(۲۰۰۵ کے زلزلے کے وقت لکھی گئی سچی داستان)
انور یوں تو سند یافتہ ٹیچر ہے لیکن آسٹریلیا میں اسے سیکیورٹی گارڈ کا کام کرنا پڑا۔ پڑھانا انور کا شوق ہی نہیں جنون ہے۔ہوش سنبھالنے سے جوانی کے سفر میں انور نے اپنے لیے صرف ایک ہی خواب دیکھا تھا۔ وہ خواب یہی تھا کہ وہ علم کی روشنی اپنے دل اپنے دماغ سے دوسروں تک منتقل کرے۔یوں تو پاکستان کے ہر خطے،ہر علاقے، ہر محلے اور ہر گاؤں میں اس روشنی کو پھیلانے والوں کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن اول خویش بعد درویش کے مصداق انور یہ کام اپنے گاؤں کے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے سے شروع کرنا چاہتا تھا۔ کیونکہ اس دورافتادہ اور دشوار گزار راستے پر واقع اس گاؤں میں اساتذہ کی ہمیشہ کمی رہی تھی۔ اسی وجہ سے یہ سکول پرائمری درجے سے آگے نہ بڑھ سکا۔
پرائمری کے بعد بچوں کوچار کلو میٹر دور دوسرے گاؤں جانا پڑتا تھا۔ معصوم بچے بھاری بستے اُٹھا کر روزانہ آٹھ کلو میٹر کا فاصلہ پیدل طے کرتے تھے۔ کیونکہ اس کے علاوہ کوئی اور ذریعہِ سفر دستیاب نہیں تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس گاؤں کے بہت کم لڑکے میٹرک تک کی منزل تک پہنچ پاتے تھے۔ لڑکیوں کا تو نہ ہی پوچھیں، پورے گاؤں میں صرف ایک لڑکی نے میٹرک پاس کیا اور وہ انور کے چچاخلیل خان کی بیٹی نبیلہ تھی۔ یہی نبیلہ انورخان کی زندگی تھی۔
انورخان اپنے گاؤں کا پہلا فرد تھا جس نے بی اے کی ڈگری حاصل کی تھی۔ گاؤں میں رہ کر اس نے بڑی مشکل سے میٹرک کیا تھا۔ اس کی قسمت اچھی تھی کہ اس کے چچاخلیل خان نے اسے کراچی بلا لیا۔ جہاں انور نے نہ صرف بی اے پاس کیا بلکہ ٹیچر ٹریننگ سنٹر سے ڈپلومہ بھی حاصل کر لیا۔ کراچی میں چچا کے ہاں قیام کے دوران انورخان کو نبیلہ سے پیار ہو گیا ۔یہ آگ یک طرفہ نہیں تھی بلکہ نبیلہ بھی اس کو دل وجان سے چاہتی تھی۔ دوسری بہت سی باتوں کے علاوہ ان دونوں کا مشترکہ خواب یعنی پڑھانے کا شوق ان کے درمیان ایک قدرمشترک بن گیا۔ باہمی پیار سے یہ شوق مزید پروان چڑھا۔ نبیلہ انور کے قدم سے قدم ملا کر جہالت کے اندھیروں کو چاک کرنا چاہتی تھی۔
انورخان اور نبیلہ کے پیار اور ان کے شوق کاعلم دونوں کے گھر والوں کو بھی تھا۔ دونوں گھروں کو اس رشتے پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ جب انورخان کے ابا نے اپنے بھائی خلیل خان سے اس کی بیٹی کا ہاتھ مانگا تو اس نے کہا ’’ بھائی صاحب! نبیلہ آپ کی بیٹی ہے۔ مجھے بھلا کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ انور جیسے ہونہار بیٹے کو اپنا بیٹا بنانے میں مجھے خوشی ہو گی‘‘
یوں انورخان اور نبیلہ کے پیار کی نیا بھی من چاہی منزل کی جانب رواں ہو گئی۔وہ رشتہِ ازدواج میں بندھ گئے۔
انوراور نبیلہ کوا پنے پیار کے ساتھ ساتھ اپنے شوق اور ذمہ داری نبھانے کی فکر بھی تھی۔ وہ شادی کے بعد گاؤں جا کر گاؤں کے معصوم بچوں کو علم کی دولت دینا چاہتے تھے۔ لیکن اس دولت کی تقسیم سے پہلے اُس دولت کی ضرورت تھی جو ہر مشکل کی کنجی ہے۔ گاؤں میں ایک چھوٹا سا پرائمری سکول تو تھا لیکن ہائی سکول نہیں تھا۔ اس سلسلے میں حکومت نے ان کی مدد کرنے کی اس صورت میں حامی بھری تھی کہ گاؤں کے لوگ اپنی مدد آپ کے تحت سکول کی عمارت تعمیر کرلیں تو حکومت اس سکول کو منظور کر کے اساتذہ کی باقاعدہ تقرری کر دے گی۔ گاؤں کے غریب لوگ اس کام کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے کہ وہ اپنے خرچ پر عمارت تعمیر کروا سکیں۔ وہ چاہتے ہوئے بھی اپنی آنے والی نسلوں کے لیے کچھ کرنے سے قاصر تھے۔وہ اتنے غریب تھے کہ دو وقت کی روٹی کا بندوبست بمشکل کر پاتے تھے۔ اتنی رقم وہ کہاں سے لاتے۔
ان حالات میں انور کو اپناخواب بکھرتا محسوس ہوا۔ حالانکہ اس کے اپنے گھر والوں کی حالت بھی دوسروں سے مختلف نہیں تھی۔ لیکن اس با ہمت نوجوان نے ہمت نہ ہاری۔ اس نے ایک ماہ کی نوبیاہتا دلہن کو گاؤں میں چھوڑا۔ دوستوں اور چچا سے قرض حاصل کر کے بمشکل آسٹریلیا کا ویزا حاصل کیا۔ اپنا پیار، ماں کی ممتا اور باپ کی شفقت سے ہزاروں میل دور سڈنی آ کردن رات چوکیداری کر کے روپے جمع کرنے لگا۔ آسٹریلیا میں رہ کر کام کرنے اور ڈالر اکٹھے کرنے کے علاوہ اسے کسی چیز سے غرض نہیں تھی۔ نہ گھومنا پھرنا، نہ دوست داری اورنہ ہی کوئی تفریح۔ اس کے سامنے اس کا مشن اور اس کے دل میں نبیلہ کا پیار اور اس کی یاد تھی۔ وہ ایک ایک دن اور ایک ایک ڈالرگنتارہااور جو جمع ہوتا وہ فوراً پاکستان بھیج دیتا۔
ادھر نبیلہ نے اپنے تایا اور گاؤں والوں کی مددسے جگہ حاصل کر کے سکول کی عمارت کی تعمیر شروع کر دی۔ آسٹریلیا آنے کے بعد انورخان کے لیے سکول کی عمارت بنانے کا کام مشکل نہیں رہا تھا۔ ایک سال کے اندر ہی یہ کام کافی حد تک کافی پایہ تکمیل کو پہنچ چکا تھا۔ لیکن انورخان کا امتحان پھر بھی ختم نہیں ہوا تھا۔ اس کا اپنا گھر جو پہلے ہی کچا اور پرانا سا تھا،
ایک برسات میں اپنا وزن برداشت نہ کر سکااور زمین بوس ہو گیا۔ وہ تو غنیمت تھا کہ انور کے والدین اور نبیلہ کی جان بچ گئی۔ انور کے لیے یہ نئی آزمائش تھی۔ وہ اپنی محبوب بیوی کی جدائی میں پہلے ہی دن گن گن کر گزار رہا تھا۔ اوپر سے اس کا ویزہ بھی ختم ہو چکا تھا۔ پکڑے جانے کا دھڑکا ہر وقت لگا رہتا تھا۔ لیکن اس حالت میں وہ واپس کیسے جاتا۔ مجبوراً اسے ایک سال مزیدرکنا پڑا۔مزیدمحنت اور مشقت کی چکی میں پسنا پڑا۔
وہ دن دیکھتا تھا نہ رات، بارہ بارہ گھنٹے اور بعض اوقات اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے مسلسل کام کرتا ۔اسے نہ کھانے کا ہوش تھا نہ سونے کی پرواہ۔ صحت بھی گرتی جارہی تھی۔ حصولِ مقصد کے لئے انسان کو کئی چیزیں پس پشت ڈالنی پڑتی ہیں۔
جس طریقے سے انورخان محنت کر رہا تھا اس کا اندازہ تھا کہ ایک سال میں وہ اتنے روپے جمع کر لے گا کہ اپنے پیاروں کے لیے چھت مہیا کرسکے۔ جو کچھ جمع ہوتاوہ ساتھ ساتھ بھیجتا رہا۔ اس کا باپ بھی اپنے فرض سے غافل نہیں تھا۔ اس نے انورخان کے بھیجے ہوئے پیسوں سے گھر کی تعمیر شروع کر دی تھی۔ ویسے بھی کوئی چھت کے بغیر کتنے دن زندہ رہ سکتا ہے۔ خدا خدا کر کے انورخان کی زندگی کا یہ مقصد بھی پورا ہوا۔ گاؤں کے پس منظر میں اس کا بہت شاندار گھر بن گیا تھا۔
اس کے بعد انور کا آسٹریلیا رکنا مشکل ہو رہا تھا۔اس کے خواب کی تعبیر پایہ تکمیل تک پہنچنے والی تھی۔ پاکستان میں اس کا اپنا نیا گھر تھا۔ دل و جان سے پیار کرنے والی شریک حیات تھی جو اس کا راہ دیکھ رہی تھی اور سکول کی شکل میں اس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری ہو رہی تھی۔وہ خوابوں اورخیالوں میں چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں، لڑکوں اور لڑکیوں میں علم کی روشنی پھیلاتا۔ یہ روشنی اس کے اپنے دل ودماغ کو منورومعطر کرتی رہتی تھی۔ اس سال دسمبر کاسیزن لگانے اور کرسمس کے بعدانورخان آسٹریلیا کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ رہا تھا۔ سیٹیں بک تھیں اور دو پیار کرنے والے دل وصل کی منزل پر پہنچنے والے تھے۔
لیکن کسی کو یہ علم نہیں تھاکہ تقدیر ان کے ارادوں پر ہنس رہی ہے۔ انہوں نے اپنی پلاننگ تو کی ہوئی ہے لیکن تقدیر کی پلاننگ کچھ اور تھی جس کے آگے کسی کا بس نہیں چلتا ہے۔
ہفتہ18اکتوبر پاکستان کے شمالی حصہ میں جو قیامت خیز زلزلہ آیا اس میں انورخان کا گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔اس میں اس کی محبوب شریک حیات جسے ملنے کے لیے وہ تین سال سے تڑپ رہا تھا۔ اس کی ماں، اس کا باپ، اس کا گھر اور اس کا خواب جو سکول کی شکل میں تھا، سب کچھ ختم ہو گیا۔
انورایک ہفتہ بعد انتہائی لمبا اورمشکل سفر کر کے آزادکشمیر کے ضلع باغ میں واقع اپنے گاؤں پہنچا تو وہاں کچھ بھی باقی نہ رہا تھا۔ کوئی چھت ،کوئی دیوار سلامت نہ تھی۔ کوئی انسان زندہ نہیں رہا تھا۔ وہ سب اپنے ہی گھروں میں دفن ہو گئے تھے۔ وہاں صرف گاؤں کے آثار ہی باقی تھے۔ملبہ تھا، لاشوں کا تعفن تھا، گرد تھی۔ کچھ نہیں تھی تو زندگی نہیں تھی اور نہ ہی زندگی کے آثار باقی تھے۔ پورا گاؤں پلک جھپکنے میں شہرخموشاں میں تبدیل ہو چکا تھا۔
ان ہی کھلی قبروں میں سندرچہرے والی، ہرنی کی آنکھوں والی ایک لڑکی بھی آنکھوں میں محبت کا سمندرسمیٹے کسی کے انتظار میں ہی اس دنیا سے منہ موڑ کر یہیں کہیں دفن ہو چکی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ انورخان کا خواب وہ سکول کی نئی عمارت، گاؤں کے بچوں میں علم کی روشنی پھیلانے کی امید اور اس کی طویل جدوجہد کے ثمرات زمین کی تہوں میں دفن ہو چکے تھے۔ انورخان کے پاس کچھ بھی باقی نہیں رہا تھا۔ کچھ بھی باقی نہیں بچا تھا۔ وہ تہی دل ،تہی دست اور تہی دامن ہو چکا تھا۔
وہ کئی دن تک اپنے گھر کے ملبے پر نظریں جمائے ہوش وحواس سے بیگانہ ہو کرایک ہی جگہ بیٹھا رہا۔ مایوسی ،د کھ اورغم کے سائے اس کی روح اور جسم میں سما گئے تھے۔ لگتا تھا کہ وہ بھی اسی شہرخموشاں کا حصہ بن گیا ہے۔
مایوسی کے اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اسے ایک کرن دکھائی دی۔ یہ کرن اس کے ہم وطنوں، اس کے غم خواروں اور اس کے بھائیوں کی دست گیری تھی۔ اس کے غم اور دکھ کو بانٹنے اور اس کی زندگی میں امید کے کرن بن کر آنے والے یہ نوجوان رضاکار کراچی سے لے کر درہ خیبرتک ہر علاقے، ہر شہر،ہر قصبے اور ہر گاؤں کی نمائندگی کر رہے تھے۔یہ وہ نوجوان تھے جو عام حالات میں نکمے اورلاپرواہ نظر آتے تھے ۔ لیکن آج ان کی آنکھوں میں انور کے غم کے آنسو تھے۔ان کے ہاتھوں میں امدادی سامان اور دل میں دکھی بہن بھائیوں کے لیے کچھ کر گزرنے کا جذبہ موجزن تھا۔
یکایک انور نے محسوس کیا کہ وہ اکیلا نہیں ہے۔ اگر کچھ اپنے بچھڑے ہیں تو بہت سے نئے مل گئے ہیں۔ یہ بھی اس کے اپنے بہن بھائی ہیں۔ اس کے ہمدرد اورخیرخواہ۔ان میں ایسے نوجوان بھی ہاتھوں میں کدالیں لے کر ملبہ ہٹا رہے تھے، جنہوں نے کبھی ہاتھوں میں قلم اور کاغذ کے علاوہ کچھ نہیں پکڑا تھا۔
انور کے دل میں امید کی نئی کرن جاگی۔ نیا ولولہ اور نیا عزم دل ودماغ میں گھر کرنے لگا۔ یہ اپنی دنیا نئے سرے سے بسانے کا جذبہ تھا۔ اس نے اوزار لیے اور اپنے ہاتھوں سے اسکول کی عمارت بنانے میں جت گیا۔ اب یہ سکول ہی اس کی زندگی کا مقصد تھا۔اس نے اپنا خواب ہر حال میں زندہ رکھنا تھا۔سکول کی شکل میں اور آنے والی نسلوں کی آنکھوں میں علم کی روشنی کی شکل میں۔اس گاؤں میں دوبارہ تعمیرہونے والی سب سے پہلی عمارت سکول ہے جس کی بنیادوں میں محبت کی خوشبو رچی ہے۔ گاؤں کے کافی گھر دوبارہ آباد ہو چکے ہیں اور بچے سکول جا کر انور اور نبیلہ کے خوابوں کی تعبیر بن رہے ہیں ۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...