روشنی ویو بھی ہے اور پارٹیکل بھی۔ یہ آئیڈیا سب سے پہلے آئن سٹائن کی سٹڈی میں ہے۔ اس سے پہلے فزسسٹ یا تو ایسی تھیوریوں پر کام کرتے تھے جس میں روشنی ایک پارٹیکل ہو یا ان پر جن میں یہ ایک ویو ہو۔
نیوٹن نے روشنی کی لہر ہونے کی تھیوری کو مسترد کر دیا تھا۔ ان کی توجیہہ یہ تھی کہ روشنی کے سیدھی لکیر میں سفر کرنے کی وضاحت اس صورت میں ہوتی ہے۔ انہیں معلوم تھا کہ لہر رکاوٹ آنے پر diffract ہو جاتی ہے اور نیوٹن کا خیال تھا کہ روشنی ایسا نہیں کر سکتی۔
تھامس ینگ نے انیسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں تجرباتی طور پر یہ دکھایا کہ روشنی ایسا کرتی ہے اور نیوٹن کی تھیوری کی جگہ پر روشنی کے لئے ویو تھیوری ان کے کئے جانے والے کاموں میں سب سے زیادہ شہرت رکھتی ہے۔
اس آئیڈیاکو جیمز میکسویل کے کام سے مزید تقویت ملی۔ میکسویل نے 1860 میں یہ دکھایا کہ روشنی الیکٹرک اور میگنیٹک فیلڈز پر ایک ویو ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئن سٹائن نے میکسویل کے ہائیپوتھیسس کو قبول کیا اور اس میں ایک اور چیز کا اضافہ کیا کہ روشنی کی لہروں میں توانائی پیکٹ کی صورت میں آتی ہے جس کو انہوں نے فوٹون کہا۔ اور یہاں سے اس خیال کا جنم ہوا کہ روشنی کی نیچر دوہری ہے۔ آئن سٹائن نے سادہ ہائپوتھیسس سے ان کو آپس میں منسلک کر دیا جس کے مطابق فوٹون کی توانائی روشنی کی ویو کے تناسب سے تھی۔
آخر ایسا کیا ہوا کہ آئن سٹائن نے اس قدر ریڈیکل تصور پیش کیا؟ انہیں ان تجربات کا علم تھا جس میں روشنی کو دھات پر ڈالنے سے کچھ الیکٹرون نکل آتے تھے اور اس کرنٹ کی پیمائش سادہ سے آلے سے کی جا سکتی تھی۔ ان میں کم فریکونسی کی روشنی جتنی بھی شدت سے ہو، الیکٹرون کو نکال نہیں پاتی تھی لیکن جب فریکونسی تبدیل کریں تو پھر دھات سے الیکٹرون نکل سکتے تھے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا تھا کہ الیکٹرون دھات میں قید ہیں۔ اور انہیں نکالنے کی ضمانت سیٹ ہے جو انہیں آزاد کر دیتی ہے۔ اگر پڑنے والا فوٹون یہ ضمانت ادا نہیں کر سکتا تو یہ قید رہیں گے، خواہ جتنے بھی فوٹون اس سے ٹکرائیں جبکہ اگر فرار کی ضمانت جتنی توانائی والا ایک بھی فوٹون اس کو نکالنے کے لئے کافی ہے۔
یہ واضح اشارہ تھا کہ روشنی کی توانائی پیکٹوں کی صورت میں آتی ہے اور ایک پیکٹ کی توانائی کا انحصار فریکونسی پر ہے۔
یہ فوٹوالیکٹرک ایفیکٹ تھا اور آئن سٹائن نے اس کا پتا لگا لیا تھا کہ یہ سائنس میں انقلاب کا موجب ہو گا۔ یہ ان کے 1905 کے معرکة الآرا سال میں لکھے گئے چار پیپرز میں سے ایک تھا۔
اس سے پہلے روشنی کے بارے میں میکسویل کی تھیوری مقبول تھی جس میں روشنی لہر کی طرح سفر کرتی تھی۔ آئن سٹائن اس تھیوری کو بہت اچھی طرح سے جانتے تھے۔ اور انہیں معلوم تھا کہ یہ تھیوری انتہائی زبردست طریقے سے روشنی کے تقریباً تمام مظاہر کی وضاحت کر دیتی تھی۔ لیکن فوٹوالیکٹرک ایفیکٹ کی نہیں کر سکتی تھی۔ کیونکہ اگر میکسویل کی وضاحت کو مکمل مان لیا جاتا تو پھر کرنٹ کا انحصار روشنی کی شدت پر ہونا چاہیے تھا۔ لیکن ایسا نہیں تھا۔
اس جھول کا مطلب یہ تھا کہ میکسویل کی تھیوری، خواہ جتنی بھی اچھی تھی، مکمل نہیں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صرف فوٹوالیکٹرک ایفیکٹ کا ہی نہیں بلکہ بلیک باڈی ریڈی ایشن کا مسئلہ بھی تھا جس کو اس وضاحت نے حل کر دیا۔
(آئن سٹائن نے اس سال جو دوسرے پیپر لکھے تھے، اس میں ایک اس بات کا ثبوت تھا کہ مادہ ایٹموں سے بنا ہے، ایک تھیوری آف ریلیٹویٹی کا تھی اور ایک ماس اور توانائی کے تعلق پر تھا۔ ہر پیپر ایک انقلابی پیپر تھا جس نے فزکس کو یکسر تبدیل کر دیا)۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...