اک جھماکا سا ہوا روح کے اندر ایسے
نوری برسوں کی سی رفتار دکھائی دی ہے
اک نئی لمبی مسافت کا زمیں زاد کو حکم
اور اس بار مسافت بھی خلائی دی ہے
جو تجربہ ہونا تھا ہو چکا تھا لیکن اس کے اثرات ابھی تک موجود تھے۔یہ اثرات میرے اندر بھی موجود تھے اور باہر بھی موجود تھے۔بچوں کے سوالات کے جواب دینے کے ساتھ بھائی بہنوں سے اور بعض خاص احباب سے بھی گفتگو ہونے لگی۔
30 جولائی کو امریکہ سے میری بہن زبیدہ نے میری خیریت دریافت کرنے کے لیے فون کیا۔چھوٹا بھائی نوید عید منانے کے لئے اپنے بچوں کے ساتھ زبیدہ کے ہاں پہنچا ہوا تھا۔
زبیدہ سے اور راحت بھابی سے تو ہلکی پھلکی سی گفتگو ہوئی لیکن نوید کے ساتھ سلسلۂ کلام طویل ہو گیا۔میں نے اپنے روحانی تجربے کی روداد اسے سنائی تو اسے مزید سننے کا اشتیاق ہوا۔پھر ہماری گفتگوخاندان کی بعض پرانی مگر اہم باتوں کی طرف چلی گئی۔نوید نے کرید کرید کر سوال پوچھے۔ بعض بے حد پرانی باتوں کو چھیڑا۔میری طرف سے کسی توقف کے بغیر اسی وقت وضاحت کر دی جاتی۔میں نے محسوس کیا کہ نوید کو دنیاداری کے باوجود روحانی معاملات سے گہرا شغف تھا۔نوید نے جو سوالات کئے۔میرے جوابوں سے کچھ مطمئن بھی ہوا۔اس کے ساتھ کچھ ایسی باتیں بھی شیئر کیں جو اس کے پاس امانت ہیں۔
میرے تجربے سے جڑی گفتگو کا سلسلہ تین گھنٹے اور چند منٹ تک جاری رہا۔پھر امریکہ والے فون کی بیٹری ڈاؤن ہو گئی ۔نوید نے یہ اطلاع دی تو میں نے ہنس کر کہا آپ کے فون کی بیٹری ڈاؤن ہو گئی لیکن میری بیٹری ابھی تک فل چارج ہے۔
کچھ دیر کے بعد نوید نے دوبارہ رابطہ کرنا چاہا تورابطہ نہیں ہو سکا۔پھر اس نے اپنی بھتیجی رضوانہ کو فون کیا۔اس سے میرے بارے میں استفسار کیا۔رضوانہ نے کچھ آنکھوں دیکھا بتا تے ہوئے کہا ایسا لگتا تھا ابو کی ساتویں حس بیدارہو گئی ہے۔اس پر نوید نے ہنستے ہوئے کہا
ساتویں حِسّ؟۔۔۔۔مجھے تو ان کی دسویں حس تک بیدار اور روشن دکھائی دے رہی تھی۔وہ فون پر یہاں تک کی سرگوشیاں بھی سن رہے تھے اور پرانی باتیں جیسے انہیں ازبر تھیں۔
ہمبرگ کے کنارے Norderstadt میں ایک دوست ہیںکولمبس خان صاحب۔31 جولائی کو ان کی طرف سے صحت یابی کی دعا کا میسیج ملا۔آخر میں انھوں نے میرا یہ شعر لکھا ہوا تھا۔
سب گزرے ہوئے پیارے مجھے دِکھنے لگے ہیں
یا سامنے آئینے کی دیوار کھڑی ہے
یہ شعر پڑھتے ہی یاد آیا کہ میری یہ تئیس چوبیس سال پرانی غزل پوری کی پوری اسی موڈ کی تھی اور کمال یہ ہے کہ گزشتہ چار دنوں میں جو تجربہ ہوا تھا،بالکل اسی تجربے کے بیان پر مشتمل تھی۔1997 میں چھپنے والے میرے چوتھے شعری مجموعہ’’دعائے دل‘‘ میں شامل وہ غزل یہاں درج کر دیتا ہوں۔ان اشعار کو میرے حالیہ تجربے کے واقعات کے ساتھ خود ہی ملا کر دیکھئے۔
یہ آنکھ کے آنسو ہیں کہ ساون کی جھڑی ہے
قابو میں نہیں دل کہ حضوری کی گھڑی ہے
ہم نے ترے غم میں کوئی مالا نہیں پہنی
سینہ ہی دَمکتے ہوئے زخموں کی لڑی ہے
خاطر میں مگر پھر بھی کہاں لائے کبھی ہم
کب اہلِ ملامت پہ نہ اُفتاد پڑی ہے
موت آئی ہوئی ہے مجھے لینے کے لئے اور
یہ زندگی پاس اپنے ہی رکھنے پہ اَڑی ہے
ہے زندگی و موت میں اک معرکہ برپا
جیتے کوئی، ہم پر یہی اک رات کڑی ہے
سب گزرے ہوئے پیارے مجھے دِکھنے لگے ہیں
یا سامنے آئینے کی دیوار کھڑی ہے
دیکھو ہمیں، ہم ہنستے ہوئے جانے لگے ہیں
کچھ جان پہ گزری ہے نہ نزع کی تڑی ہے
کیا اور محبت کا یقیں اُن کو دِلائیں
دَم آنکھوں میں اَٹکا ہے نظر اُن پہ گڑی ہے
تشریف تو لے آئے وہ حیدرؔ دمِ رخصت
سو اپنے لئے اتنی عنایت ہی بڑی ہے
٭٭٭
31 جولائی کو پہلے کراچی میں آپی کے ساتھ بات ہوئی۔میرے سارے حال کو آپی نے بڑی دلچسپی کے ساتھ سنا۔ہماری گفتگو ایک گھنٹے تک جاری رہی۔آپی خود کراچی میں شدید بیمار رہی تھیں اور ابھی ابھی ہسپتال سے چھٹی ملنے کے بعد گھر پہنچی تھیں۔اسی دن جرمنی میں موجود آپی کے بیٹے اور اپنے بھانجے کامران کے ساتھ بھی بات ہوئی۔کچھ ان کا حال سنا اور کچھ اپنا حال سنایا۔
یکم اگست سے پانچ اگست تک پھر طبیعت بگڑنے لگی۔چونکہ جون سے اب تک میں گھر پر ہی محدود ہو کر رہ گیا تھا۔چلنا پھرنا گھر کے اندر تک ہی تھا،اس لئے قبض کی شکایت تو قابلِ فہم تھی لیکن ساتھ ہی یورین انفیکشن۔۔یہ بہت تکلیف دہ صورت تھی۔5 اگست کو شام کے وقت ایک بار پھر ایمبولینس بلانا پڑی۔اس کامیں’’بیماریوں کا حال‘‘ میں ذکر کر چکا ہوں۔مجھے ابھی آگاہ نہیں کیا گیا تھا لیکن سٹیشن B-25 کے کمرہ نمبر 58 میں یہ میری آخری رات تھی۔مجھے چھت پر ڈراؤنی فلموں، ڈراموں کے مختلف کرداروں جیسی شکلیں دکھائی دینے لگیں۔ان کے چہرے اور ہاتھ دکھائی دے رہے تھے لیکن ان کی آوازیں نہیں آرہی تھیں ۔ وہ ساری شکلیں اوٹ پٹانگ سے ایکشن کر رہی تھیں۔مجھے ان کی حرکتیں مضحکہ خیز لگ رہی تھیں۔ کچھ دیر کے بعد کمرے کے دائیں جانب بالکونی میں چار پانچ ڈراؤنے کردار پورے قدوقامت کے ساتھ آگئے۔اب وہ وہاں سے اوٹ پٹانگ حرکتیں کر رہے تھے۔مقصد مجھے ڈرانا تھالیکن میں نے ان کا بھی کوئی نوٹس نہ لیا تو ان میں سے ایک نے جمپ لگائی اور میرے سرہانے تک پہنچ گیا۔تب میں نے اسے مخاطب کر کے کہا کہ اگر تم جان لینے آئے ہو تو لے جاؤ،میں تیار ہوں۔لیکن اگر صرف اچھل کود کرکے مجھے ڈرانے آئے ہو تو اپنا اور میرا وقت ضائع مت کرو۔اس حالت میں مضحکہ خیز لگ رہے ہو۔
اتنا کہنے کی دیر تھی کہ بالکنی والے بھی اور چھت والے بھی سارے کردار غائب ہو گئے۔
صبح ڈاکٹر اپنے وزٹ پر آئی تو بیماری اور علاج کے حوالے سے بات کرنے کے بعد اس نے عجیب سا سوال پوچھ لیا۔کیا آج کل آپ کوخواب میںاپنے پرانے رشتہ دار دکھائی دئیے ہیں؟
میں نے کہا اپنے رشتہ دار تو دکھائی نہیں دئیے لیکن آج رات اس طرح ڈراؤنے کردار دکھائی دئیے ہیں۔ڈاکٹر مسکرائی اور ساتھ ہی اس نے بتایا کہ آج ہی مجھے اسی سٹیشن کے ایک اورکمرے میں شفٹ کیا جائے گا۔دوپہر کے بعد میں کمرہ نمبر 58 سے کمرہ نمبر 52 میں بھیج دیا گیا۔دن ہسپتال کے معمولات کے مطابق گزر گیا۔رات کو اطمینان کے ساتھ نیندآگئی۔
مزے کی نیند سویا ہوا تھا کہ اچانک لاؤڈ اسپیکر سے کوئی آواز سنائی دی۔میرا نام لے کر مجھے کہا گیا کہ اپنے خوابوں کی دنیا سے باہر نکلو اور اپنی دائیں جانب دیکھو۔
میں نے دائیں جانب دیکھا تو وہاںپرائمری کلاسز کے بہت سارے بچے رنگ برنگے ملبوسات میں دکھائی دئیے۔ان کے ساتھ بچوں کے پسندیدہ مختلف اور مقبول کارٹونزکے کردار زور زور سے ڈرم بجا رہے تھے،گیت گا رہے تھے۔نئی موسیقی کے باوجود وہ بچوں کے گیت تھے،اس لئے سمجھ میں بھی آ رہے تھے اور اچھے بھی لگ رہے تھے۔اس منظر کا سب سے خوبصورت حصہ یہ تھا کہ بچے گیت گاتے ہوئے جھوم رہے تھے،لہرا رہے تھے اور یہ سب کچھ بڑے والہانہ انداز میں ہو رہا تھا۔
یہ منظر دیکھتے ہی مجھے فوراََ صبح ڈاکٹر کا پوچھا ہوا سوال یاد آیا اورساتھ ہی ذہن اس طرف گیا کہ میرے داماد عادل نے گوگل سے کچھ تلاش کیا ہے اور مجھے ایسے خواب دکھانے والی کوئی دوا اسی ڈاکٹر کے ساتھ ڈسکس کی ہے اور اسی کے نتیجہ میں مجھے کوئی دوا دے کر ایسا خواب دکھایا گیا ہے۔میں اسی حالت میں عادل کی ذہانت اور جدید میڈیکل سائنس کی پیش قدمی پر خوش ہو رہا ہوں اور اپنی بیٹی درِ ثمین سے کہتا ہوں کہ یہ عادل تو بڑا کام کا بندہ نکلا۔اسے سنبھال کر رکھنا اور ضائع مت ہونے دینا۔ اس کے ساتھ ہی پھر وہی آواز آئی۔اب اپنی بائیں جانب دیکھو۔
میں نے بائیں جانب دیکھا تو وہاں بھی ویسا ہی منظر تھا۔سامنے بھی ویسا منظر تھا۔پھرمیرے سامنے نیم دائرے کی صورت میں ایک وسیع میدان تھا اور ساراایریا جھومتے،لہراتے اور گاتے ہوئے بچوں سے بھرا ہوا تھا۔ میں زندگی سے بھرپور یہ سب دیکھ ہی رہا تھا کہ یک دم منظر بدل گیا۔
میں ایک کرسی پر بیٹھا ہوا تھا اور ایک خوفناک صورتِ حال سامنے تھی۔میں نے پہچانا کہ یہ No Mans Land ہے۔یہاںمیرے سارے بچے اور ان کے سارے بچے میرے سامنے پڑے ہوئے تھے،وہ درد سے کراہ رہے تھے اور ان میں سے بعض کی آنکھوں سے آنسو بھی بہہ رہے تھے۔
لاؤڈ اسپیکر سے سنائی دینے والی آواز پھر سنائی دی۔تمہاری مرنے کی خواہش نے تمہاری محبت میں ان سب کو بھی اس حال میں پہنچا دیا ہے۔یہ ابھی بھی دنیا میں واپس بھیجے جا سکتے ہیں۔اب تمہارے پاس آخری موقعہ ہے،ابھی اور اسی وقت کھڑے ہو جاؤ اور سب دنیا میں واپس چلے جاؤ ورنہ اب تم سب کو آگے بھیج دیا جائے گا۔ میں حیران تھا کہ میری تو اُس دنیا سے واپسی ہو چکی ہے پھر یہ کیا ماجرا ہے؟لیکن کچھ کہے بغیر میں فوراََ اُٹھ کر کھڑا ہوگیا۔پھر ایسے لگا جیسے ہم سب اِسی دنیا میں ہیں اور سارے بچے اپنی اپنی زندگی کے معمولات میں مصروف ہیں۔
بعد میں جب عادل اودرِثمین کو یہ حال سنایا تو عادل نے بتایا کہ میں نے ایسا تو کچھ نہیں کیا،نہ ہی ڈاکٹر سے کوئی بات ہوئی ہے لیکن چندروز پہلے میں نے درِ ثمین سے کہا تھا کہ انکل سے اب کہنا چاہئے کہ بے شک اپنے لئے نہ سہی لیکن انہیں اب ہمت کرکے بیماریوں سے چھٹکارا پا کر اپنے بچوں کے لئے اُٹھ کھڑے ہونا چاہئے۔عادل کا درثمین سے ایسا کہنا اور بعد میں اس سے ملتا جلتا منظرخواب میں آنا میرے لئے دلچسپی کا موجب ہوا۔
تب سے اب تک تھراپیاں بھی ہو رہی ہیں،بہت ساری دوائیں بھی باقاعدگی سے لے رہا ہوں لیکن پھر نہ وہ چار دنوں والے تجربے جیسا کچھ ہوا ہے اور نہ ہی کسی اور طرح کا کوئی تجربہ ہوا ہے۔
سب کچھ نارمل اور معمول کے مطابق چل رہا ہے۔الحمدلِلہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔