اف یار آج تو بہت تھک گئے زہرا نے کہا اور بستر میں گھس کر بیٹھ گئی
ہاں تھک تو بہت گئے پر مزہ بھی تو بہت آیا نا کشملا بھی بستر میں آ گئی
ہاں لیکن اور بھی مزہ اتا اگر وہ دانش ساتھ نہ ہوتا زہرا نے ٹی وی پر نظریں جما کر کہا
تمھیں دانش پسند کیوں نہیں ہے کشمالہ نے پوچھا
کیوں کے وہ خود کو تمہارا سب سے اچھا دوست کہتا ہے اورجب وہ یہ کہتا ہے ,مجھے بہت برا لگتا ہے
پر مجھے لگتا ہے وہ تمھیں پسند کرتا ہے کشمالہ نے ایک پیار بھری نظر اس پر ڈال کر کہا
زہرا نے چونک کر اسے دیکھا نظروں میں سوال تھا تمھیں کیسے پتا
مجھے بس ایسا لگا کشمالہ نے لاپرواہی سے کہا اور نظریں سکرین پر جما لیں
کوئی مرد اسے اس نظریے سے پسند کرتا ہے یہ جاننا اس کے لئے نیا تھا ایک لطیف سا جذبہ دل میں ابھرا اگر وہ کشمالہ کے سب سے اچھا دوست ہونے کے دعوے سے دستبردار ہو جائے تو بندہ اتنا برا بھی نہیں ہے دل کے کسی کونے سے آواز ائی پر زہرا نے اںسونی کر دی
سنو تم جہانزیب کو پسند کرتی ہو نا اس دفع کشمالہ نے زہرا کو چونک کر دیکھا نظروں میں وہی سوال تمھیں کیسے پتا چلا
زہرا مسکرا دی تم نے بھی سنا تو ہوگا کہ عشق اور مشک چھپاۓ نہیں چھپتے تمہاری آنکھوں میں بھی جہانزیب کے لئے پیار نظر اتا ہے
کشمالہ نے کوئی جواب نہیں دیا بس مسکرا دی بھلا دوستوں سے کوئی بات چھپتی کہاں ہے
————————————————
صبح ناشتے کے لئے وہ دونوں نیچے ایں تو جہانزیب کو کسی لڑکی کے ساتھ بیٹھا پایا لڑکی کی ان کی طرف پشت تھی وہ دونوں حیران ہوتیں جہانزیب کے پاس پہنچی
پاس پہنچ کر اسکی شکل نظر آ گئی تھی
اب لڑکی کو وہ دونوں پہچان چکیں تھی وہ مہرین تھی جہانزیب کی کزن اور اسکی سب سے اچھی دوست
وہ دونوں زور و شور سے باتوں میں مصروف تھے
اسلام و علیکم زہرا نے قدرے زور سے سلام کیا دونوں چونک گئے جہانزیب نے ہمیشہ کی طرح مسکراتے ہووے سلام کا جواب دیا پر مہرین کے چہرے پر ناگواریت تھی اسے ان دونوں کی موداخلت ناگوار گزری تھی
زہرا نے تو نہیں پر کشمالہ نے یہ بات ضرور محسوس کی تھی
گرلز مہرین رات کو ہی آ گئی تھی اب یہ ہمارے ساتھ ہی رہے گی اور مری گھومے گی جہنزیب کشمالہ اور زہرا کو بتا رہا تھا
ویسے جہانزیب تم بہت برے ہو تم نے مجھے بتایا بھی نہیں اور اکیلے آ گیے ویسے ایسا کبھی نہیں ہوا کے جہانزیب کہیں گھومنے نکلے اور میں ساتھ نہ ہوں مہرین نے کشمالہ اور زہرا کو دیکھ کر کہا
دونوں نے کوئی جواب نہ دیا سر جھکا کر کھانا کھانے میں ہی مصروف رہیں
آج کہاں کا پلان ہے جہانزیب نے پوچھا
نتھیا گلی چلتے ہیں کشمالہ نے کہا
نہیں آج مال روڈ جایئں گے نتھیا گلی کل چلیں گے مہرین نے گویا حکم دیا
جو زہرا اور کشمالہ کو تو بہت برا لگا پر جہانزیب نے کچھ نہ کہا کیوں کہ وہ جانتا تھا یہی مہرین کا سٹائل ہے
مال روڈ پر ہم پرسوں جا چکے ہیں کشمالہ نے مہرین کو دیکھتے ہووے بتایا
لیکن پرسوں میں جو ساتھ نہیں تھی ویسے اپ لوگ اگر ساتھ نہیں جانا چاہتی تو میں آپکو فورس نہیں کروں گی اپ لوگ نتھیا گلی گھوم ایں میں اور جہانزیب مال روڈ چلے جاتے ہیں مہرین نے بات ہی ختم کی
کشمالہ اور زہرا کو یہ اپنی سرا سر اپنی توہین لگی
جہانزیب کے کچھ کہنے سے پہلے ہی کشمالہ بول پڑی ٹھیک ہے مس مہرین اپ اپنے کزن کے ساتھ مزے کریں ہم خود ہی نتھیا گلی گھوم اتے ہیں اور کہتے ساتھ ہی موبائل پر نمبر ملا دیا
ہاں دانش آج نتھیا گلی جانا ہے تم ہوٹل سے لینے آ جاؤ مزید کوئی بات سنے بغیر کشمالہ نے فون بند کر دیا اور اٹھ کھڑی ہوئی زہرا بھی ساتھ ہی اٹھ گئی
مہرین کو کوئی فرق نہ پڑا وہ بڑے آرام سے ناشتہ کرتی رہی
لیکن کشمالہ کو اٹھتا دیکھ جہانزیب بول پڑا
بیٹھو کشمالہ آواز میں سختی تھی کشمالہ نا چاہتے ہووے بھی بیٹھ گئی زہرا بھی واپس بیٹھ گئی
مہرین یہ میری ذمےداری ہیں میں انہیں اکیلا نہیں جانے دے سکتا جہانزیب نے مہرین کو دیکھتے ہووے حتمی انداز میں کہا مہرین چپ ہو گئی وہ اسکا حتمی انداز سمجھتی تھی
اور اپ کشمالہ اگر آپکو یاد ہو تو آپکی دادی نے کہا تھا کے میں آپکو اکیلے کہیں نا جانیں دوں لہٰذا اپ چپ کر کے ناشتہ کریں اور یہ یاد رکھئے گا کہ اپ صرف میرے ساتھ ہی باہر کہیں گھومنے جا سکتی ہیں اپ نتھیا گلی جانا چاہتی ہیں تو ٹھیک ہے نتھیا گلی ہی چلیں گے جہانزیب نے پیار بھری نظر اس پر ڈال کر کہا
مہرین جہانزیب کی اچھی دوست تھی اور کزن بھی اس لئے وہ اسے اہمیت دیتا تھا پر وہ اس کے لئے کشمالہ سے بڑھ کر نہیں تھی
یہی بات اس پل مہرین نے بھی محسوس کی وہ پہلے کہاں اسکی بات جھٹلاتا تھا پر شاید کشمالہ اسکے لئے خاص تھی جلن کی آگ کی پہلی چنگاری اسکے اندر بھڑک اٹھی تھی بعض دفع جلنے کے لئے آگ کی ضرورت نہیں ہوتی محض ایک چھوٹی سی چنگاری بھی جلا ڈالتی ہے
————————————————————
وہ چاروں نتھیا گلی پہنچ چکے تھے
نتھیا گلی اس وقت سفید لباس پہنے ہوے تھی لمبے لمبے درخت اپنے اوپر سفید چادر اوڑھے کھڑے تھے
یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہ درخت نہیں لڑکیاں ہوں جو سردیوں میں یہ سفید چادر اوڑھ لیتی ہوں اور گرمیوں میں یہ چادریں اتار کر پھر اپنے سبز لباس پہن لیتی تھیں آخر اتنی گرمی میں چادر کون اوڑھے
کشمالہ سوچتی تھی کہ نتھیا گلی کوئی گلی ہوگی جو کافی لمبی ہوگی پر یہاں آ کر اسے پتا چلا تھا کے نتھیا گلی صرف گلی نہیں تھی بلکہ ایک پوری وادی تھی یہاں اس ٹھنڈ میں بھی رونقوں کا میلہ لگا تھا
کشمالہ کو یہ جگہ بہت پسند آیی تھی ہر طرف برف ہی جمی ہوئی تھی
سنیں محترمہ میرے ساتھ ایک مقابلہ کریں گی دانش نے زہرا سے پوچھا تھا
آج وہ دانش سے کم ہی لڑ رہی تھی کل کے مقابلے میں آج اس کا رویہ دانش کے ساتھ بہتر تھا اور یہ بات دانش کو خوش کر رہی تھی
کیسا مقابلہ زہرا نے پوچھا
ہم برف میں سنومین بنائیں گے جس کا سنو مین اچھا ہوا وہ جیت جائے گا اور جو ہارا اسے جیتنے والے کو کوئی تحفہ دینا پڑے گا
واہ اچھا گیم ہے میں بھی کھیلوں گی کشمالہ نے فوراً کہا
میں بھی’جہانزیب نے بھی کہا تھا
شہزادے کو کیھل میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اسے تو بس اپنی شہزادی کا ساتھ دینے میں دلچسپی تھی
اف کتنا فضول گیم ہے کوئی تحفہ لینا ہے تو یونہی کہ دو اس سردی میں ہاتھ جمانے کی کیا ضرورت ہے مہرین نے سردی کی شدت سے ہاتھ رگڑے
اچھا ٹھیک ہے تم نہ کیھلو تم بس فیصلہ کرنا کہ کس کا سنو مین اچھا بنا ہے جہانزیب نے نرمی سے کہا
وہ سر ہلا کر پاس پڑے بینچ پر بیٹھ گئی
ایک مقابلہ زہرا اور دانش میں تھا اور دوسرا جہانزیب کو اور کشمالہ میں
ایک مؤقابلے میں کوئی تحفہ دینا چاہتا تھا تو دوسرے میں کوئی لینا چاہتا تھا
دانش زہرا کو کوئی تحفہ دینا چاہتا تھا ویسے تو وہ لیتی نہ اس لئے اس نے یہ طریقہ سوچا تھا کے وہ خود ہار جائے گا اور پھر زہرا کو اسکا دیا تحفہ لینا پڑے گا
اس لئے اپنی طرف سے بہت برا سنو مین بنا رہا تھا پر اسکا بہت برا سنو مین بھی زہرا کے بناے سنو مین سے اچھا ہی لگ رہا تھا
دانش کو غصہ انے لگا تھا آخر اتنی محنت لگتی ہے برا سنو مین بنانے میں بھی پر نہ جی لگتا تھا زہرا کو برا ترین سنو مین بنانے کی کافی پریکٹس تھی
دانش سے برداشت نہ ہوا آخر بول ہی پڑا پلیز محترمہ زیادہ نہیں پر تھوڑا سا تو اچھا بنا لیں
زہرا شرمندہ سی ہو گئی دانش نے زہرا کا یہ روپ پہلی بار دیکھا تھا پہلے اسے زہرا صرف پسند تھی پر اب شائد اسے زہرا سے محبت ہو گئی تھی
وہ وہی دانش تھا جس نے کبھی کسی لڑکی کو غلط نظر سے نہیں دیکھا تھا لڑکیاں اسکی توجہ حاصل کرنے کے لئے کیا کچھ نہ کرتی تھیں پر اس نے کبھی انکو اہمیت نہیں دی تھی وہ اسی جاگیردار خاندان سے تھا جہاں لڑکیوں کو ہمیشہ دبا کر رکھا جاتا تھا
پر آج وہ یہاں ایک لڑکی سے ہارنے کے لئے موسلسل پچھلے پندرہ منٹ سے برف میں ہاتھ مار رہا تھا یہ محبت ہی تو تھی جو اس سے یہ سب کروا رہی تھی
یہی محبت دوسری طرف شہزادے کو اپنی شہزادی سے جیتنے پر مجبورکر رہی تھی وہ جانتا تھا ایک اگر وہ جیتا تو اسکی شہزادی دکھی نہیں ہوگی بلکہ اپنی ہار بھلا کر اسکی جیت میں خوش ہو جائے گی
اف محبت کے نت نئے انداز کسی کو جیتنے پر مجبور کر رہی تھی تو کسی کو ہارنے پر
مقابلہ آخر کار ختم ہو گیا مہرین کو زہرا اور دانش دونوں کے بناے سنو مین پسند نہیں اے تھے اور اس نے کہ بھی دیا تھا
چننا مشکل ہو رہا ہے کے کس کا اچھا ہے کیوں کے دونوں کے ہی بہت برے ہیں پر خیر زہرا کا بہتر ہے مہرین نے کہا
زہرا تو بہتر ہے سن کر غصے سے لال ہو گئی پر دانش تو یوں خوش ہوا جیسے جیت اسی کی ہوئی ہو زہرا کو دانش تھوڑا پاگل ہی لگا آخر ہارنے پر اتنا خوش کون ہوتا ہے
پھر مہرین نے جہانزیب کے طرف رخ کیا واہ جہانزیب تم نے تو بہت خوبصورت سنو مین بنایا ہے اس نے تعریف کی
کشمالہ کا بس ٹھیک ہی ہے میں اس سے بہتر بنا سکتی تھی تمہارے مقابلے میں مجھے ہی ہونا چائیے تھا کشمالہ کو مہرین کی بات بلکل اچھی نہ لگی اور وہ چپ کر کے زہرا اور دانش کی طرف آ گئی
اہ شائد اسے تمہارا جیتنا پسند نہیں آیا مہرین نے کشمالہ کو جاتے دیکھ کر کہا
نہیں اسے تمہاری بات پسند نہیں ایی اسکا سنو مین اتنا اچھا بنا تھا تمھیں اسے یوں نہیں کہنا چائیے تھا جہانزیب نے کہا اور چلتا ہوا کشمالہ کی طرف آ گیا
مہرین وہاں اکیلی کھڑی رہ گئی باہر شدید سردی تھی پر اسکے اندر جلن کی آگ بھڑک رہی تھی یا تو یہ آگ خود اسے ہی جلانے والی تھی یا پھرکشمالہ کا نقصان ہونا تھا
آگ کو بھڑکانے والا خود کو اسکا مالک سمجھ بیٹھتا ہے کے وہ جسے چاہے گا آگ اسے ہی جلاے گی پر وہ یہ بھول جاتا ہے کہ آگ جب ایک دفع بھڑک اٹھتی ہے تو وہ اپنے مالک کو نہیں پہچانتی وہ جہاں تک جاتی ہے صرف تباہی مچاتی ہے اب چاہے وہ تباہی اسکے جلانے والے کے مقدر میں اے یا چاہے کسی اور کے وہ یہ نہیں دیکھتی
ہاں محترمہ تو بتائیے کیا تحفہ چاہیے آپکو دانش نے پوچھا
جو دل چاہے دیدو مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا زہرا نے کہا
زہرا کو بندر بڑے پسند ہیں اسے اک بندر ہی دے دو تحفے میں کشمالہ نے مشورہ دیا
دانش نے قہقہ لگایا جبکہ زہرا نے کھا جانے والی نظروں سے کشمالہ کو گھورا
کشمالہ نے ان دونوں کو ایسے ہی چھوڑا اور خود تھوڑی دور لگی ایک گرل کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی نیچے بہت سے درخت سفید چادر اوڑھے کھڑے تھے کشمالہ انہیں ہی دیکھتی رہی
اسے تھوڑی دیر بعد جہانزیب اپنی طرف آتا دکھائی دیا
مبارک ہو جہانزیب اپ جیت گئے جہانزیب کے قریب اتے ہی اس نے سادگی سے کہا اور نظریں پھر نیچے درختوں پر جما لیں
جہانزیب نے بھی اپنے ہاتھ گرل پر ٹکا دیے اور مسکرا کر کہا میں نہیں ہم جیت گئے کشمالہ
کشمالہ کی نظروں نے فوراً ہی ان درختوں سے لے کر جہانزیب کی ہیزل براؤن آنکھوں تک کا سفر کیا تھا
وہ حیرانی سے جہانزیب کو دیکھ رہی تھی جو کہ ابھی بھی نیچے ہی دیکھ رہا تھا
کیا یہ کوئی اقرار تھا کشمالہ سمجھ نہ پائی
کیا شہزادی کا انتظار ختم ہونے والا تھا کیا وادی جو اظہار سننے کی منتظر تھی کچھ سننے والی تھی
جہانزیب اپنے چہرے پر کشمالہ کی حیران نظریں محسوس کر رہا تھا
اس نے اپنی نظروں کا رخ موڑا اب ہیزل براؤن آنکھیں ان سیاہ آنکھوں پر ٹکی تھیں
کشمالہ تمھیں معلوم ہے نا کہ تم میرے لئے خاص ہو شہزادے نے اپنی شہزادی کو اقرار کی پہلی سند تھمائی
شہزادی خود کو ہواؤں میں اڑتا محسوس کر رہی تھی وادی کو بھی شہزادے کے اقرار نے مہکا دیا تھا
تمھیں معلوم ہے نا کہ جہانزیب ملک کے لئے کشمالہ سلیمان ضروری ہے اتنی ہی ضروری جتنی ایک پھول کے لئے خوشبو اتنی ضروری جیسے اک قلم کے لئے سیاہی یا اتنی ہی ضروری جیسے اک جسم کے لئے جان
شہزادے نے شہزادی کو دوسری سند تھمائی
دور کہیں آسمان پر گرج کی آواز ائی لیکن شائد یہ گرج کی آواز نہیں تھی یہ تو شاد وادی نے شہزادی کی کامیابی پر تالیاں بجائی تھیں
کشمالہ سلیمان تمھیں معلوم ہے نا کہ جہانزیب ملک تم سے شدید محبت کرتا ہے
اور یہ رہی شہزادے کی طرف سے شہزادی کے لئے تیسری سند
پوری وادی جھوم اٹھی یوں لگتا تھا برف کا ذرا ذرا خوشیاں منا رہا ہے شہزادی کی کامیابی پر
کشمالہ اب مزید ان آنکھوں میں نہیں دیکھ سکتی تھی جتنی تیزی سے نظروں نے ان آنکھوں تک کا سفر کیا تھا اتنی ہی تیزی سے وہاں واپس پلٹی تھیں جہاں سے وہ ایں تھیں
کشمالہ تمھیں معلوم ہے نہ یہ سب جہانزیب نے اسے دیکھ کر کہا
جی مجھے معلوم ہے سب اسنے گردن جھکا کر کہا
تمھیں معلوم تھا لیکن پھر بھی تم مجھ سے سننا چاہتی تھی ہے نا جہانزیب نے پوچھا
جی میں سننا چاہتی تھی
اور اگر میں نہ کہتا تو تم کیا کرتی جہانزیب نے پھر پوچھا
تو میں انتظار کرتی جب تک کہ اپ کہ نہ دیتے
اور اگر میں کبھی نہ کہتا تو جہانزیب نہ جانے اس سے کیا سننا چاہ رہا تھا
تو میں خود ہی کہ دیتی کشمالہ نے جھکا سر مزید جھکا کر کہا جہانزیب کو اس ادا پر خوب پیار آیا
کیا کہ دیتی اس نے شرارت سے پوچھا
یہی جو اپ نے کہا ہے
میں نے کیا کہا ہے ہونٹوں پر ایک شریر مسکراہٹ لئے جہانزیب نے پوچھا
اف جہانزیب اپ بھی نا کشمالہ نے اس دفع سر اٹھا کر اسے کہا تھا
جہانزیب ہنسنے لگا کشمالہ نے پھر سر جھکا لیا
ایک دفع پھر تالیوں کی آواز گونجی پر اس دفع تالیاں وادی نے نہیں بلکہ دانش اور زہرا نے بجائیں تھی
جہانزیب اور کشمالہ نے چونک کر انہیں دیکھا وہ دونوں نجانے وہاں کب آے تھے اور اب کھڑے مسکرا رہے تھے
ارے واہ کشمالہ تم تو بڑی تیز نکلی اتنی جلدی جہانزیب کو پھنسا لیا اور اظہار بھی کروا لیا زہرا نے شرارت سے کہا
کشمالہ شرمندہ سی ہوگئی جہانزیب کھڑا مسکراتا رہا
واہ محترمہ کیا خوب لوفرانہ گفتگو کرتی ہیں اپ
زہرا کو شرمندگی ہوئی وہ انکی مجودگی کو فراموش کر گئی تھی پھر شرمندگی مٹانے ک لئے بولی میں اپنی دوست سے بات کر رہی ہوں مسٹر اپ چپ رہئیے دانش مسکرا دیا
اور نظریں زہرا پر جما کر ایک حسرت سے کہا کاش کوئی ہمیں بھی پھسا لے ہم تو کب سے پھسنے کے لئے تیار ہیں
ہنہ لوفر زہرا نے کہا اور باقی سب مسکرا دیے
ان خوشیاں مناتے لوگوں سے تھوڑا دور ایک شخص غمگین بھی کھڑا تھا جس کے مقدر میں صرف جلن کی آگ اور یک طرفہ پسنددیدگی ہی آئی تھی
————————————————————–
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...