حیدر قریشی(جرمنی)
برادرم نذر خلیق نے مجھے ایک الجھن میں ڈال دیا ہے۔انہوں نے میری دوسری تحریروں کے بعض مندرجات سے عمومی طور پر اور یادوں کی قسط ’’رہے نام اللہ کا!‘‘سے خصوصی طورپر اخذ کرکے استفسار کیا ہے کہ میں جب روحانیت کی بات کرتا ہوں تو اس سے میری کیا مراد ہوتی ہے؟اور ان کا اصرار ہے کہ میں اس کا جواب کسی مضمون میں یا پھریادوں کی کسی قسط میں ہی لکھ دوں ۔یہ بیک وقت بہت ہی آسان اور بہت ہی مشکل سوال ہے۔سو اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق مختصر ترین عرض کرتا ہوں کہ انسانی روح جب اپنے اصل مالک و خالق کی جستجوکا سفر کرتی ہے تو یہ سفر روحانیت کہلاتا ہے۔خالقِ کائنات روحِ اعظم ہے۔ہم سب اسی کی طرف سے آئے ہیں اور اسی کی طرف ہم سب نے لوٹ کر جانا ہے۔ کسی کی وفات پر انا للہ و انا الیہ راجعون کہتے ہوئے ہم دراصل اسی حقیقت کا اقرار کر رہے ہوتے ہیں۔
اُسی کے پاس تو جانا ہے لَوٹ کر آخر
سو خوب گھومئیے ،پھرئیے ،رجوع سے پہلے
پیغمبران الٰہی کی روحانیت ایک الگ مقام و مرتبہ ہے،اولیا و صوفیا کی روحانیت کے بھی اپنے اپنے مدارج ہیں۔ان سے ہٹ کر کوئی عام انسان اگر سچی لگن کے ساتھ خدا کی جستجو کرتا ہے،تو اس کی یہ جستجو ہی اس کی روحانیت ہے،اس میں وہ جتنی ترقی کرتا جائے گا،اتنا ہی روحانی طور پر آگے بڑھتا جائے گا۔روحانی مدارج طے کرنے کے لئے مختلف مذاہب کے ہاں مختلف طریقے ملتے ہیں۔میرا خیال ہے کہ طریق کار کوئی بھی اختیار کیا جائے،اصل چیز یہ ہے کہ انسان کی جستجو اور لگن سچی ہو۔اگر جستجو اور لگن واقعی سچی ہوتو خدا خودمتلاشی کے ظرف کے مطابق اس تک پہنچ جاتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ اس پر منکشف ہوجاتاہے۔جب کوئی ایسا دعویٰ کرتاہے کہ خدا تک پہنچنے کا رستہ صرف اسی کے پاس ہے تو مجھے ایسا لگتا ہے جیسے اس نے اپنی سوجھ بوجھ کے خدا کو اپنی جیب میں ڈال رکھا ہے یا کسی تجوری میں بند کر رکھا ہے اور یوں وہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ خدا تک پہنچنے کا ذریعہ صرف وہی ہے۔ خدا کا عرفان کبھی مکمل نہیں ہو سکتا۔وہ لا محدود ہے اور ہم لوگ اس کی پوری معرفت حاصل کر ہی نہیں سکتے۔جس خدا کا عرفان مکمل طور پر حاصل ہوجائے وہ خدا لامحدود نہیں رہتا۔ میری دانست میں تنہائی،یکسوئی و ارتکاز کے نتیجہ میں روح بہتر طور پر اپنی اصل منزل کی طرف سفر کر سکتی ہے،اسی لئے بیشتر بڑی روحانی شخصیات نے عمر کے ایک حصہ میں اپنے معاشرے سے الگ ہو کر تنہائی میں اس سفر کوطے کرنے کی کاوش کی۔اسے آپ چلہ کشی کہہ لیں،ریاضت کہہ لیں،تپسّیا کہہ لیں اور چاہے کوئی اور ملتا جلتا نام دے لیں۔یہ میرے ذاتی خیالات ہیں،ان کا مقصد کسی کی دلآزاری کرنا نہیں ہے۔ہو سکتا ہے میرے کچے پکے روحانی تجربوں کے نتیجہ میں ایسے خیالات ذہن میں آتے ہوں اور جو لوگ مجھ سے بدرجہا بہتر روحانی تجربات سے گزر چکے ہیں،وہ اس معاملہ میں زیادہ اچھے اور درست خیالات رکھتے ہوں۔
معاشرتی سطح پر رہتے ہوئے انسان کو نہ تو مناسب تنہائی میسرہوتی ہے اور نہ ہی ذہنی یکسوئی۔۔۔ایسے ماحول میں انفرادی ریاضت و مجاہدہ کی بجائے مذاہب کی عبادات کے طریق احسن طور پر خداکی طرف رہنمائی کرنے میں ممد ہو تے ہیں۔یوں روحانیت کے سفر میں مذہب کی بڑی اہمیت ہے۔تاہم خدا کی جستجوکے روحانی تجربات کا سلسلہ کسی ایک مذہب تک محدود نہیں ہے۔یہ ہر طالب اور متلاشی کی طلب اور تلاش پر منحصر ہوتا ہے۔ یہاں ایک وضاحت کر دوں۔میرے نزدیک کوئی کسی بھی مذہب سے تعلق رکھے،اپنے طریق عبادت کے مطابق خدائے واحد کی عبادت ضرور کرے۔البتہ اپنے ذاتی تجربے کے حوالے سے یہ بتانا چاہوں گا کہ میں جن دنوں میں اسلام سے کچھ دور ہوا تھاان دنوں میں بھی میری عادت رہی کہ روزے اسلامی طریق کے مطابق رکھتا تھا اور نمازیں بھی اسلامی طریق والی پڑھتا تھا۔اسے بچپن کی عادت کہہ لیں،ماں باپ کی تربیت کا گہرا اثر کہہ لیں یا کچھ اور کہہ لیں۔ایک عرصہ کے بعد کسی حدیث میں یا کسی بزرگ کے فرمان میں پڑھا کہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں،تباہی کے دہانے پر بھی پہنچ جائیں تو خدا انہیں بچا لیتا ہے۔ہو سکتا ہے میری نمازیں ہی مجھے بچا لائی ہوں۔(پتہ نہیں میں بچا بھی ہوں یا نہیں؟)۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب سلیم آغا کی شادی تھی۔بہت سارے ادیب ڈاکٹر وزیر آغا کے گاؤں وزیر کوٹ میں جمع تھے۔رات کو خانپور اور راولپنڈی ،اسلام آباد کے ادیبوں کی چارپائیاں ایک ساتھ حویلی کے صحن میں بچھائی گئی تھیں۔اگلے روز کافی دن چڑھے،جب سارے دوست جاگ گئے تو وزیر آغا ہنستے ہوئے کہہ رہے تھے:میں اپنے معمول کے مطابق فجر کے وقت جاگا اور باہر آیا تو عجیب منظر دیکھا۔
سارے دوست وزیر آغا صاحب سے کوئی حیران کن بات سننے کے منتظرہوئے تو انہوں نے کہا:
جب میں باہر آیا تو میں نے دیکھا کہ سارے مسلمان سوئے ہوئے تھے اور ایک غیر مسلم بڑے خشوع و خضوع سے فجر کی نماز پڑھ رہا تھا۔
میں بہت ہی کھلے ذہن اور دل کا شاعر اور ادیب ہوں۔نماز ،روزہ میرے مزاج کا حصہ ہیں ۔یقیناوالدین کی تربیت کے سبب ہی ایسا ہوا ہے،وگرنہ نمازی ہونے کا ایسا ذکر کرنا اپنے کسی تقویٰ کے اظہار کے لئے نہیں ہے۔کسی انکساری کے بغیر اور پوری ایمانداری سے لکھ رہا ہوں کہ میں قطعاََ کوئی متقی نہیں ہوں، بہت ہی گنہگار بندہ ہوں۔اپنے گناہوں کے سبب خدا سے کئی بار مار بھی کھائی ہے۔سو ان عباداتی معاملات کو بچپن کی عادت سمجھیں اور کچھ نہیں۔اپنی اس عادت کی وجہ سے اپنے گھر میں میری اپنے کسی بچے کے ساتھ تلخی ہوتی ہے توعام طور پر وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ بچہ نمازوں میں سست ہو رہا ہوتا ہے۔
روحانیت کی بات تو ہو گئی لیکن خود روح کیا ہے؟اس بارے میں دو تصورات پائے جاتے ہیں۔ایک تصور یا عقیدہ کے مطابق حمل ٹھہر جانے کے کچھ عرصہ کے بعد آسمانِ ارواح سے رُوح بچہ میں داخل ہوتی ہے۔جبکہ دوسرے تصور یا عقیدہ کے مطابق رُوح ایک لطیف نُور ہے ، یہ نور نطفہ کے اندر ہی موجود ہوتا ہے اور نطفہ کی نشوونما کے ساتھ مستحکم ہوتاجاتا ہے۔’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘میں اس پر سیر حاصل بحث موجود ہے اور میرا یہی عقیدہ ہے کہ جسم اور روح لازم و ملزوم ہیں۔ علامہ اقبال بھی فلسفیانہ سطح پر اسی تصور کے قائل تھے۔تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ میں وہ روح اور مادہ کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے اور انسان کو ایک ایسی وحدت قرار دیتے ہیں جس کے اعمال و افعال کا مشاہدہ عالم خارجی کے حوالے سے کیا جائے تو اسے بدن کہیں گے اور جب ان کی حقیقی غرض و غایت اور نصب العین پر نظر رکھی جائے تو اسے روح کہیں گے۔عقیدہ اور فلسفہ سے ہٹ کر سائنس میں کلوننگ کے تجربہ سے اس عقیدہ اور تصوّرکی مزید تصدیق ہوتی ہے۔روح ہمارے ہر سیل میں سرایت کئے ہوئے ہے۔اس کا مطلب ہے پانی کی طرح روح کے نور کو بھی توڑا نہیں جا سکتا۔جتنا اسے توڑا جائے گاہر قطرہ کی طرح روح کے نور کا ہر قطرہ بھی اپنی اصل کی پوری بنیاد کے ساتھ اپنی جگہ موجزن رہے گا۔اب کلوننگ سے جس بات کی تصدیق ہو رہی ہے،ہمارے صوفیائے کرام تو ایک عرصہ سے صوفیانہ سطح پر اسی بات کو قطرہ میں دجلہ اور دجلہ میں قطرہ دیکھنے کی صورت بیان کرچکے ہیں۔ یوں میرے نزدیک جسم اور روح دونوں لازم و ملزوم ہیں،موت کے بعد بھی یہ تعلق کسی نہ کسی سطح پر قائم رہتا ہے اور قیامت کے دن ہمیں ہمارے جسم دوبارہ دے دئیے جائیں گے۔اور انہیں جسموں کو ہی جزا ،سزا سے گزرنا ہوگا،ظاہر ہے یہ جسم اپنی اپنی روح سمیت ہوں گے۔کلوننگ کے تجربے کا گہرا جائزہ لیا جائے تو قیامت کے دن انہیں جسموں کے ساتھ دوبارہ زندہ کئے جانے کا عقیدہ ،عقلی لحاظ سے بھی مزید واضح اور روشن ہوتا چلا جاتا ہے۔
ان دنوں میں مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ میری مختلف اصنافِ ادب میں تخلیق کاری کا عمل ایک دوسری اصناف میں کچھ کچھ مدغم ہونے لگا ہے۔مثلاَ یادوں کی گزشتہ اور موجودہ قسط میں یادوں کے ساتھ افکار و خیالات کی زیادہ یلغار ہو رہی ہے،یوں یادیں مضمون جیسی صورت اختیار کر رہی ہیں۔اسی طرح میرے آخری تین افسانوں(مسکراہٹ کا عکس،کہانیوں سے بھاگا ہوا کہانی کار اور اپنے وقت سے تھوڑا پہلے ) میں یادوں کے گہرے اثرات کہانی کا رُوپ اختیار کر گئے ہیں۔اگرچہ ایسے اثرات میری دوسری کہانیوں اوردیگر تخلیقات میں بھی ہیں لیکن اتنے گہرے نہیں جتنے مذکورہ تین افسانوں میں در آئے ہیں۔ اب تو مجھے ایسا لگنے لگا ہے کہ شاید ان یادوں کی یلغار کسی ناول کا روپ اختیار کرنا چاہ رہی ہے۔ایسا ہو جائے تو اسے اپنی خوش نصیبی سمجھوں گا۔ناول اورافسانہ فکشن میں شامل ہیں اور فکشن کو تو لغوی معنوں میں ویسے بھی جھوٹ شمار کیا جاتا ہے۔اوپر سے میں نے اپنی پچھلی قسط میں روزمرہ زندگی میں بے ضرر سے جھوٹ بولنے کا اقرار کیا تو ایک دوست کہنے لگے آپ نے تو خود مان لیا کہ آپ جھوٹ بھی بولتے ہیں۔مجھ پر طنز کرنے والے دوست فرینکفرٹ میں ٹیکسی چلاتے ہیں اور یہ ایک کھلا راز ہے کہ ہمارے ٹیکسی ڈرائیور احباب قانونی طور پر دویا چار گھنٹے کی ملازمت کے پیپرز پُر کراتے ہیں اور بارہ بارہ گھنٹے کام کرکے بلیک منی کماتے ہیں،پھر دو،چار گھنٹے کی ملازمت کی جتنی آمد ظاہر کرتے ہیں،اس کے نتیجہ میں حکومت کے فلاحی قوانین کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت سے مالی امداد بھی وصول کرتے ہیں۔اس سارے’’ ایماندارانہ عمل‘‘ کو مکمل کرنے کے لئے دستاویزی طور پر کتنے ہی’’سچ‘‘ لکھ کر یہ سب کچھ کمایا جاتا ہے۔۔۔اب ایسے دوست خود کو سچا سمجھ کر مجھ پر طنز فرما رہے تھے تو ان کے حصے کی شرمندگی بھی مجھے ہی محسوس کرنا پڑی۔ان کے سچ کا پورا پورا خیال رکھتے ہوئے میں نے ان سے پوچھاکہ بھائی کیا یہ بذاتِ خود میرا سچ نہیں ہے کہ میں مان رہا ہوں کہ ہم دن میں کئی بار غیر ارادی طور پر اور کسی کو نقصان پہنچائے بغیر بے ضرر سے جھوٹ بول جاتے ہیں ؟کوئی لاکھوں، کروڑوں جھوٹ بولنے والا اگر اپنے جھوٹ کا اعتراف نہ کرے تو کیا وہ محض اس لئے سچا کہلائے گاکہ اس نے اپنے کروڑوں جھوٹ بولنے کا اقرار نہیں کیا؟حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنے زمانہ کے فقیہیوں اور فریسیوں کو مخاطب کرکے کیا خوب کہا تھا کہ: ’’تم مچھروں کو توچھانتے ہومگر اونٹوں کو نگل جاتے ہو‘‘
ہمارا اصل المیہ یہ ہے کہ ہم انسان کو انسان کی سطح پر دیکھنا گوارا نہیں کرتے۔اگر کوئی ہمارا ہیرو ہے تو وہ ہر عیب سے پاک ہے،اس میں کوئی انسانی عیب ہو ہی نہیں سکتا اور اگر کوئی ہمارے لئے کسی زاویے سے ولن ہے تو اس بد بخت میں کوئی خوبی ہو ہی نہیں سکتی۔خدا اسے جہنم میں بھیجے نہ بھیجے،ہم خود اس کی زندگی کو ضرور جہنم بنا کر رکھ دیں گے۔حالانکہ ہم سب انسان اچھائی اور برائی،نیکی اور خیر کا مجموعہ ہوتے ہیں ۔ کسی میں شر کے مقابلہ میں خیر کا پلڑا بھاری ہو تو اتنا ہی کافی ہے۔ لیکن مذہبی انتہا پسند اتنی سی بات سمجھ لیں تو پھر ان کا کام کیسے چلے۔
میں نے اپنے خاکوں اور یادوں میں جو کچھ لکھا ہے ،وہ سب سچ ہے۔بیتا ہوا سچ،دیکھا ہوا سچ یا سنا ہوا سچ اور وہ انکشافی سچ جو کسی تخلیق کار کو نصیب سے ملتا ہے۔اب جو ناول لکھنے کا ارادہ ہے اگر لکھا گیا تو اس میں بھی سارا سچ ہی لکھوں گا۔کہیں مشکل پیش آئی تو زندگی کے بعض حصے نہیں لکھوں گا لیکن جھوٹ نہیں لکھوں گا۔خدا کرے مجھے اب ناول لکھنے کی توفیق مل جائے کیونکہ میں نے کم از کم ایک پورے ناول کی زندگی بسر کر لی ہے۔
پاکستان میں مجھے ہائی بلڈ پریشر کی تکلیف رہتی تھی۔جرمنی میں آنے کے بعد سے یہ بیماری ایسی غائب ہوئی ہے کہ جیسے کبھی تھی ہی نہیں۔یہاں زندگی میں بعض انتہائی تکلیف دہ اوربہت زیادہ دکھی کرنے والے سانحات بھی پیش آئے لیکن ہر مرحلہ پر ذہنی و روحانی دکھ کے باوجود میرا بلڈ پریشر بالکل نارمل رہا ۔ایک دو مواقع پر شوگر کی مقدار بڑھ گئی تو ڈاکٹر نے فکر مند ہو کر میرا بلڈ پریشر بھی چیک کرنا شروع کیا۔میں نے مسکرا کر ڈاکٹر کو بتایا کہ فشارِ خون کو تو آپ بالکل متوازن پائیں گے۔میری بات درست نکلی تو ڈاکٹر حیرت سے مسکرا دیا۔تب میں نے اس سے کہا کہ مجھے لگتا ہے جب فوت ہو جاؤں گا تب بھی میرا فشارِ خون دیکھا گیا تو اسی طرح نارمل رزلٹ آئے گا۔کچھ عرصہ کے بعد ایک بار امین خیال جی سے یاہو کے میسنجر پر گفتگو ہو رہی تھی۔میں نے انہیں بلڈ پریشر والی ساری بات بتائی تو وہ کہنے لگے بھائی یہ تو نفسِ مطمئنہ کا مقام ہے۔مجھے بہت شرمندگی ہوئی۔بہت سارے’’ یقین ‘‘کے باوجود میں گنہگار تو ابھی تک’’ تذبذب‘‘ کے مراحل سے گزرتا رہتا ہوں۔مجھے نفسِ مطمئنہ کی دولت کہاں نصیب ہوئی ہے۔نصیب ہو جائے تو میری زندگی کا مقصد ہی پورا ہو جائے۔بہر حال بلڈ پریشر کے نارمل رہنے کو خدا کا خود پر بڑا فضل اور احسان سمجھتا ہوں۔اس نے دوسری بیماریوں اور موسمی علالتوں سے بھی کافی حد تک محفوظ رکھا ہوا ہے۔اور میں غالبؔ کے الفاظ میں’’ تندرستی ہزار نعمت ہے ‘‘کا مزہ لیتا رہتا ہوں۔
مجھ پر آنے والے تکلیف دہ دنوں میں سے ایک وہ عرصہ تھا جب بے وزن شعری مجموعے رکھنے والوں اور جعلی شاعروں اور ادیبوں نے مل کر میرے خلاف غلیظ مہم شروع کی تھی۔اس تمام عرصہ میں بھی میرا بلڈ پریشر بالکل نارمل رہا۔میرے خلاف مہم چلانے والے اس لائق نہیں کہ میں ان کے ناموں سے اپنی یادوں کے اس سلسلہ کو آلودہ کروں۔ان کا ذکر کسی اور جگہ پر ہی کافی رہے گا لیکن دو شخصیات اس غلیظ کھیل میں ایسی بھی شریک ہوئیں،جن کا صدمہ مجھے آج بھی ہے۔یہ شخصیات تھیں (تب)سویڈن میں مقیم ڈاکٹر پرویز پروازی اورہالینڈ میں مقیم جمیل الرحمن ۔دونوں صاحبان نے میرے جرمنی پہنچنے کے بعد مجھے خود ڈھونڈا اور خود مجھ سے رابطہ کیا۔پرویز پروازی کا میرے بزرگوں سے بھی تعلق رہا تھا اس لئے ان کے معاملہ میں دوستی کے ساتھ احترام کا تعلق بھی تھا۔انہوں نے اس احترام کا کچھ فائدہ اٹھانا چاہا۔میرے ایک شعر پر اعتراض فرما دیا
متن میں آپ کا ہی ذکر چلا آتا ہے اچھا ہے بچ کے رہیں حاشیہ آرائی سے
ان کا کہنا تھا کہ متن کی ت پر زبر ہے جبکہ میں نے ت کو ساکن باندھا ہے۔میں ان کا اعتراض والا خط پڑھ کر ہی ساکت ہو گیا۔تو آپ ساری زندگی پاکستان سے جاپان تک ت کی زبر کے ساتھ متن پڑھاتے رہے ہیں؟۔میں نے ادب کے ساتھ وضاحت کی تو انہیں احساس ہو گیا کہ وہ غلط تھے،چنانچہ انہوں نے معذرت کر لی لیکن دل سے شاید مجھے معاف نہیں کیا۔چنانچہ پھر انہوں نے ماہیے کی بحث میں غیر ضروری دخل اندازی فرما دی۔میں نے ان سے درخواست کی کہ آپ کسی مضمون میں یہ سب لکھیں تاکہ بحث آگے چلے۔لیکن انہوں نے مضمون نہیں لکھا۔میرا ذاتی قیاس ہے کہ انہوں نے جاپانی ہائیکو کے حوالے سے جو کام کیا تھا اس کی خاطر خواہ پذیرائی نہیں ہوئی۔اس کے برعکس تب ماہیے کی بحث کو کئی بڑے ادبی رسائل اہمیت دے رہے تھے۔اور جہاں بھی ماہیے کی بحث چلتی تھی میرا حوالہ آجاتا تھا۔اسی دوران جنگ لندن کے ادبی صفحہ پر ہائیکو کے حوالے سے ایک مضمون چھپاجس میں پروازی صاحب کے کام کو بالکل نظر انداز کرتے ہوئے ان کا ذکر تک نہ کیا گیا۔پروازی صاحب کا اس پر غصہ کرنا یا دُکھی ہونا بجا تھا لیکن اس میں ماہیا کا کوئی قصور نہیں تھا۔بہر حال تب انہوں نے اپنے ہاتھ سے اپنی حمایت میں ایک جوابی مضمون لکھ کر مجھے بھیج دیا کہ میں اسے اپنی طرف سے جنگ لندن میں چھپوا لوں۔ اس باران کی اس ’’بے پایاں محبت‘‘ پرمیں صرف ساکت نہیں ہوا، مجھے جیسے سکتہ سا ہو گیا۔جی کڑا کرکے ان کے جرمنی میں مقیم ایک شاگرد کو وہ مضمون دے دیاکہ بھائی! چاہو تو استاد کی استادی کا بھرم رکھ لو۔لیکن ان کے اس شاگرد نے بھی پروازی صاحب کا دفاع کرنے والا مضمون استعمال کرنے سے معذرت کر لی اور وہ مضمون مجھے واپس کر دیا۔ اسی دوران پرویز پروازی صاحب نے مجھے حمید نسیم کی خود نوشت میں شامل ایک اقتباس بھیجا جس سے زمانی طور پرچراغ حسن حسرت کو اردو ماہیے کا بانی قرار دلوایا جا سکتا تھا۔یہ تحقیقی اور علمی معاملہ تھا۔اس لئے میں نے بالکل ایسا باور نہیں کیا کہ پروازی صاحب یہ اقتباس مجھے کسی دباؤ میں لانے کے لئے بھیج رہے ہیں۔اس کا فائدہ یہ ہوا کہ مجھے اس موضوع پر مزید تحقیق کرنے کا موقعہ مل گیا۔اس تحقیق کے نتائج حمید نسیم کے حوالے کے ساتھ میری کتاب’’اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما‘‘ کے پیش لفظ میں اور میرے بعد کے ایک مضمون ’’مرزا (حامد بیگ)صاحب کے جواب میں‘‘پوری تفصیل سے موجود ہیں۔(اور ابھی تک تحقیقی حوالے سے حرفِ آخر کا درجہ رکھتے ہیں،تاوقتیکہ کوئی نئی تحقیق انہیں رد نہ کر ے) بس میری ان حرکتوں کے بعد پروازی صاحب مجھ سے ایسے خفا ہوئے کہ ان گھٹیا لوگوں کے ساتھ مل کر میرے خلاف نہایت غلیظ مہم کے روحِ رواں بن گئے۔ان کی شخصیت کا یہ رُخ اخلاقی طور پر اتناافسوسناک تھا کہ میں ابھی تک ان کے حوالے سے اس صدمے سے باہر نہیں آسکا۔ جسے تہذیب اور اخلاق کا آسمان سمجھا تھا وہ کیا نکلا تفو بر تو اے چرخِ گردوں تفو !
جمیل الرحمن نے جب میرا اتہ پتہ ڈھونڈ کر مجھ سے رابطہ کیا تب انہوں نے ادبی حوالے سے مجھے تعریف بلکہ ادبی عقیدت کی حد تک جوکچھ کہا،اسے درج کرنا مناسب نہیں ہے۔لیکن جب وہ پرویز پروازی کے کہنے پر میرے خلاف غلیظ مہم کے سپاہی بنے تو مجھے دلی صدمہ ہوا۔وہ جس طرح کی حرکتیں ہالینڈ سے لے کر ہندوستان اور پاکستان تک کرآئے تھے،مجھے ساتھ کے ساتھ ان کی رپورٹ مل رہی تھی۔اس مہم کے بعد کئی بار جمیل الرحمن کے فون آتے رہے۔میں نے انہیں ان کی کسی زیادتی کا احساس تک نہیں دلایا لیکن ان کے ساتھ کبھی گرمجوشی کا مظاہرہ بھی نہیں کیا۔انسان کتنا ہی کمینگی کر لے اگر اس کی فطرت میں تھوڑی بہت نیکی کی رمق ہو تو ضمیر کچوکے ضرور لگاتا ہے۔چنانچہ ایک بار جمیل نے خود ہی کھل کر معذرت کی اور شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں نے جو کچھ کیا صرف استاد،شاگرد کے رشتے کی وجہ سے کیا۔میں نے تب بھی خاموشی اختیار کئے رکھی۔وقفے وقفے سے آٹھ دس بار ٹیلی فون کرنے کے بعد ایک بار انہوں نے گلہ کیا کہ وہ اتنی بار مجھے فون کرچکے ہیں جبکہ میں انہیں فون نہیں کر رہا۔میں نے تب بھی بات کو ٹال دیا۔اس سے اگلی بار جب جمیل الرحمن کا فون آیا تو مجھ پر برہمی کا اظہار کرنے لگے کہ میں ہر بار فون کرتا ہوں۔آپ فون نہیں کرتے۔تب میں نے اتنا جواب دے دیا کہ میں نے کب آپ سے کہا ہے کہ آپ مجھے فون کیا کریں؟
اس دن کے بعد سے ان کا کوئی فون نہیں آیا یعنی وہ بھی ہیں آرام سے اور میں بھی ہوں آرام سے
میں اپنے ایک ہم نام کے حوالے سے ایک بات کا ذکر کرنا بھول گیا تھا۔خانپور میں ہی میں نے شاہکار والوں کی چھاپی ہوئی ایک پاکٹ سائز کتاب دیکھی تھی’’ستاروں کا سجدہ‘‘۔اس ناول کو لکھنے والے تھے حیدر قریشی صاحب۔اس نام کے ساتھ ’’صاحب‘‘ اس لئے لکھا ہے کہ مذکورہ ناول نگار میں نہیں تھا کوئی اور صاحب تھے۔کون تھے؟ میری بدقسمتی کہ مجھے آج تک ان کے بارے میں علم نہیں ہو سکا۔اب حال ہی میں کراچی سے ایک دوست نعیم الرحمن صاحب نے توجہ دلائی تو میں نے انہیں لکھا کہ ان حیدر قریشی صاحب کا کچھ اتہ پتہ کریں۔دیکھیں شاید ان کی بابت کچھ معلوم ہو جائے۔ویسے ایک بات طے ہے کہ وہ جو بزرگ بھی ہیں یاتھے ،گزشتہ ربع صدی سے زائد عرصہ سے ادب کی دنیا میں ،ادبی رسائل میں کہیں دکھائی نہیں دئیے۔
جرمنی میں بہت ہی معمولی سی مزدوری کرکے گھر کا خرچ چلا رہا ہوں۔ایک بار ایک دوست مجھے میری جاب پر ہی ملنے کے لئے آئے۔بعد میں گھر پر ملے تو کہنے لگے،اس دن آپ کو دیکھ کر بہت افسوس ہوا تھا کہ اردو کا اتنااچھا شاعر اور ادیب اور اتنی معمولی سی ملازمت کررہا ہے۔میں نے فوراََ انہیں کہا کہ بھائی !شاعر اور ادیب تو میں ویسے بھی معمولی ساہوں لیکن آپ اس ساری صورتحال کو یوں دیکھیں تو آپ کو خوشی ہوگی کہ اتنا معمولی سا مزدور ہے اور خدا نے ایسی صلاحیتیں عطا کر رکھی ہیں کہ چکی کی مشقت کے باوجود اتنا ادبی کام کر رہا ہے۔
جرمنی میں نیشنلٹی لینے کے لئے پہلے اتنی شرائط تھیں کہ بندے کو جرمنی میں رہتے ہوئے سات آٹھ سال ہو گئے ہوں،اپنے ذرائع آمدن ہوں یعنی حکومت سے اسے کوئی امداد نہ ملتی ہو اور جرمن زبان مناسب حد تک آتی ہو۔امریکہ کے ٹریڈ ٹاورز پر حملوں یعنی نائن الیون کے بعد سے پورے یورپ میں بھی رویوں میں قدرے سختی آگئی ہے۔میرے سارے بچوں کو جرمن نیشنلٹی مل چکی تھی۔میرا اور میری اہلیہ کا معاملہ یوں ہے کہ ہمیں جرمن زبان بالکل نہیں آتی۔میری ملازمت کی آمدنی اتنی کم ہے کہ حکومت کو اپنے فلاحی قوانین کے مطابق مجھے ہر مہینے میری ضرورت کی بقیہ رقم دینا ہوتی ہے۔گویا ہمیں زبان بھی نہیں آتی تھی اور ہماری آمدنی بھی اپنے لئے پوری نہ تھی۔اس لئے ہم دونوں شرائط پر پورے نہیں اترتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ ہم نے نیشنلٹی کے حصول والے اپنے فارم پُر کروا کر پانچ سال تک اپنے پاس ہی رکھ چھوڑے تھے ۔ چونکہ اپنی لیگل پوزیشن کا اندازہ تھااس لئے اپلائی کرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔آخر پانچ سال کے بعد میں نے کچھ ہمت کی اور مبارکہ سے کہا کہ اپلائی تو کر دیتے ہیں۔زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ درخواست مسترد ہو جائے گی۔خیر ہے،ایک تجربہ تو ہو جائے گا۔سو، جی کڑا کرکے ہم نے درخواست جمع کرا دی۔روٹین کے مطابق ہمیں جرمن زبان کے ٹیسٹ کے لئے بلاوا آگیا۔جس دن ٹیسٹ تھا اس دن میں نے علی الصبح انٹرنیٹ پر یاہو کے قسمت کے حال والے حصہ کو دیکھا تو وہاں کچھ اس مفہوم میں واضح احوال لکھا ہوا تھا کہ آپ آج جس خاص کام کے لئے جا رہے ہیں،اس میں کامیابی نہیں ہو گی لیکن ہمت نہ ہاریں اور کوشش جاری رکھیں۔یہ پڑھ کر میں دل میں ہی ہمت ہار بیٹھا۔مبارکہ بیدار ہوئی تو اس نے ایک انوکھا سا خواب سنایا ۔اس کی کوئی جاننے والی باجی کوثر ہیں،انہوں نے ہم دونوں کو اپنے گھر پر دعوت دی ہوئی ہے اور ہم باجی کوثر کی دعوت کھا رہے ہیں۔اس خواب سے کچھ امید بندھتی نظر آئی تومیں نے گومگو کی حالت میں مبارکہ کو اپنا آزمودہ ایک ٹوٹکا بھی بتا دیا۔جب زبان کا ٹیسٹ لینے والی کے کمرے میں جانے لگیں تو اپنی انگلی سے اپنی پیشانی پر یاعزیز! لکھ لیں۔افسر کا رعب دل پر نہیں رہے گا اور افسر کے دل میں آپ کے لئے نرمی پیدا ہو جائے گی ۔
پہلے مجھے ٹیسٹ کے لئے بلایا گیا،ایک اخباری تراشہ کی ریڈنگ کرائی گئی پھر اُس پر گفتگو کی گئی۔مجھے آج تک علم نہیں ہے کہ میں نے کیا پڑھا تھا اور کیا ڈسکس کی تھی۔لیکن مجھے بتایا گیا کہ میں امتحان میں پاس ہو گیا ہوں۔میرے بعد مبارکہ گئی اور وہ بھی اسی طرح پاس قرار دے دی گئی۔میری جرمن زبان اتنی خراب ہے آج بھی کسی ٹیسٹ میں بٹھایا جائے توفیل ہو جاؤں گا لیکن اللہ کا کرم تھا کہ ہم دونوں کو زبان کے ٹیسٹ میں بھی پاس قرار دے دیا گیااور آمدن پوری نہ ہونے کی خامی کو بھی نظر انداز کر دیا گیا۔وہ دن اور آج کا دن میں نے اخبارات ورسائل میں اور انٹرنیٹ پرقسمت کے احوال بتانے والے حصے دیکھنا ترک کر دئیے ہیں۔البتہ جس خاتون نے ہمارا جرمن زبان کا ٹیسٹ لے کر ہمیں پاس قرار دے دیا تھا اس کے لئے کبھی کبھار دعا ضرور کرلیتا ہوں اللہ اسے خوش رکھے!ہمیں نیشنلٹی ملنے کے معاَ بعد سے اب یہاں اس کے حصول کا طریق کارپہلے سے بھی بہت زیادہ مشکل کر دیا گیا ہے۔
ہماری جرمن زبان کا حال تو بس ایسا ہی ہے البتہ اگلی نسلوں کے لئے زبان کا کوئی مسئلہ ہی نہیں۔بچے سکول جاتے ہیں اور وہاں سے انہیں جرمن زبان سیکھنے کے لئے کسی خصوصی اہتمام کی ضرورت نہیں ہوتی۔سب کچھ از خود ہوتاجاتا ہے۔البتہ عربی یا اردو سکھانے کے لئے ان کی ماؤں کو محنت کرنا پڑتی ہے۔اس کے نتیجہ میں کئی مزے کے لطیفے سامنے آتے رہتے ہیں۔ جرمن زبان میں بلی کو Katzeکہتے ہیں۔یہ انگریزی میں CATسے ملتا جلتا نام ہے۔ میرے دوسرے پوتے جہاں زیب کی عمر ابھی چار سال ہے۔اسے عربی قاعدہ کے ساتھ اردو قاعدہ بھی پڑھانا شروع کیا گیاہے۔ الف انار پڑھنے کے بعد جہاں زیب نے قاعدہ کی تصویرپر نظر گاڑی ہوئی تھی اور ب: بلی کی بجائے بڑے مزے سے پڑھ رہا تھا ب:کاٹزے (Katze) ۔
معمولاتِ زندگی میں احتیاط اچھی چیز ہے لیکن بہت زیادہ احتیاط سے بھی خرابی ہوجاتی ہے۔اپنے گھر کی دو مثالیں یاد آگئیں۔ پاکستان میں کھانا کھاتے ہوئے اکثر ایسا ہوتا تھاکہ سالن میرے کپڑوں پر گر جاتا تھا ۔ یہ عادت یہاں بھی قائم ہے ۔جتنی زیادہ احتیاط کروں کہ سالن نہ گرے اتنا ہی زیادہ ایسا ہوجاتا ہے۔ یوں بیوی کی کڑوی کسیلی سننا پڑتی ہیں۔ میری چھوٹی بہن زبیدہ خانپور کے زمانہ میں جب گھر کے برتن دھورہی ہوتی تو آواز سے پتہ چلتا کہ کوئی گلاس ٹوٹ گیایا پلیٹ ٹوٹ گئی ہے۔نقصان پر امی جی تھوڑا سا بولتیں تو ابا جی ہنستے ہوئے کہتے کہ بیٹا ایک اور گلاس بھی توڑ دو۔اور اسی وقت دوسرا گلاس ٹوٹنے کی آواز آجاتی۔ایک بار اسی طرح جب دوسرا گلاس ٹوٹنے کی بھی آواز آئی تو امی جی ذرا غصے کے ساتھ بولیں۔ابا جی نے وہیں سے آواز دی بیٹا! جگ بھی توڑ دو۔بیچاری زبیدہ کی تمام تر احتیاط کے باوجود دھلا ، دھلایاجگ اٹھاتے وقت جگ بھی ٹوٹ گیا۔ زبیدہ نے اس ناگہانی نقصان پر رونا شروع کر دیا۔اب ایک طرف امی جی کی خفگی بھری آواز ہے دوسری طرف زبیدہ کے رونے کی آواز اور تیسری طرف زبیدہ کو شاباش دیتے ہوئے ابا جی کے ہنسنے کی آواز۔۔۔ابا جی کے ہنسنے کا وہی انداز جس میں ہنستے ہنستے ان کی آنکھ سے پانی بہنے لگتا تھا۔ایک بار امریکہ میں زبیدہ کے ساتھ ٹیلی فون پر ان یادوں کی باتیں ہو رہی تھیں اور ہم دونوں ان پر ہنس رہے تھے۔ہمارے ہنستے ہنستے اباجی کی آنکھوں کا پانی ہماری آنکھوں میں آگیااور ہم دونوں ہی ہنستے ہنستے اپنی بھیگی پلکیں صاف کر رہے تھے۔کبھی کبھی بہت چھوٹی چھوٹی سی بے معنی یادیں بھی ہماری زندگی میں کتنی بامعنی بن جاتی ہیں۔
مغربی ممالک میں عمومی طور پر اور یہاں جرمنی میں خاص طور پربجلی اور پانی کی فراہمی میں کسی تعطل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ٹیلی فون سروس اب تو ہر جگہ بہت بہتر ہوتی جا رہی ہے لیکن جب دوسرے ملکوں میں اچھی سروس نہ تھی یہاں تب بھی عمدہ سروس ہوا کرتی تھی ۔ نکاسیٔ آب کا معاملہ ہو یا سردیوں میں گھروں کا ہیٹنگ سسٹم،یہ سہولیات یہاں زندگی کا حصہ شمار ہوتی ہیں۔کوئی انتہائی دوردراز کا گاؤں ہو وہاں بھی سڑکیں جاتی ہیں، بجلی، پانی، نکاسیٔ آب،ہیٹنگ سسٹم،اور ٹیلی فون کی سہولیات میسر ہیں۔کسی پائپ لائن کی کوئی مرمت کرنا ہوئی یا انسپکشن کرنا ہوئی تو کئی دن پہلے نوٹس لگا دیا جاتا ہے کہ فلاں تاریخ کو اتنے بجے سے اتنے بجے تک پانی بند رہے گا۔اپنی ضرورت کا پانی جمع کر رکھیں۔سڑکوں کی مرمت کا کام بھی ساتھ کے ساتھ چلتا رہتا ہے۔لیکن جہاں ایسا کچھ ہو رہا ہوتا ہے وہیں متبادل رستوں کا انتظام کر دیا جاتا ہے۔یہاں فرینکفرٹ شہر کے اندر ٹریفک اور عوام کے ہجوم میں بھی دیکھا کہ کسی بلڈنگ کی تعمیر ہو رہی ہے یا کسی عمارت کی مرمت ہو رہی ہے، مجال ہے کوئی کوڑا کرکٹ اِدھر اُدھر بکھر جائے۔تعمیراتی اداروں کا ایسا مربوط نظام ہے کہ نہ تو کوئی رستہ بلاک ہو گا اور نہ ہی گرد و غبار پیدا ہو گا۔
ایک بار اس وقت مجھے بڑی حیرانی ہوئی جب فرینکفرٹ کے بڑے ریلوے اسٹیشن سے لے کر Hauptwacheتک انڈر گراؤنڈ ٹریکس کی مرمت کا کام ہونا تھا۔لگ بھگ ۲۰دن تک یہ مرمت ہونا تھی اور اس عرصہ میں اُ س رُوٹ کو بند رہنا تھا۔مجھے پہلے دن تشویش ہوئی کہ جاب پر جانے کے سارے اوقات درہم برہم ہو جائیں گے۔میں نے مین اسٹیشن پر پہنچ کر انفارمیشن والوں سے رابطہ کیا اور انہیں اپنی منزل کا پتہ بتا کر متبادل رُوٹ پوچھا تو انہوں نے ایک منٹ میں متبادل رُوٹ کی پرچی نکال کر میرے حوالے کر دی۔پہلے دن میں اپنے معمول سے صرف دس منٹ لیٹ ہوا ،اور بعد میں صرف پانچ منٹ کی تاخیر سے پہنچ جاتا تھا۔پاکستان میں کسی ریلوے ٹریک کی مرمت یا کسی سڑک کی مرمت کی صورت میں جو حال ہوتا ہے اس کے بارے میں کیا کہوں۔سارے اہلِ وطن بخوبی جانتے ہیں بلکہ ایسی صورتحال کو بھگتتے رہتے ہیں۔ریلوے کے سلسلے میں تو کچھ عرصہ پہلے’’ رن پٹھانی پُل‘‘ کے بارے میں ہی جتنی خبریں آتی رہیں،انہیں پڑھ کر اپنے ہاں کے انتظامات پر شرمندگی ہوتی رہی۔یہاں جرمنی میں ریلوے کے مذکورہ بہترین متبادل انتظام کے ساتھ کمال یہ تھا کہ نہ صرف ہزاروں مسافر وں کے معمولات میں خلل نہیں پڑابلکہ اس دوران کسی قسم کا گردو غبار پبلک تک نہیں پہنچا۔سچی بات ہے میں تو اپنی پاکستانی یادوں کی وجہ سے گردو غبار دیکھنے کو ہی ترستا رہا۔
پاکستان میں ہمیں یہ حدیث شریف تو پڑھائی جاتی تھی کہ صفائی ایمان کا حصہ ہے۔لیکن جہاں تہاں گندگی کے ڈھیر اب بھی ویسے ہی موجود ہیں۔ادھر جرمنی میں ایسی کوئی حدیث یاآیت نہیں پڑھائی جاتی لیکن صفائی کا حال سب کے سامنے ہے۔ہم لوگوں کی خرابی یہ ہوئی ہے کہ ہم گھسے ہوئے ریکارڈ کی طرح چند باتوں اور نصیحتوں کو تو دہراتے رہتے ہیں لیکن ہمارا عمل کا خانہ یکسر خالی ہے۔قرآن شریف میں سب سے زیادہ دنیا اور کائنات کے اسرار و رموز پر غور و فکر کی تلقین کی گئی ہے۔دنیا بھر کے مسلمانوں کا جدید سائنسی انکشافات اور ایجادات میں کتنا حصہ ہے؟ اس سوال کے جواب سے پتہ چل سکتا ہے کہ مسلمان آج کل قرآن کی اس سب سے زیادہ تلقین پر کتنا عمل کر رہے ہیں؟۔ان کے بر عکس اہلِ مغرب نے فلسفہ اور دوسرے علوم میں جتنی پیش قدمی کی، سائنسی ترقی کی،جتنی ایجادات کیں،جو نئی ٹیکنالوجی اختیار کی وہ سب دنیا اور کائنات کے اسرار و رموز پر غور کا نتیجہ اور ثمرہ ہے۔ ہم نے تو سوچ بچار اور آزادانہ غور و فکرکو شجرِ ممنوعہ بنا رکھا ہے۔اس کا نتیجہ بھی ظاہر ہے۔اہلِ مغرب نے آج سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں جو عالمی غلبہ حاصل کر رکھا ہے،یہ سب ان کی آزادانہ سوچ،غور و فکراور تدبر کا ثمر ہے۔وہی آزادانہ سوچ،غور و فکر اور تدبر جس کی قرآن نے بار بار تلقین کی اور ہمارے علماء اور رہنماؤں نے لوگوں کو اسی عمل سے دور رکھا۔
یہاں ایک وضاحت بھی کر دوں ہمارے مصلحین اور مفکرین جب مغربی معاشرے کے مقابلہ میں اپنے مشرقی معاشرہ کے فضائل بیان کرتے ہیں تو اس میں مغرب کی ’’بے راہروی‘‘کو بطور خاص نشانہ بناتے ہیں۔میں نے اس معاملہ کو ایک اور زاویے سے دیکھا ہے۔ وہ آزادی جو مغرب نے فلسفہ،سائنس،مذہب ،ادب اور دیگر علوم میں اختیار کی اسی کے زیرِ اثر ان کے ہاں معاشرتی سطح پر آزادی کا رجحان بڑھا۔اب صورتحال یوں ہے کہ مغرب میں مرد عورت باہمی رضامندی سے جو کچھ کر لیں روا ہے،لیکن جبراَ کرنا منع ہے۔دوسری طرف ہمارے مشرقی معاشرہ میں مقتدر اشرافیہ طبقہ وہ سب کچھ بھی کرتا ہے جو مغرب میں ہوتا ہے اور جبراَ بھی بہت کچھ کرکے الٹا متاثرہ فریق کو گنہگار قرار دلوا کر جیلوں میں سڑوا دیتا ہے۔ایک طرف عیاشی اور ظلم کی یہ صورت ہے دوسری طرف اخلاقیات اور مذہب کے نام پر عام آدمی کو اس فعل سے روکا جاتا ہے جس کا ارتکاب مقتدر طبقہ دن رات کرتا ہے۔اس حوالے سے جب میں دیکھتا ہوں تو محسوس کرتا ہوں کہ ہمارا مشرقی معاشرہ مقتدر طبقہ کی منافقت کے باعث استحصالی اور منافقانہ معاشرہ بن گیا ہے۔ہم نیک بننا نہیں چاہتے،صرف نیک دِکھنا چاہتے ہیں۔ہمارے بر عکس مغرب میں جو سہولیات مقتدر طبقہ کو میسر ہیں وہ انہوں نے عام آدمی کو بھی مہیا کررکھی ہیں۔شرط ہر جگہ ایک ہی ہے کہ جو کچھ ہو باہمی رضامندی سے ہو۔جبراَ اگر شوہر بھی اپنی بیوی سے کچھ کرے تو اس پر بھی کیس بن جاتا ہے۔
جنرل ضیاع الحق کے دور میں ہونے والی ادیبوں کی ایک کانفرنس میں قبائلی علاقہ سے آئے ہوئے ایک ادیب فائیو سٹار ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔صبح سویرے وہ رفع حاجت کے لئے ڈھیلے کی تلاش میں ویرانے کی طرف نکل گئے۔دیر سے واپس آئے تو بعض ادیبوں کے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ ڈھیلے کی تلاش میں ویرانے کی طرف چلا گیا تھا۔ایک ادیب نے انہیں بتایا کہ باتھ روم میں جو ٹشو پیپرز ہیں،آپ انہیں استعمال کر سکتے تھے۔ اس پر انہوں نے انکشاف کیا کہ وہ تو اس پر شاعری لکھتے رہے ہیں۔ہمارے بعض سخت گیر علاقوں میں استنجہ کے لئے ڈھیلے کے استعمال کو آج بھی بعض لوگ ایمانیات کا حصہ سمجھے بیٹھے ہیں۔اس کے نتیجہ میں ایسے کئی لطیفے سامنے آتے رہتے ہیں۔اگر اہلِ مغرب کے عقائد یا معاشرت میں ڈھیلے کا ایسا عمل دخل ہوتا تو مجھے یقین ہے یہ لوگ ڈھیلوں کی ایسی فیکٹریاں بنا لیتے جہاں سے نفیس قسم کے ایسے ڈھیلے تیار ہوتے جو حفظان ِصحت کے مطابق ہوتے اور صفائی کا سارا عمل مقناطیسی اور خودکار طریقے سے مکمل ہوا کرتا۔
سرائیکی میں دو الفاظ کا مطلب واضح کرکے ایک دلچسپ واقعہ بیان کرنا چاہتا ہوں۔سرائیکی میں ’’ہِے‘‘ کا مطلب ’’ہَے‘‘ اور ’’ہا‘‘ کا مطلب ’’تھا‘‘ ہوتاہے۔ خانپور میں ہمارے محلہ میں ایک تھے چاچا مسُّو لکڑی کے ٹال والے اور ایک تھے چاچا چھتّا موچی۔چھتا موچی بریلوی مسلک کے مطابق حاضر ناظر کے قائل تھے اور چاچا مسودیوبندی مسلک کے مطابق اس کے مخالف تھے۔لیکن علم دونوں کا ہی پورا پورا تھا۔دونوں میں کلمہ طیبہ کی قرات پر بحث ہو رہی تھی۔چاچا مسّو کہہ رہے تھے کہ کلمہ شریف یوں پڑھنا چاہئے۔لا الٰہ الااللہ محمد الرسول اللہَ (یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور حضرت محمدﷺاللہ کے رسول تھے ۔)’’تھے‘‘ کو واضح کرنے کے لئے وہ کلمہ کے آخر میں سرائیکی ’’ہا‘‘ پڑھ کر سمجھتے تھے کہ وہ حضورﷺکو وفات یافتہ قرار دے رہے ہیں، جبکہ چاچا چھتا موچی اصرار کر رہے تھے کہ کلمہ کی اصل قرات یوں ہے: لا الٰہ الااللہ محمد الرسول اللہِ یعنی وہ تھے نہیں،بلکہ اب بھی ہیں،حاضر ناظر ہیں۔اس کے اظہار کے لئے وہ آخر میں سرائیکی لفظ کی طرح ’’ہِے‘‘ پڑھتے ۔ میں نے دونوں بزرگوں کی اس عالمانہ بحث کو مزے سے سنا تھا۔
میں نے اپنے نانا جی کا خاکہ لکھا تھا جو ’’میری محبتیں‘‘میں شامل ہے۔منشا یاد نے میری خاکہ نگاری پر مضمون لکھتے ہوئے اس خاکہ کو نسبتاََ زیادہ اہمیت دی۔اور خیال ظاہر کیا ہے کہ میرے نانا جی کے بعض خاص اثرات مجھ پر ہیں۔نانا جی کے وہ اثرات یقیناَ مجھ پر ہیں اور ان کی طرح دوسرے ان تمام عزیزوں کے اثرات بھی مجھ پر ہیں،جن کے خاکے میں نے لکھے اور وہ سب اپنے اپنے طریق سے میری شخصیت کی بُری بھلی تعمیر کا کام کر گئے۔ابا جی کو تو میں اب براہِ راست اپنے آپ میں دیکھتا ہوں۔منشا یاد کی نشاندہی کے بعد میں نے تھوڑا سا غور کیا تو ایک بڑی عجیب سی مماثلت مجھے اپنے نانا جی میں اور خود میں دکھائی دی۔نانا جی ایک بار لتا کا ایک گانا گنگنا رہے تھے
یہ زندگی اسی کی ہے جو کسی کا ہو گیا
ہماری نئی نئی جوانی تھی۔ہم اپنے حساب سے نانا جی کے گانے پر ہنسے تو نانا جی نے ہم سب ہنسنے والوں کو پیار سے اپنے پاس بلایااور بتانے لگے کہ تم بچے اس گانے کو صرف گانا سمجھتے ہو،اس میں تو بڑی معرفت کی بات ہے۔یہ زندگی اس کی زندگی ہے جو ہمیشہ کے لئے خدا کا ہو گیااور اس کی محبت میں گم ہو گیا۔نانا جی کی اس تشریح پر ہمیں مزید ہنسی آئی لیکن ان کے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہم نے ہنسی کو دبائے رکھا۔
آج ایک عرصہ گزرنے کے بعد جب میں بھی نانا بن چکا ہوں تو بالکل نانا جی والی صورتحال بن چکی ہے۔مجھے متعدد پرانے گانے پسند ہیں۔کسی زمانے میں صوفیانہ کلام سنتے ہوئے جذباتی کیفیت ہو جایا کرتی تھی۔لیکن چند برسوں سے ایک فلمی گانے نے مجھے عجیب طرح سے جکڑ رکھا ہے۔
اک جاں تھی پاس وہ جاں لے کر ہم تیری گلی میں آنکلے
کیا جانے کیا ارماں لے کر ہم تیری گلی میں آنکلے
نورجہاں کی آواز میں گایا ہوا یہ گانا میرے لئے ایک عجیب معنویت اور کیفیت کا حامل بن گیا ہے۔جب بھی اس گانے کو سنتا ہوں ایسے لگتا ہے جیسے میں اپنے گناہوں کی گٹھڑی اُٹھائے ہوئے خدا کے دربار کی طرف جا رہا ہوں اور یہ سب گاتا ہوا جا رہا ہوں اور پھر مجھے اپنے آپ پر قابو نہیں رہتا۔اگر گانا سنتے ہوئے جذب کی کیفیت گہری نہ ہو تو میرے صرف ایک مصرعہ گنگنانے سے ہی جذب کی کیفیت گہری ہو جاتی ہے۔یہ نانا جی کے ساتھ کسی نوعیت کی مماثلت ہے،یا ان کے سوچ کے انداز پر ہنسنے کی سزا ہے؟اگر سزا ہے تو میں اسے بہت بڑی جزا سمجھتا ہوں۔عجیب اتفاق ہے کہ نانا جی کو جس گانے کے بول میں معرفت دکھائی دیتی تھی وہ انڈین فلم انارکلی کا گانا تھا اور مجھے جس گانے نے کئی برسوں سے جکڑا ہوا ہے وہ پاکستانی فلم انارکلی کا گانا ہے۔خدا جانے (اچھی اور میٹھی)موسیقی واقعی روح کی غذا ہوتی ہے یا نہیں لیکن مذکورہ گانا تو میرے لئے واقعتاَ روح کا ایک تجربہ بنا ہوا ہے۔صوفیانہ کلام نہ ہوتے ہوئے مجھ پر اس کا اتنا گہرا اثر کیوں ہے اور میں معرفت کے سوا اسے کسی دوسرے رنگ میں کیوں نہیں لے سکتا؟مجھے خود اس کی سمجھ نہیں آتی۔شاید کہیں روح کا کوئی تار، اس گانے کے تاروں سے جُڑ گیا ہے۔
کبھی کبھار تھوڑا سا وقت ملتا ہے اور گانے سننے کا موڈ ہوتا ہے تو کمپیوٹر پر کام کرتے ہوئے کوئی سی ڈی لگا لیتا ہوں۔ایک بار صبح سویرے کمپیوٹر پر کام کرتے ہوئے میں نے لتا منگیشکر کا ایک گانا لگایا’’یہ شام کی تنہائیاں ، ایسے میں تیرا غم‘‘۔۔۔مبارکہ کمرے کے آگے سے گزری تو کہنے لگی یہ کیا صبح صبح’’شام کی تنہائیاں ۔۔ ۔ ۔‘ ‘ لگا کر بیٹھے ہیں۔میرے پسندیدہ گانوں پر مبارکہ کے تبصرے بعض اوقات اپنا الگ لطف پیدا کردیتے ہیں۔پنجابی کا ایک پرانا گانا سنتے ہوئے مبارکہ نے میری کیفیت پر بڑا مزے کا تبصرہ کیا تھا۔میں وہ احوال ڈاکٹر نذر خلیق کے نام اپنے ایک خط میں لکھ چکا ہوں،جسے انہوں نے اپنی مرتب کردہ کتاب میں شامل کر دیا تھا۔ خط کا وہ حصہ بنیادی طور پر یادوں سے تعلق رکھتا ہے اور اب یہاں گانوں کا ذکر ہو رہا ہے تو اپنے ۱۶؍نومبر ۲۰۰۲ء کے تحریر کردہ اس خط کا متعلقہ حصہ یہاں درج کئے دیتا ہوں:
’’ایک دن میں پنجابی کی ایک ویب سائٹ ’’اپنا آرگ ڈاٹ کام‘‘ سے طفیل ہوشیارپوری صاحب کا مشہور گانا ’’چٹھی میری ڈھول نوں پچائیں وے کبوترا‘‘سنتے ہوئے دوستوں کی ای میلز کے جواب دے رہا تھا۔ گانے سے اپنی بعض یادوں کے باعث میں کچھ جذباتی سا بھی ہو رہا تھا۔اسی دوران کمرے میں مبارکہ آگئی اور ہنسنے لگ گئی۔۔۔۔۔میں نے حیران ہوکے پوچھا کیا ہوا ہے؟
کہنے لگی انٹرنیٹ پر ای میلز کے جواب لکھ رہے ہیں اور ساتھ ’’چٹھی میری ڈھول نوں پچائیں وے کبوترا‘‘سن کر جذباتی ہو رہے ہیں۔ مبارکہ کی بات سن کر میں اپنی جذباتی کیفیت ہی میں مسکرا دیا۔
لیکن بعد میں غور کیا تو مجھے کبوتروں کے ذریعے پیغام بھیجنے والے دَور سے ای میل کے ذریعے پیغام بھیجنے والے دَور تک کے سارے زمانے اپنے اندر برسرِ پیکار نظر آتے ہیں۔نیا دور اپنی طرف بلاتا ہے اور اس میں بڑی کشش ہے،اس کا مضبوط جواز بھی ہے۔پہاڑ کی چوٹی تک جانا آسان ہے لیکن دوسری طرف پرانے دور کی یادیں مسلسل بلاتی ہیں۔روتی ہوئی،ہنستی ہوئی،ہر طرح کی آوازیں بلاتی ہیں۔مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ گزرے زمانے کی آوازوں پر مڑ کر دیکھنے والے شہزادے پتھر کے ہو جاتے ہیں۔اس کے باوجود میں نہ صرف مڑ کر دیکھتا ہوں بلکہ ہر قدم پر مڑ کر دیکھتا ہوں اور خود کو مکمل پتھر ہونے سے بچانے کی کوشش بھی کرتا جاتا ہوں۔
’’چٹھی میری ڈھول نوں پچائیں وے کبوترا‘‘جذباتی ہو کر سننا،پہاڑ پر جاتے ہوئے مڑ کر دیکھنے جیسا ہے اور ساتھ ساتھ ای میلز کے جواب لکھتے جانا خود کو مکمل پتھر ہونے سے بچانے کی کوشش ہے۔ ‘‘
مجھے بہت سارے پرانے گانے پسند ہیں،ان سب کی اچھی موسیقی میری روح پر اثر کرتی ہے اور دل میں سوز و گداز بھی پیدا کرتی ہے۔ان گانوں کے ساتھ میں حال میں رہتے ہوئے اپنے گزرے ہوئے زمانوں کا سفر کر لیتا ہوں
ہر مذہب کے دو پہلو ہیں۔ایک دانش والا اور دوسرا دہشت والا۔دانش والے پہلو میں دوسروں کے ساتھ مکالمہ بلکہ ایک دوسرے کی تفہیم والے تقابلی مطالعہ کا ظرف پیدا ہوتا ہے۔یہی پہلو آگے چل کر صوفیانہ ریاضت کی طرف بھی لے جانے میں ممد ہوتا ہے۔جہاں مختلف علوم ایک نقطے میں یکجا ہو جاتے ہیں۔اسی لئے اپنے ظرف کی وسعت کے باعث مذہب کے اس پہلو میں مکالمہ اور تقابلی مطالعہ سے کسی کو گھبراہٹ نہیں ہوتی۔
جبکہ مذہب کا دہشت والا پہلو کسی مکالمہ کی گنجائش نہیں رکھتا۔ اس میں صرف بزور بازو اور خوفزدہ کرکے بات منوائی جاتی ہے۔یہی رویہ آگے بڑھ کر اس دہشت گردی کی شکل اختیار کر لیتا ہے جو اس وقت ساری دنیا کو درپیش ہے۔یہ دہشت گردی امریکہ کے انتہا پسند مسیحی نیو کونز کی ہویا طالبان کی،کسی پس منظر میں موجودانتہا پسند یہودی گروپ کی ہو یا القاعدہ کی،یہ سارے انتہا پسند انسانیت کے لئے خطرہ ہیں۔
مذہب کا دانش والا پہلو ھاتو برھانکم ان کنتم صادقین کی دعوت دے کر علم اور دلیل کی بنیاد پر مکالمہ کرتا ہے۔ جبکہ علم اور دلیل سے خائف مذہب کا دوسرا پہلو علم کی تضحیک کرکے، دھمکانے ڈرانے سے لے کر دہشت گردی کی اس صورت تک جاتا ہے جیسا آجکل دنیا میں دکھائی دے رہا ہے۔
اگر مشرق اور مغرب کے عمومی رویوں کو دیکھیں یا پھر صرف پاکستان اور جرمنی کے حوالے سے ہی بات کریں تو کہہ سکتے ہیں کہ من حیث المجموع اِن لوگوں نے روح کے معاملات کو نظر انداز کیا ہے اور جسم کے معاملات پر ہی زیادہ توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔ساری سائنسی ترقیات اور برکات کا تعلق بھی افادی لحاظ سے جسم سے ہی تعلق رکھتا ہے۔ان کے بر عکس ہم لوگ جسم کے تقاضوں اور مطالبوں کو یکسر نظر انداز کرکے روح کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ لیکن ہمارے ساتھ المیہ یہ ہے کہ روح کے حوالے سے بھی ہمارے پاس صرف زبانی کلامی دعوے رہ گئے ہیں۔روحانی ترقی سے معاشرے میں جو روحانی ترفع دکھائی دینا چاہئے وہ کہیں بھی دکھائی نہیں دیتا۔بات ہم روح کی کرتے ہیں دوڑتے جسم کی ضروریات کی طرف ہیں۔یوں ہم نہ کوئی روحانی معاشرہ برپا کر سکے نہ جدید علوم سے ہی خاطر خواہ طور پر بہرہ ور ہو سکے۔ جسمانی طور پر ہم بے روح ہو چکے ہیں اورروحانی طور پرہم جسم کے بغیر اپنا ہی بھوت بن کر رہ گئے ہیں۔
روحانی تجربات کی ایک اہمیت ہے اور کسی روحانیت کے دعویدار معاشرہ میں تو اس کی اہمیت بہت زیادہ ہونی چاہئے۔تاہم روحانی تجربات کا مطلب یہ ہوا کہ اس بندے کو خدا سے پیار ہے اور یہ اپنے رب کی جستجو میں لگا ہوا ہے۔اس کے بر عکس مغربی اسکالرزجو سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیش رفت کر رہے ہیں،ان کا شمار ان لوگوں میں کیا جانا چاہئے جو خدا کے بندوں سے پیار کرتے ہیں۔کیونکہ کسی مکاشفہ کرنے والے کے مقابلہ میں بیماریوں کے علاج والی ادویات اور انسانوں کے لئے جدیدترسہولیات کی ایجاد کرنے والا کوئی بھی سائنسدان اس لئے زیادہ اہم ہو جاتا ہے کہ کسی(غیر مامور) کا سچاخواب ،کشف یا خدا سے مکالمہ بھی اس کی اپنی ذات کی حد تک ہے جبکہ جو ادویات ایجاد کر رہے ہیں،بجلی سے لے کر آج تک کی نت نئی ایجادات میں پیش رفت کر رہے ہیں جن سے ساری انسانیت فیض یاب ہو رہی ہے ،وہ سائنس دان اور موجدین اپنی ذات کو نہیں بلکہ پوری انسانیت کو،لاکھوں کروڑوں بلکہ اربوں بندگانِ خدا کو فیض پہنچا رہے ہیں۔سو روحانیت کے ساتھ سائنسی ترقی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔میں یہاں مغربی ممالک کے سیاسی کردار کو موضوع نہیں بنا رہا۔اس حوالے سے میری دو کتابوں ’’منظر اور پس منظر‘‘ اور’’ خبر نامہ‘‘ میں میرا موقف کافی وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔یہاں صرف مشرقی اور مغربی معاشروں کی سطح پر روحانی اور مادی امورسے سروکار ہے۔
ایک بار ایک ٹی وی چینل پر روحانیت کے حوالے سے مکالمہ چل رہا تھا۔شرکاء تھے جسٹس جاوید اقبال،پروفیسر مہدی حسین اور مولانا ڈاکٹر اسرار احمد۔ آخر میں شو کے کمپئیر نے تینوں شرکاء سے پوچھا کہ ان کی ذاتی زندگی میں کوئی روحانی تجربہ ہوا ہے؟
جسٹس جاوید اقبال نے،جو اقبال کے فرزند ہی نہیں لبرل شارح بھی ہیں،ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی والے دن علی الصبح اپنے ساتھ پیش آنے والا ایک واقعہ بیان کیا۔یہ واقعہ وہ اپنی سوانح حیات میں بھی لکھ چکے ہیں۔اس میں سوتے ہوئے ان کے اوپر سے چادر کھینچ لی جاتی ہے۔میرے ساتھ اس سے ملتا جلتا ایک واقعہ ہوا تھاجس میں مجھ پر کسی نے آکر رضائی ڈال دی تھی۔یہ واقعہ میرے افسانہ’’ بھید‘‘ اور یادوں کے پہلے باب’’بزمِ جاں‘‘ میں تفصیل سے درج ہے۔پروفیسر مہدی حسین جنہیں ان کی فلسفہ میں گہری دلچسپی کی وجہ سے اہلِ مذہب ملحد بھی کہنے لگے ہیں،ان سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ انہیں کسی اچھا یا برا کام کرتے وقت ایسا لگتا ہے جیسے ان کے والد انہیں دیکھ رہے ہیں۔ مجھے یہ بات سن کر بھی خوشی ہوئی۔کیونکہ میں ایسا ہی اپنا تجربہ اپنے افسانے ’’مسکراہٹ کا عکس‘‘ میں لکھ چکا ہوں اور نذر خلیق صاحب نے مجھ سے جو تفصیلی انٹرویو کیا تھا اس میں بتا چکا ہوں کہ یہ ’’کہانی خود میرا اپنا نفسی تجربہ تھا جو یہاں جرمنی میں مجھے پیش آیا،اسے آپ سوتی جاگتی حالت کا تجربہ کہہ سکتے ہیں‘‘۔یہ کوئی بڑے روحانی تجربے نہیں ہیں،بس ہم جیسے گنہگاروں کے ظرف کے مطابق خدا کی طرف سے تھوڑی بہت خیرات ہے،ایسی خیرات ہم جیسے اور ہزاروں گنہگاروں کو بھی ملتی رہتی ہے۔کسی کو ایسے تجربات سے بد ہضمی ہوجائے اور وہ خود کو کچھ سمجھنے لگ جائے تو اس کے لئے ابتلا کا موجب بھی بن جاتے ہیں۔لیکن یہ ایک الگ موضوع ہے۔ایسے تجربات کے لئے تھوڑا سا گنہگار ہونا بھی شاید شرط ہو۔ کیونکہ اللہ کے نیک بندے تو ایسے تجربات کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔ اس لئے انہیں ایسے تجربے ہوتے بھی نہیں۔ خیر بات ہو رہی تھی ٹی وی کے ٹاک شو کی۔مجھے خوشی ہوئی کہ روایتی معنوں میں غیر مولوی ہوتے ہوئے بھی ، جسٹس جاوید اقبال اور پروفیسر مہدی حسین ،دونوں دانشوروں کے ہاں نہ صرف روحانی تجربات موجود تھے بلکہ ان کی نوعیت سے میرے تجربوں کی نوعیت کی بھی تصدیق ہوئی ۔تاہم اس نشست کا سب سے دلچسپ جواب مولانا ڈاکٹر اسرار احمد کا تھا۔وہ روح اور روحانیت پر بڑی عالمانہ گفتگو فرماتے رہے تھے لیکن ان کا دامن کسی بھی روحانی تجربہ سے خالی تھا۔انہوں نے اعتراف کیا کہ انہیں زندگی میں کوئی روحانی تجربہ نہیں ہوا۔ اب جبکہ پاکستان کی روحانی ذمہ داریاں ایسے پڑھے لکھے علماء کرام نے سنبھال رکھی ہیں جو کسی روحانی تجربے سے یکسر محروم ہیں تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جسم کی نفی کرتے ہوئے،جسم کی ضروریات کی طرف دوڑتا ہوا ہمارا معاشرہ روحانی طور پر کیوں اپنا ہی بھوت بن کر رہ گیا ہے۔