(الفاظ کے مرمر سے تاج محل کی تعمیر)
(۱)
(۱) تیرے کمرے میں ترے غم کے سوا کچھ بھی نہیں
یہ در و بام ہیں بے رنگ و نوا تیرے بعد
تیرے گلرنگ شبستاں کا مقدر اجڑا
گل ہوئی روشنی اے شمعِ وفا تیرے بعد
(۲) لُٹ گیا ہے ترے مرنے سے ہر اک شئے کا سُہاگ
کھو چکا برگِ حنا، رنگِ حنا تیرے بعد
رنگ غالب ہے اندھیرے کا شبستاں پہ ترے
شُعلۂ حسن سیاہ پوش ہوا تیرے بعد
(۳) تیرے اُجڑے ہوئے کمرے کی ہر اک شئے سے مجھے
تیری باتوں کی ترے پیار کی بُو آتی ہے
زخم سینے کے مہکتے ہیں، تری خوشبو سے
وہ مہک ہے کہ مری سانس رکی جاتی ہے
(۴) تیری چیزوں نے ترے سوگ منائے کیا کیا
غازہ خوں روتا ہے ان پھول سے گالوں کے لیے
ہو کے محروم تری زلف کی آرائش سے
کنگھیاں ترسی ہیں الجھے ہوئے بالوں کے لیے
(۵) مرمریں جسم کی زینت، ترے ملبوس حسیں
تیری محروم جوانی پہ لہو روتے ہیں
آہ! وہ سانحہٗ مرگِ جواں گزرا ہے
حسرتِ بادہ لیے، جام و سبو روتے ہیں
(۶) آہ! وہ تیرے شبستاں کا منور ماضی
کچھ تری روشنی، کچھ چاند کی کرنوں کی ضیا
بجھ گئے ہیں لب و رخسار کے تابندہ چراغ
چاندنی بھول کے آ جائے تو بھی پائے گی کیا
(۷) تو نہ آئے گی سرِ گُل کدۂ شالامار
فرش گریاں ہے ترے نقشِ کفِ پا کے لیے
تیرے انفاس کی نگہت سے ہوئے ہیں محروم
ساغرِ لالہ و گُل روئے ہیں صہبا کے لیے
جب نہ پائی ترے آنچل کی ہوا تیرے بعد
اپنی مہکار سے عاری ہے صبا تیرے بعد
٭٭
(۲)
(۸) میری تحریر کی لہروں میں الجھ کر تو نے
دل سے خود اپنی تباہی کی قسم کھائی تھی
میری تصویر کے جلووں پہ بہکنے والی
تو نے دیکھا نہ کہ تو کس کی تمنائی تھی
(۹) میں، کہ پہلے ہی کسی زُلف کا زندانی تھا
تیری نظروں کو، ترے پیار کو اپنا نہ سکا
تیرے انفاس کی مہکار، ترے جسم کا لمس
میری قسمت میں نہ تھا، اور اسے پا نہ سکا
(۱۰) جس کی تعبیر اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہ تھی
تو نے الفت کا وہ اک خوابِ حسیں دیکھا تھا
میں کہ تھا ایک اسیر غمِ پنہاں، پہلے
میری باتوں سے مجھے اپنے قریں دیکھا تھا
(۱۱) تیرے مکتوب، تری یاد کی دولت کے امیں
دلِ خوں گشتہ کا سرمایۂ جاں ہیں اب بھی
تیرے الفاظ میں مضمر ہے تری دولتِ دل
تیری تحریریں ہی جینے کے نشاں ہیں اب بھی
یوں تو کس پھول کا وہ حال رہا تیرے بعد
تیری تحریر میں ہے بوئے وفا تیرے بعد
٭٭
(۳)
(۱۲) تحفۂ اشک لیے تازہ لحد پر تیری
ان گنت پھول محبت کے چڑھانے کے لیے
زندگی موت پہ لائی ہے عقیدت کا خراج
خاک کے ذروں کو مہتاب بنانے کے لیے
(۱۳) میں جو چاہوں بھی تو اب شاہ جہاں کی مانند
کر سکوں گا نہ کسی تاج محل کی تعمیر
میرے مقدور سے باہر ہے کہ بنوا بھی سکوں
تیرے مرقد پہ ترے عہدِ وفا کی تصویر
(۱۴) اتنا کافی ہے سرِ مرقدِ اربابِ وفا
سبزۂ گُل ہی تری خاک کو گُل رنگ کریں
نہ یہاں آ کے اگر کوئی جلائے قندیل
چاند نکلے تو نچھاور کرے اپنی کرنیں
(۱۵) دیکھ اس خواب گہہِ ناز پہ کل موجِ صبا
لے کے نوروز بہاروں کی خبر آئے گی
کل انہی خاک کے ذروں میں سما جائے گا رنگ
کل اسی خاک پہ گل رنگ سحر آئے گی
(۱۶) لیکن اس وقت تہہ خاک رہے گا روپوش
تیری گل پوش جواں مرگ امنگوں کا سہاگ
تو نہ ہو گی بھی تو گلشن میں بہار آئے گی
تیری فرقت سے ہر اک پھول میں لگ جائے گی آگ
(۱۷) تیرے گہوارۂ آغوش میں اے جانِ بہار
اپنی دنیائے حسیں دفن کیے جاتا ہوں
تو نے جس دل کو دھڑکنے کی ادا بخشی تھی
آج وہ دل بھی یہیں دفن کیے جاتا ہوں
اب زمانے سے چھٹی رسمِ وفا تیرے بعد
بدلی بدلی ہے محبت کی ادا تیرے بعد!
٭٭٭