Life ‘s water flow from darkness , search the darkness don’t run from it (rumi)
اپنے اندر پھیلتے اندھیرے سے بھاگنے کا کوئی فائدہ نہیں اس سے لڑنا سیکھو ۔تاکہ روشنی کا راستہ ڈھونڈ سکو ۔
۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔
ارج بیکری کے کام میں مصروف تھی جب عفت بیک ڈور سے باہر آئی "ارج مجھے تمہاری مدد چاہیے تھی؟ ”
"کیوں اب کیا چاکلیٹ کیک میں چاکلیٹ ڈالنا ہی بھول گئی ہو "۔ کیونکہ عفت سے اس قسم کی حرکت کی تواقع کی جا سکتی تھی
"نہیں اب ایسی بھی بات نہیں ہے ۔ مجھے فلحال تمہارے بیکینگ کے گر سے استفادہ حاصل نہیں کرنا مجھے کپڑے خریدنے ہے ۔ میرے ساتھ بازار چلو گی؟ "اس نے معصوم سی صورت بنا کر کہا ۔
"تم جانتی ہو میں پھر بھی "۔ عفت میں بازار کیسے جا سکتی ہوں
"جیسے بیکری میں آتی ہو ۔ بس یہاں پاس ہی دکان ہے وہاں جانا ہے ۔”عفت اس کو منانے کے جتن کرنے لگی ۔
"اچھا ٹھیک ہے ۔ بس تھوڑی دیر کے لئے صبر کرو پھر چھٹی کے وقت چلیں گے ۔ اور میرا فون چارج کردو ۔تاکہ اگر گم ہو جایئں تو کسی کو فون کر سکیں ۔” ارج نے فون اس کی طرف بڑھایا
"ارج !”۔ عفت نے ہنسی کنٹرول کرنے کی کوشش کی "وہ دو دکانیں ہیں بس ہم وہاں گم نہیں ہوں گے روز وہاں سے ہی گزرتے ہیں ۔ ”
"جو بھی ہے "۔ ارج نے بیزاری سے کہا
"ٹھیک ہے ۔” ۔ عفت واپس کیک بنانے میں مشغول ہو گئی
بیکری کا ٹائم ختم ہونے کے بعد وہ دونوں ساتھ ہی باہر آئیں ۔تھوڑی دور چل کر ہی انہیں مطلوبہ دکان مل گئی ۔
"چلو ! اب جلدی سے لو میں یہاں باہر ہی کھڑی ہوں ۔ "ارج نے اپنا بیگ سمبھالتے ہوئے کہا ۔جس پر عفت نے کمر پر ہاتھ رکھ کر اس کو گھورا
"کیا !” ارج بولی
"اگر مجھے اکیلے ہی خریدنا ہوتا تو تمھیں یہاں سٹاچو بننے کے کے لئے ساتھ نا لے کر آتی ۔ چلو ساتھ ۔” عفت نے اسے ساتھ گھسیٹا
"میں کیسے” ۔ ارج منمنا ئی ۔
"میں ایسے ۔ عفت اس کی نقل اتارتے ہوئے ساتھ لے گئی ۔
دکان میں داخل ہوتے ہی عفت لباس دیکھنے میں مشغول ہو گئی ۔ جبکہ ارج ارد گرد کے ماحول کو انہماک سے دیکھ رہی تھی ۔ اپنے فون پر بجنے والی گھنٹی پر وہ چونکی ۔
"ہیلو !” ارج نے کال اٹھاتے ہوئے کہا
"ہیلو !ارج میں بات کر رہا پامیر ۔تم کب فارغ ہو۔ گی بیکری سے ؟”
"میں فارغ ہو گئی ہوں ۔ ارج کے ساتھ خریداری کرنے آئی ہوں ۔” ارج نے پامیر کو بتایا
"تم اور خریداری ؟” پامیر حیرانی سے بولا اور ایک بار فون کو دیکھا کے کیا اس نے سہی نمبر ہی ملایا ہے ۔
"تم ارج ہی جو نا ؟” اس نے حیرانی سے پوچھا
"نہیں!!! چڑیل بات کر رہی ہے ۔اب آیا یقین نا نہیں”وہ تپ کر بولی ۔
"ہاں آ گیا ہے ۔ مجھے زیادہ مصروفیت نہیں تو میں لینے آ رہا ہوں ۔ اکیلے مت آنا ۔ ٹھیک ہے ؟” پامیر نے ہدایات دیں
"جی سر میں اچھے بچوں کی طرح اکیلے باہر نہیں جاؤں گی ” اس نے منہ بنا کر کہا
"ٹھیک ہے میں آتا ہوں” ۔ اس نے مسکرا کر کہا اور فون بند کر دیا
"عجیب ہی ہے ۔ اب بیس منٹ ان کے منتظر رہو ۔ "ارج بولی
وہ عفت کی آواز پر چونکی ۔ "یار یہ ڈریس دیکھو ” اس نے ایک نیلے رنگ کا لباس دیکھایا ۔
"ہاں اچھا ہے تم ٹرائی کر لو ایک بار ۔” اس نے کہہ کر دوسرے کپڑوں کو دیکھنے میں مصروف بو۔ گئی ۔ ایک سرخ رنگ کے لمبے فرک پر اس کی نظریں جا ٹھہریں ۔ جو پاؤں تک آتی تھی ۔ وہ ابھی اس کا تجزیہ کرنے میں۔ ہی۔ مصروف تھی جب پیچھے سے عفت نے وہ سوٹ نکالا اور اسے خریدنے کو کہا
"میں کیسے ۔” اس نے وہ ڈریس واپس رکھنے کی کوشش کی ۔
"ارے ۔ اسے دیکھو سیل لگی ہے ۔سستا ہی ہے ۔ا”گر عفت ضد تھی تو ارج بھی اس کی دوست تھی اپنی ضد کی پکی ۔
"تم نے خریدنا ہے تو خریدو مجھے مت گھسیٹو ان سب میں بہن ۔میں نے ایسے شوق نہیں پالے ۔” اس لباس کو واپس رکھتے ارج بولی ۔
"ارے ۔ پامیر بھائی دیکھیں آپ کی بیوی کو یہ سوٹ بہت پسند آیا ہے ۔ آپ یہ سوٹ تو خرید کر دے ہی سکتے ہیں دیکھیں انتہا کا سستا ہے ۔ مالی لحاظ سے بلکل بھاری نہیں پڑے گا ۔ یہ ارج کب سے کہ رہی ہے اتنے پیسے نہیں میرے پاس ۔ اب آپ اتنا تو کر ہی سکتے ہیں اپنی زوجہ محترمہ کے لئے "۔ عفت نے پیسوں والی بات پر سفید جھوٹ بولا ۔
"یہ جھوٹ بول رہی ہے آپ اس کی باتوں کا یقین مت کریں ۔” ارج بھی جلدی سے سامنے آ کر بولی ۔
"لے لو ارج کوئی بات نہیں” ۔ پامیر نے آگے ہو کر رقم دیکھی ۔ جو بہت زیادہ تو نا تھی ۔ اتنا ایک اد سوٹ تو خرید کر دیا جا سکتا تھا ۔
ارج کا لاکھ احتجاج کسی کام نا آیا ۔ وہ سوٹ پامیر نے اس کے لیے خرید کر دم لیا۔۔
عفت اپنے گھر کے رہ پر ہو لی۔ تھی ۔ کیا سوچ رہی ہو ۔ پامیر نے اس کے ساتھ چلتے ہوئے کہا
"آپ اتنے زیادہ خوفزدہ کس چیز سے ہیں؟ "ارج نے اسکی تواقع کے برعکس سوال کیا تھا ۔
"میں .میں کیوں خوفزدہ ہونے لگا ہوں ؟” پامیر نے مضنوعی انداز میں مسکرایا ۔
"ہاں وہی تو آخر کیا چیز ہے جس نے آپ کو۔ کر رکھا ہے” ۔ ارج نے چلتے ہوئے کہا ۔
"تم گھر چلو آرام سے یہ جگہ ایسی باتوں کی۔ نہیں ہے ۔”
"تو مطلب آپ واقع ہی پریشان ہیں کسی بات کو۔ لے کر” ارج نے آخر بات کہلوا ہی لی تھی ۔
"ارج !!!” پامیر نے اب کی بار غصے سے تنبہہ کی ۔
"ویسے سوٹ کے لئے شکریہ۔ ورنہ میں تو کبھی بہ وہ سوٹ نا خریدتی ” ۔ ارج نے پھر سے پٹر پٹر بولنا شروع کر دیا ۔
"ارج !!! کیا تم نے اج کونسی کافی صبح پی تھی کے آج کسی چیز کا اثر ہی نہیں ہو رہا تمھیں "۔ پامیر آس پاس نظر رکھے ہوئے تھا اور ارج کی باتوں کی وجہ سے مسلسل تنگ ہو رہا تھا ۔
"جو گھر میں آپ لے کر آئے ہیں ۔آپ بھی وہی پیتے ہیں ”
"اس سے اچھا تھا کہ میں مس نگہت کی آفر مان لیتا ۔ کے وہ تمھیں سکوٹی پر لے آئیں میں ہی پاگل تھا ، ”
"وہ ان کی اباو آجداد کی طرف سے ملنے والی سکوٹی ،۔ جس کو ہارن کی۔ ضرورت ہی۔ نہیں ۔ چلتی ہے تو خود ہی پتا لگ جاتا ہے نگہت صاحبہ کی سکوٹی تشریف لے کر آ رہیں ہیں ۔ سب اپنے اپنے کانوں کی۔ حفاظتی تد بر کر لیں ۔ توبہ توبہ "۔ ارج کانوں کو۔ ہاتھ لگاتی آگے کو۔ بڑھ گئی ۔
"ارج کیا تم تھوڑی دیر کے لئے چپ ہو جاؤ گی ۔” پامیر نے ارد گرد دیکھتے ہوئے کہا
"ہاں ! کوشش کر سکتی ہوں” ۔اس نے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
"پتا نہیں کب عقل آئے گی اس لڑکی کو "پامیر نے مسکرا کر صرف ایک بار اس کی طرف دیکھا ۔
گھر پہنچ کر اس نے دروازہ جلدی جلدی بند کیا ۔
"آپ نے لائبریری نہیں جانا” ۔ ارج نے دوبارہ بہت تمیز کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ۔
پامیر کو اس کی دماغی حالت پر شک گزرا ۔ اگے بڑھ کر اس نے اس کر ماتھے پر ہاتھ رکھا ۔ارج نے اس کا ہاتھ پکڑ کر پیچھے کیا ۔
"میں بلکل ٹھیک ہوں ۔ ”
"ہاں ! پتا نہیں کیوں شائد مجھے ہی کوئی غلط فہمی ہوئی سننے میں” ۔ پامیر نے شرارتا کہا
"ایک تو لوگوں کو عزت بھی راس نہیں آتی” ۔ وہ کہتے ہوئے کچن کی طرف بڑھی ۔
پامیر وہ سنجیدہ چہرا لئے اس کی طرف مڑی ۔
"یہ نکاح اس لئے نہیں ہوا کے آپ نے یا آرزو آنٹی نے زبردستی کی۔ بلکے میں آپ۔ کے پروگرام کے بارے میں میں پہلے ہی جان گئی تھی ۔ آرزو آنٹی کو فون پر سن لیا تھا میں نے سارا پلان "۔ اور پامیر اس کو ایسے دیکھ رہا جیسے سامنے ارج نہیں کوئی عجیب و خلقت مخلوق کھڑی ہو ۔ جس کو اس نے پہلے کبھی نا دیکھا ہو
"جھوٹ !! ایسا ہو ہی نہیں سکتا ۔” اس نے ہونقوں کی طرح اس کی طرف دیکھا ۔
"ایسا ہو چکا ہے ۔ "ارج نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
"تو پھر ۔۔پھر تم نے کچھ کہا کیوں نہیں ۔” پامیر حیرت کے سمندر میں غوطہ زن تھا ۔
"پہلی بات آرزو آنٹی کو ایڈونچر بہت پسند ہیں ۔ اور میں بس یہ سن پائی تھی کہ میں مجبور ہو۔ کر آپ لوگوں کی بات مان لوں گی ۔اور ماضی کو میں بہت پیچھے چھوڑ آئی ہوں ۔ میں نے بہت پہلے فصیلہ کیا تھا ۔ کے اب جہاں بھی رہوں گی ۔ کبھی خود کو ماضی کی وجہ سے کمزور نہیں ہونے دوں گی ۔لیکن ماضی سے پیچھا چھوڑنا بہ تو مشکل ہے ۔ اب بھی بہت مسلے ہوتے ہیں ۔ آرزو آنٹی کی بات پر پہلے پہل تو بہت غصہ آیا پر پھرغور و فکر کیا تو مجھے احساس ہوا کے آنٹی کا فصیلہ کچھ غلط بھی نا تھا "۔ ارج نے اپنی بات مکمل کی۔
"تو ناراضگی کا مطلب کیا تھا پھر آپ کی ؟” پامیر تجسس سے بولا
"وہ تو میں ناراض تھی اب ۔ دکھ ہوا تھا کم سے کم ایک دو بار تو پوچھتیں مجھ سے ۔ اس لئے ناراضگی بھی تو دیکھانی تھی ۔”
ارج نے معصوم سی شکل بنا کر کہا ۔
"ارج یہ معصوم شکلیں مت بناؤ ۔ بہت تیز اور حد کی شریر ہو ۔” پامیر نے حیرانی سے اپنا سر دائیں بائیں جھٹک کر بولا ۔
"کیا تم مجھے اپنی کہانی سناؤ گے کبھی ؟ "ارج نے ایک مشکل ترین سوال کیا تھا ۔
پامیر کچھ دیر اس کی شکل دیکھتا رہا پھر بولا "۔ ایسے سوال مت پوچھو ارج جن کے جواب آگ جیسی تپیش رکھتے ہوں ۔ جن کو بتانے کے لئے مجھے کنکر نگلنے پڑیں ۔ مجھے کچھ کام ہے میں لائبریری جا رہا ہوں ۔دروازہ ٹھیک سے بند کر لو ” پامیر دروازے کی طرف بڑھا ۔
"میں تمھیں اپنے بارے میں بتانے کو تیار ہون ۔ کیونکہ اب یہ بوجھ اٹھانے کی مجھ میں ہمت نا ہے ۔زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ۔ تم جاؤ اپنا کام کرو” ۔ ارج کہہ کر کمرے طرف بڑھ گئی ۔
پامیر کچھ دیر اس دروازے کی طرف دیکھتا رہا ۔ پھر باہر کو بڑھ گیا ۔
پامیر لائبریری پہنچا تو عمر کاؤنٹر پر کھڑا تھا اس کو۔ بیھج کر وہ کام میں مصروف ہو گیا ۔ کافی دیر بعد جب لائبریری کو بند کرنے کا وقت ہوا تو اس نے عمر کو ھدایات دیں ۔ اور کچھ کتابیں اٹھا کر رایک میں رکھنے کے لئےبڑھا ۔
تبھی دو تین کتابیں اس کے ہاتھ سے پھسل کر زمین پر جا گریں ۔ پامیر نے ان اٹھانے کے لئے ہاتھ بڑھایا پر اس کا ہاتھ ہوا میں ہی محلق رہ گیا ۔
وہاں کسی کتاب میں سے ایک پٙنا نکلا تھا جس پر سانپ کی شکل بنی تھی جو کنڈلی مارے بیٹھا تھا ۔ اس سانپ کو دیکھ ۔ ایک بے چینی اور خوف نے بھی پامیر کے دل پر بسیرا کر لیا ۔ لیکن اس سے بڑی پریشانی اس چیز کی ہوئی کے اس کی اوپری طرف زری لکھا تھا ۔ پامیر کے ہاتھ پاؤں پھول گئے
کسی کا ہاتھ کندھے پر محسوس ہوا تو اچھل پڑا ۔
"پامیر بھائی کیا ہوا ” عمر نے پریشانی سے کہا ۔
"کچھ نہیں کچھ بھی نہیں ہوا ” وہ کیا بتاتا کہ کیا ہو رہا تھا
"بھائی ھاییال آئی ہے ۔”پامیر اس کو کھینچ کر کچھ اگے لے آیا کے عمر کی۔ نظر وہاں نا پڑے
"تم جاؤ میں آتا ہوں” وہ لائبریری کے آخری کونے میں تھے وہ کچھ دیر وہیں کھڑا رہا پھر سر جھٹکا اور واپس ان گری ہوئی کتابوں کی طرف گیا ۔تو ایک اور دہچھکا لگا ۔ وہ کا غذ کا پٙنا وہاں سے غائب تھا "یہ سب کیا ہو رہا ہے ؟ "پامیر کا سر چکرا گیا ۔
تم گھرجاؤ ۔عمر کو بیھج وہ اس کاغذ کے پنے کو ڈھونڈٹا رہا پر کچھ ہاتھ نا آیا آخر اس تلاش کو چھوڑ کر اس نے لائبریری بند کر کے گھر کی۔ رہ لی ۔ اب اسے ارج سے پوچھنا تھا کے آخر زری کون تھی ؟