اب بتا بھی دو کہ کیا ہوا ہے جو منہ بنا کہ بیٹھی ہو۔۔ شفا جو کافی دیر سے حرمین کو ایک ہی پوزیشن میں بیٹھی دیکھ رہی تھی، اب جھنجھلا کہ سوال کر رہی تھی۔۔
یار وہ۔۔
آج گھر پر مبین چاچو کی دعوت ہے۔۔ تو اسی لیے میں امی سے جھوٹ بول کر یہاں آی ہوں۔۔ اسنے نظریں جھکا کر کہا۔۔
اووہ پھر تو تم نے یہاں آکر بہت اچھا کیا۔۔ شفا نے اطمینان سے کہا۔۔
ہاں۔۔ مگر امی سے جھوٹ بولنا پڑا یار۔۔ مجھے بہت برا لگ رہا ہے۔۔
ارے اس میں برا لگنے والی کوئی بات نہیں ہے۔ جس جھوٹ کی وجہ سے فساد ٹل جاے ایسا جھوٹ بولنے میں کوئی حرج نہیںں ہے۔۔ وہ اپنا فلسفہ سنانے لگی۔۔
ہاں شاید تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔۔ حرمیں نے کہا۔۔۔
ویسے مجھے تو اب تک یقین نہیں آرہا ہے کہ اصفر کی ڈیتھ ہوگئ ہے۔۔ بہت نائس لڑکا تھا وہ یار۔۔ مجھے تو تمھارا سوچ کر افسوس ہو رہا تھا۔۔ کیا گزر رہی ہوگی تم پر۔۔ وہ افسوس کا اظہار کر رہی تھی۔۔۔
شفا پلیز کوئی اور بات کرو نہ۔۔ اصفر کے ذکر پر حرمین کا منہ اتر گیا۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے مگر پہلے میں تمھارے کھانے کے لیے کچھ لے کر آتی ہوں باتیں تو ہوتی رہیں گی۔۔ شفا اسکو کہتے ہوے کمرے سے نکل گئ۔۔
_____________________
یہ کیا سن رہے ہیں ہم؟؟ ابراہیم احمد غصے میں اسکے سامنے کھڑے تھے۔۔
وہ گارڈن میں چئیر پر بیٹھا موبائل میں گیم کھیل رہا تھا۔۔
میں تم سے کچھ پوچھ رہا ہوں۔۔ انہوں نے سخت لہجے میں اپنا سوال دہرایا۔۔
کیا پوچھ رہے ہیں آپ مجھ سے؟ اسکی نظریں ابھی بھی موبائل اسکرین پر تھی۔۔
تم نے اپنے روم کی کیا حالت کی ہے کل؟؟
آپ سے زیادہ تو آپکے ملازموں کو میری فکر ہے۔۔ ہر حرکت پر نظر رکھتے ہیں وہ میری۔۔ وہ ڈھٹائی سے جواب دے رہا تھا۔۔
کیوں کر رہے ہو تم ایسا؟؟ آخر پرابلم کیا ہے تمھاری؟؟ وہ اس پر برس رہے تھے۔۔
میں کچھ دن کے لیے کنیڈا جا رہا ہوں۔۔ آج رات کی فلائٹ سے۔۔ وہ بے نیازی سے کہہ رہا تھا۔۔
کیا؟؟ تم نے مجھے بتانا بھی پسند نہیں کیا؟؟ کچھ سمجھتے بھی ہو تم مجھے یا نہیں۔۔ وہ اسکے چہرے پر نظریں جماے کھڑے تھے۔۔
ہاں سمجھتا ہوں نہ آپکو۔۔۔۔
سوتیلا باپ۔۔ اسنے ایک دم کھڑے ہو کر ان سے کہا۔۔
وہ اسکا منہ ہی دیکھتے رہ گے۔۔اور وہ وہاں سے چلا گیا۔۔ کلثوم اپنے کمرے کی کھڑکی میں کھڑی گارڈن میں ہونے والی ان دونوں کی گفتگو سن کر پریشان ہو گئ تھیں۔۔
________________________
فاطمہ اس وقت کمرے میں ٹی وی کے سامنے بیٹھی تھیں جب وہ باہر سے سیدھا انکے کمرے میں داخل ہوئ۔۔
چھ بج رہے ہیں۔۔ابھی کچھ دیر پہلے ہی گے ہیں وہ لوگ۔۔۔
انہوں نے ایک نظر دیوار پر لگی گھڑی پر ڈالتے ہوے اس سے کہا۔۔
امی وہ میری طبیعت خراب ہونے لگی تھی شفا کہ گھر اس لیے آنٹی نے روک لیا کہ جب تھوڑی بہتر ہوجاو تو چلی جانہ ایسا نہ ہو راستے میں طبیعت ذیادہ خراب ہوجاے۔۔ وہ بہانے بنانے لگی۔۔
واہ بھئ اسکی امی کو دیکھنے گئ تھی اور اپنی طبیعت خراب کر کہ آگئ تم۔۔ اب جاؤ جا کر اپنے کمرے میں آرام کرلو۔۔ میں چاے بنا دیتی ہوں تمھارے لیے۔۔ وہ چاے بنانے کے لیے اٹھنے لگی۔۔
کمرے میں جا کر وہ کپڑے بدلے بغیر ہی بستر پر لیٹ گئی۔۔ دونوں ہاتھوں سے وہ اپنا سر دبا رہی تھی۔۔
حرمین مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔۔ شزا ہاتھ میں چاے کا کپ لیے دروازے سے اندر آتے ہوے کہہ رہی تھی۔۔
ہاں بولیں کیا بات ہے؟؟ حرمین نے اسی پوزیشن میں لیٹے ہوے کہا۔۔
میری ایک دوست ہے لاریب وہ ایک بہت بڑے فاؤنڈیشن میں کام کرتی ہے۔۔ میں چاہتی ہوں کہ تم وہاں جاؤ وہاں تعلیمی اکیڈمی بھی ہے۔۔ روحانی ریسرچ اکیڈمی بھی ہے اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔۔ تمھیں ان چیزوں میں انٹرسٹ بھی ہے۔ میں تو جا نہیں سکتی کیونکہ تمھارے بھائی اجازت نہیں دیں گے۔۔ شزا نے کہا۔۔۔
لیکن ابھی کچھ دن تک میں کہیں جانہ نہیں چاہتی۔۔ اس نے منہ بنا کر بات ٹال دی۔۔۔
اچھا تو تم کچھ دن بعد چلی جانا میں لاریب کو کہہ دونگی کہ تم ابھی نہیں آسکتی۔۔ شزا نے کچھ سمجھتے ہوے کہا۔۔
تم آرام کرو مجھے بس یہی بات کرنی تھی۔۔ وہ اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوے کہنے لگی۔۔
شزا کے جانے کہ بعد حرمین کی آنکھ لگ گئ تھی اور سائیڈ ٹیبل پر رکھی چاے اب ٹھنڈی ہو چکی تھی۔۔
________________________
تمھارے بیٹے نے میرا جینا مشکل کر دیا ہے۔۔اب نواب صاحب کنیڈا جا رہے ہیں۔۔ ابراہیم احمد بیڈ پر لیٹے اپنے برابر میں بیٹھی کلثوم سے کہہ رہے تھے۔۔
ارے تو جانے دیں نہ اسکو اچھا ہے زرا فریش ہوجاے گا۔۔
اسکے جانے سے مجھے کوئی مصلہ نہیں ہے۔۔مگر تم نے اسکی حرکتیں دیکھی ہیں۔۔ اگر وہاں جاکر بھی اسنے کوئی ایسی ویسی حرکت کردی تو کیا جواب دیتا پھروں گا میں لوگوں کو۔۔ وہ خاصے پریشان لگ رہے تھے۔۔
اسی لیے تو کہہ رہی ہوں کہ جانے دیں اسکو فریش ہو جاے گا۔۔ کلثوم نے دوبارہ اپنا جواب دہرایا۔۔
ایک بات سن لو میری۔۔ تمھارے بیٹے کی وجہ سے لوگوں کے آگے میرا سر نہیں جھکنا چاہیے۔۔ وہ انگلی کہ اشارے سے کلثوم کو تنبیہ کر رہے تھے۔۔
وہ جواب دینے کے بجاے سوچ میں پڑ گئیں۔۔
وقار تم سے شادی کرنا چاہتا ہے۔
حرمین کی سانس اٹک گئ۔۔ وہ اپنے روم میں کمپیوٹر کے سامنے بیٹھی تھی جب اسے اپنے پیچھے کھڑی شزا کی آواز نے چونکایا۔
اسکی والدہ نے مجھ سے بات کی ہے۔۔وہ لوگ تمھارے رشتے کے لیے آنا چاہتے ہیں۔
یہ کیا بکواس ہے۔۔ وقار کو کیا نہیں پتہ کہ۔۔
ہاں اسکو سب پتہ ہے اسی لیے میں چاہتی ہوں تمھارا رشتہ وہاں ہوجاے۔۔تم دونوں کافی اچھے دوست ہو۔۔ شزا نے اسکی بات کاٹ کہ کہا۔۔ ابھی تو میری محبت کا چالیسواں بھی نہیں ہوا اور آپ نے میرا گھر بسانے کا سوچ لیا۔۔وہ شزا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کہہ رہی تھی۔
ہاں۔۔ کیونکہ میں دیکھ رہی ہوں کہ تم ڈپریشن کی طرف جانے لگی ہو۔۔ تمھارے اس بدلتے رویے سے گھر میں سب کو تم پر شک ہونے لگا ہے۔۔اور ویسے بھی کچھ زخموں پر اگر وقت پر مرہم نہ رکھا جاے تو وہ ناسور بن جاتے ہیں۔
وہ ہاتھ باندھے بڑے اطمینان سے اس سے مخاطب تھی۔
مجھے وقار سے شادی نہیں کرنی جا کر انکار کردیں آپ ان لوگوں کو۔
دو ہفتے ہو چکے ہیں اسکے انتقال کو اور تم اب تک اسکا سوگ منا رہی ہو۔ وہ کوئی تمھارا شوہر نہیں تھا جو اسکے مرنے پر تم عدت میں بیٹھ گئ ہو۔۔ شزا اب غصے میں اس پر برس رہی تھی۔
وہ جواب دینے کے بجاے زمین میں نظریں گھما رہی تھی۔
دیکھو حرمین۔۔ وقار اچھا لڑکا ہے تم سے محبت بھی کرتا ہے۔۔ اور پھر اگر تمھاری شادی کسی اور سے ہوتی ہے تو تمھارے اس رویے سے تمھارا گھر برباد ہوجاے گا۔۔کیونکہ کوئی بھی مرد یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ اسکی بیوی کسی اور کہ عشق میں مبتلا ہو۔۔لیکن وقار سب کچھ جاننے کے باوجود بھی تمھارے ساتھ کامپرومائیز کرنے کو تیار ہے۔۔شزا اب اسکے پاس بیٹھے مدھم آواز میں اسکو سمجھا رہی تھی۔۔
دیکھو اگر تم بے وجہ کی زد کروگی تو مجھے سب کچھ امی کو بتانا پڑیگا۔ حرمین کے جواب نہ دینے پر شزا نے اسے ڈرایا
نہیں آپ امی کو کچھ نہیں بتائیں گی۔۔مجھے وقار سے ملنا ہے۔۔
حرمین نے نظریں اٹھا کر اس سے کہا۔۔ ٹھیک ہے ملنا چاہتی ہو تم تو مل لو۔۔لیکن تم خود پر قابو رکھ کر بات کرنا۔۔مرد کی انا کو چوٹ نہیں پہنچانی چاہیے۔۔اگر کوئی عزت سے تمھارے گھر رشتہ بھیج رہا ہے تو اسکو ذلیل کرنے والے الفاظ استعمال نہ کرنا۔۔ وہ حرمین کو گائیڈ کرنے لگی۔
میں اسکو کال کر کے بتا دیتی ہوں کے کہاں ملنا ہے۔۔حرمین نے اپنا موبائل اٹھاتے ہوے کہا۔۔
تم بات کرو میں زرا کچن دیکھ لوں۔ شزا اسکی پشت تھپتھپاتے ہوے بولی۔۔
_____________________
یہ کیا مذاق ہے وقار؟؟ حرمین نے اپنے سامنے بیٹھے وقار سے پوچھا۔
وہ دونوں ایک Resturant میں بیٹھے تھے۔۔
حرمین تم جانتی ہو اچھی طرح کے میں تمھیں بہت پسند کرتا ہوں اس میں حرج ہی کیا ہے کہ اگر میں تمھیں اپنی بیوی بنانا چاہتا ہوں۔
میں اصفر سے محبت کرتی ہوں۔۔ وہ محبت لفظ پر زور دے رہی تھی۔۔
تو شادی کے بعد مجھ سے محبت کرلینا۔۔
حرمین جواب دینے کے بجاے اسے گھورنے لگی۔۔
دیکھو یار مجھے خود پر پورا یقین ہے میں تمھیں بہت خوش رکھونگا۔۔ کبھی تمھارا بھروسہ نہیں توڑونگا۔۔کبھی تمھیں دھوکا نہیں دونگا۔۔وہ مدھم آواز میں کہہ رہا تھا۔
مجھے نہیں پتہ کے تم مجھے دھوکا دوگے یا نہیں۔۔مجھے مرد حضرات کی اتنی اقسام نہیںں پتہ۔۔میں نے ایک ہی مرد سے محبت کی ہے۔۔وہ اسکے چہرے کو گھورتے ہوے کہہ رہی تھی۔
حرمین کے الفاظ وقار کے سینے میں پیوست ہوگے۔
کچھ دیر کی خاموشی کے بعد وقار نے کہا۔
دیکھو حرمین مجھے نہیں معلوم کہ تم اصفر سے کتنی محبت کرتی ہو۔۔مگر مجھے اپنے دل کا پتہ ہے کے یہ صرف تم سے محبت کرتا ہے۔۔تم سے محبت کے بعد میرے دل نے تمھاری غیر موجودگی میں بھی تم سے بے وفائ نہیں کی۔۔
وہ دل پر ہاتھ رکھ کر اسکی آنکھوں میں جھانک رہا تھا۔
حرمین نے اپنی پلکیں جھپکائیں اور ارد گرد بیٹھے لوگوں کو دیکھنے لگی۔
جب تک میرے دل کو یقین نہیں آجاتا کہ اصفر نہیں ہے تب تک بہت مشکل ہے تمھارا سوچنا کیونکہ مجھے ابھی بھی ایسا لگتا ہے کہ وہ یہی کہیں ہے۔
حرمین کی بات پر وقار کا چہرہ زرد پڑنے لگا۔
مجھے ٹائم دو تھوڑا سوچنے کا۔۔ حرمین اسے کہتے ہوے جانے کہ لیے کھڑی ہوگی۔
وقار وہیں بیٹھا اپنے حواسوں پر قابو پانے کی کوشش کرتا رہا۔
_________________________
بیڈ پر لیٹا وہ کمرے کی چھت پر لگے پنکھے کو گھور رہا تھا۔۔
نہیں۔۔۔۔
نہیں۔۔ حرمین کو کبھی سچائ کا پتہ نہیں لگے گا۔۔ وہ خود کو تسسلیاں دے رہا تھا۔۔
اسکو۔۔۔ اسکو پتہ بھی کیسے لگے گا۔۔ نہیں وہ مجھ سے دور نہیں جا سکتی۔۔ کچھ نہیں ہوگا۔۔ مجھے ڈرنا نہیں چاہیے۔۔
وقار بیٹا۔۔ ایک خوشخبری ہے تمھارے لیے۔۔ حرمین کے گھروالے مان گے۔۔ شاہدہ بیگم خوشی سے نہال ہو رہی تھیں۔۔
کیا؟؟ سچ کہہ رہی ہیں آپ امی؟؟ وقار جو کچھ دیر پہلے خوف میں مبتلا تھا۔۔ اب بے یقینی کے عالم میں شاہدہ کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔۔۔
ہاں میرے بچے۔۔ کل ہمیں وہاں جانا بھی ہے۔۔چھوٹی سی رسم کرنے۔۔ ابھی بات ہوئ ہے میری حرمین کی امی سے۔۔ وہ وقار کو تمام گفتگو سے آگاہ کر رہی تھیں۔۔
امی۔۔ امی۔۔ میں بہت خوش ہوں آج۔۔ میں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا اپنی خوشی۔۔ وہ شاہدہ کے دونوں ہاتھ پکڑے خوشی سے جھوم رہا تھا۔۔
اللہ تمھیں سدا خوش رکھے بیٹا۔۔ میں ابھی تمھارے ابو کو فون کر کے یہ بتاتی ہوں۔۔ انہوں نے وقار کا ماتھا چوم کر کہا۔۔
مجھے اندازہ نہیں تھا کہ حرمین اتنی جلدی راضی ہوجاے گی۔۔۔ شاہدہ کے جانے کے بعد وہ بیڈ پر بیٹھا سوچ رہا تھا۔۔
خیر کچھ بھی ہو مجھے بس اب ڈرنا نہیں چاہیے۔۔ وہ خود کو اطمینان دلا رہا تھا۔۔
اسے جیسے کوئی خیال آیا اور وہ اپنا موبائل اور والٹ جیب میں ڈالتے ہوے کمرے سے نکل گیا۔۔۔