(Last Updated On: )
“ارینہ کیا ہوا بیٹاسب ٹھیک تو ہے ناں؟” ارینہ کے ڈیڈ اسے لاؤنج میں بیٹھے ہوئے دیکھ اسے پریشانی سے پوچھتے ہیں۔
“بابا۔۔۔!!” وہ انکے گلے لگ کر انھیں اپنے دل کی بات بتاتی ہے۔
“تم فکر نہ کرو۔ تمہاری مرضی کے خلاف کچھ نہیں ہوگا۔” وہ انھیں اپنے ساتھ لگاتے ہوئے بڑے غصّے سے کہتے ہیں۔
“امی میں کیسی لگ رہی ہوں؟ مجھے بہت ٹینشن ہورہی ہے۔” وہ کمرے میں تیار بیٹھی بہت کنفیوز ہورہی ہوتی ہے۔
آج جدوہ کی رخصتی تھی وہ ڈل گولڈن اور مہرون کلر کی میکسی میں نہایت خوبصورت لگ رہی تھی۔
“ماشاءاللہ نظر نہ لگے میری بیٹی آج پریوں کے جیسی لگ رہی ہے۔” وہ اسکی بلائیں لیتی ہوئ کہتی ہے۔
“اچھا چلو بارات آگئ ہے میں ذرا باہر مہمانوں کو دیکھ لوں۔” وہ اسے روم میں اکیلا چھوڑ کر چلی جاتی ہیں۔
******♡♡♡♡♡******
وہ بیٹھی نروس ہورہی پوتی ہے جب اسکی کزنز اسے لینے روم میں آتی ہیں۔ “چلو دلہن بیگم آپکا دولہا آپکا انتظار کر رہا ہے۔”
وہ اسے لیکر سیڑھیوں سے اتر رہی ہوتی ہیں جب روحان کی نظر جدوہ پر پڑتی ہے اور وہیں رک جاتیں ہیں جو کہ خود ڈل کلر کی شیروانی میں کسی شہزاسے سے کم نہیں لگ رہا تھا۔
وہ آگے بڑھ جدوہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے سٹیج پر لیکر آتا ہے۔ اسکی اس حرکت پر سب کزنز مل کر شور مچاتے ہیں۔
“یو آر لوکنگ ویری پریٹی مائے وائف۔” روحان جدوہ کے کان میں کہتا ہے۔ وہ اسکی بات پر شرما جاتی ہے۔
“اچھا چلو بیتا رخصتی کا وقت ہوگیا ہے۔” صدیق صاحب آ کر روحان کو بولتے ہیں۔
جدوہ رخصتی کے وقت اپنے بابا کے ساتھ لگ کر بہت روتی ہے۔ صدیق صاحب کیلیئے یہ وقت بہت مشکل ہوتا ہے۔ جدوہ انکی اکلوتی اولاد تھی۔
وہ لوگ گاڑی میں گھر جا رہے ہوتے ہیں جب راستے میں بلیک گاڑی ان کے آگے آکر انکا راستہ روک دیتی ہے۔ کچھ غنڈے گاڑی سے نکل کر انکی گاڑی کے قریب آتے ہیں۔
“شیشہ نیچے کرو۔” وہ گن پوائنٹ پر ان سے سب کچھ چھین لیتے ہیں اور اچانک جاتے جاتے فائرنگ کردیتے ہیں۔ ایک گولی سیدھا جا کر جدوہ کے سینے میں لگتی ہے۔ وہ وہیں گر جاتی ہے۔
“جدوہ! پلیز جدو آنکھیں کھولو۔” روحان پر قیامت ٹوٹ پڑتی ہے۔
ہر طرف خون ہی خون پھیل جاتا ہے۔ روحان تیزی سے جدوہ کو اٹھا کر ہاسپٹل لے جاتا ہے۔ راستے میں ڈرائیور نے سب گھر والوں کو کال کرلی ہوتی ہے۔
“روحان بیٹا یہ سب کیسے ہوا؟” روحان اپنا سر دونوں ہاتھوں میں لیے آ پریشن تھیٹر کے باہر بیٹھا ہوتا ہے جب وہاں سب گھر والے آجاتے ہیں۔ رحیم صاحب اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر سارے واقعے کی تصدیق کرتے ہیں۔
“بابا پتہ نہیں کہاں سے کچھ غنڈے آ گئے انھوں نے ہمارا راستہ روک کر لوٹ مار شروع کردی اور جدوہ کو گولی مار کر وہاں سے فرار ہوگئے۔” روحان ساری تکلیف3
دہ داستاں اپنے بابا کو سناتا ہے۔
“تم فکر نہ کرو سب ٹھیک ہوجائے گا۔” وہ اسے حوصلہ دیتے ہیں۔
اقراء اور حسینہ بیگم کی جان پہ بن آتی ہے۔ انکا رورو کر برا حال ہورہا تھا۔
“ڈاکٹر کیا ہوا جدوہ ٹھیک تو ہے ناں؟” ڈاکٹر کے باہر آتے ہی روحان آتھ کر ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے۔
“ائم سوری سر بٹ یور وائف از نو مور۔” ڈاکٹر کے یہ الفاظ سن وہاں چیخ و پکار شروع ہوجاتی ہے۔
روحان کو ایسے لگتا ہے جیسے کسی نے اسکے دل کے ٹکرے ٹکرے کر دیے ہوں۔
وہ سب جدوہ کی ڈیڈ باڈی لیکر گھر آجاتے ہیں۔ جس گھر میں کچھ لمحہ پہلے شادی کا سماں تھا، آج وہاں صف ماتم بچھ چکی تھی۔ جس راستے پر جدوہ کو پھولوں سے سجی گاڑی میں آنا تھا، وہ وہاں ایمبولینس میں لائ گئ تھی۔
روحان تو جیسے سارے ہوش کھو بیٹھا تھا۔ دو بار اسے جدوہ کی میت کے پاس لایا گیا تھا اور وہ دونوں بار ہی اسے دیکھ کر بے ہوش ہوگیا تھا۔
سب گھر والوں کیلیئے آج قیامت کی گھڑی تھی۔
جنازے کے وقت بھی روحان کی ہمت جواب دے گئ تھی۔ چناچہ رحیم صاحب اسے اپنے ساتھ پکڑ جنازے کے ساتھ لیکر گئے۔ وہ جسکی آج نئ زنگی کا آغاز ہونا تھا وہ زندگی کو دھوکہ دے کر موت کے ساتھ ہوچلی۔
******♡♡♡♡♡*****
“روحان بیٹا خود کو سنبھالنے کی کوشش کرو۔ ہم تو یہاں آئے ہی اسی لیے ہیں کہ ہمیں یہاں سے واپس جانا ہے۔” روحان جو کہ جدوہ کی موت کے بعد بلکل ہی اپنے ہوش کھو بیٹھا تھا، جدوہ کی تصویر لیے اپنے بیڈ کے قریب زمین پر بیٹھا تھا۔ رحیم صاحب اسکی یہ حالت دیکھ بہت تکلیف میں تھے۔ انہوں اسے بہت سمجھانے کی کوشش کی لیکن روحان پھر بھی کچھ بولنے کو تیار نہیں تھا۔
آج جدوہ کا چالیسواں تھا اور جدوہ کی موت سے لیکر آج تک روحان نے ایک لفظ بھی نہیں بولا تھا۔ سب اس کو لیکر بہت پریشان تھے۔
“رحیم صاحب مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔” مسٹر اکمل جو کہ ارینہ کو والد تھے، انھوں نے سب کے جانے کے بعد اکیلے میں رحیم صاحب کو بات کرنے کیلیئے بلایا تھا۔
“دیکھیئے رحیم صاحب روحان بہت ہی اچھا لڑکا ہے اور ابھی اسکی عمر ہی کیا ہےاگر اسی طرح یہ جوگ لگائے بیٹھا رہے گا تو اسکی زندگی تباہ ہوجائے گی۔ اسلیئے مین ایک ریکویسٹ کرنا چاہتا کوں آپ سے۔۔۔۔”
“جی بولیے۔” وہ سنجیدگی کے ساتھ انکی بات سنتے ہیں۔
“میں چاہتا ہوں کہ آپ روحان کی شادی میری بیٹی ارینہ کے ساتھ کروادیں۔”
“یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔” وہ حیرت کے ساتھ اکمل صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے کہتے ہیں۔
“جی میں چاہتا ہوں روحان جتنی جلدی ہوسکے اس دکھ سے باہر نکل آئے اور وہ شادی کی صورت میں ہی ممکن ہے۔”
“ٹھیک ہے اکمل صاحب میں گھر میں بات کر کے بتاتا ہوں۔
رحیم صاحب اپنی بیگم، صدیق اور اقراء سے اس بات کا ذکر کرتے ہیں سب کو یہی بہتر لگتا ہے کہ اس رشتے کیلیئے ہاں کردی جائے کیونکہ روحان کی حالت دن بدن خراب ہوتی جارہی تھی۔
******♡♡♡♡♡******
“روحان بیٹا!” اقراءبیگم روحان کے پاس جاتی ہیں۔ ان کے علاوہ وہ کسی سے بات نہیں کرتا تھا آخر وہ جدوہ کی ماں تھیں انھیں کیسے انکار کرسکتا تھا۔
“اگر میں تم سے کچھ مانگوں تو کیا تم مجھے دوں گے؟” وہ اس کا سر اپنی گود میں رکھے اسکے بالوں کو سہلاتے ہوئ کہتی ہیں۔
“خالہ جان آپ جان بھی مانگیں تو وہ بھی میں خوشی خوشی دےدونگا۔”
“بیٹا میری بیٹی کو سکون دے دو وہ تمہیں ایسے تکلیف میں دیکھ کر روز بے چین ہوتی ہوگی۔ پلیز تم شادی کرلو۔” وہ روتے ہوئے کہتی ہیں۔
“یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں خالہ جان؟” وہ حیرت کے ساتھ انکی طرف دیکھتے ہوئے کہتا ہے۔
“پلیز بیٹا میں تمہارے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوں۔ ہم اپنی بیٹی کھو چکے ہیں اب بیٹے کو نہیں کھونا چاہتے۔ خدا کیلیئے ہم بوڑھے ماں باپ کو اتنی اذیت میں مت ڈالو۔” وہ اسکے سامنے ہاتھ جوڑ کر التجا کرتی ہیں۔
“پلیز خالہ جان مجھے ایسے شرمندہ نہ کریں میں اگلے جہاں جا کر اپکی بیٹی کو کیا جواب دونگا۔” وہ انکے ہاتھ پکڑتے ہوئے کہتا ہے۔
“ٹھیک ہے آپ کو جیسا ٹھیک لگے وہ میں کرنے کو تیار ہوں۔” وہ جدوہ کی تصویر کو دیکھتے ہوئے انکے آگے ہار مان جاتا ہے۔
“شکریہ بیٹا۔” وہ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھکر اسے انکا مان قائم رکھنے پر پیار دیتی ہیں۔
وہ سب کو جا کر روحان کا فیصلہ بتاتی ہیں۔
******♡♡♡♡♡******
“جی ٹھیک ہے ہم آپ کا انتظار کریں گے۔” اکمل صاحب فون پر رحیم صاحب سے بات کررہے ہوتے ہیں جو کہ انھیں بتاتے ہیں کہ ہم اگلے ماہ سادگی کے ساتھ ارینہ کو نکاح کر کے گھر لے آئیں گے۔
“کون تھا پاپا فون پر؟” ارینه جو کہ انکے پاس ہی بیٹھی کوئ ڈائجسٹ پڑھ رہی تهی اپنے باپ کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھکر پوچھتی ہے۔
“بیٹا روحان نے شادی کیلیئے ہاں کردی ہے۔ اگلے ماہ وہ تمہیں نکاح کر کے لے جائیں گے۔
“سچ میں ڈیڈ؟” وہ خوشی میں انکے ساتھ لگی ہوئ ان سے کہتی ہے۔
“ہاں میری جان۔ میں نے کہا تھا ناں کہ جو تم چاہو گی وہی ہوگا۔ جو کوئ بھی میری بیٹی کے راستے میں آئے گا میں اسے ختم کردونگا۔” وہ انھیں اپنے ساتھ لگائے مغرور سی مسکراہٹ کے ساتھ کہتے ہیں۔
******♡♡♡♡♡******
“ہیلو یہ جو میں نے تمہیں تصویر بھیجی ہے آج تمہیں اس کا کام ختم کرنا ہے۔ آج اسکی رخصتی ہے اور رخصتی کے بعد تم لوگ اسکی گاڑی پر حملہ کر کے لوٹ مار کرو گے تاکہ کسی کو بھی پتہ نہ چلے کہ یہ اسے مارنے کی سازش ہے اور پھر اسے گولی مار کر وہاں سے بھاگ جانا۔” مسٹر اکمل کسی گینگسٹر کے ساتھ کال پر بات کررہے ہوتے ہیں۔
“اوکے سر آپکا کام ہوجائے گا۔”
“اس لڑکی کو مارنا ہے۔” وہ واٹس ایپ پر اس گینگسٹر کو جدوہ کی تصویر بھیجتے ہیں۔
وہ شام کو لاؤنج میں بیٹھے ہوتے ہیں جب انکے موبائل کی سکرین روشن ہوتی ہے۔
“ڈن۔” اس گینگسٹر کا میسج دیکھ انکے چہرے پر مسکراہٹ آجاتی ہے۔
******♡♡♡♡♡******
شادی کے دن بڑی سادگی کے ساتھ کچھ گواہوں کی موجودگی میں نکاح پڑھا جاتا ہے۔ نکاح کے بعد فوٹو سیشن کی تقریب ہوتی ہے۔
اس دوران ارینہ اور روحان کافی بار مل چکے ہوتے ہیں اور روحان کی حالت میں کافی بہتری آ جاتی ہے۔
رخصتی کے بعد وہ دونوں ایک علیحدہ کار میں ڈرائیور کے ساتھ گھر کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔
“روحان میرا گلہ کچھ خراب ہورہا ہے۔” ارینہ روحان سے کہتی ہے۔
“ابھی راستے میں کوئ شاپ آتی ہے تو پانی کی بوٹل لے لیتے ہیں۔”
“اوکے۔”
“ڈرائیور ذرا گاڑی رکو۔ روحان اچانک سے ڈرائیور کو گاڑی روکنے کا کہتا ہے۔
“کیا ہوا روحان؟” ارینہ پریشانی سے روحان کی طرف دیکھتی ہے۔
روحان گاڑی سے اتر کر سڑک کے درمیان میں پڑی باسکٹ اٹھاتا ہے جس میں ایک بچہ رو رہا ہوتا ہے۔ بچہ تقریباً تین سے چار دن کا تھا۔
“روحان!” ارینہ اچانک چیخ مار کر روحان کو آواز دیتی ہے۔
اچانک پیچھے سے ایک ٹرک تیزی سے آتا ہے۔
روحان بچے کو ارینہ کی طرف اچھال دیتا ہے اور روحان کا9
کا ایکسیڈنٹ ہوجاتا ہے۔
“روحان اٹھو روحان۔” ارینہ ہاتھ میں بچے کو پکڑے زخمی روحان کے پاس بیٹھی رورہی ہوتی ہے۔
“روحان بیٹا کیا ہوگیا؟” رحیم صاحب گاڑی سے اتر کر سامنے خون میں لدے روحان کو دیکھ کر بھاگتے ہیں۔
وہ روحان کو لیکر جلدی سے ہاسپٹل پہنچتے ہیں۔ ہاسپٹل کے صحن میں ہی ڈاکٹر اسے چیک کرنے لگ جاتے ہیں۔
“سوری بٹ ہی از نو مور۔” ڈاکٹر سب کو بتاتا ہے کر روحان ایکسیڈنٹ کے مقام پر ہی دم توڑ چکا تھا۔
“رحیم صاحب کے گھر ایک بار پھر صف ماتم بچھ چکی تھی۔ دوسری بار شادی کے دن ایک میت گھر آئ تھی۔
******♡♡♡♡♡******
“نہیں پاپا!” روحان میرا شوہر تھا اور اب میں اس گھر کو چھوڑ کر نہیں جاؤنگی۔ میں نے اپنے رب کی چاہت کے آگے اپنی چاہت کو رکھا تھا اسلیئے اس نے میری چاہت کو بھی مجھ سے دور کر دیا۔” اکمل صاحب ارینہ کی عدت پوری ہونے کے بعد اسے گھر لے جانے آئے تھے لیکن اس نے اسکے ساتھ جانے سے انکار کردیا۔
روحان کی موت نے ارینہ میں بہت بدلاؤ لادیا تھا۔ اسے بہت ہی عاجز اور پیار کرنے والی بنا دیا تھا۔ وہ بچہ جو اسے اس دن سڑک پر ملا تھا اسے اس نے اپنا اور روحان کا نام دے دیا تھا۔ اس نے اسکا نام ریان رکھا تھا یعنی جنت کا دروازہ۔ وہ دروازہ جس کے ذریعے وہ جنت میں داخل ہوسکے کیونکہ اس کیلیئے اس کےگناہ اتنے زیادہ ہوگئے تھے کہ اس کیلیئے اپنے رب کے آگے جواب دہ ہونا مشکل ہوگیا تھا۔ اس نے اپنی ساری زندگی روحان کے والدین اور اپنے بیٹے کی خدمت کیلیئے وقف کردی تھی ۔ اس حادثے نے اسے ایک بگڑی ہوئ لڑکی سے ایک پیار کرنے والی ماں اور بیٹی میں بدل دیا تھا۔
******♡♡♡♡♡******
آج روحان کی پہلی برسی تھی۔ صبح صبح ختم دلوانے کے بعد وہ ریان کو لیے اس کا وعدہ پورا کرنے کیلیئے اسے آج روحان سے ملوانے قبرستان لے کر جا رہی تھی۔
انھوں نے راستے میں کچھ پھولوں کی پتیاں لیں اور قبرستان پہنچ گئے۔
“جلدی چلیں مما!” ریان اپنی ماما کا ہاتھ پکڑ تیزی سے روحان کی قبر کی طرف بھاگ رہا تھا۔
روحان کی قبر پر پہنچ کر ان دونوں نے روحان اور جدوہ کی قبر پھول ڈالے اور پھر ارینہ نے کھڑے ہو کر دعا مانگی۔
“مل لیا پاپا ستم اپ چلیں؟” ارینہ ریان کو گود میں پکڑتے ہوئے اسے مسکراتی ہوئے کہتی ہے۔
وہ معصومیت کے ساتھ ہاں میں سر ہلاتا ہے۔
ریان ارینہ کی انگلی پکڑ کر ارینہ کے ساتھ قبرستان سے باہر کی طرف جا رہا ہوتا ہے اور ایک الگ ہی دنیا یہاں بس گئ ہوتی ہے۔
بے شک اللہ کی چاہت روحان اور جدوہ کے آپس میں ملنے میں تھی اور اللہ نے انہیں ملا دیا تھا۔ اب دونوں کی روح ارینہ اور روحان کو ایسے دیکھ کر بہت خوش تھی۔
اسلیئے ارینہ کی چاہت سے وہ تھک گئ تھی اسلیئے ہوا وہی جو رب کی چاہت تھی۔
فضا میں ہر طرف اسی کی گونج تھی۔۔۔۔
“ابن آدم!!
ایک تیری چاہت ہے، ایک میری چاہت ہے
اگر تو نے کردیا سپرد اسے میرے جو تیری چاہت ہے
تو دونگا تجھے وہ جو تیری چاہت ہے
اور اگر تو نے ٹھکرایا اسے جو میری چاہت ہے
تو تھکا دونگا تجھے اس سے جو تیری چاہت ہے
پھر ہوگا وہی جو میری چاہت ہے۔۔۔!!
ختم شد…