بغداد کے ایک اور سکالر ابنِ سھل تھے۔ ان کی لکھی ہوئی کتاب الحرکہ روشنی کی ریاضی کا پہلا سنجیدہ کام ہے۔ ان کے کام کے دو حصے دو الگ جگہوں سے دریافت ہوئی ہیں۔ دمشق اور تہران سے ملائے گئے حصوں سے بننے والا مکمل کام 1990 کی دہائی میں اکٹھا کیا گیا اور اس میں ایک زبردست چیز وہ ہے جسے ہم Snell’s law of refraction سے جانتے ہیں۔ یورپ میں اس بات پر بحث کی جاتی ہے کہ یہ کام سنیل نے پہلی بار کیا یا ڈیکارٹ نے۔ لیکن ابنِ سھل 650 سال قبل ان نتائج پر پہنچ چکے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن ابنِ سھل ابن الہیثم کی طرز کے (یا ان کے پائے کے) سائنسدان نہیں تھے۔ انہوں نے روشنی کی کثیف میڈیم میں داخل ہوتے وقت رفتار اور زاوئے کی تبدیلی کی وجوہات کی تہہ میں جانے کی کوشش نہیں کی۔ ان کی دلچسپی اچھے اور ٹھیک عدسے بنانے میں تھی۔ لیکن ان کے کام سے الہیثم نے فائدہ اٹھایا اور اسے آگے بڑھایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابن الہیثم کی کتاب المناظر سے ہونے والے انقلاب کو کئی سطحوں پر سمجھنے کی ضرورت ہے۔
سب سے پہلے یہ کہ یہ ایک اصل اور مکمل سائنسی کتاب ہے۔ تجربات کی تفصیلی وضاحت ہے۔ کونسا appratus استعمال کیا گیا۔ اس کو کس طریقے سے سیٹ کیا گیا۔ پیمائش کیا لی گئی۔ نتائج کیا رہے۔ ان کو سامنے رکھ کر اپنی تھیوریوں کا جواز دیا گیا ہے۔
تھیوریوں کو ریاضی اور جیومٹری کے ماڈلز کی مدد سے بتایا گیا ہے۔ اور یہ ریاضیاتی ماڈل الگ ڈویلپ کئے گئے ہیں۔
کتاب کے دو حصے ہیں۔ پہلی تین جلدوں میں بصارت کی تھیوری، آنکھ کی فزیولوجی اور ادراک کی نفسیات کی بات ہے۔ جبکہ باقی چار جلدوں میں روایتی فزیکل آپٹکس کا احاطہ کرتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الہیثم کی کتاب المناظر کا لاطینی ترجمہ تیرہویں صدی کے آغاز میں پہلی بار De aspectibus کے نام سے کیا گیا۔ برطانیہ میں راجر بیکن کے کام پر اس کا اثر تھا۔ انہوں نے اس کی تخلیص لکھی۔ پولینڈ میں وٹیلو میں بھی ایسا کیا۔ اور پھر یہ یورپ بھر میں جانا جانے لگا۔ اقلیدس، ارسطو، بطلیموس وغیرہ کے کام سے کہیں زیادہ مقبول ہوا۔ اور اگلی کئی صدیوں تک ایسا ہی رہا۔
بعد میں آنے والے اسلامی سکالرز نے بھی اس سے فائدہ اٹھایا اور اسے آگے بڑھایا۔ فارس کے الشیرازی اور الفارسی نے اسے آگے بڑھایا۔ الفارسی نے اسی کی بنیاد پر قوسِ قزح کی پہلی درست ریاضیاتی وضاحت دی۔ (جرمنی کے تھیوڈورک آف فرائبرگ نے اسی وقت میں یہ کام الگ اور آزادانہ کیا تھا)۔
ابنِ معاذ کے کام کا لاطینی ترجمہ Liber de crepusculis کے نام سے شائع ہوا تھا۔ یہ طلوعِ آفتاب اور جھٹپٹے کی روشنی پر بڑا خوبصورت کام تھا (جسے کئی سالوں تک الہیثم سے منسوب کیا جاتا رہا)۔
چھاپہ خانہ آ جانے کے بعد الہیثم، ابنِ معاذ اور وٹیلو کے کام کو اکٹھا کر کے Opticae Thesaurus کے نام سے 1572 میں کتاب کی اشاعت ہوئی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...