“نینا واپس اسی جگہ آئی جہاں ان سے وہ پہلی بار ملی تھی اور وہاں کی سب سے قریب مسجد کے باہر جا کر کھڑی ہوگئی۔۔۔اور ان کے نکلنے کا انتظار کرنے لگی نجانے کیوں اسے لگ رہا تھا کہ وہ اس کو یہی ملے گے۔۔۔ ”
“اللہ حافظ اسحاق صاحب۔۔۔۔اللہ نے چاہا تو ان شاءاللہ پھر ملے گے۔۔۔۔۔آپ سے مل کر اچھا لگا۔۔۔۔”
“ایک آدمی ان سے ہاتھ ملاتا ہوا بولا۔۔۔۔”
“ان شاءاللہ ضرور۔۔۔اللہ حافظ۔۔۔”
“وہ مسکراتے ہوئے مسجد کی سیڑھیاں اترنے لگے۔۔۔۔”
“انکل۔۔۔۔”
” نینا کی نظر ان پر پڑی تو اس نے خوش ہوتے ہوئے انہیں آواز دی۔۔۔ ”
“وہ الجھ ادھر ادھر دیکھنے لگے۔۔۔۔”
“انکل ادھر۔۔۔۔”
“وہ قریب گئی۔۔۔۔”
“بیٹا آپ۔۔۔۔؟
“وہ حیران ہوئے۔۔۔”
“کیا ہم کہیں بیٹھ کر بات کرسکتے ہیں۔۔۔اگر۔۔۔اگر آپ فری ہو تو۔۔۔۔؟
“نینا نے پوچھا۔۔۔۔”
“کیوں نہیں۔۔۔چلو۔۔۔”
“وہ مسکرائے۔۔۔۔”
“نینا ان کو لے کر ایک کیفے میں آگئی۔۔۔۔”
“بولو بیٹا کیا بات کرنی ہے۔۔۔؟؟
“وہ نرم لہجے میں پوچھنے لگے۔۔۔”
“میں جو بھی آپ کو بتانے لگی ہوں شاید آپ سب جان کر مجھے پاگل کہے لیکن مجھے ایسا لگتا ہے آپ میری مدد کرسکتے ہیں۔۔۔”
“نینا لب کاٹتے ہوئے بولی۔۔۔”
“جی بیٹا آپ کہو کیا کہنا چاہتی ہو۔۔میں ضرور مدد کروں گا اگر کرسکا تو۔۔۔”
“وہ مسکرائے۔۔۔”
“میرا نام نینا ہے اور میں ہندوستان سے ہوں ابھی یہاں پڑھنے آئی ہوں۔۔۔میرے پاس سب ہے سب کچھ ماما ہے بابا ہے اچھا گھر ہے پیسہ ہے سب کچھ ہے میری خواہش تھی میں ترکی آکر پڑھو انہوں نے وہ بھی پوری کی مجھے یہاں بھیج دیا میری تمام خواہشات پوری ہوتی آئی ہے لیکن مجھے پھر بھی کچھ خالی پن محسوس ہوتا ہے ایک عجیب سا خالی پن مجھے ایسا لگتا ہے ابھی بھی کمی ہے میں نے سب کیا جس سے مجھے لگا کہ یہ کمی دور ہوجائے گی لیکن نہیں ہوئی کچھ ضرور ہے کوئی تو ہے کوئی ہے جو مجھے اپنی طرف کھینچتا ہے کوئی عجیب سی کشش ہے۔۔۔۔مجھے کچھ محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی مجھے بلا رہا ہے میرے اندر کوئی ہے مجھے آواز آتی ہے۔۔۔۔”
مجھے ایک پل بھی سکون نہیں آتا ہے میں برے برے خواب دیکھتی ہوں۔۔۔بہت عجیب۔۔۔دن بہ دن یہ بے چینی بڑھتی ہی جارہی ہے مجھے نہیں سمجھ آتا ہے میں کہاں جاؤں۔۔۔۔ مجھے ایک فقیر نے کہا تھا اللہ کو ڈھونڈو وہ تمہاری یہ کمی پوری کردے گا جب سے میں اللہ کی تلاش میں ہوں لیکن وہ مجھے ملتا نہیں ہے میرے پاس اس کا کوئی پتا بھی نہیں ہے کیا آپ کو پتا ہے۔۔۔۔؟؟
“نینا پریشانی سے ایک سانس میں بولتی ہی چلی گئی۔۔۔۔۔۔”
“میں نے ہماری پہلی ملاقات میں اللہ کا پتا دیا تھا۔۔۔”
“وہ دھیمے لہجے میں بولے۔۔۔”
“میں پھر بھی نہیں پہنچ پائی اس تک میں اور الجھ گئی ہوں آپ کی باتوں سے۔۔۔۔”
“نینا نم آنکھوں سے بولی۔۔۔۔”
“پھر مجھ سے کیا چاہتی ہو۔۔۔؟
“انہوں نے پوچھا۔۔۔”
“مجھے لگتا ہے آپ کے پاس میرے مسئلے کا حل ہے۔۔۔”
“وہ نم آنکھوں سے بولی۔۔۔”
“تم پینٹنگ کرتی ہو۔۔۔؟
“اسحاق صاحب نے اس کے ہاتھوں اور چہرے پر رنگ کے نشان دیکھ کر پوچھا۔۔۔۔”
جی لیکن آپ کو کیسے پتہ۔۔۔؟
“نینا حیران ہوئی۔۔۔”
“اسحاق صاحب نے اس کے چہرے اور ہاتھوں کی طرف اشارہ کیا۔۔۔”
“اوہ ہاں۔۔۔میں آپ کے پاس آنے سے پہلے پینٹ ہی کررہی تھی تب لگ گیا ہوگا۔۔۔”
“وہ رنگ صاف کرتی ہوئی بولی۔۔۔”
“کیا پینٹ کرتی ہو۔۔۔؟
“انہوں نے پوچھا۔۔۔”
“بہت کچھ۔۔۔”
“نینا نے بولی۔۔۔۔”
“جاندار چیزوں کی تصویریں بھی بناتی ہو۔۔۔؟
“انہوں نے پوچھا۔۔۔۔”
“نینا ان کے سوالوں پر حیرت سے انہیں دیکھنے لگی۔۔۔ ”
“جی۔۔۔۔”
“اس نے جواب دیا۔۔۔۔”
“تم مجھ سے پوچھ رہی تھی نا کہ تم بےسکون کیوں ہو۔۔۔”
“وہ مسکرائے۔۔۔”
“نینا نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔”
“یہ ہے تمہاری بےسکونی کی وجہ۔۔۔۔”
“اسحاق صاحب نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔”
“پینٹنگ کا میری بےسکون ہونے سے کیا تعلق۔۔۔؟
“وہ الجھی۔۔۔”
“بہت گہرا تعلق ہے۔۔۔”
“اسحاق صاحب نے میز پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔۔۔”
“کیسے۔۔۔؟
“وہ تعجب پوچھنے لگی۔۔۔۔”
“کسی جاندار کی تصویر بنانا حرام ہے۔۔۔۔ اللہ کو یہ کام نہیں پسند۔۔۔۔اگر واقع سکون چاہتی ہو تو چھوڑ دو اسے۔۔”
“اسحاق صاحب نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔۔”
“لیکن یہ میرا شوق ہے۔۔۔میری زندگی میں بہت اہم ہے یہ۔۔میں کیسے چھوڑ سکتی ہوں اسے۔۔۔”
“نینا فوری بولی۔۔۔”
“اللہ کی راہ میں اللہ کے لیے اپنی سب سے قیمتی شے کو قربان کرنے کا بہت ثواب ہے۔۔۔۔”
“اسحاق صاحب نے ٹہر ٹہر کر بتایا۔۔۔”
“لیکن میں تو اللہ کو نہیں جانتی ہوں۔۔۔”
“نینا بولی۔۔۔”
“لیکن وہ تو تمہیں جانتا ہے نا۔۔۔”
“اسحاق صاحب نرم لہجے میں بولے۔۔۔۔”
“نینا کی الجھن بڑھتی جارہی تھی۔۔۔”
“تم نے کہا نا کہ کوئی کمی ہے کوئی خالی پن محسوس کرتی ہو تم۔۔۔کوئی کشش ہے جو تمہیں اپنی جانب کھینچتی ہے۔۔۔اور ایسا لگتا ہے کوئی آواز دے رہا ہے بلا رہا ہے۔۔۔یہ تمہاری روح ہے جو بے سکون ہے۔۔۔اور روح کا سکون اللہ کے پاس ہے۔۔۔تمہاری روح پیاسی ہے اللہ کے ذکر کی۔۔۔اور جس چیز سے تم اس کی پیاس بجھانا چاہ رہی ہو وہ اس کی غذا نہیں ہے۔۔۔۔”
“اسحاق صاحب نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔۔۔۔”
“نینا اپنے ہاتھوں میں لگے پینٹ کو دیکھنے لگی۔۔۔۔۔”
“اگر میں پینٹنگ چھوڑ دوں تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔؟
“وہ معصومیت سے پوچھنے لگی۔۔۔”
“اس سے روح کا وہ غذا ملنی تو بند ہوجائے گی جو تم اسے دے رہی ہو لیکن جو اس کی اصل غذا ہے وہ پھر بھی اسے نہیں مل پائے گی۔۔۔اور وہ یونہی مرجھاتی رہے گی۔۔۔اور تم یونہی بےچین رہو گی۔۔۔۔”
“اسحاق صاحب نے کہا۔۔۔”
“تو پھر اس سب کا کیا حل ہے۔۔۔۔میں بہت پریشان ہوں۔۔۔میں راتوں کو سو نہیں پاتی ہوں۔۔۔برے برے خواب دیکھ کر ڈر جاتی ہوں۔۔۔کہیں سکون نہیں ملتا ہے۔۔۔کہیں بھی نہیں۔۔۔۔”
“نینا بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔۔۔”
“اللہ کی طرف آجاؤ۔۔۔۔”
“اسحاق صاحب کے لبوں پر مدھم مسکراہٹ سی مسکراہٹ ابھری۔۔۔۔”
“نینا تم نے کبھی سوچا ہے یہ سب تمہارے ساتھ کیوں ہورہا ہے دنیا میں بہت سے لوگ ہیں ان کے ساتھ تو نہیں ہوتا۔۔۔اپنی آدھی سے زیادہ زندگی اس دنیا میں گزاری ہے اور بہت سے لوگوں سے ملا ہوں۔۔۔۔ کچھ تھے۔۔۔جو خدا کی راہ سے غافل بھی تھے۔۔۔۔بھٹکے ہوئے تھے۔۔۔لیکن پھر بھی بےفکر تھے۔۔۔۔۔”
اور کچھ تھے جو بلکل تم جیسے تھے۔۔۔”
“بےسکون، بےچین، ڈرے ہوئے۔۔۔”
“ان سب کو دیکھ کر میں نے ایک بات سیکھی تھی۔۔۔کہ اللہ ہر ایک کو ہدایت نہیں دیتا ہے۔۔۔وہ کسی خاص کو چنتا ہے اپنی عبادت کے لیے۔۔۔جب میں تم سے پہلی بار ملا تھا نا میں سمجھ گیا تھا۔۔۔کہ تمہیں بھی اللہ نے چن لیا ہے۔۔۔۔میری ایک بات یاد رکھنا کہ اللہ جنہیں اپنی عبادت کے لیے چنتا ہے وہ لوگ نایاب ہوتے ہیں۔۔۔”
“اسحاق صاحب نرم لہجے میں ٹہر ٹہر کر اسے سمجھانے لگے۔۔۔۔”
“انکل مجھے کچھ وقت چاہیے اس سب کو سمجھنے میں۔۔۔۔”
“نینا الجھی ہوئی نظر آرہی تھی۔۔۔”
“بیٹا جتنا چاہے وقت لے لو۔۔۔۔”
“اسحاق صاحب نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔۔۔”
“شکریہ میں اب چلتی ہوں۔۔۔۔میرے لیے آپ نے اپنا قیمتی وقت نکالا اس کے لیے بہت بہت شکریہ۔۔۔۔”
“نینا نے مسکرا کر کہا۔۔۔”
“کوئی بات نہیں۔۔۔اللہ کی بندوں کی خدمت کرنا ہمارا فرض ہے۔۔۔۔”
“وہ مسکرائے۔۔۔”
“نینا سر اثبات میں ہلاتی ہوئی کیفے سے نکل گئی۔۔۔۔”
“کمرے میں آتے ہی اس نے اپنا بیگ ایک سائیڈ پر رکھا اور صوفے پر گرنے والے انداز میں بیٹھ گئی۔۔۔”
“نینا تم نے کبھی سوچا ہے یہ سب تمہارے ساتھ کیوں ہورہا ہے دنیا میں بہت سے لوگ ہیں ان کے ساتھ تو نہیں ہوتا۔۔۔اپنی آدھی سے زیادہ زندگی اس دنیا میں گزاری ہے اور بہت سے لوگوں سے ملا ہوں۔۔۔۔ کچھ تھے۔۔۔جو خدا کی راہ سے غافل بھی تھے۔۔۔۔بھٹکے ہوئے تھے۔۔۔لیکن پھر بھی بےفکر تھے۔۔۔۔۔”
اور کچھ تھے جو بلکل تم جیسے تھے۔۔۔”
“بےسکون، بےچین، ڈرے ہوئے۔۔۔”
“نینا کے دماغ میں اسحاق صاحب کی باتیں گردش کررہی تھی۔۔۔”
“نینا گہری سوچ میں پڑ گئی۔۔۔۔”
“سوچتے سوچتے وہ وہی صوفے پر سوگئی۔۔۔۔”
“ہائے۔۔۔نینا۔۔۔ہائے پوجا۔۔۔”
“ایلا نے ان کے قریب آتے ہوئے کہا۔۔۔”
“ہائے۔۔۔”
“دونوں ساتھ میں بولیں۔۔۔”
“میٹ مائے کزن ذوالقرنین۔۔۔۔”
“ایلا نے برابر میں کھڑے لڑکے کی طرف اشارہ کیا۔۔۔۔”
“مرحبا۔۔۔”
“ذوالقرنین نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔”
(لمبا قد، کسرتی جسم، براؤن بال، سبز رنگ آنکھیں جو ہر ایک کی توجہ اپنی طرف کھینچتی تھی۔۔۔۔)
“اینڈ نین یہ ہیں میری نیو فرینڈز نینا اینڈ پوجا۔۔۔۔”
“ایلا نے ان دونوں کا تعارف کروایا۔۔۔”
“ہائے۔۔۔
“دونوں مسکرا دی۔۔۔”
“کہیں چلیں اگر تم لوگوں کا کوئی اور پلان نہیں ہے تو۔۔۔؟
“ایلا نے پوچھا۔۔۔”
“نہیں میرا تو کوئی پلان نہیں ہے۔۔۔باقی نینا کا پتہ نہیں۔۔۔”
“پوجا نے شانے اچکائے۔۔۔”
“آئی ایم سوری گائز میں چلتی مگر مجھے لائبریری سے کچھ کتابیں لینی ہیں۔۔۔اور اسائمنٹ بھی مکمل کرنا ہے اس لیے میں نہیں چل سکتی۔۔۔۔”
“نینا نے معذرت کی۔۔۔”
“اوکے کوئی بات نہیں۔۔۔۔”
“ایلا نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔”
“اب میں چلتی ہوں تم لوگ اینجوئے کرو۔۔۔۔بائے۔۔۔”
“نینا کہتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔۔۔۔”
“کافی دن اس بارے میں سوچنے کے بعد اس نے ایک فیصلہ کیا اور اسحاق صاحب سے ملنے چلی آئی۔۔۔”
“آج بھی وہ وہی مسجد کے باہر کھڑی ان کا انتظار کررہی تھی۔۔۔اسحاق صاحب باہر آئے تو اسے اپنا منتظر پا کر مسکرا دیے۔۔۔”
“میں جانتا تھا تم ضرور آؤگی۔۔۔۔”
“انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔۔۔”
“وہ کیسے۔۔۔آپ کو اللہ نے بتایا۔۔۔؟
“وہ ان کے ساتھ چلنے لگی۔۔۔”
“ہاں ایسا ہی سمجھو میرا دل کہتا تھا تم ضرور آؤگی۔۔اور دل میں تو اللہ رہتا ہے نا۔۔۔”
“وہ نرم مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے گویا ہوئے۔۔۔”
“اوہ تو میں نے ایک فیصلہ کیا ہے۔۔۔”
“نینا نے سڑک پر نظریں مرکوز کرتے ہوئے کہا۔۔۔”
“کیسا فیصلہ۔۔۔؟
“انہوں نے رک کر بغور اس کا چہرہ دیکھا۔۔۔”
“آپ نے کہا تھا نا کہ اللہ مجھے جانتا ہے۔۔۔”
“نینا بولی۔۔۔”
“بے شک وہ جانتا ہے۔۔۔”
“انہوں نے سر اثبات میں ہلاتے ہوئے کہا۔۔۔”
“تو پھر میں بھی اللہ کو جاننا چاہتی ہوں۔۔۔کیا آپ اس میں میری مدد کریں گے۔۔۔؟
“نینا نے امید سے پوچھا۔۔۔”
“ضرور مجھے خوشی ہوگی۔۔۔”
“انہوں نے کھلے دل سے کہا۔۔۔”
“آپ بہت اچھے ہیں۔۔۔”
“نینا خوشی سے بولی۔۔۔”
“چائے پیو گی۔۔۔؟
“انہوں نے رک کر پوچھا۔۔۔”
“نینا ان کے اچانک کے سوال پر چونک کر انہیں دیکھنے لگی۔۔۔۔”
“میرا گھر آگیا۔۔۔”
“وہ ہنسے۔۔۔”
“اوہ آپ یہاں رہتے ہیں۔۔۔”
“نینا سامنے لکڑی کے خوبصورت گھر کو دیکھتی ہوئی بولی۔۔۔”
“انہوں نے سر اثبات میں ہلایا۔۔”
“میرا گھر بھی یہی اگلی گلی میں ہے۔۔۔”
“نینا بولی۔۔۔”
“اچھا یہ تو بہت اچھی بات ہے۔۔۔۔چلو۔۔۔۔”
“وہ کہتے ہوئے گھر کے اندر جانے لگے۔۔۔”
“نینا نے کچھ پل سوچا اور پھر ان کے پیچھے چلی گئی۔۔۔”
“اسحاق صاحب اسے لاؤنج میں بیٹھا کر خود چائے بنانے چلے گئے تھے۔۔۔”
“ہم سب کا رب کون ہے۔۔۔؟؟
“نینا ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔۔۔جب اس کے کانوں سے کسی آواز ٹکرائی۔۔۔۔”
“اللہ۔۔۔۔
“پھر بہت سے بچوں کی یکجا آواز سنائی دی۔۔۔۔”
“چائے۔۔۔”
“نینا ان سب کو سننے میں محو تھی کہ اسحاق صاحب کی آواز پر ایک دم سے چونک گئی۔۔۔”
“یہ کون ہے۔۔۔؟
“نینا نے کہ تھامتے ہوئے کہا۔۔۔ اس کا اشارہ اندر سے آتی آواز کہ طرف تھا۔۔۔”
“میرا بھانجا ہے۔۔۔۔روز یونیورسٹی سے واپس آکر محلے کے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرتا ہے۔۔۔۔”
“وہ مسکرا کر بتانے لگے۔۔۔۔”
“اچھا۔۔۔۔
“نینا نے چائے کا ایک سیپ لیتے ہوئے کہا۔۔۔”
ہاں تو تم اللہ کو جاننا چاہتی تھی نا۔۔۔”
“انہوں نے کہا۔۔۔”
“نینا اثبات میں سر ہلاتی ہوئی ان کی طرف متوجہ ہوگئی۔۔۔۔”
“میں بتاتا ہوں وہ کون ہے۔۔۔اور بتانے لگے۔۔۔”
“وہ مسکرائے۔۔۔۔”
“نینا غور سے انہیں سننے لگی۔۔۔”
أَعُوذُ باللهِ مِنَ الشَّيْطانِ الرَّجِیم
میں پناہ مانگتا ہوں اللہ تعالٰی کی
شیطان مردود کے شر سے بچنے کیلئے
ﺑِﺴْﻢِ اللهِ ٱﻟﺮَّﺣْﻤﻦِ ٱﻟﺮَّﺣِﻴﻢِ
اللہ کے نام سے شروع جو نہائت مہربان اور ہمیشہ رحم کرنے والا ہے
سورۃ اخلاص مکیہ
________آیت نمبر ١_______
قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ
آپ کہہ دیجئے کہ اللہ ہر لحاظ سے ایک ہے۔۔۔(1)
_______تفسیر______
1:۔ یہ قرآن کریم کے لفظ ” احد “ کا ترجمہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ صرف ” ایک “ کا لفظ اس کے پورے معنی ظاہر نہیں کرتا۔ ” ہر لحاظ سے ایک “ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ذات اس طرح ایک ہے کہ اس کے نہ اجزاء ہیں، نہ حصے ہیں، اور نہ اس کی صفات کسی اور میں پائی جاتی ہیں۔ وہ اپنی ذات میں بھی ایک ہے، اور اپنی صفات میں بھی۔۔۔۔”
“قل” میں اشارہ ہے رسول اللہ صلی الله عليه وسلم کی نبوت اور رسالت کیطرف کہ انکو اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کی ہدایت کا حکم ہو رہا ہے۔۔۔۔”
اللہ اس ذات کا نام ہے جو واجب الوجود ہے اور تمام کمالات کا جامع اور تمام نقائص سے پاک ہے۔۔۔۔”
“بعض کافروں نے حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا تھا کہ آپ جس خدا کی عبادت کرتے ہیں، وہ کیسا ہے ؟ اس کا حسب نسب بیان کر کے اس کا تعارف تو کرائیے۔ اس کے جواب میں یہ سورت نازل ہوئی (روح المعانی بحوالہ بیہقی و طبرانی وغیرہ)
یہ آیت جواب ہے ان لوگوں کے سوال کا جو اللہ تعالیٰ کے متعلق پوچھتے تھے کہ کس چیز سے بنا ہے. اس ایک مختصر جملے میں ذات و صفات پر کئے گئے سارے اشکال کا جواب آگیا اور لفظ قل میں نبوت و رسالت بھی بیان ہوگئ.
________آیت نمبر ٢________
اللَّهُ الصَّمَدُ
اللہ بے نیاز ہے (٢)
_______تفسیر______
2: یہ قرآن کریم کے لفظ ” اَلصَّمَدُ “ کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ اس لفظ کا مفہوم بھی اردو کے کسی ایک لفظ سے ادا نہیں ہوسکتا۔ عربی میں ” صمد “ اس کو کہتے ہیں جس سے سب لوگ اپنی مشکلات میں مدد لینے کے لیے رجوع کرتے ہوں، اور سب اس کے محتاج ہوں، اور وہ خود کسی کا محتاج نہ ہو۔ عام طور سے اختصار کے پیش نظر اس لفظ کا ترجمہ ” بےنیاز “ کیا جاتا ہے۔ لیکن وہ اس کے صرف ایک پہلو کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ کسی کا محتاج نہیں ہے۔ لیکن یہ پہلو اس میں نہیں آتا کہ سب اس کے محتاج ہیں۔ اس لیے یہاں ایک لفظ سے ترجمہ کرنے کے بجائے اس کا پورا مفہوم بیان کیا گیا ہے۔۔۔۔”
________آیت نمبر ٣________
لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ
نہ وہ کسی کا باپ ہے اور نہ کسی کا بیٹا (٣)
_______تفسیر______
3: یہ ان لوگوں کی تردید ہے جو فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں کہتے تھے، یا حضرت عیسیٰ یا حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیتے تھے۔۔۔”
________آیت نمبر 4________
وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ
اور اسکا کوئ ہمسر نہیں (4)
_______تفسیر______
4: لفظ (کفو) کے لفظی معنی مثل اور مماثل کے ہیں، معنی اس آیت کے یہ ہیں کے نہ کوئی اسکا مثل ہے نہ کوئی اس سے مشاکلت اور مشابہت رکھتا ہے۔۔۔۔یعنی کوئی نہیں ہے جو کسی معاملے میں اس کی برابری یا ہمسری کرسکے۔۔۔۔”
_______خلاصہ فسیر______
اس سورة کی ان چار مختصر آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی توحید کو انتہائی جامع انداز میں بیان فرمایا گیا ہے، پہلی آیت میں ان کی تردید ہے جو ایک سے زیادہ خداؤں کے قائل ہیں، دوسری آیت میں ان کی تردید ہے جو اللہ تعالیٰ کو ماننے کے باوجود کسی اور کو اپنا مشکل کشا، کار ساز یا حاجت روا قرار دیتے ہیں، تیسری آیت میں ان کی تردید ہے جو اللہ تعالیٰ کے لئے اولاد مانتے ہیں، اور چوتھی آیت میں ان لوگوں کا ردّ کیا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی کسی بھی صفت میں کسی اور کی برابری کے قائل ہیں ۔۔۔
اس سورۃ میں مکمل توحید اور ہر طرح کے شرک کی نفی ہے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک سمجھنے والے منکرینِ توحید کی دنیا میں مختلف اقسام ہوئی ہیں. سورۃ اخلاص نے ہر طرح کے مشرکانہ خیالات کی نفی کرکے مکمل توحید کا سبق دیا ہے کیونکہ منکرین توحید میں ایک گروہ تو خود اللہ کے وجود ہی کا منکر ہے بعض وجود کے تو قائل ہیں مگر وجوب وجود کے منکر ہیں بعض دونوں کے قائل ہیں مگر کمال صفات کے منکر ہیں. بعض یہ سب مانتے ہیں مگر پھر بھی عبادت میں غیراللہ کو شریک ٹھراتے ہیں، ان سب خیالات باطلہ کا رد “” اللہ اَحد “” میں ہوگیا ، بعض لوگ عبادت میں بھی کس کو شریک نہیں کرتے مگر حاجت روا اور کارساز اللہ کے سوا دوسروں کو بھی سمجھتے ہیں ان کے خیال کا ابطال لفظ (صمد) میں ہوگیا، بعض لوگ اللہ کے لیئے اولاد کے قائل ہیں ان کا رد (لم یلد) میں ہوگیا۔۔۔
مثلاً بعض مجوسیوں کا کہنا یہ تھا کہ روشنی کا خالق کوئی اور ہے اور اندھیرا کا خالق کوئی اور ہے، اسی طرح اس مختصر سورت نے شرک کی تمام صورتوں کو باطل قرار دیکر خالص توحید ثابت کی ہے، اس لئے اس سورت کو سورة اخلاص کہا جاتا ہے، اور ایک صحیح حدیث میں اس کو قرآن کریم کا ایک تہائی حصہ قرار دیا گیا ہے، جس کی وجہ بظاہر یہ ہے کہ قرآن کریم نے بنیادی طور پر تین عقیدوں پر زور دیا ہے : توحید، رسالت اور آخرت اور اس صورت نے ان میں توحید کے عقیدے کی پوری وضاحت فرمائی ہے، اس سورة کی تلاوت کے بھی احادیث میں بہت فضائل آئے ہیں۔۔۔۔۔”