرخ پڑ گیا تھا
“اب قد جلدی بڑا ہو گیا ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں” اس نے اک نظر کھانا رکھتی نویرہ کو دیکھتے دانت پیس کے کہا تھا
“میں بھی یہی کہہ رہی ہوں گھوڑے جتنا ہو گیا ہے اب بس کر پڑھائی وڑھائی کوئی کام کر کے اپنے اماں باوا کا بوجھ تھوڑا کم کر” انہوں نے اسے نادر مشورے سے نوازا تو اس نے بس سر ہلایا تھا
“میں اب چلتا ہوں بعد میں آ جاؤں گا” اس سے پہلے کہ وہ کوئی اور سوال کرتیں ارسلان نے وہاں سے کھسکنا ہی مناسب سمجھا تھا
اس کی پتلی ہوئی حالت پہ نویرہ کو لگا تھا اب وہ مزید اپنی ہنسی پہ کنٹرول نہیں کر سکتی اس لیے اس نے بھی کچن کی طرف دوڑ لگائی تھی ارسلان سلگتی نظروں سے اس کی پشت کو دیکھتے وہاں سے چلا گیا تھا اور نویرہ نے کچن میں پہنچتے ہی اپنی کب سے رکی ہنسی کو باہر آنے کا رستہ دیا تھا
“کیا ہوا دادو نے ایسا کونسا چٹکلہ چھوڑ دیا ہے جو تمہاری ہنسی نہیں رک رہی” ان سب نے حیرت سے اسے ہنستے ہوئے دیکھا تھا
“چٹکلا تو نہیں چھوڑا ہاں ارسلان کو ضرور بھگا دیا ہے” اس نے ہنستے ہوئے جواب دیا تو ان سب کو پھر حیرت ہوئی تھی
“ہیں اس نے کونسی بھینس کھول لی تھی دادو کی جو انہوں نے اسے بھگا دیا؟” منیہا نے منہ بناتے پوچھا تھا جس کے جواب میں نویرہ نے انہیں دادو اور ارسلان کے درمیان ہوئی گفتگو کا حال سنایا تو وہ بھی ہنس دی تھیں
“بیچارے کی قسمت میں ہماری دادو کے ہاتھوں ذلیل ہونا لکھا تھا کیا کر سکتا ہے کوئی” فاتینا نے دکھ بھرے لہجے میں کہا تھا سب نے اک نظر اک دوسرے کو دیکھا اور پھر ان کا قہقہہ چھت پھاڑ تھا
____________________________
دادو پھوپھی دو تین دن مزید رہنے کے بعد واپس چلی گئیں تو ان سب نے سکھ کا سانس لیا تھا آج سکول جاتے ہوئے روش مریم سے بریانی کی فرمائش کی تھی مریم کا موڈ بھی خوشگوار تھا اس لیے اس نے بھی ہامی بھر لی تھی اب بریانی بنانے کے بعد وہ اک پلیٹ میں نکالتی اوپر نگہت بیگم کے پاس آئی تھی
“یہ لیں آنٹی میرے ہاتھ کی گرما گرم بریانی چکھ کے بتائیں،،،،” مریم جو اپنے دھیان میں اوپر آتی نان سٹاپ بول رہی تھی نگہت بیگم کے ساتھ بیٹھے روحان کو دیکھ کے اس کی زبان کو بریک لگی تھی اسے معلوم نہیں تھا کہ وہ آج گھر پہ ہی ورنہ وہ زینیہ یا فاتینا کے ہاتھوں بھجوا دیتی
اس رات کے بعد اب ان دونوں کو آمنا سامنا ہوا تھا اس کے خود کو دیکھ کر چپ کر جانے پہ چہرے پہ آئی بےساختہ مسکراہٹ کو لب بھینچ کے روکا تھا روحان کی باقی سب کے ساتھ اچھی فرینکنس ہو چکی تھی سپیشلی روش کے ساتھ وہ اسے اپنا بڑا بھائی مان چکی تھی اور اکثر اوقات اس سے کوئی نہ کوئی فرمائش بھی کر دیتی تھی جسے پورا کرنا روحان اپنے لیے فرض عین سمجھتا تھا
بس مریم سے اس کی بات چیت بلکل بھی نہیں تھی جس میں بڑا ہاتھ مریم کا ہی تھا جو اسے دیکھتے ہی سیکنڈز میں ہی وہاں سے غائب ہو جاتی تھی جیسے وہ کوئی آدم خور ہو اور روحان بس مزے سے اس کی یہ حرکتیں انجوائے کرتا تھا
“ارے آؤ مریم رک کیوں گئی؟” اسے رکتے دیکھ کر نگہت بیگم نے پیار سے کہا تھا
“وہ میں نے بریانی بنائی تھی بس وہی دینے آئی تھی یہ لیں میں برتن بعد میں لے جاؤں گی” مریم نے آگے بڑھتے انہیں پلیٹ تھماتے تیزی سے کہا تھا اور ان کا جواب سنے بغیر تیزی سے سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئی تھی اس کی تیزی پہ روحان کا قہقہہ بےساختہ تھا
“تمہیں کیا ہوا کیوں ہنس رہے ہو؟” نگہت بیگم نے تعجب سے پوچھا تو اس نے نفی میں سر ہلایا تھا تبھی اس کا فون بجا تھا اس نے جلدی سے یس کرتے کان سے لگایا تھا
“ہاں پہنچ گیا تو؟، ٹھیک ہے گھر کے سامنے آتے مجھے میسج کر دینا میں خود باہر آ جاؤں گا بیل بجانے کی ضرورت نہیں ہے” اس نے گھر کا نمبر بتاتے کال کاٹ دی تھی
“کون تھا؟” نگہت بیگم نے پوچھا تھا
“ارسل تھا اک فائل منگوائی تھی وہی دینے آ رہا ہے” اس نے اپنے دوست پلس بزنس پارٹنر کا حوالہ دیا تو نگہت بیگم نے سر ہلایا تھا روحان اور وہ دونوں پارٹنر شپ پہ اک کنسرٹکشن کمپنی رن کر رہے تھے
مریم نے نیچے پہنچ کے پہلے اپنی سانس ہموار کی تھی پتہ نہیں کیوں وہ روحان کو دیکھ کر گھبرا جاتی تھی یا بہت زیادہ کونشئس تھی کہ کسی کو بات کرنے کا کوئی موقع نہ مل جائے شاید اسی لیے وہ اس سے کتراتی تھی
اپنی سوچوں کو جھٹکتے وہ کچن میں داخل ہوئی تھی اور اک پلیٹ میں بریانی نکال کے فاتینا کے ہاتھوں سارہ کے لیے بھجوائی تھی اگر وہ نہ بجھواتی تو سارہ نے اس سے ناراض ہو جانا تھا کیونکہ بقول سارہ کے مریم کے ہاتھ کی بریانی اس کی فیورٹ ہے
فاتینا نے پہلے تو انکار کیا پھر مریم کے آنکھیں دکھانے پہ برے برے منہ بناتی پلیٹ لے کر پڑوس میں چلی گئی تھی بریانی دینے کے بعد حسبِ عادت کچھ دیر بیٹھ کے سارہ کے ساتھ گپیں لگانے کے بعد گھر جانے کے لیے اٹھی تھی
فاتینا گنگناتے ہوئے ان کے گھر سے نکلی تھی لیکن اپنے گھر کے سامنے کھڑے سوٹڈ بوٹڈ شخص کو دیکھ کر اس کے قدم رکے تھے کچھ دیر رک کے فاتینا دیکھنا چاہا تھا وہ بیل بجاتا ہے یا نہیں لیکن اسے اپنی جگہ سے ہلتا جلتا نہ دیکھ کر اس نے آنکھیں سکوڑ کے اسے دیکھا تھا جو بار بار موبائل نکال کے چیک کر رہا تھا فاتینا نے لب بھیجتے اپنے قدم آگے بڑھائے تھے
“مسٹر شرم نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے کب سے آپ ہمارے گھر کے دروازے کے سامنے کھڑے ہیں شکل اور حلیے سے تو آپ شریف لگ رہے ہیں آپ کو ایسی حرکتیں زیب نہیں دیتیں” فاتینا اس کے سر پہ جا کر نان سٹاپ شروع ہو گی تھی
“جی؟” وہ اپنا رخ فاتینا کی طرف کرتے حیرت سے بس یہی کہہ سکا تھا
“جی کسی کے دروازے کے آگے بےوجہ کھڑا ہونا کسی شریف آدمی کا کام تو نہیں ہوتا اور میں کب سے آپ کو یہاں کھڑے دیکھ رہی ہوں نہ بیل بجا رہے ہیں نہ جا رہے ہیں آخر مقصد کیا ہے آپ کا؟ اگر آپ ہم بہنوں میں سے کسی بدنامی چاہتے ہیں تو میں بتا رہی ہوں میں کچا چبا جاؤں گی آپ کو” وہ شخص حیرت سے منہ کھولے فاتینا کی بےسروپیر کی باتیں سن رہا تھا
“بریک پہ پیر رکھیں فاتینا یہ دوست ہے میرا میں نے ہی بلایا تھا اسے اندر بلانا مناسب نہیں لگ رہا تھا تو باہر ہی رکنے کا کہا تھا آپ غلط فہمی کا شکار ہو رہی ہیں” اس سے پہلے کو وہ مزید کوئی گوہر افشانی کرتی روحان وہاں آتے اس کی غلط فہمی دور کی تھی
اس کی بات سن کے فاتینا نے زبان دانتوں تلے دبائی تھی اور چور نظروں سے اسے دیکھا تھا جو ابھی بھی حیرت سے اسے ہی دیکھ رہا تھا مزید شرمندگی سے بچنے کے لیے وہ جلدی سے گیٹ کراس کرتی گھر کے اندر گھس گئی تھی اور ساتھ ہی اپنی جلد باز طبعیت کے لیے خود کو کوسا تھا
“یہ کیا تھا؟” ارسل نے حیرت بھرے لہجے میں استفسار کیا تھا
“یہ تمہاری پھینٹی کا بندوبست تھا اگر میں بروقت نہ آتا تو اب تک لگ چکی تھی” اس کی حیرت بھری شکل دیکھتے روحان نے شرارت سے کہا تھا
“خیر یہ لے فائل تیری اس فائل کے چکر میں آج لوفر بھی بن گیا جو لڑکیوں کا ان کے گھر تک پیچھا کرتا ہے” ارسل نے گہری سانس بھرتے فائل اس کی طرف بڑھائی روحان فائل پکڑتے ہنس دیا تھا
“ویسے لڑکی ہے تو جی دار اگر میری جگہ سچ میں کوئی لوفر ہوتا تو اس کی اچھی پھینٹی لگتی آئی ایم ایمپریسڈ” اس نے ستائش بھرے لہجے میں کہا تھا
“فلحال تو میرا بھائی تُو یہاں سے کھسک یہ نہ ہو تیرے ہی پھینٹی لگ جائے” روحان نے بظاہر سنجیدگی سے کہا تھا لیکن اس کی آنکھوں سے ٹپکتی شرارت دیکھ کر ارسل نے اسے گھورا تھا اور اس سے مصافحہ کرتا وہاں سے چلا گیا تھا
وہ جانتا تھا یہ لڑکیوں والا گھر ہے جس کی وجہ سے روحان اسے اندر نہیں بلا رہا تھا اس لیے بغیر کسی سوال جواب اور شکوے کے وہ چلا گیا تھا اس کے جاتے روحان بھی ہنستا ہوا واپس اندر چلا گیا تھا
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...