یہ کہانی ہے ایک معصوم لڑکی کی۔ جو سمجھدار ہے پر حالت سے لڑنے سے قاصر ہے۔ قسمت اور دنیا نے اسے ظلم سہنے پر مجبور کیا ہے لیکن برداشت کی ایک حد ہوتی ہے جب وہ حد پار ہوجائے پھر انسان وہ بھی کر جاتا ہے جو اس نے کبھی سوچا نہیں ہوتا۔
************&&&&************
کرن جمیل اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی۔ اس کے ماں باپ بچپن میں ہی ایک ٹریفک حادثہ میں وفات پا گئے تھے۔ 14 سال کی ہونے تک چچا انس رحمان کے ساتھ رہی جب تک چچا حیات تھے وہ اسے پیار سے رکھتے گھر کے باقی بچوں کے برابر مقام تھا۔ اس کے چچا اگر اپنے بچوں کے لئے کچھ لاتے تو برابر کا حصہ کرن کا بھی ہوتا۔ کہی نہ کہی باپ کی کمی چچا سے پوری ہوجاتی لیکن ماں کی کمی ہمیشہ رہی۔ نگار چچی نے اسے کبھی نہیں اپنایا وہ اس سے پرائی جیسا برتاؤ کرتی پر اپنے شوہر کے خوف سے نرمی برتّی تھی لیکن جب چچا دل کی بیماری کے باعث جان سے ہار بیٹھے تو نگار بیگم کی بچی کچی نرمی بھی پرواز کر گئی۔
گھر کے باقی بچوں کے برابر مقام تو کیا اسے چچی کی نرمی بھی نصیب نہیں رہی۔ جمیل اور انس کا ایک ساتھ اچھا خاصا کاروبار تھا جسے اب چچی اور ان کے بھائی سنبھالنے لگے تھے۔ وہ ہر دوسرے دن اپنے بچوں کے ساتھ ہوٹلوں میں کھانا کھانے جاتی اور نت نئے شاپنگ کرواتی لیکن کبھی بھی کرن کو ساتھ نہیں لے کر گئی نہ اس کے لیے کچھ لے کر آئی۔ ان کے جانے کے بعد کرن لاؤنج کی کھڑکی پر کھڑی ہوجاتی اور ویران آنکھوں سے لاشعوری طور پر ان ماں اور بچوں کے لوٹنے کا انتظار کرتی۔ جب رات دیر تک کھڑے کھڑے تھک جاتی تو آکر کمرے میں لیٹ جاتی۔
اس معاملے میں ان کے بچے حادی اور نور، کرن کے ساتھ اچھے تھے۔ کرن کی سب سے زیادہ نور سے بنتی تھی اور نور کا بھی کرن سے سگی بہن جیسے لگاؤ تھا۔
ہر تہوار پر نور اپنی ماما سے کرن کے لیے بھی نئی شاپنگ کرنے کی ضد کرتی اور اس کی ضد پر نگار بیگم کو کرن کے لیے بھی شاپنگ کرنی پڑتی۔ وہ نور کے اس پیار پر بہت خوش ہوجاتی اور شوق سے اس کی دلائی چیزیں استعمال کیا کرتی۔ وہ سارہ وقت نور کے ساتھ ساتھ ہوتی اس کی چھوٹی سی دنیا بس نور کے گرد سمٹ گئی تھی۔
حادی اپنے آپ میں مگن رہتا اسے نہ کرن کے ہونے میں دلچسپی تھی اور نہ، نا ہونے سے فکر۔ کرن چچی کا تلخ رویہ نور کے پیار کے مٹھاس سے تحلیل کر دیتی۔ اپنی پسند نا پسند کا اظہار کرنے کا، کسی چیز کے لیے ضد کرنے کا حق تو کرن کے پاس سرے سے تھا ہی نہیں۔ اسے چچی اور نور جیسے رکھتیں وہ ویسے رہ لیتی۔ کرن نے اسی حال کو اپنا تقدیر مان کر زندگی سے سمجھوتا کر لیا تھا۔
***********&&&&***********
بلوغت کے ساتھ ساتھ اس کی خوبصورتی میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ کرن کی ماں سوات کی پٹھان تھی اس لئے گورے رنگت کا نسب اسے اپنی ماں سے ملا تھا اور گہرے نین نقش باپ کے تھے، لیکن ایسی خوبصورتی کا وہ کیا کرتی جب قسمت میں ٹھوکریں کھانا لکھا تھا۔
زرمینہ اسفندیار نے جمیل رحمان کے ساتھ اپنے گھر والوں سے ضد کر کے شادی کی تھی۔ وہ کبھی بھی اس شادی کے حق میں نہیں تھے اس لیے زرمینہ کے جانے کے بعد انہوں نے زرمینہ سے بلکل قطع تعلق کر لیا تھا۔ اور اب اس کی اولاد سے بھی انہیں کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ کرن کی نانی اپنے بیٹوں سے چھپ کر کبھی کبھار اپنی نواسی سے ملنے آیا کرتی تھی لیکن اب دو سالوں سے وہ بھی پوچھنے نہیں آئی تھی۔
اسی طرح جمیل رحمان کے باقی بہن بھائی بھی اپنے اپنے زندگیوں میں مصروف تھے اور نا چاہتے ہوئے بھی کرن کی ذمےداری نگار بیگم کے سر تھی کیونکہ ان کے شوہر انس رحمان نے اپنے وصیعت میں ان کے بعد بھی نگار بیگم کو کرن کو اپنے گھر میں رکھنے کی تنبیہہ کی تھی اور اس کی پڑھائی مکمل ہونے اور اس کی شادی ہونے تک اس کے کفالت کے لیے ایک اچھی خاصی رقم اس کے حصے میں لکھی تھی۔ اگر نگار بیگم کرن کو گھر سے نکالتی تو انہیں قانونی طور پر وہ رقم اس کے حوالے کرنا پڑتی اور نگار بیگم ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہتی تھی۔
کرن نے چچی کے مزاج کو اپنے روزانہ کا معمول بنا لیا تھا۔
حادی یونیورسٹی پڑھنے ملک سے باہر چلا گیا تھا اور چچی نے نور کو آنکھوں کا تارہ بنا کر رکھا تھا۔ گھر کے سارے کام نگار بیگم کرن سے کرواتی اور کرن بھی بنا شکایت کیے ان کے ہر حکم کو بجا لاتی۔ وہ دن میں نور کے ساتھ یونیورسٹی جاتی اور گھر لوٹ کر گھر کے کام کاج کرتی اور رات کو پڑھائی، بس یہی اس کے شغول تھے۔
کرن نے اسکول اور کالج شہر کے سرکاری اداروں سے پڑھا تھا۔ بالغ ہونے کے بعد جب پاپا کی وصیعت سامنے آئی تب انہیں وصیعت میں کرن کے برابر کے حصے کا پتا چلا کیونکہ اس جائیداد میں جمیل بھی اتنا ہی شریک تھا جتنا انس رحمان اور اب جس کی شرعی حیثیت کرن حقدار تھی۔ جس پر حادی تو چپ رہا لیکن نور نے بہت واویلا کیا اور پھر یونیورسٹی کے دوران کرن کو اپنے ساتھ شہر کے بہترین یونیورسٹی میں داخلہ کروایا۔
کرن نے کبھی چچی سے جائیداد میں حصہ طلب نہیں کیا۔ اسے صرف پیار اور سکون کی خواہش رہی تھی
************&&&&*************
گرمیوں کے اس شام وہ خانساماں کے ساتھ مل کر رات کے لیے کھانے کی تیاری کرنے لگی تھی جب اس نے چچی کو لاؤنج میں داخل ہوتے دیکھا۔
“اسلام علیکم” وہ پانی کا گلاس لیئے چچی کے پاس آئی۔
چچی صوفے پر بیٹھی، اپنے پیر سہلا رہی تھی جو صبح سے ہیل والی سینڈل پہنے سوج گئے تھے۔ ویسے تو عمر 50 تھی لیکن اب بھی وہ خود کو 25 سے زیادہ نہیں مانتی تھی اس لیے فیشن کا الگ ہی دستور تھا۔ ہیل والے سینڈل؛ لمبے ناخن؛ خاکی رنگ کا گاون؛ زیورات سے سجائے ہاتھ؛ میک اپ سے لتھڑا چہرہ جسے جوان دکھانے کے لیے پابندی سے فیشل کروایا جاتا اور ڈائی شدہ بالوں کو کندھے پر ڈال رکھا تھا۔
“وعلیکم السلام۔۔۔۔۔ ایک کپ چائے بنا دے بہت تھک گئی ہوں” چچی نے پانی کا گلاس اٹھایا اور پیر میز پر دراز کرتے ہوئے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔
کرن احترام سے سر اثابت میں ہلاتی واپس کچن میں چلی گئی۔ نور نے لاؤنج میں سے ماما کی آواز سنی تو کمرے سے باہر آگئی۔ وہ ابھی ابھی دوپہر کی نیند پوری کر کے اٹھی تھی۔ سستی سے چلتے ہوئے وہ سیڑھیاں اتر کر نیچے آئی اور ماما کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گئی۔
” ماما whats up۔۔۔۔ کیسی رہی آپ کی کٹی پارٹی” وہ چوکڑی کر کے بیٹھی اور ماما سے حال دریافت کرنے لگی۔
نگار بیگم نے اسے ساری رو داد سنائی اور وہاں موجود اپنی ہر سہیلی کے بارے میں الگ الگ تبصرہ کیا۔ نور بار بار جمائی روکتی بے دلی سے ان کی باتیں سنتی رہی۔ جب وہ پارٹی میں آئی ہوئیں بزنس مین کے بیویوں کی غیبت سے فارغ ہوئی تو ان کو پھر سے چائے کا خیال آیا۔
“کہاں مر گئی کرن۔۔۔۔۔ ایک کپ چائے بنانے میں اتنی دیر لگتی ہے کیا۔۔۔۔ کرم جلی جلدی ہاتھ چلا۔” انہوں نے اسے کوستے ہوئے بلند آواز میں کہا اور نور سے اس کے دن بھر کی مصروفیات پوچھنے لگی۔
کرن نفاست سے تین کپ چائے اور بسکٹ کا پلیٹ ٹرے میں رکھے ان کے پاس آئی اور ان کو چائے پیش کی۔ نور نے اپنا کپ لیتے ہوئے اس کا شکریہ ادا کیا اور واپس ماما کی طرف متوجہ ہوئی۔ کرن نے چچی کو کپ پکڑایا اور پھر اپنا کپ اٹھا کر ان ماں بیٹی کے بلمقابل سنگل صوفے پر بیٹھ گئی۔ نور نے چائے کے گھونٹ لیتے ہوئے ماما کو اپنی دن بھر کی مصروفیات بیان کئے۔
“ماما۔۔۔۔ میں کل روحان کو ڈنر پر انوائیٹ کرنا چاہتی ہوں۔” نور نے معصومیت سے ماما کا ہاتھ تھام کر اپنے بوائے فرینڈ کو کھانے پر بلانے کی خواہش ظاہر کی۔
نگار بیگم کا حلق کڑوا ہوگیا ان کو ایک دم سے چائے اٹکنے لگی۔ انہوں نے کپ نیچے رکھا اور منہ بناتے ہوئے نفی میں سر ہلایا۔ کرن چپ چاپ چائے پیتے ان ماں بیٹی کی گفتگو سن رہی تھی۔ روحان کا ذکر اس گھر میں پہلے بھی ہوچکا تھا اس لیے ان تینوں کے لیے روحان کا ذکر کوئی نئی بات نہیں تھی۔
“کب تک ایسے آنا جانا لگا رہے گا تم دونوں کا۔۔۔۔ اب تو کالونی میں بھی تم پر تبصرہ ہوتا ہے۔۔۔۔ میں اب روحان کو گھر آنے کی اجازت نہیں دونگی۔۔۔۔۔ اس سے کہو اگر اسے واقعی تم میں دلچسپی ہے تو اپنے گھر پر بات کر کے تمہارا رشتہ مانگ لیں۔” ماما نے صاف انکار کر دیا اور رخ پھیر کر اپنا موبائل دیکھنے لگی۔
نور اور کرن میں تعجبی نظروں کا تبادلہ ہوا۔ دونوں ہی نگار بیگم کے اس ردعمل پر حیران ہوئی تھی۔ آج سے پہلے جب بھی روحان کے آنے کا ذکر ہوتا وہ خوش دلی سے اسے آنے کی اجازت دیتی اور آج ان کا انکار ان دونوں کے لیے غیر متوقع تھا۔ نور کا موڈ خراب ہونے لگا اور کرن بنا کوئی مداخلت کئے بیٹھی رہی۔
“لیکن ماما۔۔۔۔۔ ابھی ہمارا شادی کرنے کا ارادہ نہیں ہے۔۔۔۔ میں پہلے تعلیم مکمل کر لوں۔۔۔ پھر کر لیں گے شادی۔” نور نے دل گرفتگی سے جواب دیا
ماما نے سپاٹ تاثرات بنائے نور کو دیکھا وہ سرد مہری کا مظاہرہ کرتی ان ہی کو دیکھ رہی تھی۔ ماما کے پیشانی پر بل نمودار ہوئے۔
“بیٹا میں شادی کرنے کا نہیں کہہ رہی۔۔۔۔ میں صرف اتنا کہہ رہی ہوں کہ رشتہ بھیجے اور تم سے انگیجمینٹ کر لیں۔۔۔۔ تم دونوں اب بڑے ہو گئے ہو۔۔۔۔ i don’t like کوئی تمہارے کریکٹر کے بارے میں غلط بیانی کرے۔۔۔۔ اور منگنی کر لینے میں کوئی برائی نہیں ہے۔۔۔۔۔ میں تمہارا ہی مستقبل سیکیور کرنا چاہتی ہوں۔۔۔۔۔ اگر کل کو روحان کی فیملی نے اس کا کہی اور رشتہ کروا دیا تو پھر تم کیا کر لو گی my baby۔” ماما نے اس کے رخسار پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے سمجھایا۔
نور کے تنے اعصاب پُر سکون ہوئے اسے ماما کا آیڈیا پسند آیا۔ روحان سے انگیجمینٹ کا سوچ کر ہی اس کی آنکھیں چمک اٹھی۔
روحان اور نور ایک دوسرے کو نور کے کالج کے دورانیے سے ہی پسند کرتے تھے اور ایک دوسرے کے گھر بھی آنا جانا تھا۔ دونوں ہی لبرل طبقے سے تعلق رکھنے والے خاندان سے تھے اس لیے ان کے ملنے پر کبھی کسی نے اعتراض ظاہر نہیں کیا۔ نور کی روحان سے ملاقات ایک جیولری کے نمائشی تقریب کے دوران ہوئی تھی جہاں روحان تقریب کی سربراہی کر رہا تھا اور نور کالج ٹرپ کے ساتھ گئی ہوئی تھی۔ وہی دونوں کی دوستی ہوئی اور رابطوں کا سلسلہ شروع ہوا
“تھینکیو ماما۔۔۔۔ میں روحان سے بات کروں گی” اس نے ماما سے لپٹ کر پھرتیلے انداز میں کہا۔
ماما نے اس کے گرد بازو مائل کرتے ہوئے اس کی پیشانی کو چوما۔ کرن مسکراتے ہوئے اس فعل کو دیکھ رہی تھی جب نگار بیگم کی اس پر نظر پڑی۔
“تم کیا شکل دیکھ رہی ہو میری۔۔۔۔ جا کے جلدی کھانا بنا۔۔۔۔ بھوک سے مار دو گی ایک دن مجھے۔” انہوں نے تندی سے اسے جھڑکا۔
کرن کی مسکراہٹ سمٹ گئی اور وہ تیزی سے اٹھ کر کچن میں اوجھل ہوگئی۔ نور ماما سے الگ ہو کر آگے کا لائحہ عمل سوچنے لگی۔
نگار بیگم کو ہمیشہ خوف رہتا تھا کہ کہی کرن ان کے اور نور کے آپس کے پیار کو بری نظر نہ لگا دیں اس لیے ہمیشہ اسے زیادہ دیر اپنے اور نور کے مجلس میں بیٹھنے نہیں دیتی تھی۔ نور ان سے معذرت کرتی اپنے کمرے میں چلی گئی اور روحان کو کال ملانے لگی۔ نگار بیگم بھی کپڑے تبدیل کرنے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔ لاؤنج ایک مرتبہ پھر خاموشی میں ڈوب گیا۔
کرن کچن میں خانساماں کے ساتھ سلاد کاٹنے لگی اور ہر کٹ کے ساتھ وہ اپنے اندر کے خواہشات کو بھی کاٹ رہی تھی دل کے اندر بس خلاء ہی خلاء بن رہا تھا۔
نور اس وقت اپنے کمرے کے وسط میں کھڑی موبائل کان سے لگائے روحان سے ماما کی تجویز شیئر کر رہی تھی۔
“روحان تم رانا بھائی سے بات کرو پلیز۔” نور نے التجائی انداز میں کہا
روحان اپنے بیڈروم میں بیڈ پر نیم دراز لیٹا سیب کھا رہا تھا اور ہینڈ فری کانوں میں لگائے نور کی باتیں سن رہا تھا۔ نور کے اس سوال پر اس نے پلیٹ پرے کھسکائی اور سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔
“نور۔۔۔ رانا بھائی تو کام کے سلسلے میں ملک سے باہر گئے ہے۔۔۔۔ جب لوٹے گے میں ان سے بات کر لوں گا لیکن۔۔۔۔۔ don’t you think ہم بہت جلدی نہیں کر رہے۔۔۔۔ میرا مطلب پہلے تم تعلیم مکمل کر لیتی۔” روحان نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
نور کچھ سوچ میں پڑ گئی۔ قدم قدم چلتی وہ بیڈ پر آکر بیٹھ گئی پھر ماما کا خدشہ یاد آیا تو تسلی سے روحان کو سمجھانے لگی۔
“ابھی تو صرف انگیجمینٹ کریں گے۔۔۔ اور یہ صحیح بھی ہے۔۔۔۔۔ ہمارا ریلیشن محفوظ ہوجائے گا اور لوگوں کی باتوں سے بھی بچ جائے گے۔” اس نے پرسکون انداز میں کہا۔
روحان بھی نور کی باتوں سے متاثر ہوا اور گھر پر رشتے کی بات کرنے کے لیے ہامی بھری۔
ڈنر کے وقت نور ڈائننگ ٹیبل پر چہکتے ہوئے بیٹھی اور ماما کو روحان کی رضامندی بتائی۔ اس کی خوشی دیکھ کر ماما اور کرن بھی خوش ہوگئی۔ ماما نے تو خوش ہوکر اسے آغوش میں لے لیا اور کرن نے بھی مبارکباد پیش کی۔ رات کا کھانا خوشگوار ماحول میں نوش فرمایا گیا۔ اور اب بس روحان کے بھائی کا سفر سے لوٹنے کا انتظار تھا۔
کرن اس رات اطمینان سے لیٹی اپنے آنے والے کل سے بے خبر، نور کی نئی زندگی کے بارے میں سوچ کر مسرور ہورہی تھی۔ اسے کیا پتا تھا نور کی نئی خوشیاں اس کی اپنی زندگی کا کانٹا بن جائیں گی۔
**************&&&&***********
روحان کے بڑے بھائی کو سفر سے لوٹے ایک ہفتہ سے زیادہ ہوگیا تھا اور پورے ایک ہفتے کی محنت کر کے روحان اب ان کو نور کے گھر چلنے پر تیار کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔
اس دن روحان نے کال کر کے نور کو کل چائے پر آنے کی اطلاع دے دی تھی اس لیے آج صبح سے ان کے گھر پر ہلچل مچی ہوئی تھی۔ سب سے زیادہ واویلا نگار بیگم کر رہی تھی جو اپنی نگرانی میں خانساماں اور کرن کو ہدایات جاری کر رہی تھی۔ کرن شام تک جلدی جلدی ہاتھ چلاتے سارے کام نپٹانے میں لگی رہی پھر نور کے کمرے میں آکر اس کو تیار کروانے میں مدد کرنے لگی۔ اس وقت وہ نور کے کپڑے استری کر رہی تھی اور نور اضطراب میں دائیں سے بائیں چکر کاٹ رہی تھی۔
“نور ریلکس ہوجاو کچھ نہیں ہوگا” کرن نے اسے تسلی دیتے ہوئے مخاطب کیا۔
نور نے روحان کے زبانی رانا بھائی کا صرف ذکر سنا تھا پہلے کبھی ملی نہیں تھی لیکن پھر بھی ان کی شخصیت کا ایسا روعب و دبدبہ تھا کہ نور کو ان کے سامنے جانے میں کپکپاہٹ ہورہی تھی اور یہی حالت گیسٹ روم میں کھڑی ہر چیز پر نظر دوڑاتی نگار بیگم کی بھی ہورہی تھی۔ روحان نے ہمیشہ ہی بہت سنجیدگی سے اپنے بڑے بھائی کی تعریفیں کی تھی اور آج پہلی مرتبہ ان سے ملنے میں وہ اپنا امپریشن خراب نہیں کرنا چاہتی تھی اس لیے ہر چیز پر خود بھی نظر ثانی کرتی رہی۔
شام کے قریب 7 بجے نگار بیگم نے نیلے رنگ کی سلک کی نت نئی ساڑھی پہنی ساتھ میچنگ کا موتیوں والا ہار گلے میں پہنا ڈھیر سارا میک اپ کیا، بالوں کا جوڑا بنایا اور نفاست سے صوفے پر بیٹھی ان کا انتظار کرنے لگی۔ کرن نے بھی ساری تیاری سے مطمئن ہو کر صاف کپڑے پہنے اور کچن کے سرے پر کھڑی ہوگئی۔ دوسری جانب نور اپنے کمرے میں آئینہ کے سامنے اعلی تربیتی ہونے کی پریکٹس کر رہی تھی جب اس نے کار کا ہارن سنا۔
نگار بیگم تیزی سے لاؤنج کے دروازے پر آئی اور بزنس وومن کا مسکراتا چہرہ بناتے گیٹ کی جانب دیکھنے لگی جہاں آنکھوں کو چکا چوند کرنے والی سفید چمکتی کار داخل ہورہی تھی۔ نور بھی تیزی سے بھاگتے ہوئے آگے آئی اور ماما کے ہمراہ ان کے استقبال کے لیے کھڑی ہوگئی البتہ کرن وہی کھڑی دور سے اس عالی شان گاڑی میں جھانک رہی تھی۔ گاڑی میں آگے کی سیٹ پر ڈرائیور اور کالے سوٹ میں ملبوس باڈی مین بیٹھا تھا اور پیچے سیٹ پر روحان اور اس کے ساتھ وہ معتبر شخص۔
جب گاڑی پورچ میں کھڑی ہوئی تو سب سے پہلے باڈی مین کار سے اترا اور پھر روحان خود دروازہ کھول کر باہر آیا تب تک باڈی مین دوسرا دروازہ کھول کر موودب انداز میں ہاتھ باندھے اپنے مالک کے اترنے کے انتظار میں کھڑا ہوگیا تھا۔
رانا مبشر بڑے اسٹائل سے کار سے اترے کوٹ کا بٹن بند کر کے سیدھے ہوئے اور sunglasses ہٹا کر گھر کے چاروں اطراف کا جائزہ لینے لگے۔ باڈی مین کار کا دروازہ بند کر کے ایک قدم پیچے کھڑا ہوگیا۔
رانا مبشر بہت ہی صوبر آدمی تھے۔ عمر میں 46 کے قریب تھے لیکن اپنی صحت اور تندرستی کا بہت خیال رکھا تھا۔ جسمانی فٹنس کے لحاظ سے وہ اپنی اصل عمر سے کم کے لگتے۔ بالوں کو نفاست سے پیچے جمائے رکھا تھا اور ہلکی شیو رکھی ہوئی تھی جن میں کچھ کچھ سفید بال اگتے نظر آرہے تھے۔ مہنگی ترین گھڑی اور جوتوں سمیت برانڈڈ تھری پیس سوٹ میں ملبوس وہ آگے بڑھے تو روحان بھی ان کے پیچے ہو لیا۔
***********&&&&*************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...