بدل جاتے ہیں اک لمحے میں ہی تاریخ کے دھارے
کبھی جو موج میں آکر قلندر بول اُٹھتے ہیں
’’دیوانہ خاموش ہوگیااور اپنے سامعین کو دیکھنے لگا۔وہ بھی خاموش تھے اور حیرانی سے
اسے دیکھ رہے تھے۔ بالآخر اس نے چراغ زمین پر پٹخ دیا جوریزے ریزے ہوکر بجھ
۔۔۔۔گیا۔ تب اس نے کہا:
’’میں بہت پہلے آگیاہوں میرا تعلق مستقبل سے ہے۔یہ مہیب واقعہ ابھی فاصلے ہی
۔۔۔۔طے کررہاہے‘‘ (نیطشے کی ایک تمثیل سے اقتباس)
۔۔۔۔اپنی آنکھوں میں طلوع ہوتے سورجوں کاگواہ، مٹی کا چراغ اپنے ہاتھوں پر اٹھائے جب میں شہر کے لوگوں کو روشنی کی بشارت دیتاہوں تو وہ مجھے اس اندازسے دیکھتے ہیں جیسے میں ان کے ساتھ مذاق کررہاہوں۔ کچھ لوگ میری بات پر ہنستے ہیں۔ کچھ سر اٹھاکر میری طرف دیکھتے ہیں اور بغیر سوچے سمجھے آگے چلے جاتے ہیں۔ کچھ سر اٹھاکر دیکھے بغیر کچھ سوچتے چلے جاتے ہیں۔
۔۔۔۔میری آنکھوں میں طلوع ہوتے سورجوں کا گواہ مٹی کا چراغ میرے ہاتھوں میں ہے۔ لیکن کوئی بھی میری بشارت پر ایمان نہیں لارہا۔مجھے شک گزرتاہے۔ میں اپنے وقت سے سولہ سوبرس پہلے آگیاہوں۔ یہ لوگ مجھ سے سولہ سو برس پیچھے ہیں۔ یہ میری بات نہیں سمجھ پائیں گے۔ پھر کچھ سوچ کر میں اپنی ماں کے پاس جاتاہوں اور روشنی کی بشارت دیتے ہوئے اسے بتاتاہوں کہ میری آنکھوں میں سورج طلوع ہورہے ہیں اور میرے ہاتھوں میں مٹی کایہ چراغ ان کا گواہ ہے۔ میری ماں مجھے تشویشناک نظروں سے دیکھتی ہے اور آسمانی صحیفوں کی دعائیں پڑھ پڑھ کر مجھ پر پھونکوں سے دَم کرنے لگتی ہے۔ میری چھوٹی بہن مجھے خوفزدہ نظروں سے دیکھتی ہے اور دبک کرماں کے قریب ہوجاتی ہے۔ ماں کی سادگی اور بہن کے بھولپن پر افسردہ مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے میں مبارکہ کے پاس آتاہوں اور اسے بتاتاہوں کہ میں دنیا کو روشنی کی بشارت دینے کے لئے مامورکیاگیاہوں۔ میری آنکھوں میں سورج طلوع ہورہے ہیں اور میرے ہاتھوں میں مٹی کا یہ چراغ ان کا گواہ ہے۔ مگر وہ میری بات پر توجہ دینے کی بجائے مجھے دوکانداروں کے بلوں اور بچوں کی فیسوں کے بارے میں بتانے لگتی ہے۔ میں مایوس ہوکرعفت کے پاس چلاآتاہوں۔ پہلے تو وہ میری بات پر توجہ نہیں کرتی لیکن جب میں پوری سنجیدگی سے اپنی بات دہراتے ہوئے اصرار کرتاہوں کہ اب روشنی صرف میری آنکھوں میں طلوع ہوتے سورجوں سے ہی اترے گی۔ تو وہ میرے قریب آجاتی ہے۔۔میرے ہاتھوں میں مٹی کے چراغ کو چھو کر دیکھتی ہے اور پھر پوچھتی ہے۔کہیں آپ افسانہ لکھنے کے موڈ میں تو نہیں ہیں؟۔میں اسے یقین دلاتاہوں کہ میں جو کچھ کہہ رہاہوں سچ کہہ رہاہوں۔ اس کے باوجودوہ مجھے اسی موضوع پر افسانہ لکھنے کی تحریک کرتی ہے۔
۔۔۔۔مجھے اب پوری طرح یقین ہوجاتاہے کہ میں اپنے وقت سے سولہ سو برس پہلے آگیا ہوں۔ مجھے یادآتاہے اس سے پہلے ایک دفعہ میں اپنے وقت سے پچاس برس پہلے آیاتھا اور جب پچاس برس بعدمیںدوبارہ آیاتھا تو میں نے یہ دیکھا تھاکہ میں اپنے وقت سے ایک صدی پہلے آگیاہوں۔۔۔۔ پھر جب میں ایک صدی بعد آیا تو میری آمد اپنے وقت سے دو سو سال پہلے تھی۔ اور جب میں دو سو سال بعد آیاتو میری آمد میں چار سوسال رہتے تھے اور پھر جب میں چار سو سال بعد آیاتو میں اپنے وقت سے آٹھ سو سال پہلے آیا ہوا تھا۔ اور اب جب میں آٹھ سو سال بعد آیاہوں تو مجھے یقین ہوگیاہے کہ میں اپنے وقت سے سولہ سو سال پہلے آگیاہوں۔
۔۔۔۔میں جو روشنی کی بشارت ہوں۔ ہر لحظہ اس دنیا سے دور ہورہاہوں وہ کون سی صفر مدّت ہے۔ جس میں یہ تمام صدیاں اور زمانے سمٹ آئیں گے اور میری آمد قبل از وقت نہ ہوگی۔ وہ صفر مدّت جب انسان نور کا انکار کرکے آگ کی بھینٹ نہیں چڑھے گا۔ مجھے اس مدّت کا انتظار کرناہوگا۔
۔۔۔۔۔اب جب میں سولہ سو برس کے بعد آؤں گا تو میری آمدمیں بتیس سو سال رہتے ہوں گے۔ اور جب میں بتیس سو سال بعد آؤں گا تو میری آمد میں چونسٹھ سو سال رہتے ہوںگے۔ اور اسی طرح کئی ہزار برس بیت جائیں گے۔ لیکن وہ صفر مدت کب آئے گی جب میرا آنابروقت ہوگا۔اور جب میری آنکھوں میں طلوع ہوتے سورج سوانیزے کی اَنی پر آجائیں گے۔ تب کوئی انکار کی جرأت نہ کرسکے گا۔ میں اپنے گزرے ہوئے اور آنے والے برسوں کا بوجھ اپنی روح پر اٹھائے پھر شہر میں آتاہوں۔ شہر کے سب سے بڑے بازار میں پہنچ کر میں اعلان کرتاہوں:
’’لوگو!تم نے میری بشارت پر ایمان نہ لاکر خود کو روشنی سے محروم کرلیاہے۔۔۔‘‘
۔۔۔۔۔۔میراا علان مکمل ہونے سے پہلے ہی لوگ تمسخر شروع کردیتے ہیں۔ مختلف سمتوں سے گالیاں اور تضحیک آمیز فقرے میری طرف آرہے ہیں۔ میں کمال ضبط سے تمام تمسخرانہ اور تضحیک آمیز فقرے برداشت کرتاہوں۔ جب لوگ فقرے بازی سے خود ہی تھک جاتے ہیں تو میں اپنا پہلا اعلان ادھورا چھوڑ کر نیا اعلان کرتاہوں:
’’لوگو!تم نے روشنی کی تحقیر کی ہے۔ نورِبصیرت سے محروم لوگو! تم میں سے اب صرف وہی لوگ بچائے جائیں گے جو میرے گھر کی دیواروں کی اوٹ میں پناہ لیں گے۔ میں اپنے وقت سے سولہ سو برس پہلے آگیاہوں لیکن آگ تمہارا مقدر ہوچکی ہے۔‘‘
یہ کہہ کر میں اپنا چراغ شہر کے چوراہے پر توڑدیتاہوں اور خود تیزی سے اپنے گھر کی طرف چلاآتاہوں۔ لوگوں کے قہقہے گھر تک میرا تعاقب کرتے ہیں۔ لیکن میرے گھر پہنچنے تک وہ قہقہے چیخوں میں ڈھل جاتے ہیں۔ مٹی کے اس چراغ سے سارے شہر میں آگ لگ جاتی ہے۔
میںاپنے کمرے میں آکر بیٹھ جاتاہوں۔
۔۔۔۔۔سارے شہر میں آگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں۔ اور لوگوںکی چیخیں ایک بھیانک شور میں تبدیل ہوگئی ہیں میری ماں حیرت سے کبھی میرے کمرے میں آکر مجھے دیکھتی ہے اور کبھی گھر کے صحن میں جاکر دھڑا دھڑ جلتے ہوئے شہر سے اٹھتے ہوئے شعلوں کو دیکھتی ہے۔ میری چھوٹی بہن اسی طرح خوفزدہ انداز میں ماں کے ساتھ ساتھ ہے۔ پھر وہ ماں کو کھینچ کر میرے کمرے میں بٹھالیتی ہے اور خودد بک کر ماں کے اور بھی قریب ہوجاتی ہے۔
مبارکہ اور عفت دونوں میرے کمرے میں آتی ہیں۔ دونوں کے چہروں سے حیرت جھلک رہی ہے۔ ایک گھمبیر خاموشی کے بعد مبارکہ ہمت کرکے بولتی ہے،
’’باہر بہت سارے لوگ آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لئے آئے ہوئے ہیں‘‘
’’اب ان کاایمان لانایانہ لاناایک برابر ہے۔۔۔ جو لوگ دیواروں کی اوٹ میں ہیں انہیں ویسے بھی کوئی گزند نہیں پہنچے گی۔میں اب بیعت نہیں لے سکتا۔ میں اب سولہ سو برس کے بعد آؤں گا۔ پھر بتیس سو برس کے بعد پھر چونسٹھ سو برس کے بعد۔۔پھر۔۔‘‘
مبارکہ اور عفت کے چہروں سے عقیدت کے ساتھ دہشت بھی ٹپکنے لگتی ہے۔
میری چھوٹی بہن دبک کر ماں کے کچھ اور قریب ہوجاتی ہے۔
میری ماں اپنی خالی آنکھوں میں ان لمحوں کو اتارنے کی کوشش کررہی ہے جب اس نے مجھے جنم دیاتھااور میں اس صفر مدت کا انتظار کرنے لگتاہوں جب میری آنکھوں میں طلوع ہوتے سورج سوانیزے کی اَنی پر اتر آئیں گے۔ جب وہ اپنے گواہ آپ ہوں گے اور جب مٹی کا کوئی چراغ گواہی کے لئے نہیں لاناہوگا۔
٭٭٭
۔۔میری ماں اور چھوٹی بہن سامنے بینچ پر بیٹھے ہیں۔ مبارکہ میری نبض دیکھتے ہوئے بتاتی ہے:
’’ابھی تھوڑی دیر پہلے عفت آپ کی عیادت کے لئے آئی تھی۔ مگر آپ سوئے ہوئے تھے۔ اب وہ پھر تھوڑی دیر بعدآئے گی۔‘‘
اور میں سوچنے لگتاہوں کہ میں کس صفر مدت کا انتظار کررہاہوں!
٭٭٭
یہ افسانہ ابو کے افسانوں کے مجموعہ ’’روشنی کی بشارت‘‘ سے لیا گیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔