برادرم نذر خلیق نے مجھے ایک الجھن میں ڈال دیا ہے۔انہوں نے میری دوسری تحریروں کے بعض مندرجات سے عمومی طور پر اور یادوں کی قسط ’’رہے نام اللہ کا!‘‘سے خصوصی طورپر اخذ کرکے استفسار کیا ہے کہ میں جب روحانیت کی بات کرتا ہوں تو اس سے میری کیا مراد ہوتی ہے؟اور ان کا اصرار ہے کہ میںاس کا جواب کسی مضمون میںیا پھریادوں کی کسی قسط میں ہی لکھ دوں ۔یہ بیک وقت بہت ہی آسان اور بہت ہی مشکل سوال ہے۔سو اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق مختصر ترین عرض کرتا ہوں کہ انسانی روح جب اپنے اصل مالک و خالق کی جستجوکا سفر کرتی ہے تو یہ سفر روحانیت کہلاتا ہے۔خالقِ کائنات روحِ اعظم ہے۔ہم سب اسی کی طرف سے آئے ہیں اور اسی کی طرف ہم سب نے لوٹ کر جانا ہے۔ کسی کی وفات پر انا للہ و انا الیہ راجعون کہتے ہوئے ہم دراصل اسی حقیقت کا اقرار کر رہے ہوتے ہیں۔
اُسی کے پاس تو جانا ہے لَوٹ کر آخر
سو خوب گھومئیے ،پھرئیے ،رجوع سے پہلے
پیغمبران الٰہی کی روحانیت ایک الگ مقام و مرتبہ ہے،اولیا و صوفیا کی روحانیت کے بھی اپنے اپنے مدارج ہیں۔ان سے ہٹ کر کوئی عام انسان اگر سچی لگن کے ساتھ خدا کی جستجو کرتا ہے،تو اس کی یہ جستجو ہی اس کی روحانیت ہے،اس میں وہ جتنی ترقی کرتا جائے گا،اتنا ہی روحانی طور پر آگے بڑھتا جائے گا۔
(میری کتاب ’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘کے باب’’روح اور جسم‘‘ سے اقتباس)