رفیق شاہین(علی گڑھ)
حا ل ہی میں سید محمد رضی اُلدین کی ۲۵۵صفحات پر محیط ایک ہمہ گیر دلچسپیوں اور اپنی افادیت و انفرادیت سے بھر پور کتابـ’’روح کا عالمی تصور‘‘ نے منصّہء شہود پرجلوہ افروز ہوئی ہے۔جس نے جہاں اردو دنیا کے علماء ،و حکماء کو چونکاکر رکھ دیا وہیں مجھ جیسے بے مایہ اور ہیچ مداں کو بھی شدت سے متاشر کیا۔ دوران مطالعہ سطربہ سطرظہور پذیر ہونے والے نئے نئے انکشافات نے جہاں مجھے ورطہء حیرت میں ڈال دیا وہیں مجھے بے پایاں مسرت سے مالا مال بھی کیا۔ دل میں خواہش نے سر اُبھارا کہ اس کتاب پر مضمون لکھوں مگر علم سائنس سے نابلد مجھ جیسے ادیب و شاعر کے لئے یہ کام اتنا سہل نہ تھا کہ سائنسی اصطلاحات کے درون و بطون میں اتر کر حدّا روح اور فطرت و کائنات کی ہیت و ماہیت ان کے عمل اشتراک کے اسرار ورموز کی افہام و تفہیم کے بعد انہیں صحیح طور پر مضمون کی شکل میں پیش کر سکوں ۔ چنانچہ ترغیب و تحریک کے باوجود بھی قلم اٹھا نے کی جراء ت نہیں ہوئی۔
خدا کیا ہے؟ روح کیا ہے اور کائنات کیا ہے؟ یہ ایسے بنیادی سوالات ہیں جو ازل سے لے کر آج تک ہر متجس انسانی ذہن کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں۔ رضی الدین ہدیہء تبریک اور دادوستائش کے سچّے حقدار ہیں کہ انہوں نے انہیں مذکورہ سوالات اور ان کے حل کو اپنی لا زوال و بے مثال کتاب کا موضوع بنایا ہے۔ موصوف نے کتاب کو منطقیانہ اور فلسفیانہ اعتبار کی سطح پر رکھ کر یونانی مفکرین سقرط، ارسطو، طامس اکوائنا، پوٹونس اور سنت آگسٹائن کے روح سے متعلق منطقیانہ نظریات مختصر طور پر پیش کردیے ہیں۔ ان کے علاوہ موصوف نے نظریہ روم اور مغربی نئے نظریات کے مالک فلاسفہ ڈیکارٹ، اسپینوزا لیپن ٹنر،جون لاک ، برکلے ،ڈیوڈ ہیوم اور کانٹ کے بھی روح سے متعلق فلسفیانہ خیالات اختصار میں بیان کر دیئے ہیں۔ انہوں نے ہندوستانی تہذیب کے مظہر اپنشدوں ویدوں اور گیتا میں موجود روح کے بنیادی تصور کو بھی بڑی خوش اسلوبی سے اُجاگر کیاہے۔ ساتھ ہی انہوں نے نیا سو تر نیا و شیشکا اور سانکھیا کے فلسفہء روح کو بھی نمایاں کرنے کی سعی جمیلہ فرمائی ہے۔ نیزیہ بھی واضح کیا ہے کہ جین مذہب میں روح کا مقام کیاہے؟ بدھ کے پیرو روح کو کن درجات میں رکھتے ہیں؟ سائنس اور نظریہ روم، اسلام اور تصور روح ، اورروم کا ہمہ گیرتصوربھی کتاب میں ذیلی عنوانات کادرجہ رکھتے ہیں۔ان تمام عنوانات کا تعلق حصہ اول سے ہے جبکہ حصہ دوم میں اسلامی نقطہء نگاہ سے اور کسب کلام الٰہی کی آیات سے کائنات کے سائنسی حقائق اور خدا و روح کے وجود اور ان کی ہیت و ماہیئت کی تفہیم و تصریح اور تعبیر و تفسیر بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
آئیے اب مختصر طور پر جائزہ لیا جائے کہ ہمارے مفکرین و فلاسفہ، حکماء وعلماء ،مذہبی رہنما اور ہمارے مذہبی مقدس صحیفے روح کے تصور کو کس رنگ میں پیش کرتے ہیں۔یونانی مفکر افلاطون (PLATO)تسلیم کرتا ہے کہ روح جوماورائی اور تجریدی ہے اس کو فنا نہیں بلکہ بقائے دوام حاصل ہے۔ وہ روح اور روحِ کل پر موجودات کائنات میں یکسانیت کا شاہد ہے۔ اس کا فرمان یہ بھی ہے کہ روح غیر منقسم ہے اور ہمارے شعور و لاشعور، افکارو خیالات اور ہمارے سبھی حرکات وسکنات کی محرک و مالک خود ہماری روح ہے۔
یونان کا ایک اور فلسفی ارسطو بھی روح کو سدا بہار (Eternal) اور لافانی (Immortal) قرار دیتا ہے۔ بقول اُس کے روح مطلق (Absolute)ہے ۔ لامحدود اور بسیط ہے جو خالق کل(اﷲ) کی طرف سے آتی ہے اور جب مادہِ جسم بعدِ قضا مادّے میں مل جاتا ہے تو یہ جہاں سے آتی ہے وہیں واپس چلی جاتی ہے۔ وہ انسانی روح کو ہمہ گیر روح (UNIVERSAL SOUL) کا ہی ایک جز مانتا ہے۔ طامس اکوائنا کے نظریے کے مطابق روح اپنے کل سے جدا نہیں ہے اور جو صفات شعور کی ہیں وہی روح کی بھی ہیں۔ ہمہ گیر شعور اور روح دونوں ایک ہیں۔ اس کے نظریے کے مطابق مادہ بے شکل اور تغیر پذپر ہوتا ہے مگر جب روح کائنات (UNIVERSAL SOUL) مادّے پر عکسریزہوتی ہے تو یہی مادہ حسن ازل (خدا) کے پر تو سے انسانوں ،رنگارنگ چرندوں پرندوں اورصحنِ چمن کے خوش رنگ و خوشنما پھولوں میں ڈھل کر اپنی بہار دکھانے لگتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ تمام حسنِ کائنات کا اصل ماخذ حسن ازل یعنی اﷲکی ذات ہے اور دنیا کی ہر روح اپنے روحِ کل سے مربوط ہے۔
پلوٹونس(PLOTINUS) روح کو روح کائنات تو مانتا ہے مگر یہ بھی کہتا ہے کہ روح جب کسی نئے جسم میں دخول کرتی ہے تو حیات سابقہ کو فراموش نہیں کر پاتی نیز ابتدا میں عکسِ الٰہی کی تازگی سے روح پاک و صاف ہوتی ہے مگر دنیاوی بُرے اشرات قبول کرنے پر اپنی طہارت سے محروم ہو جاتی ہے۔ اس طرح غلیظ جسم کے زنداں میں روح آزادی کے لئے بری طرح تڑپتی رہتی ہے۔ اس کے عقیدے کے مطابق مرنے والے کی روح پھر کسی نئے جسم میں داخل ہوکر اپنے فطری تسلسل کو برقرار رکھتی ہے۔ یہ نظریہ ہندوستانی پُنرجنم سے میل کھاتاہے معلوم ہوتاہے۔ پلوٹونس طہارت نفسی کے لئے جسمانی ایذار سانی کی تبلیغ کرتاہے۔ عیسائی مذہب کی رہبانیت ،ہندؤں کا جوگ اور سنیاس لینا اسی کے نظر یے کی کڑی معلوم ہوتے ہیں۔ جین دھرم بھی حصول نجات کے لئے سخت گیر اور اذیت کوش زندگی بسر کرنے پر زور دیتا ہے۔
آگسٹائن(SAINT AUGUSTINE)کے نزدیک نر اور مادہ کے جنسی ملاپ سے جو جاندار ظہورپذیر ہوتاہے وہ شعور سے متصف ہوتاہے اور اس کی تمام حرکات و سکنات اس شعور کے تابع ہوتی ہیں اور یہ شعور روح کے تابع ہوتاہے۔ مگر روح کہاں سے اور کیسے آتی ہے وہ اس اہم نکتے کو نظر انداز کردیتا ہے لہذایہ نظریہ بے روح اور ناقص معلوم ہوتاہے۔
ڈیکارٹ(DESCARATE)روح کاماخذ دماغ کے ایک غدود کو بتا کر مایوس کرتاہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے روح کے بغیر غدود کہاں سے آگیا۔ اسپینوزا (BENDICT SPINOZA) کو کائنات کے سبھی و جودات(جمادات،نباتات اورحیوانات)کی تشکیل میں یکساں طور پرایک ہی خمیرکارفرمانظرآتاہے۔وہ جسم اور روح کو ایک ہی شئے سے تعبیر کرتا ہے۔ اس کے قول کے مطابق مادہ ہی خدا ہے ظاہر ہے کہ یہ تصور وجود الٰہی کی نفی کرتاہے۔
لائی بن تس(LEIBNITZ) آفاقی دماغ (UNIVERSAL MIND) یا ہمہ گیر روح کو وحدت کل سے تعبیر کرتاہے۔ بقول مذکور فلسفی یہ جو ہر منفرد جسم سے آزاد ہوکر روح کُل میں جاگزیں ہوجاتا ہے۔ ویدانت کا بھی یہی نظریہ ہے کہ ہر آتما شدھ اور پاک و صاف ہوکر پرماتما میں ’’’’ ہو جاتی ہے۔ جو ہن لاک خدا اور روح کے وجود کو کوئی ٹھوس شے نہیں مانتے ۔جو شے حواس و حسّیات سے بالاتر ہو، ماورائی غیرمرئی اور تجریدی ہو۔ا سے وہ گمانِ محض مانتے ہیں ۔ گمان ٹھوس علم کی بنیاد بننے سے قاصر ہے۔ وہ روح اور جسم کو دوالگ شئے اور ایک دوسرے کی ضدمان کرDualismکے تصورکو ابھاردیتے ہیں اوراس طرح روح کے بنیادی تصور کا مسئلہ بُری طرح اُلجھ کر رہ جاتاہے۔ وہ مادے کی مدد سے روح تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔برکلےؔ (BURKEYLEY)روح کے تصورکو مادے سے جوڑ تے ہیں۔ چونکہ مادہ اور روح ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اس لئے روح تک رسائی کے امکانات معدوم ہوجاتے ہیں۔ڈیوڈ ہومؔ(Devid Hume) کے نظریے کے مطابق مجموعہء مشاہدات کی روشنی میں ہمارا ذہن جو نتیجہ اخذ کرلے وہی روح ہے۔ پھر آگے چل کر وہ یہ بھی کہتا ہے کہ بعد مرگ روح حیات رہتی ہے اس کاثبوت آج تک کوئی بھی پیش نہ کر سکا ۔ دلائل کی کسوٹی پر روح فریبِ محض کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
رضی الدین نے نہ صرف مغرب کے فلسفیوں کے نظریات کا مطالعہ کیا ہے بلکہ روح کے تعلق سے انہوں نے ہندوستانی قدیم سنسکرتی کاگہرائی سے مطالعہ کرتے ہوئے ۶۰۰سال ق۔م کے فلسفہ ویدانت میں بھی وحدانیت روح اور جنت و جہنم کے تصور کو دریافت کیا ہے اور اُپنشدوں سے پُنر جنم کے ابتدائی تصور پر روشنی ڈالی ہے اور برہم واد کے فلسفہِ وحدت الوجود کا کثرت میں مشاہدہ جیسے قدیم طرز فکر کو بھی کتاب میں جگہ دی ہے۔ انہوں نے بُدھ ؔ کی تعلیمات میں نجات کے نظریے اور جین دھرم کے عمل تنسیخ پر اعتقاد ات اور ان کے پیش کردہ دلائل کو بھی احاطہ تحریر میں داخل کیا ہے۔
موصوف نے کلام پاک کی آیات سے بھی روح کے تصورکو اجاگر کیاہے لیکن کلام پاک میں چونکہ روح کی کوئی خاص وضاحت نہیں ملتی اور اسے حکمِ الٰہی سے تعبیر کیا گیاہے اس کے باوصف چونکہ اسلام تصور آخرت سے وابستہ ہے اس لئے روح کے وجود کی یقین دہانی خود بخود ہو جاتی ہے۔ اس کے علاہ خدا نے خود بھی روح کے بارے میں محتاط سا اشارہ بھی کیاہے۔ ترجمہ ملاحظہ ہو۔
’’ اُس کو یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا میں مٹی سے ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں۔ جب میں اس کو درست کروں اس میں اپنی روح پھونک دونگا۔ تم اُس کے سامنے سجدے میں گر جانا ۔ اس طرح سارے ملائک سجدے میں گر گئے۔ ‘‘ (سورۃ ص)
سید محمد رضی اُلدینؔنے اور بھی قرآنی سورتوں سے آیات کے ترجمے بطور حوالہ پیش کئے ہیں۔ علاہ ازیں انہوں نے عہد و سطٰی کے ، مسلم فلسفہ دانوں میں سے ابن سینا ،ابن رشد، الکندی انفاداجی اور ابن مسکوۃ جیسے مشاہیر کے رشحات قلم سے استفادہ کرتے ہوئے خدا اور روح کی حقیقت کے تصور کوروئیدگی و بالیدگی عطا کی ہے اور یہ بھی ثابت کیا ہے کہ انہوں نے خود کچھ نہیں کیا اور صرف افلاطون اور ارسطو کی فکر پر تکیہ کئے رہے اور باہمی تضادِرائے کا شکار ہو گئے ۔ البتہ روح کے تصور کو مستقرومستحکم کرنے میں صوفیائے کرام نے نہایت اہم کردار انجام دیاہے ۔ ان اولیاء و اصفیاء میں انہوں نے خصوصی ذکر مولاناجلال الدین رومیؔ کا کیا ہے اور ان کی مثنوی کے اشعار کے حوالے سے روح کی عظمت کو آشکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ مولانا رومیؔ روح کا رشتہ عالم ارواح سے استوار کرتے ہوئے اسے حیات کی گرفت سے آزاد غیر مرئی و ماورائی اور نادیدہ و ناشنیدہ حقیقت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ وہ اسے عقل و شعور کی گرفت سے بالا تراور فانی قرار دیتے ہیں۔
مولاناؔفرماتے ہیں اگر روح انسانی جسم کی نشو نما سے ہاتھ کھینچ لے تو انسانی جسم کی حقیقت مٹی کے ڈھیر سے زیادہ نہیں ہے۔ جسم ازجاں روز افزوں مے شہود
مولاناؔ کا کہنا یہ بھی ہے کہ اطہر جزو اپنے کُل یعنی عالمگیر روح سے ہم آہنگ ہوتی ہے تو اس پر اسرار الٰہی منکشف ہونے لگتے ہیں اوریہ روح انسانی کی معراج ہوتی ہے ۔
ایں تفانی اضد آید ضدرا
چوں بنا شدضد، نبود جُز بقا
تفرقہ درروح حیوانی بود
نفس واحد روح انسانی بود
یعنی نفس خاص ہی اصل میں روح انسانی ہے۔روح کے حوالے سے سید رضی اُلدین فرماتے ہیں۔
’’روح میں انسانی جسم کے لئے وہ تو انائی ہے جس کو آسمانی بر قیاتی لہریں زمین پر اُتار کر کسی بھی جسم کو حرکت میں لے آتی ہیں یہی لہریں تمام جسم اعصاب، خلیات ، اور سارے اعضاء ایک دوسرے سے مربوط کرکے محرک بنادیتی ہیں جب ہر چیز اس نظریہ مقاحرہ (Reductionism)کے اعتبار سے غیر مادی بن جاتی ہے اورروح کو ہرنظر یے نے غیر مادی قرار دیاہے۔ سائنس اس کو پھر کس طرح تسلیم نہیں کرتی ۔ کیونکہ یہ مشاہد ے سے باہر ہے لیکن توانائی کی برقی ترنگیں جو خلا(VOID)سے آتی ہیں لیکن ہمارے حواس اس کا مشاہدہ کرنے سے عاجزہیں۔پھریہی ترنگیں پھر سے خلا میں گم ہوجاتی ہیں۔روح جو جسم کی محرّک توانائی ہے یہ سماوی(Void)ہے جسے آسمانی طاقت واپس لے لیتی ہے۔ پھر روز مقررہ یہ گم شدہ توانائی پھر سے مادی جسم کے پیکر میں ڈھل کر خالق کُل کے سامنے پیش کردی جائے گی۔ یہ مذہبی خیال جو کچھ مذاہب کے پیروؤں کا عقیدہ ہے محض ایک تصورنہیں ہے بلکہ یہ سائنسی نظریہ مقاحرہ سے بھی کسی حد تک ثابت ہو جاتا ہے۔‘‘
سیّد محمد رضی الدین آگے چل کر یہ بھی فرماتے ہیں۔
’’ اگر مذہب اور سائنس ایک دوسرے کی حقیقت کو تسلیم کرکے باہم مل جائیں تو ایک کی کمی دوسرا پوری کر دیگا ۔ سائنس کو روح اور خدا دونوں کو تسلیم کرنا ہوگااور یہ مذہب کوفطرت اخذ قوانین کے تحت ماننا ضروری ہے جو باری تعالیٰ نے بنائے ہیں۔ اس طرح روح جو باطنی طاقت ہے محض مفروضہ نہیں بلکہ حقیقت ہے یہ غیر مادی ہے مگر اس کا عمل توانائی کی شکل میں ہر چیز میں موجود ہے۔ روحانی عمل یا رجحان ہمیں مثبت تحریک دیتا ہے اور ہماری قوت کارکردگی کو قائم رکھتا ہے۔‘‘
سید محمد رضی الدین نے خودبھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے اپنی اس کتاب میں سائنسدانوں اور فلسفیوں کے نظریات جوں کے توں پیش کردیے ہیں اور ان میں ترمیم و تنسیخ سے کام نہیں لیا ہے اتنا ہی نہیں انہوں نے کائنات کے طلسم خانہء حیرت میں مزید حیرتوں کا اضافہ کرنے والی جدید دور کی کرشماتی اور حیرت انگیز نئی نئی دریافتوں کے ذکر کو بھی نظر انداز کر دیا ہے جس سے مذہب اور سائنس کے مابین بعدالمشرقین کا نظریہ اپنی جگہ برقرار رہا ہے۔ جبکہ ان دو نظریوں کے درمیان دشمنی اور ان کے باہمی تصادم کو حیدر قریشی ایک دوسری ہی نگاہ سے دیکھتے ہیں اپنی ادارت میں جرمنی سے شائع ہونے والے ششماہی ’’جدید ادب‘‘ کے شمارہ نمبر آٹھ اور نو میں جدید سائنسی انکشافات کو مذہب دشمنی سے تعبیر کرنے کے بجائے انہوں نے ثابت کیا کہ ان کے معرض و جود میں آجانے سے انہیں کے ذریعے یہ بات پائے استناد کو پہنچی ہے کہ خدا ،روح اور آخرت کا تصور بے بنیاد نہیں ہے۔ حیدر قریشی جدید ادب شمارہ نمبر ۸کے اپنے مضمون کے صفحہ نمبر ۱۵۹پر یوں رقمطراز ہیں۔
’’سائنسی ترقی ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے کمپوٹر سے کلوننگ کے عہد تک آگئی ہے۔ ابھی آئرن ایج تھا۔ ’’لوہے کے پر اُگ آئے تھے۔ ہم اسی عہد کے سحر میں تھے کہ ڈیجیٹ ایج شروح ہوگیا۔ ابھی کمپیوٹر کے چپ کی جادو گری کی حیرتیں ختم نہیں ہوئی تھیں کہ کلونٹگ کا زمانہ بھی شروع ہوگیا۔ اور بھی پتہ نہیں کیا سے کیا ہوجائے گا۔ نئی سائنسی ترقیات سے ایک سطح پر مذہبی تصورات میں ٹوٹ پھوٹ ہورہی ہے تو ایک بڑی سطح پر مذہب کا اثبات بھی ہو رہا ہے۔‘‘
سائنٹفک نیوڈسکوریز کو لے کر حیدر قریشی کا اہم اختصاص یہی ہے کہ وہ سائنس کو جو مادے کی ہیت و ماہیت کی تحقیق کا علم ہے قابل قدر علم مانتے ہیں ایسا علم کہ جس کی تحصیل کے لئے بابل و بخارا اور مصر و چین بھی جاناپڑے تو تکلیف نہیں ہونا چاہیے۔ وہ سائنس کو مذہب کا دشمن قرار دینے کے بجائے اس کی دریا فتوں کومذہبی عقائد کی مزید پختگی کا موثر وسیلہ مانتے ہیں۔ بقول ان کے ۔ جب وسیع ترین کائنات کے کسی بھی سرے، کسی بھی خطے اور گوشے میں بیٹھا انسان ہمارے کمپیوٹر اسکرین پر جلوہ گر ہوکر ہم سے ہم کلام ہو سکتا ہے تو کیا ہم خدا کے کمپیوٹر اسکرین پر نہ رہتے ہونگے ۔ جو کام ہم کر سکتے ہیں تو وہ جو ہمارا خالق مالک ہے ہمارے اعمال اپنے کمپیوٹر میں محفوظ کرنے پر قادر کیوں نہ ہوگا۔ ظاہر ہے کہ کمپیوٹر جو سائنس ہی کی دین ہے جب ہمارے آخرت اور روز حساب کے عقیدے کو تقویت دیکر مزیدمستحکم کرتا ہے۔ تو یہ ہمارا و فادار دوست ہی تو ہوا نہ کہ دشمن ۔ یہ ہمارے مذہبی عقائد اور دینی فرائض کی تعمیل میں کوئی رخنہ بھی نہیں ڈالتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ علم چاہے سائنس ہو یا کوئی دیگر فن وہ کبھی خلاف مذہب نہیں ہو سکتا ہے۔حال ہی میں سائنس کا ایک اور ناقابل یقین حد تک حیرت انگیز اور کامیاب ترین تجربہ ’’ڈولی‘‘ نامی بھیڑ پر اسکاٹ لینڈ میں سامنے آیا ہے جس نے نہ صرف دنیا کو انگشت بدنداں کرکے رکھدیا بلکہ ہنگامہ بھی برپا کر دیا جس کے فروغ پر قانونی پابندیاں عائد کرنے میں امریکہ پیش پیش ہے ۔ یہ کلوننگ کا تجربہ ہے۔ اس پرحیدر قریشی کا ردّعمل ذیل کے اقتباس میں منکشف ہے۔
’’اس کے باوجود کہ سائنسی ایجادات کے اس تیز رفتار دور میں کوئی ایجاد کسی ایسی تباہی کا باعث بن سکتی ہے جو انسان کو پھر سے پتھرکے زمانے میں لے جائے پھر بھی میں مذہب کی طرح سائنس کی بھی خود مختاری کا حامی ہوں۔ کلوننگ کے تجربے کی کامیابی سے ایک چھوٹی سطح پر مذہبی افکار پر ضرب تو لگی ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ بڑی سطح پر مذہب کا اثبات ہواہے اگر کوئی سائنسداں کسی جاندار کے ایک سیل سے بالکل ویساہی جاندار بناسکتا ہے تو حیات بعدالموت کا مذہبی عقیدہ سائنسی طور پر ثابت ہوگیا کہ خدا کے لئے ہماری خاک یاراکھ میں سے کسی ایک سیل کو نکال کر اس سے ہمیں دوبارہ زندہ کر دینا کونسامشکل کام ہوگا۔قرآن شریف میں کئی مقامات پر معترضین کے الفاظ آئے ہیں کہ ’’جب ہم مر کر خاک ہوجائنگے تو پھر ہمیں کیسے دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔‘‘ اﷲکی قدرتوں کا تو الگ ہی انداز ہے لیکن کلوننگ کا تجربہ بجائے خود حیات بعدالموت کے اعتراض کا سائنسی جواب۔‘‘
حیدر قریشی دہریوں کو بھی فرمان خداوندی سے خد ا پر ست ثابت کر دیتے ہیں۔
’’لاتسبو الدھر‘‘ والی، حدیث قدسی میں اﷲخود فرماتا ہے کہ زمانے(دہر)کو برا مت کہو۔ اس روسے جبکہ دہر خدا سے بعید نہیں تو دہریے کا مطلب بھی خداپرست ہی تو ہوا۔
سید محمد رضی الدین نے برسہابرس کے مطالعے کے بعد اس کتاب کو ترتیب دینے سے پہلے اگر چہ اپنے دانشور احباب سے مشورے بھی طلب کئے اس کے باوجود بھی جدید سائنسی فتوحات اور معرکتہ الآرا تجربات کا ذکر کتاب میں آنے سے رہ گیا اگر انہوں نے حیدر قریشی سے بھی اس ضمن میں مشورہ طلب کیا ہوتاتو کتاب میں یہ کسر بھی پوری ہوگئی ہوتی۔ اس کے باوصف بھی کتاب کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے جو ہمیں سائنسدانوں ، فلسفیوں اور مذہبی پیشواؤں کے نظریات اور افکارو خیالات پر ازسرنوغور وفکر کی دعوت دیتی ہے۔
مجھے یقین ہے کہ سید محمدرضی الدین کو ان کی کتاب ’’روح کاعالمی تصور‘‘ کے سبب شرف قبولیت حاصل ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روح کیا ہے؟اس بارے میں دو تصورات پائے جاتے ہیں۔
ایک تصور یا عقیدہ کے مطابق حمل ٹھہر جانے کے کچھ عرصہ کے بعد آسمانِ ارواح سے رُوح بچہ میں داخل ہوتی ہے۔جبکہ دوسرے تصور یا عقیدہ کے مطابق رُوح ایک لطیف نُور ہے ، یہ نور نطفہ کے اندر ہی موجود ہوتا ہے اور نطفہ کی نشوونما کے ساتھ مستحکم ہوتاجاتا ہے۔’اسلامی اصول کی فلاسفی‘میں اس پر سیر حاصل بحث موجود ہے اور میرا یہی عقیدہ ہے کہ جسم اور روح لازم و ملزوم ہیں۔ علامہ اقبال بھی فلسفیانہ سطح پر اسی تصور کے قائل تھے۔تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ میں وہ روح اور مادہ کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے اور انسان کو ایک ایسی وحدت قرار دیتے ہیں جس کے اعمال و افعال کا مشاہدہ عالم خارجی کے حوالے سے کیا جائے تو اسے بدن کہیں گے اور جب ان کی حقیقی غرض و غایت اور نصب العین پر نظر رکھی جائے تو اسے روح کہیں گے۔
عقیدہ اور فلسفہ سے ہٹ کر سائنس میں کلوننگ کے تجربہ سے اس عقیدہ اور تصوّرکی مزید تصدیق ہوتی ہے۔روح ہمارے ہر سیل میں سرایت کئے ہوئے ہے۔اس کا مطلب ہے پانی کی طرح روح کے نور کو بھی توڑا نہیں جا سکتا۔جتنا اسے توڑا جائے گاہر قطرہ کی طرح روح کے نور کا ہر قطرہ بھی اپنی اصل کی پوری بنیاد کے ساتھ اپنی جگہ موجزن رہے گا۔اب کلوننگ سے جس بات کی تصدیق ہو رہی ہے،ہمارے صوفیائے کرام تو ایک عرصہ سے صوفیانہ سطح پر اسی بات کو قطرہ میں دجلہ اور دجلہ میں قطرہ دیکھنے کی صورت بیان کرچکے ہیں۔ یوں میرے نزدیک جسم اور روح دونوں لازم و ملزوم ہیں،موت کے بعد بھی یہ تعلق کسی نہ کسی سطح پر قائم رہتا ہے اور قیامت کے دن ہمیں ہمارے جسم دوبارہ دے دئیے جائیں گے۔اور انہیں جسموں کو ہی جزا ،سزا سے گزرنا ہوگا،ظاہر ہے یہ جسم اپنی اپنی روح سمیت ہوں گے۔کلوننگ کے تجربے کا گہرا جائزہ لیا جائے تو قیامت کے دن انہیں جسموں کے ساتھ دوبارہ زندہ کئے جانے کا عقیدہ ،عقلی لحاظ سے بھی مزید واضح اور روشن ہوتا چلا جاتا ہے۔
(حیدر قریشی کااقتباس از کھٹی میٹھی یادیں باب روح اور جسم
مطبوعہ جدید ادب شمارہ :۹جولائی تا دسمبر ۲۰۰۷ء)