جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا بسمہ کی ٹینشن تو بڑھ ہی رہی تھی مگر ساتھ ہی وہ بہت خوابناک اور رومانوی سا محسوس کر رہی تھی تھی۔ پہلی بار باسط کو قریب سے دیکھے گی۔ منگنی سے ایک رات پہلے دادی کے سونے کے بعد خاموشی سے الماری میں سے باسط کی تصویر نکالی۔ آج وہ کسی ٹینشن کے بارے میں سوچنا ہی نہیں چاہتی تھی۔ وہ دوبارہ اپنے انہی رومانوی خیالات میں کھو جانا چاہتی تھی جو پچھلے دو سال سے اس کی رات کی مصروفیت تھے۔ وہ شکر ادا کر رہی تھی کہ باسط دیکھنے میں کافی پرکشش تھا۔ اور رنگ بھی گندمی مگر نکھرا نکھرا لگ رہا تھا۔ وہ پوری رات خیالوں میں باسط سے ہی باتیں کرتی رہی۔ منگنی کی ایکسائٹمنٹ میں نیند ہی نہیں آرہی تھی۔ ان چند اہم دنوں میں سے ایک دن جو لڑکی کی زندگی کے اہم ترین دن کہے جاتے ہیں۔ منگنی شادی اور ۔۔۔۔۔۔اس سے آگے کا سوچنے سے پہلے ہی شرم سے اس کے کان کی لوئیں تک اسے گرم محسوس ہونے لگیں۔ بالکل نا چاہتے ہوئے اسے خیال آیا کیا گل بانو کو بھی یہی سب محسوس ہوا ہوگا جب اسے پتا چلا ہوگا کہ اس کی شادی اس سے تین گنا بڑے شخص سے کی جارہی ہے۔ اس کی جذبات اتنی تیزی سے بدلے اسے خود بھی اندازہ نہیں ہوا۔ ایک آنسو چپ چاپ آنکھ سے نکل کر تکیے میں چھپ گیا۔ رات اتنی گزر گئی تھی اسے پتا ہی نہیں چلا دماغ پہ غنودگی محسوس ہورہی تھی۔ اسے احساس ہوا کہ برابر کے بیڈ پہ سے دادی اٹھی ہیں اور پھر ایکدم ہی کسی نے زور سے ہلایا۔
“بسمہ اٹھو گھر پہ کام پڑا ہے اور یہ محترمہ آدھا دن گزرنے کے باوجود سوئے جارہی ہیں۔”
یہ امی تھیں۔ وہ ہڑبڑا کے اٹھی۔ کچھ دیر تک تو اسے سمجھ نہیں آیا کہ ہوا کیا ابھی تو فجر ہوئی ہوگی۔ مگر کمرے سے باہر چہل پہل اور روشنی دیکھ کے اندازہ ہوا کہ دن نکل آیا ہے اور سب جاگ گئے ہیں۔ تب اسے اندازہ ہوا کہ دادی کے اٹھتے وقت ہی وہ شاید سو گئی تھی۔
اس پہ ایک دم عجیب سے گھبراہٹ طاری ہوگئی۔ آج شام اس کی منگنی ہے اس کا نام جزوی طور پہ ایک ایسے شخص کے ساتھ جڑ جائے گا جسے اس نے ابھی تک اصل میں دیکھا تک نہیں۔
پورا دن عجیب ہلچل سی رہی۔ ایسا لگتا تھا سب عجلت میں ہیں ہر کوئی اپنی اپنی اور الگ الگ بات کہہ رہا تھا۔ ہر ایک کا کام الگ تھا اور ہر ایک کو لگ رہا تھا کہ بس اسی کا کام سب سے اہم ہے۔ گھر کی چھت پہ ہی تقریب کا انتظام کروایا جارہا تھا۔ قناتیں،کرسیاں، ٹیبلیں، قالین صبح سے ہی نیچے چھوٹے سے صحن میں لا کر جمع کردیئے گئے تھے۔ بڑے بھیا کو لگ رہا تھا صرف وہی کام کر رہے ہیں باقی سب بس وقت ضائع کر رہے ہیں۔ حالانکہ وہ صرف شور مچارہے تھے کام سب ڈیکوریشن والے کر رہے تھے۔ اسد کو بار بار باہر کے کاموں کے لیئے دوڑایا جارہا تھا کبھی ہار اور پتیاں منگوانے کبھی مٹھائی منگوانے کبھی پیکو کے لیئے دیا ہوا دوپٹہ منگوانے۔ وہ جب کوئی کام کر کے آتا بھیا اسے ڈانٹتے کہ وہ اکیلے لگے ہوئے ہیں اور وہ گھومنے پھرنے میں لگا ہوا ہے۔ کوئی 5 بجے کے قریب آخر اسد کی بھی برداشت جواب دے گئی۔ گھر کی خواتین کو تب اندازہ ہوا جب باہر سے ایک دم جھگڑے کی آوازیں آنے لگیں۔
“آخر آپ کرتے کیا ہیں سوائے بیٹھے بیٹھے حکم چلانے کے اور شور مچانے کے۔ مجھے بسمہ نا سمجھیں جسے آپ کچھ بھی کہہ لیتے ہیں اور وہ خاموشی سے سن لیتی ہے۔ مجھ سے بات کرتے ہوئے سوچ سمجھ کے بولا کریں میں بھی اسی گھر کا مرد ہوں”
“ہیں ہیں ہیں لڑکے بڑے بھائی سے کوئی ایسے بات کرتا ہے۔ باپ کی جگہ ہوتا ہے بڑا بھائی” دادی اسد کی طرز تخاطب پہ حیران تھیں۔
“آپ کیا ٹوک رہی ہیں اسے آپ لوگوں کی ہی دی ہوئی ڈھیل ہے جو یہ میرے منہ آرہا ہے۔ میں سارا دن گدھے کی طرح خوار ہوتا ہوں تو ان صاحب کے عیش پورے ہوتے ہیں اور اب یہ مجھے آنکھیں دکھا رہا ہے۔” بھیا کی آواز اتنی بلند تھی کے اردگرد کے لوگ اپنی چھتوں پہ آگئے تھے کچھ لوگ گھر کے دروازے سے اندر جھانکنے کی کوشش کر رہے تھے۔
“یعنی آپ جو بولتے رہیں میں چپ کر کے سنتا رہوں؟ صبح سے دس چکر لگائے ہیں کام کے لیئے صرف اسی لیئے کہ ان کے ساتھ کام بانٹ سکوں۔ مگر ہر بار ان کے طعنے ہی نہیں ختم ہوتے۔کما کے لاتے ہیں تو احسان نہیں کرتے ہم پہ ہم سے بھی چاکری کرواتے ہیں اپنی۔ ان کی چالیس ہزار کی تنخواہ میں سے گھر پہ آدھی بھی خرچ نہیں ہوتی۔ میری کوئی فیس کبھی انہوں نے نہیں بھروائی۔ کپڑے جوتے کچھ بھی اس میں سے کس پہ خرچہ کرتے ہیں جو اتنا جتاتےہیں”
“بس کرو اسد گھر میں کام پڑا ہے اور تم بڑے بھائی سے بحث کرنے میں لگے ہو۔ چلو اندر بس ختم کرو” امی کھینچ کر اسد کو اندر لے گئیں۔
اسد اور بھیا کی تھوڑی بہت بحث بازی چلتی ہی رہتی تھی۔ مگر آج کا جھگڑا بہت بڑھ گیا تھا۔ بھیا کا چہرہ غصے سے لال ہورہا تھا۔ بسمہ کو ڈر لگنے لگا کہ اگر امی اسد کو اندر نا لے جاتیں تو وہ اسد کو ایک دو تھپڑ لگا ہی دیتے۔ خیر جب تک وہ کچھ چھوٹا تھا تو پٹتا ہی تھا مگر کچھ عرصے سے جس طرح وہ تن کے انہیں جواب دینے لگاتھا تو بھیا بھی اب صرف زبانی طنز پہ اکتفا کرتے تھے۔ گھر کا ماحول اور کشیدہ ہوگیا۔
بیوٹیشن نے آکر گھر پہ ہی بسمہ کا میک اپ کردیا۔ بسمہ تیار ہوتی رہی اور دل ہی دل میں اس کے دماغ میں کئی ماڈلز کی دلہن بنی ہوئی تصویریں آگئیں بسمہ کو یقین تھا کہ وہ بھی دلہن بن کے بہت پیاری لگے گی۔ بیوٹیشن نے اپنا کام نپٹایا بسمہ کا چہرہ آئینے کے دوسری طرف تھا اتنی دیر میں بشرہ آپی اندر آئیں
“ہائے اللہ بسمہ میری گڑیا کتنی پیاری لگ رہی ہو ماشاءاللہ ” انہوں نے آگے بڑھ کے فورا اس کے سر پہ پیار کیا۔ بسمہ ہلکے سے مسکرائی اس نے آہستہ سے مڑ کے خود کو آئینے میں دیکھا
“یہ میں ہوں؟۔۔۔۔۔۔” اس کے سامنے ایک موٹے ہونٹوں والی سفید چہرے کی ایک پچیس تیس سال کی عورت نما دلہن کھڑی تھی۔
“آپی بیس بہت وائٹ نہیں ہوگیا؟ ”
اس نے ہچکچاتے ہوئے کہا
“ارے نہیں گڑیا برائڈل میک اپ ایسا ہی ہوتا ہے کیمرے میں اچھی آتی ہیں تصویریں۔”
بسمہ خاموش ہوگئی۔ کچھ دیر بعد ہی خاندان والے آنے لگے ہر کزن جس نے کبھی بسمہ سے سیدھے منہ بات بھی نا کی ہو وہ بھی اس کے روم میں آکر ایسے مل رہی تھی جیسے اس سے زیادہ قریبی دوست اور کوئی نہیں۔ سب سے پہلے تو عموما یہی تعریف کرتیں بسمہ کتنی پیاری لگ رہی ہو ویسے تو ماشاءاللہ ہو ہی پیاری۔ بسمہ کچھ کنفیوز سی تھی اسے ایسے ٹریٹ کیا جارہا تھا جیسے وہ کوئی جہاد جیت کے آئی ہے۔ ہر مہمان اس کا سگا بننے کی کوشش میں تھا۔ خواتین اپنے روتے بسورتے بچے لارہی تھیں آو دلہن دکھائیں آپ کو بھی دلہن چاہیئے یہ والی، پیاری ہے نا۔ وغیرہ وغیرہ۔ دولہا والوں کے آنے کا وقت گزارنا عذاب لگنے لگا تھا۔
آخر خدا خدا کر کے دولہا والے آئے بسمہ کے گرد لگا مجمع ایک دم سے چھٹ گیا سب عورتیں دولہا کو دیکھنے باہر چلی گئیں۔ بسمہ کے کمرے کے دروازے پہ پردہ ڈلا ہوا تھا اور بلکل ذرا سا کھلا ہوا تھا ہوا سے کبھی اور کھل جاتا اور کبھی بالکل بند ہوجاتا۔
مین گیٹ سے باسط کے گھر کی خواتین اندر آتی نظر آرہی تھیں ان پہ ایکسٹرا روشنی لگ رہی تھی جس سے اندازہ ہورہا تھا کے آگے مووی والا بھی ہے۔ وہیں سے تھوڑا ٹرن لے کر وہ سب چھت ک طرف جاتی سیڑھیوں پہ جارہی تھیں۔ پیچھے پیچھے مٹھائیوں کے ٹوکرے اٹھائے کچھ لڑکے اور اس کے پیچھے اندازہ ہورہا تھا باسط ہوگا کیوں کہ مووی والا ایکدم سے آگے آگیا اور ایسے اینگل پہ کھڑا ہوگیا کہ پردے کے بیچ موجود ذرا سی جگہ کے سامنے مووی والا آگیا تھا اور باقی سب اس کے پیچھے چھپ گئے۔ وہ کافی دیر کھڑا مووی بناتا رہا اور بسمہ کی آنکھیں پردے کی طرف رہیں آخر کار مووی کی لائٹس بند ہوئیں اور وہ سامنے سے ہٹا مگر سامنے خالی گیٹ بسمہ کا منہ چڑا رہا تھا۔ بسمہ کی دھڑکن ویسے ہی مسلسل تیز تھی اسے اور ٹینشن ہونے لگی۔ برابر بیٹھ کے کیسے دیکھوں گی۔وہ تھوڑی مایوس ہوگئی۔
ایک دم پردہ زیادہ کھلا اور فائزہ اندر آئی۔
“فائزہ بد تمیز یہ ٹائم ہے آ نے کا کب سے انتظار کر رہی تھی تیرا”
“ارے یار آئی ہوئی تو کافی دیر کی ہوں آنٹی والوں نے اوپر بھیج دیا تھا کہ اندر گرمی اور رش سے بسمہ کی طبیعت گھبرا رہی ہے”
“یہ لوگ اتنی عجیب حرکتیں کیوں کرتے ہیں باقی تو کسی کو نہیں روکا ابھی ابھی فوج گئی ہے یہاں سے۔”
“اچھا چھوڑ نا یہ بتا پتائی کس سے کرائی ہے سوری میک اپ کس سے کرایا ہے” فائزہ کی شرارت سمجھ گئی وہ
“سن فیس وائٹ ہورہا ہے نا بہت مجھے بھی یہی لگ رہا تھا آپی نے کہا برائیڈل میک اپ ایسا ہی ہوتا ہے”
” ہاں ہوتا تو ایسا ہی ہے ان کے پاس ایک ہی فارمولا ہوتا ہے جو یہ ہر چہرے پہ تھوپ دیتی ہیں ایج، فیس کٹ اور کومپلیکشن دیکھے بغیر. چل نا تو چل chill کر چند گھنٹوں کی بات ہے اصل میں تو تیرا وہی پیارا والا منہ ہے نا”
“مگر یار باسط تو یہی دیکھے گا نا ابھی”
“بے تکی باتوں پہ ٹینشن نا لے کچھ دیر کے خراب میک اپ سے کوئی کسی کی زندگیاں خراب نہیں ہوتیں۔ ویسے بھی صرف بیس زیادہ ہے باقی لگ تو پیاری ہی رہی ہے اور ریڈی ہوجا میں جارہی ہوں اوپر ، تھوڑی دیر میں تجھے بھی لے آئیں گے”
فائزہ کی باتوں سے وہ تھوڑا پرسکون ہوگئی اور واقعی کچھ ہی دیر بعد آپیاں اسے لینے آگئیں اور پیچھے کچھ دم چھلا ٹائپ کزنز بھی جو صرف مووی میں آنے کے شوق میں بسمہ کے ساتھ گھس گھس کے چل رہی تھیں۔
بسمہ آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھتی ہوئی اوپر آئی مووی والے کے پیچھے کچھ نظر نہیں آرہا تھا سیڑھیاں ختم ہوتے ہی مووی والے نے کچھ دیر کے لیئے فلیش لائٹس بند کردیں۔ بسمہ کو ایکدم لگا اندھیرا ہوگیا مگر آہستہ آہستہ کچھ کچھ منظر واضح ہوا سامنے ہی اسٹیج پہ باسط اپنی بہن اور امی کے ساتھ بیٹھا تھا اور اس پہ پہلی نظر پڑتے ہی بسمہ کی صبح سے تیز چلتی دھڑکن ایک دم تھم گئی۔
“یہ باسط ہے؟”
اسٹیج پہ گندمی سے ذرا زیادہ گہرے رنگ کا لڑکا بیٹھا تھا بال کالے ضرور تھے مگر کچھ روکھے۔ اور عمر بھی چھبیس سے زیادہ ہی لگ رہی تھی۔
کچھ لمحوں کے لیئے اسے سمجھ ہی نہیں آیا کہ ہوا کیا ہے۔ کیا بندہ بدل گیا؟ مگر یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ بشرہ آپی نے ہلکے سے ٹہوکا دیا۔ “چلو نا آگے۔”
وہ حیران سی ہی چل دی۔ جیسے جیسے قریب آتی گئی تو نقوش واضح ہوتے گئے۔ اسے اندازہ ہوا بندہ وہی ہے مگر تصویر میں زیادہ کمال شاید فوٹو گرافر کا تھا۔ جس نے برائٹنیس کا ظالمانہ استعمال کیا تھا۔عمر کافرق بھی اسی کمپیوٹر کے بےدریغ استعمال کا کمال لگ رہا تھا۔پہلے اس کو غصہ آیا مگر کچھ ہی دیر پہلے اپنا آئینے میں دیکھا سفید چٹا سراپا یاد آگیا۔
جب ہمیں ایک دوسرے کی اصلی شکل کے ساتھ زندگی گزارنی ہے تو اس دھوکے نما خرچے کی کیا ضرورت؟
باسط کی گہری کتھئی آنکھیں بغیر “کنٹراسٹ” کے کچھ پھیکی سی لگ رہی تھیں۔ اتنے میں اس کی بہن نے شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ اس کی توجہ اسٹیج پہ آتی بسمہ کی طرف دلائی۔ اس وقت آنکھوں میں در آنے والی چمک کا مقابلہ کمپیوٹر سے کیا ہوا کنٹراسٹ بھی نہیں کرسکا۔ مگر بسمہ کی توجہ اس کی رنگت پہ تھی۔ ارمغان بھی اس سے تو گورا ہی ہوگا۔ کیا دیکھا میرے گھر والوں نے؟
“اففف۔۔۔ بسمہ تیری منگنی ہورہی ہے اور تو کہاں کہاں خیالات کے گھوڑے دوڑا رہی ہے” اس نے دل ہی دل میں خود کو ڈانٹا۔
ساری رسم میں اس کے جذبوں پہ جمود سا طاری رہااورباسط کے چہرے پہ بہت شریر مسکراہٹ رہی خاص طور پہ جب اس نے انگوٹھی پہنانے کے لیئے بسمہ کا ہاتھ پکڑا اور بالکل خفیف سے سر جھکا کر بسمہ کی آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کی۔ بسمہ نے اپنے سرد تاثرات چھپانے کے لیئے سر اور جھکا لیا۔ اس کی حرکت کو فطری شرم سمجھا گیا اور اسٹیج پہ زنانہ و مردانہ قہقہے گونج گئے۔
رسم کے بعد کافی دیر تک تصویروں کا سیشن چلتا رہا پہلے اس کی اور باسط کی الگ تصاویر کھینچی گئیں۔ پھر دونوں طرف کے رشتہ داروں کے ساتھ تصاویر کا سلسلہ شروع ہوا۔ کچھ رشتہ دار اسٹیج سے اترنے کو تیار نہیں تھے اور کچھ اسٹیج پہ آنے کو تیار نہیں تھے۔ اسی کھینچا تانی میں تقریبا بارہ بج گئے باقی سب نے اسی دوران کھانا بھی کھا لیا۔ باسط کے لیئے بھی الگ ٹیبل پہ کھانا لگا دیا گیا۔ کھانا اس کے سامنے بھی لگا ہوا تھا مگر کسی کو ٹائم نہیں تھا کہ دو منٹ بیٹھ کے اسے کھانا کھلا دے۔ دوپہر میں بھی اس نے ذرا سا ہی کھانا کھایا تھا اب بھوک اور کمزوری سے ہاتھ پاوں سن ہورہے تھے۔ ایک دو دفعہ دل میں آئی کہ مہمانوں پہ لعنت بھیجے اور خود ہی نکال کے کھانا شروع کردے۔ مگر “لوگ کیا کہیں گے” کا سوچ کے خاموش بیٹھی رہی۔ آخر جب سب خواتین نے استیج خالی کردیا تو فائزہ کو موقع ملا اس کے پاس بیٹھنے کا۔ اس نے بسمہ کے لیئے تھوڑی سی بریانی نکالی۔
“فائزہ”
بسمہ نے ہلکے سے اسے آواز دی کہ کسی اور کو سنائی نا دے۔
“ہمم”
“تھوڑی اور نکال۔ مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے”
“یہ تو کھا لے دوبارہ نکال دوں گی”
فائزہ نے آہستہ آہستہ اسے کھلانا شروع کیا۔ ایک تو میک اپ میں کھل کے کھایا نہیں جارہا تھا وہ بھی کسی دوسرے کے ہاتھ سے۔ کہاں تو اسے لگ رہا تھا کہ وہ دو تین پلیٹیں بھر کے بریانی کھا جائے گی اور کھاتے کھاتے یہ حال ہوا کہ چار پانچ نوالوں کے بعد ہی اس نے فائزہ کو روک دیا
“بس یار اب نہیں کھایا جارہا۔ بریانی بالکل بھی اچھی نہیں ہے”
“بیٹا جی بریانی ٹھیک ہے تیرا موڈ اور دماغ خراب ہے” فائزہ نے بہت ہلکی آواز میں ٹوکا۔ بسمہ کے چہرے پہ پھیکی سے مسکراہٹ آئی۔
فائزہ کو اندازہ ہوگیا تھا کہ ایکدم اس کا منہ کیوں لٹک گیا ہے۔ اس موضوع پہ تفصیلی بات چیت اس نے کچھ دن بعد تک ٹال دی۔
******۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔******
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...