اپنے قریبی رشتے داروں کے روز روز کے جھگڑوں سے تنگ آ کر آخر کار ماں نے ہمارے ایک دور کے رشتے دار کے گھر ایک کمرا کرایہ پر لے لیا تھا جو ہماری زبان ہی بولتے تھے۔ یہ جگہ ہمارے پشتینی مکان سے کافی دور دریا کے کنارے واقع تھی۔ ماں کو یہ جگہ پسند نہیں تھی۔ وہ ہر ہفتے بس میں بیٹھ کر اپنے حق کی لڑائی لڑنے پرانی جگہ جایا کرتی جہاں ہمارے پشتینی مکان کے سارے دروازے ہمارے لئے بند کر دئے گئے تھے۔ انھوں نے ایک وکیل سے بھی رجوع کیا تھا جس نے یقین دلایا تھا کہ وہ ان کی ایک ایک پائی وصول کر دیں گے۔ ماں نے ایک بار مجھے باہر سے وہ کمرا دکھایا تھا جس کے اندر میں پیدا ہوا تھا۔ یہ کمرا کافی بڑا تھا جس میں کئی روشندان تھے اور اس کی دونوں کھڑکیاں دروازوں کی جسامت کی تھیں جن کی جھلملیاں برامدے کی طرف کھلتی تھیں۔ اس وقت اس کمرے میں میری عمر کا ایک لڑکا چھپر کھٹ پر بیٹھا اس کی دقیانوسی پوششوں کے نیچے سے میری طرف تاک رہا تھا۔ اس کی دونوں سوکھی ٹانگیں پلنگ سے اس طرح لٹک رہی تھیں جیسے وہ لکڑی کی بنی ہوں جن کے خاتمے پر چڑیوں کے پنجے لگا دئے گئے ہوں۔ میں نے محسوس کیا وہ مجھ سے کچھ بات کرنا چاہ رہا تھا۔ مگر اسے اس کا موقع نہیں ملا۔ اس کی ماں نے ہمیں دیکھ کر دروازہ اندر سے بند کر لیا تھا۔ اب میں کبھی ماں کے ساتھ اس جگہ نہیں جاتا۔ ہمارے پرانے علاقے کے برعکس اس نئے علاقے کی گلیوں بازاروں میں ان لوگوں کی اکثریت تھی جو میرے باپ کی زبان بولتے تھے۔ یہ بڑے ہی اکھڑ قسم کے لوگ تھے، مگر بہت جلد مجھے پتہ چل گیا کہ یہ ایک محنت کش قوم تھی۔ شاید ان پر بہت بڑا بوجھ تھا۔ لیکن ہمارے دور کے رشتے دار انھیں اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے تھے۔ ان کے سلسلے میں ان کی رائے بالکل الگ تھی۔ ان کے خیال میں ہم ان پر زیادہ بھروسہ نہیں کر سکتے تھے۔ شاید میرے باپ کے عمل نے ان کی اس سوچ کو تقویت پہنچائی تھی۔ خود میں نے بازار میں ان چرب زبان پھل والوں کو دیکھا تھا جو کم تر درجہ کے پھل اچھے پھلوں کے ساتھ ملا کر چالاکی سے بیچ دیا کرتے۔ ان کے برعکس آلو پیاز بیچنے والے ملائم چہروں کے مالک تھے جو مجھے پسند آتے۔ وہ سامان والے پلڑے کو بٹکھرے والے پلڑے کے مقابلے کافی حد تک نیچے جھکا دیتے۔ مگر ہمارے رشتے داروں کا خیال تھا ان کے اس عمل سے مرعوب ہونے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ میں جب بھی اکیلا ہوتا وہ میری غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کرتے۔ ’’تم نے کبھی غور نہیں کیا، ان ہندوستانیوں*کے چہروں کا رنگ کبھی نہیں بدلتا اور یہ اچھی بات نہیں۔ تم ایسے چہروں پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔ یہ ان کا ایک اور طرح کا فریب ہے۔ انگریزوں کے وقت سے وہ یہ کرتے آ رہے ہیں اور اب انھیں پکڑ پانا ممکن نہیں۔ کوئی نقصان کر کے سامان نہیں بیچتا۔‘‘ اس دن میں نے ایک اور بھی چیز جانی جب ایک پولس والے نے ہمارے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا اور مجھ سے میری ماں کے بارے میں دریافت کیا۔ اسے شاید میرے بارے میں بھی علم تھا۔ ’’بچے تم یہاں کیا کر رہے ہو۔ یقیناً تمہاری پیدائش اس ملک کی نہیں ہے۔‘‘ اس نے مجھ سے کہا۔ مجھے یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ وہ میرے باپ کی زبان بول رہا تھا۔ ماں نے اشارا کیا اور میں آنگن چھوڑ کر گلی میں آ گیا جہاں ایک بندر والا تماشہ شروع کرنے سے پہلے اپنی ڈگڈگی بجا رہا تھا اور اکے دکے لوگ جمع ہو رہے تھے۔ دس منٹ بعد وہ پولس والا گلی میں دکھائی دیا تو میں نے تماشہ چھوڑ کر دور تک اس کا پیچھا کیا۔ وہ بس چلتا چلا گیا اور چلتے چلتے ایک جیپ کے پاس پہنچ گیا جو ایک ہوٹل کے سامنے کھڑی تھی۔ جیپ کے اندر اور بھی کئی پولس والے بیٹھے تھے جو مٹی کی بھاڑ میں چائے پی رہے تھے۔ جیپ دھول اڑاتی ہوئی سڑک کی بھیڑ میں غائب ہو گئی۔ میں واپس آ رہا تھا جب ماں کو میں نے گلی کے نکڑ پر دیکھا۔ وہ میری ہی طرف آ رہی تھیں۔ انھوں نے اپنا سر اوڑھنی سے ڈھک رکھا تھا۔ اس وقت ان کی آنکھوں میں وہی رقیق مادہ لرز رہا تھا جو ہمیشہ پانی بننے سے انکار کر دیتا۔ ’میرے ساتھ آؤ ارسلان، مجھے تمہاری ضرورت ہے۔‘‘ انھوں نے سختی سے میرا ہاتھ تھام لیا۔ ہم ایک ساتھ چلتے ہوئے ایک سنار کی دکان پر پہنچے جہاں ایک آدمی، جس کے چہرے پر برص نے ملک کا نقشہ بنا رکھا تھا، سلاخوں کے پیچھے بیٹھا تھا۔ وہ فوراً ماں کو پہچان گیا۔ شاید اسے اس بات کا علم نہ تھا کہ اسی درمیان ہم نے دو بار اپنا وطن بدلا تھا۔ بعد میں ماں نے مجھے بتایا کہ وہ ہمارا خاندانی سنار تھا اور جب ان کی شادی نہیں ہوئی تھی وہ میری نانی کے ساتھ ہمیشہ اس دکان میں آیا کرتی۔ ان دنوں اس دکان میں یہ سلاخیں نہیں ہوا کرتی تھیں نہ ہی اس کے چہرے پر برص کا یہ سفید نشان تھا۔ ماں نے اپنے دامن سے ایک کاغذ کی پوٹلی نکالی جسے انھوں نے اوڑھنی کے پلو سے باندھ رکھا تھا۔ اس میں سونے کی ایک ہار پڑی ہوئی تھی۔ اس شخص نے ہار لیتے ہوئے میری طرف مسکرا کر دیکھا اور کہا۔ ’’بچے جلد بڑے ہو جاتے ہیں۔ تم نے کس اسکول میں اس کا داخلہ کروایا ہے؟‘‘
’’وہ دس برس کا ہو چکا ہے۔ اب اس کی اسکول کی عمر نہیں رہی۔‘‘ ماں نے جواب دیا۔
’’کم از کم انسان کو زندہ رہنے کے لئے ایک کاغذ تو چاہئے۔‘‘ وہ احتیاط کے ساتھ ہار کا جائزہ لے رہا تھا جب ماں نے اسے یقین دلایا کہ یہ اسی کا ڈھالا ہوا ہے۔ وہ مسکرایا اور اس نے ہار کو پیتل کے ایک بالکل چھوٹے سے میزان کے پلڑے پر ڈال دیا۔ اتنا چھوٹا میزان میں زندگی میں پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ اس کے پیتل کے منحنی بٹکھرے اور لعل کے سرخ دانے مجھے کسی عجوبے کی طرح نظر آ رہے تھے۔ دونوں پیسے کے بارے میں گفتگو کرنے لگے جس سے مجھے دلچسپی نہیں تھی۔ میں تو شیشوں کے پیچھے کی چمکتی چیزوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس آدمی نے حساب کرنے کے بعد ایک لال پوتھی ماں کی طرف بڑھا دیا جس پر ماں نے فوراً دستخط کر دیا۔ ہم واپس لوٹ رہے تھے جب ماں نے مجھ سے کہا کہ میں کسی سے بھی اس بات کا تذکرہ نہ کروں۔ ’’یہ ہمارے رشتے داروں کا کمینہ پن ہے۔ انھوں نے پولس کو ہمارے پیچھے لگایا ہے۔ جانے وہ کیا چاہتے ہیں۔ مجھے ان سے یہ امید نہ تھی۔‘‘
شام کو وہ پولس والا دوبارا دکھائی دیا۔ اس بار وہ موٹر سائکل پر تھا جسے اس نے ہمارے گھر کے ٹھیک باہر روکا تھا۔ ماں نے اس کے لئے چائے بنائی۔ پولس والے نے چائے پیتے ہوئے میری طرف دلچسپی سے دیکھا۔ ’’کیا تم بیوقوف ہو؟‘‘ اس نے مجھ سے پوچھا۔
’’وہ بس کم بولتا ہے۔‘‘ ماں بولی اور جب وہ چلا گیا تو میں نے دیکھا ماں کی آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے۔ وہ اپنی مٹھی میں دبی ہوئی باقی رقم کو گھور رہی تھی۔ ’’وہ میرا آخری گہنا تھا جسے مجھے گروی رکھنی پڑی۔ اب ہم یہاں نہیں رہ سکتے۔ مجھے شروع میں ہی سمجھ لینا چاہئے تھا۔ ہم لوگ ناگ کے گھونسلے میں لوٹ آئے ہیں۔‘‘
ایک ماہ کے اندر اندر ہم لوگوں نے وہ علاقہ چھوڑ دیا۔ ایک لوکل ٹرین میں بیٹھ کر ہم کئی گھنٹے سفر کرتے رہے جو مجھے ٹرین پر اپنے پچھلے سفر کی یاد دلا رہا تھا جب ہم سرحد سے گذر کر ایک اجاڑ سے اسٹیشن میں ایک ٹرین میں سوار ہوئے تھے۔ یہ ٹرین جن پٹریوں پر دوڑ رہی تھی ان کے دونوں طرف لہلہاتے کھیتوں کی منڈیروں پر ناریل اور کیلے کے درخت کھڑے ہوا میں جھوم رہے تھے۔ آخر کار ہم ایک صاف ستھرے قصبے میں چلے آئے جہاں کھیتوں کے لا متناہی سلسلوں کے اس پار ایک بڑے شہر کی عمارتیں اور عبادت گاہیں نظر آ رہی تھیں۔ وہاں ماں نے مانگ میں سیندور سجایا اور ایک مکان کرایہ پر لے لیا۔ ماں نے مجھ سے کہا۔ ’’ارسلان، میں آخری بار تمہیں اس نام سے پکار رہی ہوں۔ تمہیں اپنا نام بھولنا ہو گا۔ میں نے تمہارے لئے ایک نیا نام اور ایک نیا اسکول چنا ہے۔ ہو سکتا ہے وہاں کلاس میں تم سب سے بڑے لڑکے ہو گے مگر نئے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھنا تمہیں اچھا لگے گا۔‘‘ دوسرے دن وہ مجھے ایک پاٹھ شالہ لے گئی جہاں مجھے پتہ چلا کہ مجھے ایک نیا نام دے دیا گیا ہے۔ مجھے اس سے فرق نہیں پڑا تھا کہ میری ماں نے اپنا نام بدلا تھا یا نہیں۔ در اصل میں جانتا ہی نہ تھا کہ ماں کا ایک نام بھی ہے۔ کلاس میں ایک دن کسی نے مجھ سے میرے باپ کے بارے میں پوچھا۔ جب میں نے اپنی عادت کے مطابق بتایا کہ وہ اب اس دنیا میں موجود نہیں تو کسی کو میری بات سمجھ میں نہیں آئی۔ یہ بات کلاس ٹیچر کے کان تک گئی تو انھوں نے مجھے الگ بلا کر میری سرزنش کی۔ انھوں نے کہا مجھے اپنے باپ کے سلسلے میں ایسی بات نہیں کرنی چاہئے، وہ کیسے بھی انسان ہوں ایک بچے کو اپنے بزرگوں کے سلسلے میں احترام کا رویہ رکھنا چاہئے۔ مجھے اس پر حیرت ہوئی تھی کیونکہ میں نے وہی کہا تھا جو سرحد پار کرتے وقت ماں نے مجھے سکھایا تھا۔ ماں سے جب میں نے اس واقعے کا ذکر کیا تو انھوں نے مسکرا کر مجھے اپنے سینے سے لگا لیا اور مجھے اپنے باپ کا نیا نام بتایا جسے داخلے کے وقت انھوں نے فارم پر ڈالا تھا۔ وہ کافی تھکی ہوئی تھی اور ابھی ابھی میرے نانا کے شہر سے وکیل کے ساتھ مل کر لوٹی تھی جو ہر ماہ ان کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ ہڑپ جایا کرتا۔ ماں کے چہرے کی طرف تاکتے ہوئے مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ مجھے اپنے باپ کے اصلی نام کا تو پتہ ہی نہ تھا۔ ظاہر تھا اگر مجھ سے ان کا نام پوچھا جاتا تو بھی میرے پاس جھوٹ کہنے کے لئے کیا تھا؟
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...