زمین سورج کے گرد گھومتی ہے اور اس کے وقت ہونے والی روشنی اور تاریکی کے سائیکل کے ساتھ ہی جاندار خود کو تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ پھولوں کے خوشبو دینے سے تتلیوں کی اڑان تک سب کچھ اس آفاقی ردھم کے ساتھ ساتھ ہے۔ ہمارے جسم، ذہنی اور رویوں پر تبدیلیاں بھی چوبیس گھنٹے کے سائکل پر ہوتی ہیں۔ ایسا ردھم جانوروں، پودوں اور جراثیم میں بھی ہے اور سرکیڈین ردھم کہلاتا ہے۔ یہ سیٹ کیسے ہوتا ہے؟ اس پر ایک مشہور تجربہ مائیکل سفرے نے 1962 میں کیا تھا۔ انہوں نے کوہِ ایلپس کے تاریخ غار میں آٹھ ہفتے گزارے۔ نہ ہی روشنی، نہ گھڑی، وقت گزرنے کا حساب رکھنے کا ان کے پاس کوئی بھی طریقہ نہیں تھا۔ انہیں اندازہ لگانا تھا کہ کب چوبیس گھنٹے گزر گئے۔ انہوں نے جب اپنے حساب کے مطابق 37 روز گزار لئے تو اصل میں 58 روز گزر چکے تھے۔ ہماری جسمانی گھڑی ماحول سے انفارمیشن لے کر خود کو ایڈجسٹ کرتی رہتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جسمانی گھڑی کا ردھم نہ صرف چوبیس گھنٹوں پر ہے بلکہ موسمیاتی بھی۔ اور موسمیاتی ردھم ہم کئی غیرمتوقع جگہوں پر بھی معلوم کر رہے ہیں۔ موسموں کے ردھم کا اثر رویوں پر بھی ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ خودکشیوں کی تعداد میں اتار چڑھاو پر بھی۔ یہ سب سے زیادہ بہار میں کی جاتی ہیں۔ جنوبی کرے اور شمالی کرے میں بہار کا موسم آنے میں چھ ماہ کا فرق ہے اور ایسا کئے جانے میں بھی۔
سرکیڈین ردھم ادویات کے موثر ہونے پر بھی اثر ڈالتا ہے۔ امیونولوجسٹ ڈینیل ڈیوس کا کہنا ہے کہ مشہور ادویات میں سے تقریباً نصف ایسی ہیں جن کے اثر کا دن کے وقت سے تعلق ہے۔ غلط وقت پر انہیں لینے سے ان کا اثر کم ہوتا ہے۔
ہم سرکیڈین ردھم کی اہمیت سمجھنے کی شروعات پر ہیں۔ لیکن جہاں تک ہمیں معلوم ہے کہ ہر جاندار، بشمول بیکٹیریا کے، اپنی اندرونی گھڑی رکھتا ہے۔ یہ زندگی کا دستخط ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سونا کب ہے؟ اس کا سارا کام سرکیڈین ردھم کا نہیں۔ ہم میں ایک قدرتی سلیپ پریشر بھی ہے۔ ہم جتنی زیادہ دیر جاگیں، یہ اتنا بڑھتا جاتا ہے۔ اس کی وجہ دماغ پر اکٹھے ہونے والے کیمیل ہیں۔ خاص طور پر ایڈینوسین۔ یہ جسم کی توانائی کے خرچ کی بائی پراڈکٹ ہے۔ جتنی زیادہ ایڈینوسین جمع ہوتی جائے، اتنی زیادہ نیند محسوس ہوتی ہے۔
ہمیں کتنی نیند کی ضرورت ہے؟ اس کا تعلق عمر اور صحت سے ہے۔ اس کی ضرورت سات سے نو گھنٹے کے بیچ ہے۔ نوزائیدہ بچے دن میں انیس گھنٹے سوتے ہیں۔ چھوٹے بچوں کی نیند چودہ گھنٹے جبکہ ٹین ایج میں دس گھنٹے کی ہوتی ہے۔
تمام ماہرین اس پر متفق ہیں کہ ہم پچاس سال پہلے کے مقابلے میں کم سوتے ہیں اور یہ پریشان کن بات ہے۔ جسمانی اور ذہنی صحت کو بہتر بنانے کیلئے وقت پر نیند پوری کرنا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔
اور آخر میں ایک اور پرسرار چیز جو کہ جماہی ہے۔ اس کی ہمیں کچھ خاص سمجھ نہیں۔ بچے ماں کے پیٹ میں بھی جماہی لیتے ہیں (اور ہچکی بھی)۔ کوما کی حالت میں بھی یہ لی جاتی ہے۔ یہ ہر کسی کے روز کے معمول میں ہے اور پھر بھی ہمیں نہیں پتا کہ یہ کیوں ہے۔ ایک خیال ہے کہ اس کا کوئی تعلق اضافی کاربن ڈائی آکسائیڈ نکالنے سے ہے، لیکن کوئی اس کی وضاحت نہیں کر سکتا کہ کیسے۔ ایک اور خیال ہے کہ اس سے سرد ہوا اندر جاتی ہے جو کہ نیند کو دور کرتی ہے۔ اگرچہ میری کسی ایسے شخص سے ابھی تک ملاقات نہیں ہوئی جس کی نیند جماہی لینے سے دور ہوئی ہو۔ کوئی سائنسی تحقیق جماہی اور انرجی لیول کا فرق نہیں بتا پائی۔ اس کا تعلق اس سے بھی نہیں کہ ہم کتنا تھکے ہوئے ہیں۔ جب ہم اچھی نیند لے کر اٹھتے ہین تو اس وقت لی جانے والے جماہی کا تعلق تھکن سے یقینی طور پر نہیں۔
اور اس کا زیادہ بڑا اسرار یہ ہے کہ یہ اس کو لیتے دیکھنا، یا پھر اس کے بارے میں سننا یا سوچنا ہی اسے شروع کر دیتا ہے۔ اور جی، مجھے پتا ہے کہ آپ اس وقت جماہی لے رہے ہیں یا لینے والے ہیں۔ اور اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس لئے اگلی جماہی سے پہلے اس پوسٹ کو سمیٹ دیتے ہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...