اپنی ہوس پوری کرنے کے بعد وہ روشم کا سکون چھین کر خود پر سکون سو رہا تھا۔۔ جبکہ روشم کی سسکیاں پورے کمرے میں گونج رہی تھی۔۔
اس کی سسکیوں سے وہ کسمسایا۔۔ اور پھر برا سا منہ بنا کر اس کو دیکھا جو گٹنوں میں منہ دیے رونے میں مصروف تھی۔۔ ناگواری کی لہر اس کے اندر دوڑی۔۔
کیوں رو رہی ہو۔۔ ہاں۔۔ خواہش تھی نا تمہاری میرے قریب آنے کی۔؟؟۔۔ اب پوری ہو گئی ہے تو کیوں رہی ہو؟؟۔۔ کونسا ظلم کا پہاڑ توڑ دیا ہے میں نے تم پہ جو تمہارے آنسو نہیں رک رہے۔۔ اب آواز آئے تو مزید ظلم کرنے سے گریز نہیں کروں گا میں۔۔
اس کے بالوں کو مٹھی میں دبوچے وہ لفظ چبا چبا کر بولا۔۔ پھر سر کو جھٹکا دے کر چھوڑا اور دوبارہ رخ موڑ کر سو گیا۔۔
جبکہ روشم اس کی پیٹھ کو دیکھے سوچ رہی تھی کہ اس سے برا وہ کیا کر سکتا تھا۔۔ اس کی انا اس کی عزت کو مجروح کر کے وہ کہہ رہا تھا کہ کونسا ظلم کیا ہے اس نے۔۔
وہ جو ہمیشہ اس کی جسمانی ذیادتیوں پہ صبر کرتی آئی تھی اب بات اس کی عزت پہ آئی تھی تو زخم اس کی روح میں پیوست ہو گئے تھے۔۔
اپنی سسکیوں کا گلہ گھونٹ کر ہاتھوں سے سختی سے آنسو صاف کر کے وہ بیڈ اے اتری۔۔ اپنی ذات کے بکھرے ٹکڑوں کو سمیٹ کر وہ مشکل سے واش روم کی طرف بڑھی۔۔ یہ تو ایسے زخم تھے جنہیں وہ نہ کسی کو دکھا سکتی تھی نہ ان پہ مرہم رکھا جا سکتا تھا۔۔
بکھرے بال، اترا چہرہ، سلوٹ زدہ چادر
سب بتاتے تھے کہانی گزری رات کی
کیا ہوا خیریت تو ہے آج لیٹ اٹھی ہو۔۔ کہیں طبیعت خراب۔۔ بے جی ناشتہ بنا رہی تھی روشم کے قدموں کی چاپ سے پہچان گئی تھی کہ وہی آئی ہے آخر دو ماہ سے ذائد ہو گئے تھے انہیں ساتھ رہتے۔۔
وہ اپنی ہی رو میں بول رہی تھی۔۔ جب بات کرتے چولہا کی آنچ ہلکی کر کے جونہی مڑی۔۔ اس کے چہرے پہ نظر پڑتے ہی وہ ٹھٹھکی۔۔
آج انہیں اس کا چہرہ بلکل ندرت کی طرح لگ رہا تھا جو خالی پن وہ کبھی اس کے چہرے پہ دیکھتی تھی وہی آج انہیں روشم کے چہرے میں نظر آ رہا تھا۔۔ ورنہ اتنے مظالم کے بعد بھی اس کا چہرہ کھلتا تھا۔۔
لیکن آج انہیں لگ رہا تھا زخم کی رسائی روح تک ہوئی ہے۔۔
کیا ہوا ہے روشم۔۔ وہ فورا اس کی طرف بڑھی۔۔
اور روشم جو کب سے خود پہ ضبط کے بندھن بانھے بیٹھی تھی۔۔ وہ آنسو جو عرش میر کے خوف سے آنکھوں میں رہ گئے تھے بے جی کا ہمدرد کندھا ملتے ہی انہیں فرار کا رستہ مل گیا۔۔
اس نے مجھ سے میرا سب کچھ چھین لیا بے جی۔۔ اس سے اچھا تھا وہ مجھے مار دیتا۔۔ ان کے گلے سے لگے وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔۔
اس وقت اس کا خود کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کسی طرح خود کو ختم کر دے۔۔ اپنے جسم کے ہر اس حصے کو نوچ لے جس پہ عرش میر نے کل رات اپنی مردانگی کا ثبوت دکھایا ہے۔۔
اسے دکھ شاید اتنا نہ ہوتا۔۔ مگر یہ احساس ہی جان لیوا تھا کہ اس کا لمس محض بدلے اور ناپسندیدگی کا تھا اس میں صرف ہوس تھی۔۔ محبت اور عزت تو دور دور تک نہ تھی۔۔
اس کے گلے لگنے سے اس کے سر کا دوپٹہ کندھے پہ ڈھلک گیا تھا اور بے جی روشم کی گردن پہ موجود عرش میر کی درندگی کے نشان بخوبی دیکھ سکتی تھی۔۔
ان کا بیٹا اس قدر گر سکتا تھا۔۔ اس سوچ نے ہی ان کے اندر غصے کی لہر دوڑا دی۔۔ وہ فیصلہ کر چکی تھی آج عرش میر سے دوٹوک بات کر کے رہے گی۔۔
ادھر نیری طرف دیکھو روشم۔۔ میں نے تمہیں پہلے ہی کہا تھا یہاں کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔ عرش میر میری بات سنتا ہے اور میرے اختیار میں جو بھی ہوا وہ میں کروں گی۔۔ اب اپنے آنسو صاف کر کے اپنا حلیہ درست کرو اور جا کر نہا کر آؤ۔۔ اگر وڈی اماں نے دیکھ لیا تو وہ خوامخواں بات کا بتنگڑ بنا دیں گی۔۔ تم سمجھ رہی ہو نا میں کیا کہہ رہی ہوں۔۔
اسے خود سے الگ کر کر انہوں بے اسے پیار سے سمجھایا۔۔ اگر وڈی اماں اس کا چہرہ دیکھ لیتی تو پھر سے تفتیشی پروگرام شروع ہو جاتا جو وہ نہیں چاہتی تھی۔۔
ان کی بات پہ روشم نے محض سر ہلایا۔۔
منہ دھو کر آؤ۔۔ میں دیکھ لیتی ہوں ناشتہ۔۔ وہ جو خاموشی سے چولہے کی طرف بڑھی تھی بے جی نے اسے وہی روک کر دوبارہ کمرے کیطرف بھیج دیا۔۔
اس کے جانے کے بعد انہوں نے ایک گہرا سانس لیا۔۔ انہیں جو عرش میر کے روپ میں ایک امید کی ایک بہتری کی کرن نظر آتی تھی وہ اب معدوم ہو رہی تھی۔۔ فیصلہ تو وہ کر چکیتھیبس اب انہیں عرش میر کا انتظار کرنا تھا۔۔
***
نیند میں ہی اس نے کروٹ بدلی اور جونہی دوسری سائڈ پہ ہاتھ کیا وہ اسے خالی محسوس ہوئی۔۔ مندی آنکھیں کھول
کر اس نے دوسری طرف دیکھا۔۔ روشم وہاں نہیں تھی۔۔
ہچکیوں کی آواز تو بہت پہلے ہی بند ہو گئی تھی وہ سن سکتا تھا۔۔
شاید تبھی اٹھ کر گئی ہو گی۔۔ اس نے اندازہ لگایا۔۔
ماتھے کو مسلتا وہ اٹھ بیٹھا۔۔ رات کا سارا منظر اس کی آنکھوں کے آگے گھوم گیا۔۔
ارادہ تو اس کا دو دن اسلام آباد رہنے کا تھا مگر راستے میں ہی اسے کال آ گئی تھی کہ کچھ پرابلم کی وجہ سے ابھی میٹنگ نہیں ہو سکتی۔۔
کال سن کر وہی سے اس نے گاڑی واپسی کی طرف موڑ لی۔۔ حویلی سے کچھ دور ہی اس کی گاڑی خراب ہو گئی۔۔ وہ جو کچھ راتوں سے ٹھیک سے سو نہیں پایا تھا اور پھر اب تھکن کی وجہ سے اسے اپنا ماتھا تپتا محسوس ہو رہا تھا۔۔
کیسے وہ ہمت کر کے پیدل چل کر گھر آیا یہ وہی جانتا تھا۔۔ گھر آ کر وہ سکون سے سونا چاہتا تھا لیکن جونہی وہ کمرے میں آیا وہ ٹھٹھکا۔۔
سامنے ہی روشم اس کے بیڈ پہ پورے استحقاق سے سو رہی تھی۔۔ ایک لمحے کو تو غصے کی لہر اس میں دوڑ گئی۔۔
اس سے پہلے کہ وہ اس کے پاس جا کر اسے جگاتا روشم کسمسا کر سیدھی ہوئی اور اس کا چہرہ دیکھ کر وہ وہی رک گیا۔۔
کھڑکی سے آتی چاند کی روشنی اس کے چہرے پہ پڑ رہی تھی۔۔ سفید رنگت پہ بادامی آنکھیں جو اس وقت بند تھی۔۔ ہونٹ آپس میں جڑے مسکرا رہے تھے۔۔
اس کی خوشی کا پتہ تو اس کا سویا چہرہ بھی دے رہا تھا۔۔ معصومیت نے اس کے چہرے کو پاک اقر شفاف بنایا تھا۔۔ ایک لمحے کو تو عرش میر مبہوت رہ گیا۔۔
یا تو اس نے کبھی روشم کو اتنے غور سے دیکھا نہ تھا یا پھر اتنی پیاری وہ اسے پہلی بار لگ رہی تھی۔۔
کچھ سفر کی تھکاوٹ تھی اور کچھ روشم کا حسن جو اسے اپنا حق استعمال کرنے پہ اکسا رہا تھا۔۔
وہ اس کے اوپر جھکا اور پھر روشم کی مزاحمتوں کو نظر انداز کرتے وہ اس پہ جھکتا چلا گیا۔۔ اس کا رونا اس کا فریاد کرنا عرش میر کو اس وقت کچھ بھی سنائی نہ دے رہا تھا۔۔
اسے اس وقت صرف ایک ہی چیز سر پہ سوار تھی۔۔ اور وہ روشم کی سسکیوں اور منتوں کے باوجود وہ کر بیٹھا جو اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔۔
***
رات کا ممظر یاد کر کے اسے ایک عجیب سے احساس نے گھیر لیا ۔۔ بلاشبہ اس نے رات کو اسے اچھی طرح بتا دیا تھا کہ اس میں فقط اس کی ضرورت اور بدلہ ہے۔۔
لیکن وہ روشم کو ہاتھ لگانے کا سوچ بھی نہ سکتا تھا۔۔ اسے تو اسے قریب آتے بھی اپنی ہتک محسوس ہوتی تھی۔۔ لیکن اب تو جو ہونا تھا ہو چکا تھا۔۔
بالوں کو مٹھی میں جکڑے وہ اپنے ہوش واپس لا رہا تھا جب واشروم کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔۔
اس نے ایک نظر دروازے کی طرف دیکھا۔۔اسی پل روشم کی بھی نظر اس پہ پڑی تھی۔۔ وہ اسے دیکھ کر ٹھٹھکی۔۔
اس کا فی الحال اتنی جلدی جاگ جانا وہ ایکسپیکٹ نہیں کر رہی تھی۔۔ جتنی بھی اسے اس سے گھن آ رہی ہو اس وقت۔۔ لیکن یہ سچ تھا کہ رات کے واقعہ کے بعد اب اسے اس سے ڈر لگ رہا تھا۔۔
اور عرش میر اس کی آنکھ جو اس پہ پڑی تھی تو ٹھٹھک گئی۔۔ فورا صوفے پہ پڑا دوپٹہ اٹھا کر خود کو کور کیا۔۔
چہرے میں پانی کی بوندیں۔۔ گیلے بال۔۔ جو کمر کو بھگو رہے تھے۔۔ اس وقت یہ سب اسے پھر سے مدہوش کر رہا تھا۔۔
رات کو تو وہ بلکل سادھی تھی تو وہ خود کو روک نہ پایا تھا ابھی تو اس وقت وہ اسے ہتھیاروں سے لیس لگ رہی تھی۔۔ وہ جو اب پھر اس کے سامنے گٹنے نہ ٹیکنے کا سوچ چکا تھا۔۔
اسے دیکھ کر اسے اپنا ارادہ متزلزل ہوتا محسوس ہو رہا تھا۔۔
غیر ارادی وہ بیڈ سے اتر کر اس کی طرف بڑھا۔۔ وہ جو فورا بالوں کو برش کر کے باہر جانے کا ارادہ رکھتی تھی۔۔ شیشے سے عرش میر کو اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر اس کی سیٹی گم ہو گئی۔۔
وہ اس وقت کو کوس رہی تھی جب بے جی کے کہنے پہ وہ اوپر نہانے چلی آئی۔۔ اسے عرش میر کے جانے کے بعد نہانا چاہیے تھا۔۔
لیکن اب تو کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔۔ عرش میر اس کے بلکل پیچھے آن کھڑا ہوا۔۔ ایک نظر اسے دیکھا۔۔ پھر اس کا بازو پکڑ کر اسے دیوار کے ساتھ لگا دیا۔۔
تمہیں کس نے کہا ہے یوں نہا کر میرے سامنے آئو۔۔ ہاں بولو۔۔ اس کے دونوں بازوئوں کو زور سے جکڑتا وہ پوچھ رہا تھا۔۔ اور روشم سوچ رہی تھی کہ نہانہ کیا اتنی بڑی غلطی ہے جو اب اس کی پھر سے باز پرس ہونے لگی تھی۔۔
اپنے خوف میں اس نے عرش میر کا لہجہ محسوس ہی نہ کیا تھا ورنہ جان جاتی کہ اس وقت وہ غصے میں بلکل نہیں تھا۔۔
پلیز مجھے معاف کر دے۔۔ میں آئندہ نہیں کروں گی ایسا۔۔ پلیز مجھے جانے دے۔۔ اس کا خوف رات سے اس کے دل میں اتنا بیٹھ گیا تھا کہ وہ فی الحال صرف یہاں سے جانا چاہتی تھی۔۔
کیسا نہیں کرو گی۔۔ اس کو خود سے مزید قریب کرتا وہ اس پہ جھکا۔۔ ہاتھوں کی گرفت اب بھی سخت تھی۔۔
آپ کی اجازت کے بغیر کچھ نہیں کروں گی۔۔ نا چاہتے ہوئے بھی پھر سے اس کے آنسو نکل آئے۔۔
اور وہ جو پھر سے کچھ کرنے کاارادہ رکھتا تھا۔۔ اس کے آنسو دیکھ کر جیسے ہوش میں آیا۔۔ اس کے جھٹکے سے چھوڑ کر سیدھا ہوا۔۔
جائو یہاں سے۔۔ فورا۔۔ اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا وہ اسے آرڈر دے رہا تھا۔۔ روشم نے ایک نظر اس کے مڑے ہوئے چہرے کی طرف دیکھا اور دوپٹہ سر پہ لے کر فورا باہر کی طرف بھاگی۔۔
اس کے جانے کے بعد عرش میر نے ایک نظر دروازے کی طرف دیکھا۔۔ وہ خود نہیں جانتا تھا کہ رات سے اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔۔ پر جو بھی ہو رہا تھا ٹھیک نہیں ہو رہا تھا۔۔
ایک گہرا سانس کے کر وہ واش روم کی طرف بڑھ گیا۔۔ اپنی سوچوں سے وہ خود بھی تنگ آ چکا تھا۔۔
***
کہاں تھی تم۔۔ وہ جو اپنے ہی دھیان سے سیڑھیاں اتر کر کچن کی طرف جا رہی تھی وڈی اماں کی آواز پہ ٹھٹھکی۔۔
جی وہ۔۔ وہ۔۔ ابھی وہ کقئی جواب سوچ ہی رہی تھی کہ بے جی بڑی بول پڑیں۔۔
وڈی اماں عرش میر نے بلایا تھا اسے۔۔ کوئی شرٹ پریس کروانی تھی اسے۔۔ ورنہ یہ تو میرے ساتھ ہی اٹھ کر کچن میں آ جاتی ہے۔۔ بے جی نے فورا سے حمایت کی۔۔ بہانہ وہ پہلے سے ہی سوچے بیٹھی تھی۔۔
ہمم۔۔ ٹھیک ہے۔۔ اب دفع ہو خائو کچن میں۔۔ اس کے گیلے بال اور سرخ رنگ تو انہیں کوئی اور ہی داستان سنا رہے تھے لیکن پھر عرش میر کا رویہ یاد کر کے انہوں نے اپنے زہن کو جھٹکا۔۔
اتنی نفرت تو وہ عرش میر کے دل میں ونی کے لیے پیدا کر چکی تھی کہ وہ اب اس پہ تھوکتا بھی نہیں۔۔ ویسے بھی وہ بہت جلد عرش میر کی دوسری شادی کروانے کا سوچ رہی تھی بس انہیں ندرت کی عدت پوری ہونے کا انتظار تھا۔۔
***
عرش میر میری بات سنو۔۔ اس وقت تک سب ہی ناشتہ وغیرہ کر کے جا چکے تھے وہ خود ہی لیٹ اٹھا تھا۔۔
اس کے ناشتہ کرنے تک وڈی اماں اس کے پاس ہی بیٹھی رہی تھی۔۔ پر جیسے ہی وہ اپنے کمرے میں گئی۔۔ بے جی نے اسے دروازے پہ آ لیا تھا۔۔ ان کا بات کرنا بہت ضروی تھا۔۔
جی بے جی کہیے۔۔ وہ اسے لے کر کچن کی اوٹ میں ہو گئی تھی۔۔ کہ اگر کوئی انہیں اکھٹا بات کرتے دیکھ لیتا تو جب تک بات پوری نہ کھل جاتی اس کی کمبختی آتی رہنی تھی۔۔
ادھر بیٹھو۔۔ اسے کچن میں پڑی کرسیوں میں سے ایک پہ بیٹھنے کا کہہ کر وہ خود بھی اس کے پاس ہی بیٹھ گئی۔۔
جی بے جی کہیے۔۔ بیٹھنے کے بعد وہ ان کے چہرے پہ دیکھ رہا تھا جو شاید بات کرنے لیے الفاظ ڈھونڈ رہی تھی۔۔
میرا عرش میر کہاں ہیں۔۔ سیدھا سوال آیا تھا۔۔ ان کے سوال پہ وہ چونکا۔۔ اور نا سمجھی سے انہیں دیکھا۔۔
میں سمجھا نہیں بے جی۔۔ وہ واقعی نہ سمجھا تھا۔۔
میں پوچھ رہی ہوں میرا عرش میر کہاں ہے۔۔ جسے میں نے پالا تھا۔۔ جس کی تربیت میں نے کی تھی۔۔ جو عورت کی ذرا سی ذیادتی پہ غصے سے پاگل ہو جاتا تھا۔۔ وہ کہاں ہے عرش میر۔۔ کیونکہ جو میں اس وقت دیکھ رہی ہوں وہ تو انہی روایتوں میں جکڑا ایک انا پرست اور مغرور مرد ہے۔۔
وہ جیسے جیسے بے جی کی باتیں سن رہا تھا اسے کچھ کچھ اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ کس بارے میں بات کر رہی ہیں۔۔
آپ کیا کہنا چاہتی ہے بے جی کھل کر کہیے۔۔ وہ اب دوٹوک بات کرنا چاہتا تھا۔۔
مجھے لگتا ہے میں کھل کر ہی بات کر رہی ہوں۔۔ پھر بھی تم سننا چاہتے ہو تو سنو۔۔ روشم بیوی ہے تمہاری عرش میر جیسے بھی سہی کسی بھی فضول رسم میں ہی سہی۔۔ لیکن تمہاری بیوی بن کر اس گھر میں آئی۔۔ اور تم مجھ سے بہتر جانتے ہو کہ ایک بیوی کے کیا حقوق ہوتے ہیں۔۔
انہوں نے دو ٹوک بات کر ہی دی۔۔ ان کی بات پہ اس نے ایک گہری سانس لی۔۔ پھر بولا تو لہجے ایسے تھا جیسے بمشل غصے کو قابو کر کے رکھا ہو۔۔
آپ کچھ نہیں جانتی بے جی۔۔ اپنی ماتھے کی پھولتی رگوں کو اس نے مشکل سے کنٹرول کیا۔۔
میں اس کے علاوہ کچھ جاننا بھی نہیں چاہتی عرش میر۔۔ مجھے بس اتنا پتا ہے میں نے اپنے بیٹے کو شہر انسان بننے کے لیے پڑھنے بھیجا تھا مگر وہ تو حیوان بن کر آ گیا۔۔ اور میں اس حیوان سے کہہ رہی ہوں میرے عرش میر کو واپس لے آئو۔۔ مجھے امید ہے تم سمجھ گئے ہو تو آئندہ میں روشم کی آنکھوں میں وہ ظلم کی داستان نہ دیکھو گی جو آج صبح میں نے دیکھی۔۔
اپنی بات کہہ کر وہ رکی نہیں تھی۔۔ اسے سوچنے کا موقع دے کر وہاں سے چلی گئیں۔۔
جبکہ ان کے جانے کے بعد اس نے اپنا غصہ سلیٹ پہ مکا مار کر نکالا تھا۔۔ وہ سوچ چکا تھاکہ اب اسے روشم کے ساتھ کیا کرنا ہے۔۔ لیکن اب اسے ضروری کام سے جانا تھا۔۔ اس لیے اپنا غصہ کنٹرول کر کے روشم کو واپسی پہ دیکھنے کا سوچ کر گھر سے باہر نکل آیا۔۔
اب روشم کے ساتھ کیا ہونے والا تھا یہ تو وہ جانتا تھا یا اس کا خدا۔۔
کہاں لے کر جا رہے ہیں مجھے۔۔ جب سے اس کے ایگزامز ختم ہوئے تھے تب سے وجدان اس کو رات کو فکیٹ سے اٹھا کر واک پہ لے جاتا تھا۔۔
پھر چاہے اس کی آنکھیں کھلی ہو یا بند اس کی پرواہ اس نے کبھی نہ کی تھی۔۔ ابھی بھی وہ اسے نیند سے جگا کر لایا تھا اور وہ بند آنکھوں سے چلتی بس بیہوش کونے کو تھی وہ شکر تھا کہ وجدان نے اس کا ہاتھ پکڑ کر رکھا تھا۔۔
روز رات کو کہاں جاتے ہیں ہم۔۔ پھر بھی پوچھ رہی ہو۔۔ اس کی نیند کی پرواہ کیے بغیر وہ اسے اس وقت سڑک پہ گھما رہا تھا۔۔ ارادہ اس کا پارک میں جانے کا تھا۔۔
پتہ ہے مجھے۔۔ پارک جا رہے ہیں۔۔ لیکن مجھے بہت نیند آ رہی ہے وجدان۔۔ پکیز جانے دے نا آج۔۔ گھر چلتے ہیں۔۔ جمائی لیتے وہ آدھی سے ذیادہ نیند میں تھی۔۔
چپ کر کے چلو۔۔ تم نے کہا تھا کہ پیپرز خے بعد جو کہے گئے وہ کروں گی لیکن ان میں ڈسٹرب نہ کرے۔۔ اب بھول گئی ہو اپنا قول۔۔ اسے آنکھیں دکھا کر وہ یاد کروا رہا تھا۔۔
ہاں تو یہ تو نہیں کہا تھا کہ میری نیند کے دشمن بن جائیں۔۔ نیلم کو صرف سونا ہی تو بہت پسند تھا۔۔
اور تم جو دوری اختیار کر کے میری دشمن بنی بیٹھی ہو۔۔ کہا بھی تھا شادی کر لیتے ہیں۔۔ اب نہیں رہا جاتا تم سے دور۔۔ پر تم نے اسڈیز کی ضد رکھی۔۔ اب میری بھی بات مانو۔۔
وہ بھی ایک مشہور بزنس مین تھا گھاٹے کا سودا اس نے کبھی نہیں کیا تھا۔۔ اگلے کی ایک بات مان کر کیسے اپنی سو باتیں منوانی ہیں وہ خوب جانتا تھا۔۔
قسمے زرا جو رحم آتا ہو آپ کو مجھے دیکھ کر۔۔ چلتے چلتے وہ پارک میں پہنچ ہی گئے تھے۔۔ ایک نظر وجدان نے اس کی معصوم شکل کو دیکھا اور پھر اس کا بازو پکڑ کر اسے بینچ پہ بٹھا دیا۔۔
یہ کیا کر رہے ہیں آپ۔۔ اسے اپنے جوتے کے تسمے باندھتے دیکھ کر نیلم کو حیرت کا جھٹکا لگا۔۔ ایسا کب دیکھا تھا اس نے۔۔
تمہارے لیسز باندھ رہا ہوں۔۔ تب سے ایسے ہی چل رہی تھی اگر گر جاتی تو۔۔ اپنا کام ختم کر کے اس نے اسے مصنوعی غصے سے دیکھا ۔۔
میں کیسے گر سکتی تھی آپ تھے نا مجھے پکڑنے کے لیے۔۔ اس کی گال پہ ہاتھ رکھ کر وہ یقین سے بولی۔۔
اور میں ہمیشہ رہوں گا بھی۔۔ چلو آئو اب واک کریں۔۔ اٹھو۔۔ اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں لے کر وہ کھڑا ہو چکا تھا اور اب اسے بھی کھڑا ہونے کا بول رہا تھا۔۔
نہیں پھر سے نہیں۔۔ واک کا سوچ کر ہی نیلم کا پھر سو سر چکرانے لگا تھا۔۔
کوئی بہانہ نہیں اٹھو شاباش۔۔ زبردستی ہی سہی وہ اسے اٹھا چکا تھا۔۔
بہت برے ہیں آپ وجدان۔۔ منہ بناتی وہ اٹھ ہی گئی تھی۔۔
میری شان میں تعریفیں تم واک کے دوران بھی کر سکتی ہو۔۔ ایک ہاتھ اس کے کندھے پہ رکھے اب وہ نا صرف خود چل رہا تھا بلکہ اسے بھی زبردستی گھسیٹ رہا تھا۔۔
آپ کی شان میں میرے پاس کرنے کو اتنی تعریفیں کہ عمر کم پڑ جائے لیکن وہ ختم نہ ہو۔۔ نیلم نے طنزا جواب دیا۔۔
تو یار یہ تو اچھا ہے۔۔ شادی کے بعد ہمارے بچوں کو بتانا۔۔ کہ آپ کے بابا ایسے کرتے تھے ویسے کرتے تھے۔۔ کان کے قریب اس کے سرگوشی ہوئی۔۔
آپ نا۔۔ بہت ہی بے شرم ہو گئے ہیں۔۔ اس کا کندھے سے ہاتھ ہٹا کر وہ اب تیز تیز چل رہی تھی۔۔ کوئی پتہ نہیں تھا اب وہ بات کرنے کے ساتھ ایسی کوئی حرکت ہی کر دیتا جو اسے سرخ ہونے میں مجبور کر دیتی۔۔
یار ابھی تو تم نے میری بے شرمی کے قصے سنے ہی نہیں ہے۔۔ ذرا سنتی تو جائو۔۔ اسے تنگ کرنے کے لیے وہ بھی اس کے پیچھے سپیڈ سے آیا۔۔
مجھے نہیں سننے۔۔ اسے قریب آتا دیکھ کر اب کہ نیلم نے دوڑ لگا فی تھی جبکہ وہ بھی ہنستے ہوئے اس کو پکڑنے کے لیے اس کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔۔
***
بے جی آپ ندرت کیا ہمیشہ ایسے ہی رہے گی۔۔ وہ جو دپہر کا کھانا ابھی ندرت کو دے کر آئی تھی۔۔ اس کو یوں اکیلے سفید اور خالی لباس میں دیخھ کر اسے بہت افسوس ہوتا تھا۔۔
اس کا کیا فیصلہ ہو گا۔۔ یہ تو اب وڈی اماں اور تمہارے بائو جی ہی کریں گئے۔۔ شاید شادی کر دیں یا شاید اسے ساری زندگی یوں ہی بٹھا کر رکھے۔۔ اب اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتی میں۔۔
ان کی اپنی زندگی ایک خول میں گزری تھی کبھی کوئی بیوہ دیکھی نہ تھی تو اب اس کے ساتھ کیا سلوک ہوتا یہ تو اب وہ بھی نہیں جانتی تھی۔۔
ہمم۔۔ مجھے تو اسے دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے۔۔ لیکن وہ بہت پرسکون رہتی ہیں۔۔ کیا عرشمان بھائی واقعی بہت ظلم کرتے تھے ان پہ۔۔
روشم سبزی چھیلتے اشتیاق سے پوچھ رہی تھی۔۔
کوئی ایسا ویسا۔۔ عرشمان نے تو اسے غلام جتنی بھی حیثیت نہ دی تھی۔۔ میں نے تو اسے کبھی مسکراتے بھی نہ دیکھا تھا۔۔ اب تو کبھی کبھی مسکرا بھی دیتی ہے۔۔ مجھے لگتا ہے اس کو عرشمان کے جانے سے زندگی ملی ہے۔۔
وہ اسے عرشمان کے ظلم و ستم کا بتا رہی تھی اور وہ چپ کر کے سن رہی تھی کہ اس سے ساتھ بھی تو یہیسب ہو رہا تھا پر بلاشبہ ندرت مے اسے ذیادہ سہا تھا۔۔
ہممم۔۔ اس لیے وہ اتنی پرسکون رہتی ہے اب۔۔ میں سمجھ سکتی ہوں اسے کہ میں بھی تو اب اس سب سے ہی گزر رہی ہوں نا بے جی۔۔
ان کی بات کے ختم ہونے پہ وہ افسردہ سی بولی۔۔ اس کی بات پہ ان کے ہاتھ رک گئے۔۔ ایک گہرا سانس لے کر وہ اس کے پاس آئی اور اس کے سامنے رکھی چیئر پہ بیٹھ گئی۔۔
اب نہیں ہو گا روشم۔۔ میں نے صبح عرش میر سے بات کی ہے۔۔ اس کا ہاتھ پھر کر وہ اسے بتا رہی تھی۔۔
کیا بات کی ہے۔۔ ان کی بات پہ وہ ٹھٹھکی۔۔
اسے سمجھایا ہے کہ انسان بن جائو نہیں تو خدا کی لاٹھی بے آواز ہے۔۔ پوری بات نہ سہی پر بات کا کرکس وہ اسے ایک ہی جملے میں بتا چکی تھی۔۔
اففف بے جی۔۔ یہ کیا کیا آپ نے۔۔ کہیں اب وہ مجھ پہ اور ظلم نہ کرے انہیں تو یہی لگے گا نا کہ میں نے آپ سے شکایت لگائی ہے۔۔ روشم کو تو اپنی ٹینشن پڑ گئی تھی۔۔
عرش میر کے مزاج کو وہ اتنے دنوں میں تو سمجھ ہی گئی تھی۔۔
نہیں لگے گا۔۔ اور اگر دوبارہ کرتے تو بتانا۔۔ کان کھینچوں گی اس کے۔۔
آپ سے پہلے وہ میرے کان کھینچے گا۔۔ ایک نئی پریشانی اسے لاحق ہو گئی تھی۔۔
نہیں کھینچتا۔۔ اس سے پہلے کہ وہ مزید بات کرتی باہر سے عرش میر کے آنے کی آواز آئی۔۔ اس گھر میں جو بھی داخل ہوتا تھا اونچی آواز میں سلام لینا سب پہ فرض تھا۔۔
لو آ گیا ہے۔۔ سبزی کاٹنے کے بعد انہوں نے ہاتھ دھوئے اور باہر کو آ گئی دوپہر کے کھانے پہ وہ نہیں آیا تھا تو یقینا اب اسے بھوک لگی ہو گی۔۔
ہاں۔۔
Think of the devil and the devil is here۔۔
ان کے جانے کے بعد وہ منہ میں بڑبڑائی اس کا نام سن کر ہی ایک خوف کی لہر جو دوڑی وہ تو الگ بات۔۔ منہ بھی حلق تک کڑوا ہو گیا تھا۔۔
آ گیا میرا بیٹا۔۔ کھانا لائوں۔۔ دوپٹہ سے ہاتھ پونچھتی وہ اسے پاس آئی۔۔ صبح انہیں لگتا تھا انہوں نے سمجھا دیا ہے اسے۔۔ اب وہ دوبارہ وہ سب نہیں کرے گا تو اس لیے پیار سے بات کی۔۔
نہیں بے جی۔۔ میں فریش ہو کر آتا ہوں پہلے۔۔ وہ صوفے سے اٹھا لیکن پھر کچھ سوچنے پہ دوبارہ مڑا۔۔
آپ ایسا کرے روشم کو بھیج دیں اسے کہیں کھانا ساتھ ہی لے آئے۔۔ میں کھانا آج اپنے روم میں کھائوں گا۔۔ انہیں مسکرا کر کہتا قہ اوپر چلا گیا۔۔
جبکہ پیچھے بے جی سوچ رہی تھی شاید اسے صبح کی باتوں کے بعد عقل آ گئی ہے۔۔ اس کا لہجہ آج کافی دیر بعد نرم تھا۔۔ لیکن یہ ان کی خام خیالی ہی تھی کتے کی پونچ کب سیدھی ہوئی ہے۔۔
جائو روشم اس سب کو چھوڑو۔۔ اور اوپر عرش میر کو کھانا دے آئو۔۔ اس کے ہاتھ سے کٹر اور چھری لے کر انہوں نے سائڈ پہ کر کت اسے نیا حکم صادر کیا۔۔
میں کیوں۔۔ کیا وہ کھانا آج ڈائننگ روم میں نہیں کھائیں گئے۔۔ بے جی کی بات سنتے ہی روشم کے طوطے اڑ گئے تھے۔۔
نہیں اس نے کہا ہے کھانا روم میں لے آئیں۔۔ اور لہجی بھی بے حد نرم تھا اس کا۔۔ میں نے کہا تھا صبح سمجھایا ہے میں نے اسے۔۔ اب اسے اپنا رویہ تبدیل کرنا ہی تھا۔۔ بے جی کی تو کوئی خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہ تھا۔۔ ایک نئی امید انہیں پھر سے نظر آنے لگی تھی۔۔
بے جی آپ شیور ہے نا؟؟ روشم کو ابھی تک یقین نہیں آ رہا تھا۔۔ آخر ایسے کیسے وہ سیدھا ہو گیا۔۔
ہاں بابا بلکل شیور ہوں۔۔ اب تم ذیادہ دیر مت کرو۔۔ اور یہ ٹرے لے کر جائو اوپر۔۔ باتوں باتوں میں وہ فورا کھانا بھی گرم کر چکی تھی۔۔ جھٹ سے ٹرے اس کے ہاتھ میں پکڑائی۔۔
اور روشم یقین اور بے یقینی کی کیفیت میں “جی اچھا” کہتی ٹرے لے کر اوپر آ گئی۔۔
***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...