معروف ادیبہ، شاعرہ، مترجم، تبصرہ نگار، ماہر جاپانی زبان۔ وضاحت نسیم ۔کراچی
حرف حرف کہانی کے خالق محترم امین جالندھری ایک ایسے قلم کار ہیں کہ جو دو صدیوں کے درمیان پائے جانے والے تضادات کو لکھنے کے لیے ہمہ وقت اپنی خدمات انجام دیتے ہیں۔ عام انسان بہت کچھ جاننے، سمجھنے اور جھیلنے کے با وجود بھی اپنے محسوسات کو بیان کر نے سے آزاد ہونے کے لیے اور آسودہ خاطر ہونے کے لیے اب انسان کچھ زیادہ ہی وسائل کی کمی کا شکار ہے۔ مشکل کا حل اس کے پاس نہیں۔ ہاں ایسے میں اگر کوئی راستہ ہے تو وہ روحانی ترقی کو بنیاد بنا کر مل سکتا ہے۔ یعنی کہ ہماری روح بیماری کا شکار ہے۔ امین صاحب روح کو آسودہ کرنے کی بات کرتے ہیں جو انسان کو صبر، شکر، قناعت،اور اعتدال کا راستہ دکھاتی ہے۔ ان کے کئی افسانوں میں کہانی ایسے اختتام کو پہنچتی ہے کہ جس میں روح کی بالیدگی بر تر ثابت کی جاتی ہے۔ امین صاحب مختصر ترین مکالمے کے ساتھ افسانچوں میں کہانی کو بیان کرتے ہیں اورکسی کہانی میںجھول پیدا ہونے نہیں دیتے۔ قاری بہت جلد انکے بیان کیے ہوئے ماحول سے اپنے ذہن کی مطابقت پیدا کر لیتاہے اور یوں کرداروں کو اپنے آس پاس سمجھتا اور دیکھتا ہے۔
ہندوستانی ماحول کی چھاپ امین صاحب کے اکثر افسانوں میں نظر آتی ہے۔ انکے زیادہ تر افسانے ایسے ہیں جو دو افراد کے مابین وقوع پذیر ہونے والے واقعات اور ان کے اطراف کے معاشی اور سماجی مسائل بیان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا طرزِبیان بہت سادہ ہے ۔ اردو زبان کے محاوروں کا استعمال، کہیں پرانے ہندوستانی ماحول کی عکاسی جہاں مسلمان اور ہندو آرام کے ساتھ اپنی بات کر لیا کرتے تھے، اس دوران اردو اور ہندی زبان کی آمیزش سے تخلیق ہوتے ہوئے مکالمے ، یہ سب کچھ قاری کو بڑا نرالا انداز لگتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ افسانہ لکھنے کی تکنیک بھی ان کی اپنی ہی تخلیق ہے۔ امین صاحب اپنے ہر افسانے میں انسانیت کا پر چار کرتے ہیں۔ کامیاب ایک ایسا افسانہ ہے جو برسہا برس سے آج تک ہماری سیاسی تہذیب (یا جسے بد تہذیبی کہنا زیادہ مناسب ہے) کی نمائندگی کرتا ہے۔
پاکستان کی سیاست ہر دور میں ایک رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔ بلند پروازی ایسا افسانچہ ہے جب شرفا اپنی تہذیب اور ارفع خیالات کی پاسداری کرتے تھے۔ اس افسانچے میں ہندوستان کا یادگار ماحول خاص طور پر قابل ذکرہے کہ اب تو وہ ماحول خواب و خیال ہو چکا ہے مگر پھر بھی نہ جانے کیسے امین جالندھری صاحب کے ضبط تحریر میں آگیا، یہ ایک حیرت انگیز بات ہے۔ ہمارے پاکستانی معاشرے اور سماجی نظام میں ناسور کی طرح پھیلتے ہوئے مسائل اور مشکلات نے بیماری کی شکل اختیار کر کے جو بگاڑ پیدا کیا ہے وہ سب امین جالندھری کے تحریر کردہ افسانوں میں ملے گا۔ انھوں نے کھل کر ان مسائل کو پیش بھی کیا ہے اور ان کا حل بھی تجویز کیا ہے۔ ہمارا سماجی نظام تیزی سے روبہ زوال ہے۔ روایات سے انحراف کی وجوہ بھی سامنے ہیں۔ مہنگائی، بھوک، بے روزگای اور بیماریوں نے دہشت گردی کی زبان ایجاد کی ہے اور یہ زبان خوف کی فضا بنائے جا رہی ہے۔ انسان انسانوں سے گریز کرنے لگے ہیں اور اب ہم اپنے ذہن میں آنے والے خیالات کا جائزہ لینے سے بھی قاصر ہو رہے ہیں۔ ایسے میں حرف و کتاب سے رشتہ قائم رکھنا پہلے سے بھی زیادہ ضروری ہو گیا۔ امین جالندھری صاحب کے افسانوں میں افسانہ کم اور حقیقت نگاری زیادہ ہے اس لیے ایسی کتابیں قاری کے ذہن کو جلا بخشتی ہیں۔ نئی نسل کو سوشل میڈیا کی خرافات سے بچانے کے لیے ان کی تربیت میں اچھی کتابیں ہی معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔ میں امین جالندھری صاحب کو ان کی کتاب حرف حرف کہانی کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتی ہوں۔
٭٭٭٭٭٭٭
ریت کے بُت (چار ناولٹ)
دردانہ نوشین خان کی چھٹی کتاب چھپ کر آگئی ہے۔ بشریٰ رحمان لکھتی ہیں:
“دردانہ نوشین خان صحرا کی بیٹی ہیں اس لیے ان کی تحریر منفرد اور متوجہ کرتی ہے”
ابدال بیلا لکھتے ہیں: اس کی ہر کہانی ریگزار کی ہوا جیسی ہے جو مسکرائے تو ریشم سرسراتی ہے۔ خفا ہو تو بگولہ بن کے در ہم برہم کر دیتی ہے۔
قیمت350/-روپے
ملنے کا پتہ: علی میاں پبلی کیشنز 20عزیز مارکیٹ اردو بازار لاہور،0321-8807104
ڈاکٹر اسلم انصاری کا ایک اور شعری شاہکار
ارمغانِ پاک
دو سو سالہ جدو جہد آزادی کی منظوم داستان مع نادر تصاویر
ناشر: مثال پبلشرز(0300-6668274)
تقسیم کار: بکس اینڈ ریڈرز ، محمد پلازہ سبزہ زار میٹرو اسٹیشن بوسن روڈ ملتان