(Last Updated On: )
“امی جی بریانی چیک کردیں دم لگ گیا ہے یا نہیں۔” وہ ڈائنگ ٹیبل پر پلیٹ لگا رہی ہوتی ہے کچن جو کہ اوپن تھا۔ کچن میں ایک بڑی سی ونڈو تھی جس کے باہر سب کچھ نظر آتا تھا۔
” بیٹا بس سلاد رہ گیا ہے بریانی بھی تیار ہے۔” اقراء بیگم جو کہ بریانی کا دم چیک کررہی تھی اسے سلاد بنانے کا کہتی ہے۔
“اسلام وعلیکم خالہ!” روحان اندر آتے خالہ کو کچن میں دیکھ ان کے پاس جا کر انھیں سلام کرتا ہے ۔
” خوش رہو بیٹا۔” اقراء بیگم اس کے سر پیار دیتی ہے۔
“کیسی ہو بل بتوڑی؟” جدوہ جو کہ کچن میں بیٹھی سالاد کاٹ رہی ہوتی ہے وہ اسکے سر پر ہلکا سا تھپڑ لگاتا ہے۔
“مجھے اس وقت تنگ نہ کرو۔” وہ چھری کا رخ اسکی طرف کرتے ہوئے کہتی ہے۔ روحان جو کہ وائٹ شلوار قمیض میں کلین شیو کے ساتھ اسکی طرف دیکھ کر مسکرا رہا ہوتا ہے۔
“جاؤ جدوہ بیٹا جا کر تیار ہوجاؤ تمہاری فرینڈز آنے والی ہونگی۔” اقراء بیگم ٹی وی لاؤنج میں بیٹھی اسے دیکھ کر کہتی ہیں۔
“اچھا امی۔ تم جاکر امی کے پاس بیٹھو میں چینج کر کے آتی ہوں۔” وہ روحان کو کہہ کر اپنے روم میں اوپر چلی جاتی ہے۔
” روحان بیٹا جدوہ کی حرکتوں کیلیئے میں تمہیں سوری کرتی ہوں۔ تم اسکی باتوں کا بُرا مت مانا کرو۔ اس کا بچپنا ابھی تک نہیں گیا ہے۔” اقراء بیگم روحان کو سمجھا رہی ہوتی ہیں۔
“خالہ جان آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں۔ وہ میری منکوحہ بعد میں اور دوست پہلے ہے۔ آپ میری طرف سے بے فکر رہیں۔” وہ ان کو تسلی دے رہا ہوتا ہے۔
“امی یہ ڈریس ٹھیک ہے نا۔” وہ کمرے سے باہر نکل کر سیڑھیاں اترتے ہوئے اقراء بیگم کو مخاطب کرتی ہے۔
“آفت” روحان دشمنِ جان کی طرف دیکھ کر زیر لب مسکراتا ہے۔
جدوہ سکائے بلیو کلر کی پلین فراک میں پلین دوپٹہ لیے روحان کے دل پر قیامت ڈھا رہی تھی۔
“ماشاءاللہ میری بیٹی بہت پیاری لگ رہی ہے۔ ” وہ کھڑے ہو کر جدوہ کے ماتھے پر بوسہ دیتی ہیں۔
” سچ کہوں تو پوری چڑیل لگ رہی ہو۔” روحان جدوہ کو چڑاتے ہوئے بولتا ہے۔
” ڈائنوسار کو سب لڑکیاں چڑیل ہی لگتی ہیں۔” وہ کمر پر دونوں ہاتھ رکھتے ہوئے غصّے سے اسکی طرف دیکھتی ہے۔
“اچھا اب تم دونوں جھگڑنا مت۔” اقراء بیگم دونوں کے درمیان ہوتی تکرار دیکھ کر بولتی ہیں۔
******♡♡♡♡♡*******
“اسلام و علیکم” ارینہ اور علیشا اندر آتی ہیں جب روحان اور جدوہ آپس میں کسی بات پر بحث کررہے ہوتے ہیں۔ وہ دونوں صوفے پر بیٹھے یکدم دروازے کی طرف دیکھتے ہیں۔
” وعلیکم اسلام۔ آؤ بیٹھو۔ روحان یکدم کھڑے ہوکر انھیں ویلکم کرتا ہے اور بیٹھنے کو کہتا ہے۔
” روحان میں امی کو بلا کر لاتی ہوں۔” جدوہ ان کے پاس سے اٹھ کر اقراء بیگم کو بلانے چلی جاتی ہے۔
” اور روحان آپ کب سے آئے ہوئے ہیں؟” ارینہ بات کا آغاز کرتی ہے۔
” بس ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی۔۔۔۔ آئیے خالہ جان۔” روحان اقراء بیگم کو آتا دیکھ سب کی توجہ انکی طرف کرواتا ہے۔
” اسلام و علیکم بیٹا! کیسی ہو آپ سب لوگ۔” اقرا بیگم ان کے سر پر پیار دیتی ہیں۔
” چلو بیٹا اب تم لوگ باتیں کرو۔ میں اور جدوہ ذرا کھانا لگا کر آتی ہیں۔”
“جدوہ!”
“جی امی” اقرا بیگم ٹرے میں بریانی ڈال رہی ہوتی ہیں جب وہ باہر صوفے پر بیٹھی ارینہ کو دیکھتے ہوئے جدوہ کو آواز دیتی ہیں۔
“بیٹا میری بات کو غلط مت سمجھنا لیکن ہوسکے تو روحان کو اس لڑکی سے دور رکھو۔” جدوہ انکی یہ بات سن کر چونک کر انکی طرف دیکھتی ہے۔
“امی آپ یہ کیوں کہہ رہی ہیں؟”
” بیٹا میری بات کو سمجھو۔۔ کیا تمہیں اس کی موجودگی میں بے سکونی نہیں ہوتیہے؟ بیٹا اسکی طرف دیکھو جو لڑکیاں اتنی ایڈوانس اور خوبصورت ہوتی ہیں انہیں مردوں کو اپنی طرف مائل کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔” وہ اسکی طرف ہاتھ رکھ کر ارینہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
” امی آپ بےکار میں پریشان ہورہی ہیں۔” وہ کچھ گھبرائ سی پلیٹ میں سلاد لگانے کیلیئے بیٹھ جاتی ہے۔
” پھر بھی بیٹا میری بات کو ذہن میں رکھنا۔” اسے یہ کہہ وہ کھانے کی پلیٹیں ٹیبل پر رکھنے چلی جاتی ہیں۔
” روحان! ” ارینہ اور روحان کسی بات پر کھلکھلا کر ہنس رہے ہوتے ہیں جب جدوہ روحان کوآواز دیتی ہے۔
” جی” وہ پیچھے مڑ کر اسکی طرف دیکھتا ہے۔
“آجاؤ کھانا لگ گیا ہے۔”
” چلیں۔” روحان اٹھتے ہوئے ارینہ اور علیشا کو اٹھنے کا اشارہ کرتا ہے۔
کھانا کھاتے ہوئے جدوہ مسلسل روحان اور ارینہ کے درمیان اچانک آ جانے والی بے تکلفی دیکھ رہی ہوتی ہے۔
” امی جی مجھے کچھ کام یاد آگیا ہے میں ابھی آتی ہوں۔ آپ سب کنٹینیو رکھیں۔ جدوہ بہانہ کر وہاں سے اٹھ جاتی ہے۔
“بیٹا تھوڑا سا تو کھالو۔” اقراء بیگم فکر کے ساتھ اسے کہتی ہے۔
” ماما جب بابا آئیں گے تو میں انکے ساتھ کھا لوں گی۔” اس سے پہلے کہ کوئ کچھ کہتا وہ آندھی کی طرح وہاں سے چلی جاتی ہے۔
” اس کو کیا ہوا خالہ جان؟” روحان اقراء بیگم سے پوچھتا ہے۔
” کچھ نہیں بیٹا بس کوئ کام یاد آگیا ہوگا۔ تم تو جانتے ہی
ہو اسے۔ تم آرام سے کھانا کھاؤ۔” وہ بات کو ٹالتے ہوئے روحان کو کھانے کا کہتی ہے ۔
******♡♡♡♡♡******
“خالہ جان! جدوہ کو بلادیں ہم جارہے ہیں تو اس سے ایک بار مل لیں پچھلے دو گھنٹے سے پتہ نہیں کس کام میں مصروف ہے۔” روحان جو کہ ارینہ اور علیشا کے ساتھ بیٹھا باتوں میں مصروف ہوتا ہے، جاتے وقت اقراء بیگم کو جدوہ کو بلانے کا کہتا ہے۔
” بیٹا جدوہ سو گئ ہے شاید بہت تھک گئ تھی اسلیئے سوگئ۔” اقراء بیگم جدوہ کے کمرے سے واپس آ کر انہیں کہتی ہیں۔
” یہ کیا بات ہوئ کوئ بھلا ایسے کیسے کرسکتا ہے۔ میں خود اس کو جگا کر لاتا ہوں۔” روحان اداس چہرے کے ساتھ بولتا ہے۔
” نہیں روحان بیٹا اسے سونے دو، آج اس نے بہت کام کیا ہے وہ تھک گئ ہوگی۔” اقراء بیگم اسے جانے سے روکتی ہے۔
” ٹھیک ہے خالہ جان ہم اب چلتے ہیں۔ روحان ان سے پیار لے کر نکلتا ہے۔
دروازے کی طرف جاتے ارینہ اپنا بازو روحان کے بازو میں ڈال دیتی ہے۔ یہ دیکھ کر اقراء بیگم کی پریشانی اور بڑھ جاتی ہے۔
“مما مما مما!! کہاں ہیں آپ؟ میں کب سے آپ کو ڈھونڈ رہا ہوں؟” ارینہ اس وقت جائے نماز پہ بیٹھی تسبیح پڑھنے میں مصروف ہوتی ہے جب ریان اسے ڈھونڈتے ہوئے اندر آتا ہے۔
“جی میرے شہزادے کیا بات ہے؟” وہ اس کے سر پہ ہاتھ پھیر کر اس پہ پھونک مارتی ہے۔ وائٹ کلر کے سادہ سے شلوار قمیض میں لائٹ پنک کلر کے سکارف کو حجاب کے انداز میں لپیٹے بہت ہی مہذب لگ رہی ہوتی ہے۔
ریان روحان جس میں اس کی جان بستی تھی، اس نے اسے بڑے نازوں سے پال تھا۔
“مما! آپ کو یاد ہے آپ نے مجھ سے ایک وعدہ کیا تھا۔” ریان نہایت معصومیت سے کہتا ہے۔ وہ تھا ہی بہت معصوم۔ بچے تو سارے ہی معصوم ہوتے ہیں اور اس میں تو اسے روحان ہی نظر آتا تھا۔
“جی مما کی جان مجھے یاد ہے۔” وہ جائے نماز کو رکھ کر بیڈ پہ بیٹھتی ہوئی اسے اپنی گود میں بٹھاتی ہے۔
“واؤ مما! اس کا مطلب ہے کہ کل ہم بابا سے ملنے جا رہے ہیں۔ آپ کو پتہ ہے مجھے اس دن کا کب سے انتظار تھا۔” وہ ایکسائٹڈ ہوتے ہوئے اسے اپنے دل کی بات بتاتا ہے۔
“اچھا مما کی جان، اب آپ اپنا ہوم ورک کمپلیٹ کر لو۔” وہ اسکو اس کا بیگ دے کر بیڈ پہ بٹھاتی ہے اور خود سائڈ ٹیبل پر پڑی اپنی اور روحان کی شادی کی تصویر پکڑ کر اس پے ہاتھ پھیرتی ہے۔ “آئی رئیلی مس یو مائے ہسبینڈ۔”
ارینہ!!!
اچانک حسینہ بیگم کمرے میں آتی ہیں۔
“ارے میرا شہزادہ کیا کر رہا ہے۔” وہ ریان کو وہاں دیکھ کر اسکے پاس بیٹھ جاتی ہیں۔
“دادو میں ایپل میں کلر کر رہا ہوں۔” وہ معصومیت سے جواب دیتا ہے۔
“واہ! میرا شہزادہ تو بہت پیاری ڈرائنگ کرتا ہے۔” وہ اس کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے اسکی تعریف کرتی ہیں۔
“جی امی!” ارینہ انکو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔
“بیٹا! وہ میں کہہ رہی تھی کہ آج شام کو میرے ساتھ ایمپوریم چلو۔ میں نے سکیبہ کی بیٹی کے لیے شادی کا جوڑا لینا ہے تو سوچا کوئی پیارا سا لوں اور تمہاری پسند تو ویسے بھی بہت اچھی ہے۔”
سکینہ انکے گھر کام کرنے والی ماسی تھی۔ وہ بیس سال سے ان کے ہاں کام کر رہی تھی۔ اگلے ہفتے اسکی بیٹی کی شادی تھی۔
“ٹھیک ہے امی، شام کو چلیں گے لیکن اس شیطان کا کیا کریں گے؟” وہ ریان کا سوچتے ہوئے بولتی ہے۔
“تم اسکی فکر مت کرو۔ تمہارے پاپا آج گھر پر ہی رہیں گے۔”
“ٹھیک ہے امی! رات کا کھانا بنا کر چلیں گے۔”
“ریان بیٹا کلر باہر نہ نکالو۔” وہ ریان کی طرف متوجہ ہو جاتی ہے۔
شام کو وہ دونوں شاپنگ کے لیے چلی جاتی ہیں۔
“ارینہ بیٹا تم اپنے لیے بھی کوئی ڈریس پسند کر لو۔” برائیڈل لہنگا لینے کے بعد وہ دوسرے ڈریس دیکھ رہی ہوتی ہیں۔
“نہیں امی میرے پاس پہلے ہی بہت ڈریس ہیں اور آپ کو تو پتہ ہے کہ مجھے بھاری کام والے ڈریس نہیں پسند۔”
“اچھا چلو پھر گھر چلیں۔”
****************
“دادا ابو یہ کون ہیں تصویر میں؟” ریان اپنے دادا کے ساتھ بیٹھا روحان کی پرانی تصویریں دیکھ رہا ہوتا ہے کہ وہ تصویر میں موجود اپنے پاپا کے ساتھ کھڑی لڑکی کا پوچھتا ہے۔
“بیٹا یہ اقرا۶ نانو کی بیٹی جدوہ ہیں۔”
“میں نے تو انہیں کبھی نانو کے گھر نہیں دیکھا۔ دادا ابو یہ کہاں رہتی ہیں؟” وہ ان سے پوچھتا ہے۔
“بیٹا یہ آپ کے بابا کے ساتھ رہتی ہیں۔”
اوہ اچھا! ریان اپنا ہاتھ تھوڑی پر رکھتے ہوئے کہتا ہے۔
“کیا ہو رہا ہے یہاں؟” ارینہ اور حسینہ بیگم شاپنگ کر کے گھر پہنچتی ہیں۔
“کچھ نہیں مما، ہم بس پاپا کی پرانی پِکس دیکھ رہے تھے۔”
“اچھا چلو اب جاؤ اپنے روم میں، میں ابھی آتی ہوں۔” ارینہ ریان کو اپنے کمرے میں جانے کا کہتی ہے۔
“اوکے ممی!! گڈ نائٹ دادا ابو! گڈ نائٹ دادو۔” وہ اپنے کمرے میں چلا جاتا ہے۔
“امی چلیں اس ماہ کا بجٹ دیکھ لیں پھر میں سونے چلی جاؤں گی۔”
“ٹھیک ہے بیٹا۔!”
وہ دونوں بیٹھی حساب کر رہیں ہوتی ہیں جب حسینہ بیگم ارینہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتی ہیں۔
“ارینہ بیٹی اگر تم نہ ہوتی تو روحان کے جانے کے بعد پتہ نہیں یہ گھر کیسے چلتا۔”
“امی آپ بھی نا!!! کبھی کبھی مجھے بالکل پرایا کر دیتی ہیں۔”
“نہیں بیٹا تم تو ہماری سب سے اپنی ہو۔”
“اچھا چلیں اب آپ جا کر ریسٹ کریں۔ میں بھی کچن کا کام ایک بار دیکھ کر سونے جاؤں گی۔”
اتنا کہہ کر وہ اٹھ کر کچن میں چلی جاتی ہے۔
******************