روشنی کے قدم جیسے کسی نے جکڑ لئے تھے۔وہ آگے جانا چاہتی تھی لیکن جا نہیں پارہی تھی۔
اس نے دادی کو پکارنا چاہا لیکن منہ سے آواز تک نہ نکلی ۔گلے کی رگیں کھچ گئی تھیں۔پیشانی پہ پسینہ پھوٹ آیا اور یوں لگتا تھا جیسے کسی نے گردن شکنجے میں جکڑ لی ہو۔
روشنی کی آنکھیں باہر کو ابل آئی تھیں۔
دوسری طرف دادای روشنی کی چیخ سننے اور پھر نہ جواب دینے پہ ہول گئی تھیں۔
صارم کے کمرے میں جا کے اسے جگایا جو نماز پڑھ کے دوبارہ سونے کیلئے لیٹ چکا تھا۔
“صارم!بیٹا پتا نہیں روشنی کے ساتھ کیا ہوا ہے؟دروازہ نہیں کھل رہا اور نہ وہ کچھ بول رہی ہے۔”فرحانہ بیگم پریشانی سے بول رہی تھیں۔
“آپ کو تنگ کررہی ہوگی دادو۔کوئی نئی شرارت سوجھی ہوگی۔”صارم کچھ جھنجھلا کے بولا تھا۔
“نہیں!بیٹا رات بھی وہ ڈر گئی تھی۔تم چل کے دیکھو نا۔”انہوں نے پریشانی سے اصرار کیا تو صارم کو اٹھتے ہی بنی۔
٭٭٭٭٭
صارم کے پیچھے’پیچھے فرحانہ بیگم کمرے میں داخل ہوئیں تو سامنے کا منظر انکے ہوش اڑانے کو کافی تھا۔
روشنی سامنے ہی آرام کرسی پہ بیٹھی ہوئی کوئی کتاب پڑھ رہی تھی۔دوپٹہ کاندھے پہ ٹکا ہوا تھا اور سیاہ بالوں میں چمکتا سرخ گلاب دور سے ہی دکھائی دیتے تھا۔وہ یوں تھی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔
“آپ تو کہہ رہی تھیں اسے کچھ ہوا ہے۔یہ تو بالکل ٹھیک ہے۔”صارم ان سے پوچھ رہا تھا۔
فرحانہ بیگم کے گلے میں کچھ اٹکا تھا۔یہ کیا ہورہا تھا؟
“وہ!۔۔۔وہ دیکھو صارم۔”فرحانہ بیگم نے اسکے بالوں کی جانب اشارہ کیا تھا۔
“پھول!یہ وہی پھول ہے روشنی جس کا ذکر تم رات کو کررہی تھیں۔اچھا ڈارمہ ہے یہ۔”صارم نے کہتے ہوئے اسکے بال حسب عادت کھینچے لیکن اب سب کچھ پہلے جیسا کہاں تھا۔
کسی ان دیکھی قوت نے صارم کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے اسے پوری قوت سے نیچے گرایا تھا۔
“امی!”صارم کراہا۔
“یا اللہ!”فرحانہ بیگم کو دھکا سا لگا ۔وہ پھٹی’پھٹی آنکھوں سے یہ منظر دیکھنے لگیں۔روشنی نے تو سر اٹھا کے بھی نہیں دیکھا تھا پھر صارم کو کس نے دھکا دیا تھا۔
“اماں!کیا ہورہا ہے یہاں؟”سلطانہ بیگم’روشنی کی امی صارم کی چیخ سن کے ساس کے کمرے میں آئی تھیں۔
فرحانہ بیگم انہیں خوفزدہ نگاہوں سے دیکھتی رہیں۔وہ کچھ بول ہی نہیں پا رہی تھیں۔
“صارم!کیا ہوا ہے تمہیں؟”وہ پوچھ رہی تھیں۔
“یہ!یہ لڑکی۔۔۔اس میں کچھ ہے امی۔”صارم خوفزدہ نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا تھا۔
روشنی نے یہ بات سن کے اپنا سر جھٹکے سے اٹھایا تھا۔سلطانہ بیگم جو اسے ہی دیکھ رہی تھیں دہل کے رہ گئی تھیں۔
روشنی کی آنکھیں لال انگارہ ہورہی تھیں۔
“استغفراللہ ربی مِن ُکل ذنب۔”فرحانہ بیگم نے سینے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بےاختیار ہی استغفار پڑھی۔
سلطانہ بیگم نے صارم کا سر گود میں رکھتے ہوئے آیت الکرسی ‘روشنی کو دیکھے بنا پڑھنی شروع کی ہی تھی کہ روشنی انہیں ٹوک گئی۔
“کیا ہوا ہے امی؟آج صبح ہی صبح بھائی کا اتنا خیال۔”وہ سلطانہ بیگم کے کاندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے انتہائی دوستانہ انداز میں پوچھ رہی تھی۔
سلطانہ بیگم نے چونک کے اسے دیکھا۔روشنی اپنے معمول کے انداز میں کھڑی تھی اور آنکھوں کی سرخی تک اس وقت غائب تھی۔
فرحانہ بیگم نے بےساختہ ہی بہو کا ہاتھ دبایا جو اس بات کا اشارہ تھا کہ روشنی کو کچھ مت بتاؤ۔سلطانہ بیگم خاموشی سے صارم کو سہارا دے کر باہر جانے لگیں۔
“کمال سے کہتی ہوں کسی نیک عالم کو گھر لائے۔”فرحانہ بیگم سوچ چکی تھیں۔روشنی کی پل پل بدلتی حالت انہیں پریشان کررہی تھی۔
٭٭٭٭٭
روشنی کے دو بھائی تھے۔صائم اور صارم ،روشنی انکی اکلوتی بہن تھی۔خوشحال سا گھرانہ تھا۔والد کمال صاحب ایک نامی گرامی سوئیٹ شاپ کی چین کے مالک تھے۔اکثر لوگ تقریبات میں انکی ہی مٹھائیاں اور کیک پسند کرتے تھے۔ خود کمال صاحب ملیر کے علاقے کی شاپ میں بیٹھا کرتے تھے۔
صائم انکا بڑا بیٹا تھا جو شادی کے بعد الگ گھر میں رہتا تھا کیونکہ اسکی بیوی ثانیہ سسرال میں نہیں رہنا چاہتی تھی سو ایک لمبے جھگڑے کے بعد وہ اسی گلی کے الگ گھر میں شفٹ ہوچکے تھے۔
ثانیہ جو اس وقت دوپہر کا کھانا بنانے میں پوری طرح مگن تھی ‘ڈور بیل کی مسلسل آواز پہ چونکی تھی۔
“کون آگیا اس وقت؟”چولہے کی آنچ دھیمی کرتے ہوئے وہ کچن سے باہر نکلی۔
گیٹ پہ روشنی تھی۔
“تم!”ثانیہ کو اسے دیکھ کے حیرت ہوئی۔
“سوچا آج آپ سے ملنے آجاؤں۔”وہ مسکراتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
“ہاں!آجاؤ۔”ثانیہ کو اسے نند والا پروٹوکول دینا ہی پڑا آخر کو صائم کی لاڈلی بہن جو تھی۔
“کیا لو گی؟چائے یا ٹھنڈا۔”
“مٹھائی!”روشنی نے الگ ہی بات کی تھی۔
“تم تو میٹھے سے دور بھاگنے والی لڑکی ہو۔”ثانیہ کو حیرت ہوئی۔
“اب نہیں!”اسکی مسکراہٹ ثانیہ کو بےحد عجیب لگی تھی۔
خیر مٹھائی کی پلیٹ اسکے آگے رکھنے کے بعد ثانیہ کچن میں چلی آئی تھی۔کھانے کا وقت ہورہا تھا اور صائم گھر ہی کھانا کھاتے تھے۔
ابھی ثانیہ نے توا چولہے پہ رکھا ہی تھا کہ اسکا فون بجنے لگا۔
“روشنی کالنگ!”ثانیہ کو حیرت ہوئی۔وہ لاؤنج میں بیٹھ کے اسے کیوں فون کررہی تھی؟
وہیں سے آواز نہیں دے سکتی تھی کیا۔
“روشنی!ایسا بھی کیا نخرہ کہ میرے گھر میں ہی بیٹھ کے تم مجھے ہی فون کرو۔”ثانیہ کو تو تپ ہی چڑھ گئی تھی۔
“آپ کے گھر!کیا بات کررہی ہیں بھابھی؟ میں تو اپنے گھر میں ہوں۔”روشنی کاحیرت بھرا جواب ثانیہ کے ہوش اڑا گیا تھا۔
“تو وہ کون ہے؟”ثانیہ جو اس سے بات کرتے ہوئے لاؤنج تک آچکی تھی ‘اس نے بےحد خوفزدہ نگاہوں سے صوفے پہ بیٹھی لڑکی کو دیکھا تھا جو روشنی کی جیسی تھی اور ثابت برفی کے ٹکڑے کھا نہیں نگل رہی تھی۔
“کون؟”دوسری طرف سے روشنی پوچھ رہی تھی لیکن ثانیہ کے تو کان ہی سائیں سائیں کررہے تھے۔
صوفے پہ بیٹھی روشنی نے اسکی آواز پہ پلٹ کے دیکھا اور اسکی آنکھیں دیکھ کے ثانیہ کو جھٹکا لگا۔
ان میں جیسے شعلوں کی لپک تھی جو اس کے اندر برق دوڑا گئی تھیں۔
مٹھائی کی پلیٹ فرش پہ پھینکنے کے بعد اب وہ لڑکی اسے گھورتے ہوئے قد میں چھوٹی ہوتی جارہی تھی’اتنی چھوٹی جتنا ایک بونے کا قد ہوتا ہے۔
بیہوش ہونے سے پہلے یہ آخری منظر تھا جو ثانیہ نے دیکھا تھا۔
٭٭٭٭٭
“کمال ہے! آج کل لوگ بات نہ کرنے کے کیسے، کیسے بہانے بناتے ہیں۔”روشنی فون صوفے کی جانب اچھالتے ہوئے بولی۔
ثانیہ سے اسے یہی امید تھی سو اس نے اس معاملے کو سیریس ہی نہیں لیا تھا۔
٭٭٭٭٭
رات کے گیارہ بج رہے تھے۔کمال صاحب جمعرات کے دن کے مخصوص اذکار میں مصروف تھے۔اس وقت گاہکوں کا اتنا رش نہیں ہوتا تھا لیکن انکی دکان رات بارہ بجے ہی بند ہوتی تھی۔صارم بھی آج انکے ساتھ تھا۔
گیارہ بج کے بیس منٹ پہ صارم کو ایسا لگا کہ گلاس ڈور اڑتا ہوا اسکے منہ پہ آگرا ہے۔اس نے چونک کے چہرے پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے دیکھا سامنے سے دو آدمی چلے آرہے تھے۔
“ارے عثمان صاحب!”
کمال صاحب نے چہکتے ہوئے کہا۔یقینا وہ کوئی پرانے گاہک تھے یہی سوچتے ہوئے صارم نے ہاتھ انکی جانب بڑھایا۔
“السلام علیکم!”
سلام کا جواب اگر چہ دونوں نے دیا تھا لیکن ہاتھ صرف عثمان صاحب کے ساتھ آئے ہوئے آدمی نے ہی بڑھایا۔
صارم کو ایسا لگا جیسے اس ہاتھ میں کوئی ہڈی نہیں اور وہ گرم شعلوں کی مانند دہکتا ہوا تھا۔
“پانچ کلو گلاب جامن اور دس کلو قلاقند دیجئے گا۔”عثمان صاحب اپنے ساتھ آئے لڑکے کا ہاتھ صارم سے دور کرتے ہوئے بولے۔
صارم اس پل انکی آنکھوں میں نہیں دیکھ سکا تھا۔
“جو حکم !”کمال صاحب نے کہتے ہوئے ملازم کو اشارہ کیا تھا۔ شاپر سمیٹنے کے بعد عثمان صاحب جانے کیلئے پلٹے تھے لیکن کچھ سوچ کے کمال صاحب کی جانب پلٹ کے بولے۔
“کڑا وقت آنے کو ہے’اللہ آپ کی مشکل آسان کرے۔”
اس جملے نے ان باپ بیٹے کو حیرت میں ڈال دیا تھا۔
صارم جو انہیں جاتا ہو ا دیکھ رہا تھا اسے نجا نے کیوں لگا کہ گلاس ڈور کے پار عثمان صاحب اور انکے ساتھی کا قد کچھ فیٹ مزید اونچا ہوا ہے۔
٭٭٭٭٭
صائم کارخانے سے لوٹے تو ثانیہ کی حالت انہیں چونکا گئی۔
“صاحب جی!میں گھر آئی تو بیگم بیہوش تھیں۔پتا نہیں کیا ہوا ہے جی۔”ملازمہ نے بتایا تھا۔
“جاؤ تم!ثانیہ کیا ہوا ہے؟”صائم نے پوچھا۔
“تمہارے گھر والے اب مجھ پہ ٹونا بھی کروائیں گے۔”کہتے ہوئے ثانیہ نے اسے سارا قصہ سنایا تھا۔
“ناممکن!”صائم نے ماننے سے انکار کردیا تھا۔
“آپ تو یہی کہیں گے نا۔”ثانیہ روہانسی ہوئی۔
“چلو!گھر چل کے پوچھتے ہیں اماں سے کہ روشنی آئی تھی یا نہیں۔”صائم فیصلہ کن انداز میں کہتے ہوئے کھڑے ہوئے۔
“اس وقت!”ثانیہ نے وقت دیکھتے ہوئے کہا جو ساڑھے بارہ بجا رہی تھی۔
“ہاں!ابا بھی ہوں گے اس وقت۔”صائم نے اسے چادر تھماتے ہوئے کہا۔
ثانیہ روشنی کی متوقع ڈانٹ کا سوچ کے خوش ہوگئی تھی۔
٭٭٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...