طور سے بڑھ کے اپنا حال ہوا
صرف اک بار من میں جھانکے تھے
”میں محبت کیاہارا،دین اور دنیابھی ہارگیا“
پیرسائیں نے میری بات سن کر مجھے غور سے دیکھا:
”محبت میں ہارجیت کوئی معنی نہیں رکھتی“پیرسائیں کی آواز میں تھرتھراہٹ تھی ”لیکن پہلے اپنا قصہ سناؤ
”وہ مجھے چاہتی ہے۔میں بھی اسے چاہتاہوں مگر وہ اِدھر اُدھر بھٹکتی پھر رہی ہے اور جان بوجھ کر بھٹکتی پھر رہی ہے“‘
”مجھے وہ خاصی ذہین لگتی ہے۔جان بوجھ کر بھٹکنے والے لوگ غیر معمولی ہوتے ہیں“پیرسائیں بھی شاید اس کے چاہنے والے نکلے۔
”محبت کی شدت کے باوجود اس نے آج تک حجاب قائم رکھاہے“میں نے اذیت کے ساتھ کہا۔
”المحبة حجاب بین المحب والمحبوب۔محبت خود محبوب اور محب کے درمیان پردے کانام ہے“پیرسائیں نے آنکھیں موند کر عالم استغراق سے کہا۔
”اگر محبت خود پردہ ہے تو پھر یہ سب کچھ کیوں ہوتاہے؟“میں نے پیرسائیں سے سوال کیا۔
”پردہ ہمارے اپنے اندر ہوتاہے۔اگر یکتائی کے سفر راست طورپر کئے جائیں تو سارے پردے چاک ہوجاتے ہیں۔“
”پیرسائیں!مجھے وہ سفر بتائیں۔میں پھر سے اپنا ٹوٹا ہوا سلسلہ جوڑناچاہتاہوں“
میں نے ادب کے ساتھ درخواست کی۔
پیرسائیں نے گہری سانس لی او ربولے:
”محبت کے چار سفر ہیں۔کامیابی کے لئے یہ سفر ضروری ہیں
محب سے محبوب کی طرف۔محبوب سے محب کی طرف
محب سے محب کی طرف۔ محبوب سے محبوب کی طرف“
”پیرسائیں!کیاان اسفار کے بعد گوہر مقصود مل جاتاہے؟“
میں نے خوشی کے ساتھ سوال کیا۔
۔۔۔۔پیرسائیں نے کوئی جواب نہیںدیاتومیں نے پھر ادب کے ساتھ اپناسوال دہرایا۔پیرسائیں نے پھر بھی جواب نہیں دیا۔ میں نے نظر اٹھاکر پیرسائیں کی طرف دیکھا۔ ان کا گلارندھاہواتھا۔ آنکھوں میں آنسو تھے اور شدتِ غم سے آواز نہیںنکل رہی تھی۔پیرسائیں بھی محبت ہارے ہوئے تھے۔
”اللہ اکبر“پیرسائیں کے ڈیرے پر بیٹھے ہوئے ایک فقیر نے نعرہ لگایا۔ میں نے چونک کر اسے دیکھا۔ پیرسائیں نے بھی اسے حیرت سے اس طرح دیکھا جیسے پہلی بار دیکھ رہے ہوں۔ اب وہ اپنی غم کی حالت پر بھی قابو پاچکے تھے۔
”پیرسائیں!آپ تو شاید صرف محبت ہارے ہوئے ہیں مگر میں تو دین و دُنیا بھی ہارچکاہوں“
”دین کو سمجھنے کے لئے دنیاکوسمجھنا ضروری ہے۔ تمام عوالمِ الٰہی کو سمجھ کر ہی کسی نتیجے پر پہنچاجاسکتاہے۔“
”مگر مجھے تو کسی نتیجے کا انتظارنہیں۔ میں تو اپنی بازی ہارچکاہوں“میں نے مایوسی سے کہا۔
”محبت کے اسفارکی طرح عوالم الٰہی کو بھی چارحصّوں میں بیان کیاجاسکتاہے“
پیرسائیں نے میری بات کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنابیان جاری رکھا
”یوں تو عوالمِ الٰہی لامتناہی ہیں مگر اپنی سہولت کے لئے ہم نے انہیں چارحصّوں میں تقسیم کر رکھاہے“ ۔
”پیرسائیں۔میں اپنی دنیاہارنے کی بات کررہاہوں،آپ کون و مکان کی باتیں فرمارہے ہیں“میں نے پھر پیرسائیں کو اپنے مسئلے کی طرف لانے کی کوشش کی۔ مگر بے سود!
”پہلاعالم، عالمِ زمان ہے۔ یہ ایسا عالم ہے جس کی اِبتدااور اِنتہادونوں ہیں۔
دوسراعالم، عالمِ دہر ہے۔ اس عالم کی ابتدامعلوم مگر انتہانامعلوم ہے۔
تیسرا عالم، عالمِ سرمد ہے۔اس کی ابتدابالکل نظرنہیں آتی مگر انتہاسمجھ میں آتی ہے۔
چوتھا عالم، عالمِ ازل ہے۔ اس کی نہ ابتداکاپتہ ہے نہ اِنتہاکی خبرہے“
پیرسائیں چاروں عوالم بیان کرکے تھوڑا سا رُکے اور پھر بولے:
”اب بتاؤتم کونسی دُنیاہارے ہو؟“
مجھے پیرسائیں کی پہلی بات کی سمجھ آگئی۔ ”دین کو سمجھنے کے لئے دنیاکوسمجھنا ضروری ہے۔“ واقعی ان دنیاؤں میں تو سب کچھ ہی آگیاہے اور میں اپنا آپ ہارچکاہوں۔
”حضرت!کیایہ وہی چار عوالم ہیں جنہیں لاہوت ،جبروت، ملکوت اور ناسوت بھی کہاجاتاہے؟“
۔”ہاں۔یہ وہی دنیائیں ہیں۔محبت کے چاروں اسفارہوں یا عوالمِ الٰہی کے اسفارہوں۔ طے ہو نے پر آئیں تو ایک ہی جست میں طے ہوجاتے ہیں۔بلکہ سفر شروع کرنے سے پہلے طے ہو جاتے ہیں۔اور طے نہ ہوں توآدمی ساری زندگی چکراتاپھرے۔ بھول بھلیاں میں ہی رہے گا۔“
میں نے پیرسائیں کے چہرے کوغورسے دیکھا۔ وہاں گہرے کرب کے آثار نمایاں تھے۔ لاحاصلی کا دکھ اپنے آپ ظاہر ہورہاتھا۔ مجھے پیرسائیں بھی بھول بھلّیاں میں چکراتے نظر آئے۔
”اللہ اکبر“
مجذوب فقیر نے پھر نعرہ لگایااور مجھے محسوس ہواکہ پیرسائیں اس بار گھبراگئے ہیں۔
”پیرسائیں!اس بھول بھلیاں سے نکلنے کی کیاصورت ہے؟“
مجھے بھی مجذوب فقیرسے کچھ خوف محسوس ہونے لگا۔
”توحیدِ خداوندی پہ کامل ایمان“ پیرسائیں نے مجذوب فقیر کودیکھ کر تھوک نگلتے ہوئے کہا۔
”توپھر مجھے توحیدکابھیدسمجھادیں“
۔۔۔۔”توحیدکابھید!“پیرسائیں کی آواز لرزی”تم نے سنانہیں۔جوتوحید کے بارے میں سوال کرتاہے وہ جاہل ہے۔ او رجو کوئی جواب دے کر اسے سمجھانے کی کوشش کرتاہے وہ مشرک ہے کیونکہ ’بے مثال‘کے بارے میں بتانے کے لئے اسے کسی مثال کاسہارا لیناپڑے گا“پیرسائیں کی لرزتی آواز اب جوش سے بھرنے لگی تھی۔ ”اور جو توحید کی معرفت کا دعویٰ کرے وہ ملحد ہے کیونکہ خدالامحدود ہے اس لئے اس کاعرفان کبھی مکمل ہو ہی نہیں سکتااور۔جوتوحید کو نہ سمجھے وہ کافرہے“پیرسائیں کے بیان سے میں جھومنے لگا۔
مجذوب فقیر نے بھی الا اللہ۔الا اللہ کی صدائیں بلند کیں۔
”سائیں پھر توساری بات ایک الف پر ہی تمام ہوتی ہے“مجھے بلھے شاہ یادآگئے۔
”تم نے الف سے آگے کاسبق نہیں پڑھا۔الف بھی زیادہ ہے“
اس دفعہ پیرسائیں کی بجائے مجذوب فقیربولااور مجھے یوں لگاجیسے بھونچال سا آگیاہے۔ پیرسائیں بھی اسے پھٹی پھٹی نظروں سے دیکھنے لگے۔
”علم ایک نقطہ ہے جسے جاہلوں نے بڑھادیاہے“مجذوب فقیر اپنی لے میں بولا”الف تو بہت زیادہ ہے۔ بات ایک نقطے میں تمام ہوچکی ہے۔“
پیرسائیں،مجذوب فقیرکی بات سن کرتڑپے او ربے ہوش ہوگئے۔
دورکہیں سے بلھے شاہ کی کافی گانے کی آواز آرہی تھی۔ اک نقطے وچ گل مُکدی اے
پیرسائیں اور مجذوب دونوں ایک نقطے میں ڈھل گئے تھے۔
اس نقطے سے عجیب سکون بخش روشنی پھوٹ رہی تھی۔
او ریہ روشنی میرے دل سے پھوٹ رہی تھی!
٭٭٭