اب دو بالکل ذاتی واردات یا شخصی حادثات کو لیجئے۔ ایک کا بیان۔۔۔۔ کی گود میں بلی دیکھ کر میں ہے اور دوسرے کا ’’ پھول کا تحفہ عطا ہونے پر‘‘ میں دونوں مختصر نظمیں ہیں اور کسی حسین کی شادکامی اور شاعر کی محرومی پر مشتمل ہیں۔ لیکن دونوں کا فنی برتاؤ اور شعری تاثر یکساں ہے۔ برتاؤ یہ ہے کہ واقعات کے پیچھے اور۔۔۔۔۔ان سے پیدا ہونے والے مضمرات و احساسات کی تصویر کشی ایک فلسفیانہ نگاہ سے بالکل شاعرانہ انداز میں کی گئی ہے اور اس مقصد کے لئے پیکر تراشی کے ساتھ ساتھ مربوط ارتقائے خیال کے بعد بالکل آخر میں نتائج نکالے گئے ہیں چنانچہ اس برتاؤ کا تاثر حسن و حزن اور ایک آگہی کا ارتعاش ہے۔ پہلی نظم میں ایک حسین کے آغوش میں مچلتی ہوئی بلی کی تصویر کھینچ کر ادائے حسن اور احساس عشق کی شوخیاں دکھائی گئی ہیں، جبکہ دوسری دست حسن کی گل چینی اور گل عاشق کی نامرادی کا نقشہ پیش کرتی ہے حسن کے تعلق سے شاعر کا جذبہ عشق کبھی بلی کی تصویر کھینچ کر ادائے حسن اور احساس عشق کی شوخیاں دکھائی گئی ہیں جبکہ دوسری دست حسن کی گل چینی اور گل عاشق کی نامرادی کا نقشہ پیش کرتی ہے۔ حسن کے تعلق سے شاعر کا جذبہ عشق کبھی بلی سے رقابت محسوس کرتا ہے، کبھی پھول سے اور دونوں صورتوں میں رشک محرومی اور اس کے سبب آگہی کا باعث ہوتا ہے یہ رومانیت کا فلسفہ بھی ہے اور فلسفے کی رومانیت بھی۔
حسن و عشق کے رومانی موضوع پر زیر بحث ابتدائی دور اور اس کے مجموعہ کلام بانگ درا میں چند قابل ذکر نظمیں یہ ہیں:
درد عشق، دل، محبت، حقیقت حسن، حسن و عشق، وصال، جلوۂ حسن، عاشق ہرجائی، فراق، پیام
حقیقت حسن کا مفہوم اس کی ابتدا و انتہا کے دو اشعارے ہی واضح ہے
خدا سے حسن نے اک روز یہ سوال کیا
جہاں میں کیوں نہ تو نے مجھے لازوال کیا
٭٭٭
چمن سے روتا ہوا موسم بہار گیا
شباب سیر کو آیا تھا سوگوار گیا
اس خوبصورت نظم میں جو ایک حسین شکل کا تناسب اعضا رکھتی ہے حسن کو عارضی دفانی قرار دیا گیا ہے جبکہ ’’ جلوہ حسن‘‘ میں دنیا میں حسن کے وجود ہی پر شبہ ظاہر کیا گیا ہے:
آہ! موجود بھی وہ حسن کہیں ہے کہ نہیں؟
خاتم دہر میں یا رب وہ نگیں ہے کہ نہیں؟
اس کے باوجود ’’ حسن و عشق‘‘ اور وصال جیسی جمالیاتی نظموں میں نہ صرف یہ کہ وجود حسن اور اس کی زیبائی و رعنائی کا اقرار و اثبات ہے بلکہ اس کے ساتھ عشق کے وصال کی ولولہ خیز اور خیال انگیز تصویریں پیش کی گئی ہیں۔ لیکن ’’ فراق‘‘ اور ’’ پیام‘‘ کا انداز مختلف ہے، دونوں کے آخری مصرعے بلاترتیب یہ ہیں:
اب نہ خدا کے واسطے ان کو مئے مجاز دے
(پیام)
٭٭٭
شب فراق کو گویا فریب دیتا ہوں
(فراق)
کیا عشق حقیقی کا عرفان عشق مجازی میں فراق سے حاصل ہوتا ہے۔ ’’ عاشق ہرجائی‘‘ حسن و عشق دونوں کے مختلف پہلوؤں اور ان کی متعدد تہوں کو پیش کر کے گویا اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کرتی ہے۔ اس نظم کے، جس میں شاعر کے جذبات و احساسات کا اعتراف ہے دوحصے ہیں پہلے میں شاعر اپنی طبیعت کو مجموعہ اضداد بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ اس کی ’’ ہستی کا ہے آئین تفضن پر مدار‘‘ یہی وجہ ہے حسن مجازی کے متعلق اس کے رویے میں اس تضاد و ابہام کی:
حسن نسانی ہے سجل تیری فطرت کے لیے
پھر عجب یہ ہے کہ تیرا عشق بے پرواہ بھی ہے
دوسرے حصے میں اس تضاد و ابہام کی توضیح و تطبیق اس طرح ہوتی ہے:
گو حسین تازہ ہے ہر لحظہ مقصود نظر
حسن سے مضبوط پیمان وفا رکھتا ہوں میں
بہ گویا نظم کے عنوان و موضوع ’’ عاشق ہرجائی‘‘ کی تشریح ہے۔ اس تشریح کو اگر بالکل مادی و جسمانی معنے میں لیا جائے تو ’’ ہرجائی‘‘ کا لفظ ہی ایک رسوائے زمانہ مفہوم رکھتا ہے۔ اور وہ بیان منطبق ہو جائے گا، لیکن پوری نظم کا کلیدی شعر جو اس کے اصل مطلب کی طرف صریح اشارہ کرتا ہے، یہ ہے:
دل نہیں شاعر کا، ہے کیفیتوں کی ر ستخیز
کیا خبر تجھ کو، درون سینہ کیا رکھتا ہوں میں
دل کی رستخیز ہی حسن و عشق کا اصل معاملہ ہے جس پر پوری روشنی ’’ دل‘‘ کے خیال انگیز نکات سے پڑتی ہے۔ نظم شروع ہوتی ہے اس معنی خیز بیان سے:
قصہ دار و رسن بازی طغلانہ دل
التجائے آرنی سرخی افسانہ دل
دل کا حسن سے کیا تعلق ہے اور اس صورت میں حسن و عشق دونوں کے معانی کیا ہوتے ہیں؟ اس سوال کے جواب کی طرف اشارہ یہ اشعار کرتے ہیں:
حسن کا گنج گراں مایہ تجھے مل جاتا
تو نے فرہاد! نہ کھودا کبھی ویرانہ دل
عرش کا ہے کبھی کعبہ کا ہے دھوکا اس پر
کس کی منزل ہے الٰہی! مرا کاشانہ دل
اس کے فوراً بعد یہ شعر نہایت معنی خیز اور خیال آفریں ہے:
اس کو اپنا ہے جنوں اور مجھے سودا اپنا
دل کسی اور کا دیوانہ، میں دیوانہ دل
شاعر کیوں دیوانہ دل ہے اور دل کس کا دیوانہ ہے؟ یہ بڑے مشکل سوالات ہیں جن کے جواب کا تجسس کرنا عبث ہے اور پتے کی بات صرف یہ ہے:
عشق کے دام میں پھنس کر یہ رہا ہوتا ہے
برق گرتی ہے تو یہ نخل ہرا ہوتا ہے
لیکن ’’ درد عشق‘‘ (نظم) عصر حاضر میں یہ ہے کہ:
پنہاں تہ نقاب تری جلوہ گاہ ہے
ظاہر پرست محفل نو کی نگاہ ہے
چنانچہ نظم ان دو شعروں پر ختم ہوتی ہے:
یہ انجمن ہے کشتہ نظارۂ مجاز
مقصد تری نگاہ کا خلوت سرائے راز
ہر دل مئے خیال کی مستی سے چور ہے
کچھ اور آج کل کے کلیموں کا طور ہے
مجاز ہو، یا حقیقت، دونوں صورتوں میں ’’ محبت‘‘ (نظم) کے اجزا و اثرات یہ ہیں:
چمک تارے سے مانگی چاند سے داغ جگر مانگا
اڑائی تیرگی تھوڑی سی شب کی زلف برہم سے
تڑپ بجلی سے پائی، حور سے پاکیزگی پائی
حرارت کی نفس ہائے مسیح ابن مریم ؑ سے
ذرا سی پھر ربوبیت ہے شان بے نیازی لی
ملک سے عاجزی، افتادگی تقدیر شبنم سے
پھر ان اجزا کو گھولا چشمہ حیواں کے پانی میں
مرکب نے محبت نام پایا عرش اعظم سے
مہوس نے یہ پانی ہستی نوخیز پر چھڑکا
گرہ کھولی ہنر نے اس کے، گویا کار عالم سے
ہو جنبش عیاں، ذروں نے لطف خواب کو چھوڑا
گلے ملنے لگے اٹھ اٹھ کے اپنے اپنے ہمدم سے
خرام ناز پایا آفتابوں نے، ستاروں نے
چٹک غنچوں نے پائی داغ پائے لالہ زاروں نے
یہ حسن و عشق دونوں کا آفاقی تصور ہے جس میں نہ روال کا سوال ہے نہ فراق و وصال کی کش مکش کا، اس کا وصال بھی ایک فراق ہے اور فراق ایک وصال۔ اس تصور پر مبنی نہ تو حسن کو زوال ہے نہ عشق کو، نہ تو یہ حسن محدود ہے نہ عشق، فطرت ہو، انسانیت ہو، کسی کے بھی مناظر و مظاہر کی اپنی کوئی اصلیت نہیں، یہ سب پردۂ مجاز ہیں جس کے پیچھے ایک بسیط، ہمہ گیر، ازلی اور ابدی حقیقت پوشیدہ ہے۔ اور جب تک یا جس حد تک اس کی کشش موجود اور باقی ہے تمام مناظر و مظاہر کی آب و تاب برقرار ہے۔ لہٰذا عشق کا اظہار جس شکل میں ہو حسن کا اصلی و حقیقی مطح نظر سامنے رہنا چاہئے، تب ہی عشق میں گہرائی بھی آئے گی اور گیرائی بھی۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ حسن و عشق کے رومانی تصور میں بھی اقبال کی فلسفیانہ نظر کار فرما ہے اور ان کا ذہن اپنے جذبے کے عناصر اور حقائق دونوں کا تجزیہ کر رہا ہے۔