“محمود فوراً نیچے اتر آؤ…”
“کیوں,کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ میں جلد از جلد دوسری سمت میں پھلانگ جاؤں..”
“بےوقوف مت بنو… وہ لوگ اندر آ کر تمہارے متعلق پوچھیں گے, تو ہم کیا جواب دیں گے… تمہیں نہ پا کہ معاملہ گڑ بڑ ہو جائے گا…”
“فاروق ٹھیک کہہ رہا ہے محمود نیچے اتر آؤ…” مارے ڈر کے بیگم جمشید کے منہ سے بات نہیں نکل رہی تھی…
دروازہ پھر پوری قوت سے دھڑ دھڑایا جانے لگا… محمود نیچے اترنے لگا… دروازے پر بدستور دستک ہو رہی تھی… ان کے دل دھک دھک کر رہے تھے…
“اب کیا کریں؟” محمود نے ہانپتے ہوئے کہا…
“پہلے یہ میزیں اپنی جگہ پر رکھ دیں… اس کے بعد ہم اپنے کمرے میں جا کر سوتے بن جائیں گے اور امی جا کر دروازہ کھولیں گی… اس طرح جیسے بہت گہری نیند سو کر اٹھی ہوں…”
“ہاں! یہ ٹھیک رہے گا…”
انہوں نے ایسا ہی کیا اور جب محمود اور فاروق جا کر اپنے کمرے میں لیٹ گئے تو ان کی امی نے دروازہ کھول دیا…
وہ چاروں بڑی تیزی سے اندر داخل ہو گئے…
“دروازہ اتنی دیر سے کیوں کھولا گیا؟” ان میں سے ایک نے پوچھا…
“میں سو رہی تھی… کیوں اب کیا بات ہے… تم لوگ پھر آ گئے…”
“ہم گئے ہی کب تھے…”
“کیا مطلب؟” وہ انجان بن گئیں…
“چھوڑو… یہ بتاؤ کہ تمہارے دونوں بچے کہاں ہیں؟”
“اپنے کمرے میں, اور کہاں ہو سکتے ہیں…”
“چلو, ہمارے ساتھ ان کے کمرے تک چلو…”
“آخر بات کیا ہے تم لوگ واپس کیوں آ گئے… چاہتے کیا ہو… کیوں ہمیں تنگ کرتے ہو… میں تمہیں یقین دلاتی ہوں کہ وہ پیکٹ یہاں نہیں ہے…”
“تم چلو تو سہی…”
مجبوراً وہ چل پڑیں… ان کے پیچھے وہ بھی چل دیے… محمود اور فاروق گہری نیند سو رہے تھے… کمرے میں نیلا بلب جل رہا تھا…
“انہیں اٹھاؤ…” سیاہ پوش نے اپنے ایک ساتھی سے کہا…
“آخر ان بچوں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے… انہیں سونے دو…”
سیاہ پوش کا ساتھی آگے بڑھ کر دونوں کو ہلانے لگا… کچھ دیر کسمسانے کے بعد انہوں نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھول دیں…
“کیا بات ہے امی……… خیر تو ہے… یہ لوگ پھر کیوں آ
گئے…” محمود نے انجان بنتے ہوئے کہا…
“خدا جانے بیٹا… کیا پتا یہ لوگ پھر کیوں آ گئے…”
“ہم ایک بار پھر یہاں کی تلاشی لیں گے…”
“آخر کیوں کیا ابھی تک تمہارا اطمینان نہیں ہوا؟”
“نہیں…”
“پھر بتاؤ تمہارا اطمینان کیسے ہو سکتا ہے… جو حقیقت ہے… وہ میں نے تمہیں بتا دی… وہ پیکٹ اس گڑھے سے کس نے نکالا’ ہمیں نہیں معلوم…”
“خیر ہم تلاشی لیں گے…”
“تم قانون کو اپنے ہاتھ میں لے رہے ہو…” بیگم جمشید نے تیز لہجے میں کہا…
“اس وقت قانون گہری نیند سو رہا ہو گا, تم فکر نہ کرو… ہم قانون شکنی میں ماہر ہیں……….. ہمارا کام ہی یہی ہے…”
“بہت اچھا, تم تلاشی لے سکتے ہو…” بیگم جمشید راستےسے ہٹ گئیں…”
سیاہ پوش کے تینوں ساتھی تلاشی لینے کے لیے بڑھے…
“ٹھہرو… میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گا اور یہ لوگ
بھی…” اس کے لہجے میں پراسرار مسّرت تھی…
تلاشی شروع ہوئی سیاہ پوش ان تینوں کو باری باری گھور رہا تھا… ان میں جس کی نظر بھی کسی سمت اٹھ جاتی’ وہ اپنے ساتھیوں کو اس جگہ کی تلاشی لینے کا اشارہ
کرتا… اس مرتبہ وہ خود بھی چیزوں کا الٹ پلٹ کر رہا
تھا…
بیگم جمشید کے کمرے کی باری آئی… سیاہ پوش کے ایک ساتھی نے پلنگ کی چادر الٹی تو وہ چونک اٹھا… ساتھ ہی ان تینوں کے دل حلق میں آ رہے…
“باس یہ دیکھو…” سیاہ پوش ادھر متوجہ ہوا…
“ارے! یہ کیا, اس چارپائی کی پائنتی کیا ہوئی….. کیوں؟” اس نے سوالیہ نظریں ان تینوں پر گاڑ دیں…
“یہ…….. یہ ٹوٹ گئی تھی……”
“رسی کہاں ہے؟”
“رسی….” اس مرتبہ ان کے دل دھک دھک کرنے لگے, کیونکہ وہ رسی باورچی خانے میں کھڑکی کی سلاخ سے بندھی چھوڑ آئے تھے, جلدی میں انہیں اس کا خیال نہیں رہا تھا…
“ہاں! کہاں ہے اس کی رسی؟” نقاب پوش نے گرجدار آواز میں پوچھا…
“وہ باورچی خانے میں ہے…” بیگم جمشید نے سچ بول دیا… ان کے اس سچ پر محمود اور فاروق دونوں کو سخت غصہ آیا…
“باورچی خانے میں اس کا کیا کام؟”
“گیلی صافیاں وغیرہ لٹکانے کے کام آتی ہے…”
“اوہ…….. ٹھیک…….” شاید وہ کچھ مطمئن ہو گئے تھے…
تلاشی پھر شروع ہو گئی… آخر وہ باورچی میں آئے… رسی زمین پر پڑی تھی اور اس کا ایک سرا روشن دان کی سلاخ سے بندھا تھا…
“یہ کیا…… رسی تو نیچے پڑی ہوئی ہے…” سیاہ پوش کے لہجے میں شک تھا… محمود اور فاروق اس طرح گُم صُم کھڑے تھے جیسے کسی جادوئی دیس میں پیچھے مڑ کر دیکھنے کی وجہ سے پتھے کے بن گئے ہوں…
“دراصل جب اس کی ضرورت ہوتی ہے, میں دوسرا سرا دوسری کھڑکی کی سلاخ سے باندھ دیتی ہوں, ورنہ آنے جانے میں دقت ہوتی ہے…”
“ہوں!” سیاہ پوش سوچ میں ڈوب گیا… غالباً وہ سوچ رہا تھا کہ ان کے بیان کو کہاں تک درست سمجھے…
“اؤ چلیں… یہاں کچھ نہیں ہے…” بلآخر اس نے کہا… اور اپنے ساتھیوں سمیت باہر نکل آیا… وہ بھی اس کے پیچھے تھے, یہاں تک کہ وہ گھر سے باہر نکل گئے… ان تینوں نے اطمینان کا سانس لیا اور دروازہ اندر سے بند کر دیا…
“اب ہمیں اپنے منصوبے پر عمل کرنا چاہیے…” محمود بول اٹھا…
“لیکن پوری احتیاط سے, کیونکہ جہاں تک میرا خیال ہے یہ لوگ ابھی نہیں ٹلیں گے… ابھی ان کا پوری طرح اطمینان نہیں ہوا…” بیگم جمشید نے کہا…
“اور میرا خیال ہے کہ اب اس طرح تکلیف اٹھانے کی کوئی ضرورت نہیں…” فاروق نے کہا…
“کیا مطلب؟” دونوں فاروق کی بات پر حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکے…
“میرا خیال ہے کہ اب وہ لوگ یہاں نہیں رکیں گے… وہ ضرور اب یہاں سے کوچ کر جائیں گے بلکہ اب تک جا بھی چکے ہوں گے… پھر ایسی صورت میں ہمیں سب سے پہلے فرزانہ کو تلاش کرنا چاہیے…”
“تو ٹھیک ہے, میں پہلے انہیں دیکھ لوں…” محمود نے کہا اور سب سے پہلے اپنے کمرے میں آیا.. اس نے پائیں باغ والی کھڑکی کھولی ہی تھی کہ سُن رہ گیا… فاروق جو اس کے پیچھے چلا آیا تھا, پل بھر کے لیے ساکت کھڑا رہ گیا… چاروں بدمعاش ٹارچوں سے پائیں باغ کی تلاشی لے رہے تھے… وہ ٹارچیں درختوں کی شاخوں پر بھی مار رہے تھے…
ان دونوں کی حالت بس ایسی تھی کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں… ان کا رنگ اڑ گیا تھا… دل دھک دھک کر رہے تھے… دونوں کے ذہن میں صرف ایک ہی خیال تھا…
“اب کیا ہو گا؟”
“اب کیا ہو گا… اگر انہیں فرزانہ نظر آ گئی تو……..” ان کے ذہن اس سے آگے نہ سوچ سکے…
جب دونوں کو گئے کافی دیر ہو گئی تو بیگم جمشید بےچین ہو اٹھیں اور پھر وہ بھی اٹھ کھڑی ہوئیں سب سے پہلے وہ تینوں کے کمرے میں آئیں…. محمود اور فاروق دونوں اندر موجود تھے مگر ساکت حالت میں… وہ ان کی طرف بڑھیں اور ان کے شانوں پر ہاتھ رکھ دیے… دونوں چونک کر پلٹے, انہوں نے اپنی امی کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور ساتھ ہی تھوڑی سی کھلی ہوئی کھڑکی میں سے دیکھنے کے لیے کہا… بیگم جمشید نے پائیں باغ میں دیکھا اور انہیں اپنا سانس رکتا محسوس ہوا… باغ میں چاروں طرف ٹارچوں کی روشنیاں اِدھر سے اُدھر رقص کر رہی تھیں…
“اُف میرے خدا اب کیا ہو گا؟” ان کے منہ سے دبی ہوئی چیخ نکل گئی…
“خدا پر بھروسہ رکھیے امی! وہی ہماری مدد کرنے والا ہے…” فاروق بولا…
“میری فرزانہ کا کیا بنے گا؟” بیگم جمشید نے پوچھا…
“میرا خیال ہے کہ ہم دونوں باورچی خانے میں جا کر اپنا کام شروع کر دیتے ہیں اور آپ یہاں کے حالات کا جائزہ لیں, ساتھ ہی دعا کرتی رہیں کہ فرزانہ انہیں نظر نہ آئے…”
ایک بار پھر انہوں نے بڑی میز دیوار کے ساتھ رکھی… اس پر چھوٹی میز اور اس کے اوپر اس سے چھوٹی میز… محمود پہلے بڑی میز پر چڑھا اور اس نے فاروق سے رسی کا دوسرا سرا پکڑانے کے لیے کہا… فاروق نے اسے رسی تھما دی… محمود دوسری میز پر بھی چڑھا مگر جب اس نے تیسری میز پر قدم رکھا تو میز ڈگمگا گئی قریب تھا کہ محمود میزوں کے ساتھ ہی نیچے آ رہے مگر فاروق کی پھرتی کام آئی… اس نے فوراً ہی ڈگمگاتی میز کے پائے پکڑ لیے…
محمود نے رسی کو دوسری طرف لٹکا دیا…
“اچھا فاروق خدا حافظ……….. اور ہاں میرے دوسری طرف کودنے کے بعد رسی کھینچ لینا, میزیں یہاں سے ہٹا کر اپنی جگہ پر رکھ دینا…
“اچھا خدا حافظ….”
محمود نے ہاتھ روشن دان پر رکھے وہ ہاتھوں کے زور سے اوپر اٹھنے لگا… اس کام میں اسے اپنا پورا زور لگانا پڑ رہا تھا… بڑی مشکل سے وہ روشن دان تک پہنچا اور پھر رسی کو تھامے ہوئے دوسری طرف لٹک گیا…..
اب وہ فاروق کی نگاہوں سے اوجھل تھا مگر فاروق کی نظریں تنی ہوئی رسی پر گڑھی ہوئی تھیں… جب تک رسی ڈھیلی نہ پڑ حاتی, اس وقت تک وہ اطمینان کیسے لے سکتا تھا اور رسی کے ڈھیلا ہونے کا مطلب یہ تھا کہ محمود دوسری طرف اُتر چکا ہے…
پورے ایک منٹ کے بعد رسی ڈھیلی ہوئی… یہ ایک منٹ فاروق کو ایک سال کے برابر محسوس ہوا… اس نے رسی کھینچ لی اور میزیں اپنی جگہ رکھنے لگا ابھی وہ بڑی میز دیوار سے ہٹانے بھی نہ پایا تھا کہ باہر آہٹ ہوئی, یہ کسی کے چلنے کی آواز تھی جو باورچی خانے کی طرف آ رہا تھا…
فاروق گھبرا گیا,کیونکہ بڑی میز وہ تنہا اٹھا نہیں سکتا تھا اور گھسیٹنے کی صورت میں آواز پیدا ہونے کا خطرہ تھا… فاروق کا دل دھک دھک کرنے لگا… قدموں کی چاپ اب دروازے کے نزدیک پہنچ چکی تھی…
فاروق نے باورچی خانے کا دروازہ کھولا… باہر ان کی امی کھڑی تھیں اور ان کے چہرے سے اطمینان جھلک رہا تھا انہیں دیکھ کر فاروق کی جان میں جان آئی…
“آپ نے تو میری جان ہی نکال دی امی…”
“کیوں….. کیا بات تھی؟”
“ابھی یہ بڑی میز نہیں ہٹا سکا تھا کہ قدموں کی چاپ سنائی دینے لگی میں سمجھا شاید ان میں سے کوئی آ رہا ہے…”
“نہیں وہ لوگ تو اب پائیں باغ سے بھی نکل گئے ہیں…”
“اس کا مطلب یہ ہوا کہ انہیں فرزانہ نہیں ملی…”
“ہاں! خدا کا شکر ہے… اچھا تم سناؤ محمود دوسری طرف بخیریت اتر گیا ہے یا نہیں؟”
“جی ہاں اتر گیا…”
“تو ہمیں اس کمرے میں نہیں ٹھہرنا چاہیے…”
“ہاں آپ ٹھیک کہتی ہیں لیکن باورچی خانے سے چلے جانے سے پہلے یہ میز یہاں سے ہٹا دینی چاہیے…”
انہوں نے میز ہٹائی اور باہر نکل آئے…
………………………………………………
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...