کامران اور آصف دونوں دوست آفس جانے کے لیے پوائنٹ کا انتظار کر تے ہوئے باتیں کر رہے تھے۔ ’’آج مسز جور جینا اسمتھ (GeorginaSmith Mrs.) ریٹا ئر ہو رہی ہیں ۔‘‘ کامران نے آصف کی طرف دیکھتے ہوئے دکھ سے کہا۔
’’ہاں یار! بہت برا لگ رہا ہے یہ سوچ کر کہ وہ کل سے آفس نہیں آئیں گی۔‘‘ آصف کے لہجے سے بھی دکھ جھلک رہا تھا۔
’’ہمارا ان کا پانچ سال کا ساتھ ہے ۔ کتنی محبت سے پیش آتی تھیںہم سب…..‘‘ ابھی کامران کا جملہ پورا بھی نہ ہونے پا یاتھا کہ اس نے دیکھا ایک نسوانی ہاتھ اس کے منہ کے آگے پھیلا ہوا تھا۔
’’صاب جی! ناشتا کرادو، بہت بھوک لگ رہی ہے۔ صاب جی! بس پچاس روپے دے دو، اللہ تمھارا بھلا کرے گا۔‘‘ وہ مسلسل بولے جا رہی تھی۔
کامران نے ایک سر سری نظر اس پر ڈالی، کالا لہنگا اس پر سرخ رنگ کی کرتی، جس میں شیشے جھلملا رہے تھے اور سرخ پرنٹڈ بڑے سے ڈوپٹے میں ملبوس ایک بیس، پچیّس سال کی قبول صورت لڑکی کھڑی تھی۔ کامران کھسک کر وہاں سے علاحدہ ہوگیا، آصف بھی کامران کے نزدیک آگیا۔ بات پھر وہیں سے شروع ہوئی ۔ ’’مسزجورجینا اچھے اخلاق، محبت سے پیش آنے والی، اور ہرایک کے کام آ نے والی خاتون ہیں۔‘‘ آصف نے کہا۔
’’ہاں یار! ابھی کامران کچھ کہتا کہ پھر وہی ہاتھ اس کے آگے پھیلا ہوا تھا۔ ’’صاب جی! اللہ تمھیں خوش رکھے، تمھارے بال بچوں کو خوش رکھے، صاب جی! غریب کی مدد کر دو۔‘‘ وہ اور اس کے نزدیک آگئی۔
کامران نے محسوس کیا کہ یہ پیچھا نہیں چھوڑے گی۔ اس نے جیب سے پرس نکالا، اس میں سے سو کا نوٹ نکال کر اسے دکھاتے ہوئے کہا، ’’ میرے پاس Changeنہیں ہے۔‘‘
’’صاب جی! چھٹا میں تم کو دیتی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے لہنگے کے نیفے سے بندھی ہوئی ایک میلی سی تھیلی نکالی، تھیلی کھول کر پچاس کے نوٹوں کی ایک گڈی نکالی جو ربربینڈ سے بندھی ہوئی تھی۔ اس میں سے ایک پچاس کا نوٹ نکال کر کامران کے ہاتھ میں دیا اور اس کے ہاتھ سے سو کا نوٹ لے کر تہہ کرکے تھیلی میں رکھ دیا۔
’’ تمھارے پاس تو اتنے سارے پیسے ہیں، پھر تم کیوں پیسے مانگ رہی تھیں کہ ناشتا کرادو، غریب کی مدد کر دو۔‘‘ آصف نے اس سے پوچھا۔
اس نے تھیلی کو نیفے میں رکھتے ہوئے کہا، ’’صاب جی! یہ تو ہمارا روزی کمانے کا طریقہ ہے۔‘‘
اتنے میں پوائنٹ آ گیا اور کامران اور آ صف دونوں پوائنٹ میں چڑھ گئے۔