بیٹی ہونے کے بعد اس نے روشانے سے معافی مانگنے کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔۔۔۔ روشانے سمجھ رہی تھی کہ وہ اب اسکو اس نادر شاہ سے معافی مانگنے کے لیے نہیں کہے گا، اسکی بیٹی نے نین نقش شاہ میر کے لیے تھے، کھڑی ناک، دائیں آنکھ کے نیچے اک تل تھا بلکل شاہ میر کی طرح مگر رنگت روشانے جیسی تھی گلابی اور روشانے کی طرح تھوڑی پہ اک گڑھا سا تھا۔۔۔بیٹی کی پیدائش کے بعد روشانے مصروف رہنے لگی تھی دن بھر اسی کے ساتھ لگی رہتی وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوتا، وہ بہت خوش تھی جبکہ شاہ میر نے اب تک بیٹی کو گود میں بھی نہیں لیا تھا وہ اسکو جھنجھٹ سمجھتا تھا،مگر اسکی ساری ضرورتیں پوری کردیتا تھا۔۔۔۔۔
نادر شاہ اسکو یاد دلاتا رہتا کہ تمہاری بیوی نے اب تک معافی نہیں مانگی مجھ سے۔۔۔۔۔۔ اور شاہ میر کہتا” سیٹھ مجھے اپنا وعدہ یاد ہے اور وہ دن دور نہیں بس زرا سا اور انتظار کرلیں۔۔۔۔۔۔”
دو مہینے ہوچکے تھے اک روز شاہ میر گھر آیا اس نے روشانے کو کہا ” میرا اک دوست ہے اسکو پتہ چلا میری بیٹی ہوئی ہے تو وہ بےچین ہوگیا اسکو دیکھنے لیے میں نے کہا گھر آجاؤ تو اس نے منع کردیا اور کہا کہ نہیں کل تم بھابھی کو لیکر میرے گھر آجاؤ،اس نے بہت اصرار کیا ہے اسلیے میں نے حامی بھرلی اب کل تیار رہنا ہم چلیں گے۔۔۔”
روشانے مسکرادی اور کہا ٹھیک ہے۔۔۔۔ اگلے روز شام میں روشانے تیار ہوئی اور اس نے اپنی بیٹی کو تیار کیا پھر شاہ میر اسکو اپنے دوست کی طرف لیکر گیا اسکابھی فلیٹ تھا اور اس کے فلیٹ سے دس منٹ کی ڈرائیو پہ تھا۔۔۔۔ روشانے نے اس سے کہا کیک لے لیں ایسے خالی ہاتھ جانا اچھا نہیں لگتا،شاہ میر نے اسکی بات پہ عمل کیا۔۔۔۔ دوست کے فلیٹ پہ پہنچ کر بیل بجانے پہ اک ملازمہ نے دروازہ کھولا وہ دونوں اندر داخل ہوئے، اس ملازمہ نے انکو ڈرائنگ روم میں بٹھادیا اور خود چلی گئی تھوڑی دیر بعد شاہ میر کے موبائل پہ اک کال آئی وہ ہیلو ہیلو کرتا ہوا باہر چلا گیا کچھ دیر بعد وہ بات کرکے اندر آیا تھوڑی دیر بعد ملازمہ اندر آئی اور روشانے سے کہا بی بی آپ ادھر دوسرے کمرے میں آجائیں ہمارے صاحب عورتوں کے سامنے نہیں آتے اصل میں بیگم صاحبہ باہر گئی ہوئی ہیں تھوڑی دیر تک آجائیں گی اسلیے آپ کچھ دیر دوسرے کمرے میں بیٹھ جائیں۔۔۔۔ روشانے کو تھوڑا عجیب لگا مگر وہ مہمان تھی کچھ کہہ نہیں سکتی تھی سو اٹھ گئی اور اپنی بیٹی کو لیکر ملازمہ کے ساتھ دوسرے کمرے میں چلی گئی
دس منٹ گزرے تھے کہ ملازمہ اندر آئی اور کہا شاہ میر صاحب نے کہا ہے کہ بچی کو لے آؤ وہ انکے دوست نے دیکھنا ہے روشانے نے کہا اچھا اور بچی کو اسکے حوالے کردیا۔۔۔۔ کافی دیر گزرگئی مگر ملازمہ بچی کو واپس لے کر نہ آئی اسکو گھبراہٹ ہورہی تھی وہ اٹھی کہ دروازہ کھول کر باہر دیکھے اور شاہ میر کو بلائے مگر جیسے ہی اس نے دروازہ کھولنے کے لیے ہینڈل گھمایا دروازہ نہیں کھلا اسنے بہت کوشش کی مگر دروازہ نہیں کھلا وہ باہر سے لاک تھا وہ دروازہ پیٹنے لگی مگر کسی نے نہیں کھولا اسکا دل گھبرانے لگا اسکو کچھ گڑبڑ لگی وہ دعائیں مانگنے لگی جب دروازہ پیٹ پیٹ کر تھک گئی تو تھک کر نیچے بیٹھ گئی اور رونے لگی، پھر دروازے کا لاک کھلنے کی آوازآئی اور وہ کھڑی ہوگئی دروازہ کھلنے پہ اندر آنے والے نفس کو دیکھ کر اسکا سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا وہ کوئی اور نہیں نادرشاہ تھا۔۔۔۔ روشانے اک دم بولی تم۔۔۔۔ تم یہاں کیسے اور شش شاہ میر کہاں ہے۔۔؟؟؟؟ شاہ میر ۔۔۔۔۔۔۔۔شااااہ میییر۔۔۔۔۔۔ وہ شاہ میر کو آوازیں دینے لگی اسکے آوازدینے پہ نادر شاہ نے اک زور دار قہقہہ لگایا اور کہا بے کار میں اپنی اینرجی ضائع کررہی ہو اسکو آواز دے کر وہ یہاں ہوگا تو آئے گا نااا وہ تو اب تک لندن کے لیے جہاز میں بیٹھ بھی چکا ہوگا ہاہا ” وہ یہ کہتا ہوا اسکے قریب آنے لگا روشانے پیچھے ہوتی گئی اور کہا دور رہو مجھ سے میرے قریب مت آنا ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔۔۔” اس نے کہا تمہارے قریب آنے کے ہی تو شاہ میر نے مجھ سے پانچ لاکھ روپے لیے ہیں ایسے کیسے تمہارے قریب ناآؤں میں۔۔۔” روشانے حیرت زدہ ہوگئی وہ سوچ نہیں سکتی تھی کہ شاہ میر اس حد تک گر جائے گا وہ اک دم چلائی میری بچی وہ کہاں ہے؟؟؟ وہ باہر بھاگنے لگی تو نادر شاہ نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا اور اک جھٹکے سے اسکو اپنے قریب کیا وہ اک دم اسکے سینے سے جا لگی۔۔۔۔ نادر شاہ نے کہا تو نے مجھے تھپڑ مارا تھا بس اسکی قیمت چکانی ہے تمہیں پھر چلی جانا اور تمہاری بچی کو بھی وہ لے گیا اپنے ساتھ۔۔۔۔ روشانے نے اسکو دھکا دیا وہ تیار نہیں تھا اک دم گر پڑا روشانے بھاگنے لگی تو اس نے اسکی ساڑھی کا پلو پکڑ لیا روشانے گرتے گرتے بچی اور کہا میں اپنی جان دے دوں گی مگر کبھی تجھے تیرے مقصدمیں کامیاب نہیں ہونے دوں گی اسکی نظر سامنے رکھے اک بھاری سے گلدان پہ پڑی۔۔۔۔ نادر شاہ اٹھ کھڑا ہوا اور اسکے قریب آنے لگا روشانے نے اسکے قدموں کو بڑھتے دیکھا تو جلدی سے اس طرف ہوگئی جہاں گلدان رکھا تھا اس نے وہ اٹھالیا اور کہا میرے قریب مت آنا مگر نادر شاہ ہنسنے لگا اور اسکے قریب ہونے لگا روشانے نے پوری قوت سے گلدان اٹھا کر اسکے سر پہ دے مارا وہ نیچے گر گیا اسکے سر سے کافی خون بہنے لگا روشانے نے اک وار اور کردیا اور وہ وہیں ڈھیر ہوگیا۔۔۔۔ روشانے اس کمرے سے باہر آگئی ،وہاں کوئی نہیں تھا ملازمہ بھی غائب تھی روشانے جلدی سے وہاں سے باہر نکل گئی۔۔۔۔ اک شیطان اپنے انجام کو پہنچ گیا تھا۔۔۔۔
****
شاہ میر سوچی سمجھی سازش کے تحت روشانے کو نادر شاہ کے اس عارضی فلیٹ پہ لایا تھا اور اس نے نادر شاہ سے کہا تھا کہ روشانے اب آپکے حوالے ہے میں نے لندن کے ٹکٹ کروالیے ہیں اور میں اسکو آپکے پاس چھوڑ کر یہاں سے جارہا ہوں اور بچی کو میں ڈرائیور اصغر کو دے دوں گا اس نے پانچ لاکھ میں روشانے کا سودا کیا تھا اور وہ اسکو اسکے فلیٹ پہ لایا ملازمہ بھی ملی ہوئی تھی اسی نے ہی شاہ میر کے کہنے کے مطابق روشانے کو دوسرے کمرے میں بھیجا تھا اور بچی کو لے آئی تھی
شاہ میر وہاں سے بچی کو لیکر نکلا اور اپنے فلیٹ پہ آگیا بچی کو اس نے ڈرائیور کے حوالے کیا اور لاکھوں روپے اسکو دئیے اور کہا کہ یہاں سے کہیں اور چلا جائے پھر اپنا سامان اٹھا کر وہ ائرپورٹ کے لیے نکل پڑا مگر کہتے ہیں نا اللّٰہ کی لاٹھی بے آواز ہے جس ٹیکسی سے وہ ائر پورٹ جارہا تھا اسکا سلینڈر پھٹ گیا اور وہ موقع پہ جاں بحق ہوگیا یوں دوسرا شیطان بھی اپنے انجام کو پہنچا۔۔۔
*** ڈرائیور اصغر کی شادی کو تین سال ہوچکے تھے اور وہ اولاد کی نعمت سے محروم تھا جب شاہ میر نے بچی اسکو دی تو اس نے اسکو اپنی بیوی کی گود میں دے دیا اور شاہ میر کی بیٹی اسکی گود میں پرورش پانے لگی۔۔۔۔۔ اصغر نے وہ علاقہ چھوڑ دیا اور دوسری جگہ شفٹ ہوگیا مگر اس نے شہر نہیں چھوڑا تھا اور دوسری جگہ ہی ڈرائیور کی نوکری کرلی۔۔۔۔۔
ارمان یک ٹک رومانہ کو دیکھے جارہا تھا رومانہ کچھ پزل سی ہونے لگی، ارمان اٹھا اور اک دم سجدے میں چلا گیا رومانہ کچھ حیران پریشان سی تھی کہ یہ ارمان کو کیا ہوا ہے وہ وہیں اسکے پاس ہی بیٹھ گئی۔۔۔۔ وہ سجدے میں گرا ہچکیوں سے رورہا تھا اس نے ارمان کا بازو ہلایا اسنے روتے روتے اپنا سر اٹھایا چہرہ پورا آنسوؤں سے تر تھا اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھادیے۔۔۔۔ اسکے ہاتھ تو اٹھے ہوئے تھے مگر زبان الفاظ سے عاری تھی۔۔۔۔ رومانہ کی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہورہا ہے یہ سب۔۔۔۔ اس نے ارمان سے پوچھا۔۔۔” کیا ہوا آپ کو؟ آپ ٹھیک ہیں۔؟؟
ارمان روتے روتے بے اختیار ہورہا تھا۔۔۔۔ اس نے اپنے ہاتھ چہرے پہ پھیرے اور رومانہ کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا۔۔۔۔” تم۔۔۔۔ تم رومانہ ہو۔۔ نہیں تم میری روبی ہو ہے نا۔۔۔۔ رومانہ ہکا بکا اسکو دیکھنے لگی پھر نظریں ملائے بغیر کہا۔۔۔۔ ” نہیں میں رومانہ ہوں۔۔۔ روبی کک کون ہے؟؟؟
روبی میری محبت،میری خواہش،میری چاہت، میری آرزو،میری حسرت، اور میری زندگی۔۔۔۔ کہہ دو اک بار تم روبی ہو میری روبی جس سے مجھے پہلی نظر میں محبت ہوگی تھی، وہ روبی جو میری زندگی بن گئی تھی، وہ روبی جس کو پانے کے لیے میں نے اللّٰہ سے ہر پل ہر نماز میں مانگا ہے، اور وہ روبی جو آج میری ہو کر میرے سامنے بیٹھی ہے
ارمان نے بے اختیار ہوکر رومانہ سے سب کہہ دیا۔۔۔۔ اور رومانہ حیرت کا بت بنی اسکہ ساری باتیں سن رہی تھی۔۔۔۔۔
کہہ دو نا تم میری روبی ہو پلیز اک بار کہہ دو۔۔۔۔ ارمان مسلسل اصرار کیے جارہا تھا
اور رومانہ چپ تھی۔۔۔۔
ارمان ہچکیوں سے رورہا تھا رومانہ جیسے کچھ ہوش میں آئی اور کہا آپ ایسے نا روئیں۔۔۔۔
ٹھیک ہے نہیں رؤں گامگر تم اک بار کہہ دو۔۔۔”ہاں ارمان میں تمہاری روبی ہوں۔یقین کرو میں تم سے کچھ نہیں ہوچھوں گا تمہاری پچھلی زندگی کے حوالے سے مجھے میری روبی مل گئی میرے لیے یہی کافی ہے”
رومانہ نے سر جھکادیا اور کہا۔۔۔۔
جی ارمان میں آپکی روبی ہی ہوں۔۔۔۔۔”
ارمان اک بار پھر سجدے میں گرگیا۔۔۔۔۔ رومانہ کی آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہوگئے وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ کوئی اس سے بھی اتنی پاک محبت کرسکتا ہے بےشک اس کا ماضی صاف تھا مگر بعد میں جو گندگی اسکی زندگی میں گھل گئی تھی جس کو سوچ کر اسکو بھی گھن آتی تھی مگر اب اپنے حال اور مستقبل کو وہ پاکیزہ بنانا چاہتی تھی اور اسکو اب اچھی طرح اندازہ ہوگیا تھا کہ اسکی آگے کی زندگی ارمان کے ساتھ بہت پاکیزہ گزرے گی۔۔۔۔۔ اور وہ یہ سوچ کے بہت مطمئن تھی۔۔۔۔۔
ارمان نے اس سے کہہ دیا تھا کہ مام کے سامنے مت ظاہر کرنا کہ تم روبی ہو تم رومانہ ہی ہو اور رومانہ ہی رہو گی سب کے لیے بس میرے لیے تم میری روبی ہو اس بات پہ اس نے سر ہلادیا تھا۔۔۔۔۔۔
یہ سب مقدر کا کھیل تھا ناہید بیگم نے کبھی جس وجود سے گھن کھائی تھی اور کہا تھا کہ وہ کسی گندگی کو اپنے گھر کی بہو نہیں بنا سکتیں آج خود انہوں نے اپنے ہاتھوں سے اسکو اپنے بیٹے کی زندگی میں شامل کیا تھا جس سے وہ خود بے خبر تھیں
******
صبح ہوچکی تھی ناہید بیگم نے دروازہ پہ دستک دی تو رومانہ نے دروازہ کھولا وہ تیار ہوگئی تھی کیونکہ ناشتہ لے کر اسکے گھر والوں نے آنا تھا،ارمان بھی بہت فریش لگ رہا تھا ناہید بیگم اسکو دیکھ کر بہت مطمئن ہوگئیں کہ انکا بیٹا انکی پسند سے خوش ہےیقینا اسکو رومانہ پسند آگئی تھی۔۔۔۔ وہ دونوں کو مسکراتے ہوئے دعا دینے لگیں اور ان سے جلدی نیچے آنے کے لیے کہا اور وہاں سے چلی گئیں۔۔۔۔ نیچے لاؤنج میں مجتبی بھی بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے کہا شکر ہے ارمان خوش ہے اس بات پہ مجتبی بھی مسکرادیے پھر رومانہ کے گھر والے آگئے رومانہ اور ارمان بھی نیچے اتر کر آچکے تھے، رومانہ کے گھر والوں نے اسکو خوش اور مطمئن دیکھا تو بہت پر سکون ہوگئے پھر سب نے ناشتہ کیا کچھ دیر بیٹھے اور چلے گئے، شام میں ولیمہ تھا سو اسکی تیاری بھی کرنی تھی۔۔۔۔
******
روشانے نے اپنی بیٹی کا نام رومانہ رکھا تھا، اصغر نے شاہ میر کی گود سے لیتے وقت اسکا نام پوچھ لیا تھا، اصغر اور اسکی بیوی رومانہ کا بہت خیال رکھتے تھے، اسکی پرورش بےشک اک غریب گھر میں ہورہی تھی مگر رومانہ کو اک صاف ستھرا ماحول مل رہا تھا اصغر کی بیوی رومانہ کا بہت خیال رکھتی اسکی مالش کرتی اسکی خوراک کا دھیان رکھتی جب اسکی اسکول جانے کی عمر ہوئی تو اصغر نے اسکو اک اچھے اسکول میں داخل کروادیا تھا وہ جہاں نوکری کررہا تھا وہاں اسکی تنخواہ اتنی تو نہیں تھی جتنی شاہ میر دیتا تھا مگر اتنی ضرور تھی کہ وہ اپنی بیٹی کو اچھی تعلیم دلواسکے اسکی اور تو کوئی اولاد تھی نہیں سو وہ اپنی جمع پونجی اپنی بیٹی پہ ہی خرچ کرتا تھا، رومانہ نے بھی کبھی ان دونوں کو مایوس نہیں کیا تھا وہ ذہین بھی تھی اور دل لگا کر پڑھتی تھی وہ دونوں اسکے اسکول بھی جاتے تھے پڑھے لکھے تو تھے نہیں کوئی خاص مگر پھر بھی اسکول جاتے اور اسکی ٹیچر سے ملتے تو وہ رومانہ کی تعریفیں ہی کرتیں وہ دونوں مسرور سے ہوجاتے اور اپنی بیٹی کے اچھے مستقبل کی دعائیں کرتے۔۔۔۔ رومانہ بہت خدمت گزار بچی تھی چھوٹی سی عمر میں ہی وہ اپنی ماں کا ہاتھ بٹا دیتی تھی اصغر جب گھر آتا تو اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اسکے لیے پانی لیکر آتی اور اسکے گلے میں بانہیں ڈال کے جھول جاتی وہ بھی اس سے بہت پیار کرتا اسکے لاڈ اٹھاتا، اصغر کی بیوی گھروں میں کام کرتی تھی رومانہ کی وجہ سے اس نے زیادہ کام لینا چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ اسکول سے آجاتی تھی تو اسکو جلدی گھر آنا پڑتا تھا۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...