سجل میں جانتا ہوں کہ تم مجھے معاف نہیں کرو گی کیوں کہ میں نے کام ہی ایسا کیا ہے جس پر میں معافی کا حق دار بھی نہیں ہوں۔
میں جانتا ہوں کہ تم میری تحریر بھی پڑھنا پسند نہیں کرو گی مگر پلیز اسے ادھورا مت چھوڑنا کیوں کہ میرے یہ خط لکھنے کا مقصد تمہیں تمہارے ارد گرد کے حالات سے با خبر کرنا ہے۔
جانتی ہو میرے جانے سے ایک دن پہلے ثانیہ میرے پاس آئی تھی۔
اس نے کہا کہ اسے تمہاری اور روحاب کی باتوں سے معلوم ہو چکا ہے کہ وہ بچہ میرا ہے۔
اور وہ اس بچے کو اس دنیا میں کسی بھی صورت نہیں آنے دے گی۔
کیوں کہ ایسا کرنے سے وہ مجھ سے اپنا بدلہ پورا کرے گی اور تمہیں بھی تکلیف پہنچے گی۔
وہ تمہیں اور روحاب کو الگ کرنا چاہتی ہے۔کیوں کہ اسکا کہنا ہے کہ جہاں جہاں خوشیاں اسکا مقدر تھیں وہ تم نے اس سے چھین لیں۔
مجھ سے طلاق کے بعد وہ دوبارہ روحاب کے پاس واپس لوٹنا چاہتی تھی مگر روحاب نے جلد ہی تمہیں اپنا لیا۔
کہا تو اس نے اور بھی بہت کچھ تھا سجل مگر میں مختصر یہ کہوں گا کہ وہ جب تک تمہارے پاس رہے گی تم کبھی خوش نہیں رہ سکو گی۔
سجل وہ حسد کرتی ہے تم سے اور اسکا حسد اسے تو چین سے جینے نہیں دے گا مگر وہ تمہاری بھی ہر خوشی کو چاٹ جاۓ گا۔
سجل میرے لئے اس سے زیادہ بدقسمتی کی بات اور کیا ہوگی کہ میں ہونے والا ایک گناہ گار باپ ہوں۔
میری تم سے ہاتھ جوڑ کر درخواست نہیں بلکہ التجا ہے کہ پلیز اس بچے کو اس کے اصلی باپ کے بارے میں کبھی مت بتانا۔
اور اس کی خاطر ہی سہی مگر اپنا خیال رکھنا۔
بلکہ مجھے تو یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں کیوں کہ تم اس معاملے میں بہت خوش قسمت ہو کہ تمہیں روحاب جیسا لائف پارٹنر ملا۔
جسے تم پر خود سے بھی زیادہ یقین ہے اور مجھے بھی اس بات کا یقین ہے کہ وہ تمہارا ہمیشہ بہت خیال رکھے گا۔
آخری بار پھر کہوں گا کہ دشمن کی کسی بھی چال کو خود پر کامیاب مت ہونے دینا۔
میں واپس نہیں جا رہا سجل میں یہی ہوں پاکستان میں مگر جہاں بھی رہوں گا تم سب سے دور ہی رہوں گا۔
تمہارا گناہ گار زارون۔
۔*********************
سجل خط پڑھنے کے بعد گرنے کے سے انداز میں بیڈ پر بیٹھ گئی اور خط کو گھورنے لگی۔
خط اس کے آنسوؤں سے بھیگتا چلا گیا۔
آخر ایسا میرے ساتھ ہی کیوں ہو رہا ہے۔
کیوں ہر بار میرے لئے نئی سے نئی مشکل پیدا ہو جاتی ہے۔
اور دکھ کی بات تو یہ ہے کہ میرے ساتھ جو ہوا۔۔۔جو ہو رہا ہے اور جو بھی ہونے والا ہے یہ سب کرنے والے میرے اپنے ہیں۔
آخر میرا قصور ہی کیا ہے جو میرے ساتھ یہ سب کیا جا رہا ہے۔آخر کیوں؟؟؟؟؟
سجل وہاں بیٹھی بری طرح رونے لگی۔
روحاب جو ابیہا سے سجل کا پوچھتا ہوا کمرے میں آیا تھا سجل کو ہچکیوں کے ساتھ اتنی بری طرح روتا دیکھ پریشان ہوگیا۔
سجل کیا ہوا تمہیں اس طرح کیوں رو رہی ہو۔
روحاب بھاگتا ہوا اس کے پاس آیا اور اسکا چہرہ اوپر کئے پوچھنے لگا جو آنسوؤں سے بھیگ چکا تھا۔روحاب میرے ساتھ ہی یہ سب کیوں ہو رہا ہے آخر میرے اپنے ہی میرے دشمن کیوں ہیں۔
سجل اس کے سینے سے جا لگی اور اسکی شرٹ کو دونوں ہاتھوں سے دبوچے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔روحاب کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کہنا چاہ رہی ہے اور وہ آخر اسے چپ کیسے کروائے۔
تم آخر کس کی بات کر رہی ہو سجل۔
روحاب نے اس سے پیار بھرے لہجے میں پوچھتے ہوئے خود سے دھیرے سے الگ کیا۔
سجل اسے سب بتانے لگی مگر پھر یہ سوچتے ہوئے کہ روحاب تو ابھی کہ ابھی ثانیہ کو سنا ڈالے گا اور گھر میں موجود مہمانوں کی پرواہ بھی نہیں کرے گا اور وہ شادی کے دوران کوئی بدمزگی نہیں چاہتی تھی اس لئے چپ رہی۔
سجل میں نے جو پوچھا ہے اسکا جواب دو۔
وہ اصل میں ثانیہ آپی نے بہت روڈلی بات کی مجھ سے انہوں نے کہا کہ انکی خوشیاں میں نے چھینی ہیں میں انکی دشمن ہوں اور یہ بھی کہ کاش میں انکی بہن نا ہوتی۔
سجل نے جھوٹ بولا مگر آخری بات اس کے دل کی تھی کہ کاش واقعی میں وہ ثانیہ کی بہن نا ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے ایسا کہا تم سے ویسے اس سے اور امید بھی کیا کی جا سکتی ہے۔
جن لوگوں کا کام ہی دوسروں کو تکلیف پہنچانا ہو انھیں رولا کر خود مسکرانا ہو انکی باتوں کو اتنا دل پر نہیں لینا چاہیے۔
سہی کہا ہے اس نے سجل کہ کاش تم اس کی بہن نا ہوتی۔
کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو تمہیں یوں اس کے الفاظ سے تکلیف نا پہنچتی۔
تمہاری زندگی میں یوں بدمزگی نا ہوتی تمہاری زندگی کسی حد تک پر سکون ہوتی۔
اس کی باتوں پر آنسو بہا کر تم صرف اور صرف اپنے قیمتی آنسو ضائع کر رہو ہو جن کی اسے رتی بھر بھی پرواہ نہیں مگر مجھے کتنی پرواہ ہے یہ تو تم جانتی ہو ناں سجل تو پلیز میری خاطر چپ کر جاؤ۔
میں اس خوشی کے موقع پر تمہیں روتے ہوئے دیکھنا تو دور کی بات اتنا سا اداس بھی نہیں دیکھنا چاہتا۔سجل نے یہ سوچتے ہوئے کہ وہ واقعی میں اپنے ساتھ ساتھ روحاب کو بھی پریشان کر رہی ہے۔
خود تکلیف میں ہو کر اسکو بھی تکلیف دے رہی ہے فوراً اپنے آنسو صاف کر کے اٹھ کھڑی ہوئی۔
میں منہ دھو کر آتی ہوں روحاب آپ نیچے چلیں۔ڈیٹس لائک آ گڈ گرل۔۔۔
روحاب نے مسکراتے ہوئے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا۔اور ہاں جلدی سے نیچے آجانا اور رونا مت ورنہ میں چیک کرنے آجاؤں گا۔
روحاب یہ کہتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔
سجل نے جھک کر اپنے پیر کے بائیں جانب سے خط اٹھایا اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے باسکٹ میں پھینک دیا۔
پھر واش روم میں گھس گئی اور باقی کے آنسو سنک کے پاس کھڑی ہو کر بہانے لگی۔
۔*****************
بیٹیوں کے جانے سے گھر میں کتنا سناٹا ہو جاتا ہے ناں ثمرین۔
شہلا بیگم کو معارج کی یاد ستا رہی تھی۔
ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ بیٹیاں ہی تو گھر کی رونق ہوتی ہیں۔
اور میں تو آپکی بہت شکر گزار ہوں کہ آپ نے میری دونوں بیٹیوں کو اپنے ہی گھر میں رکھ لیا۔
ارے ثمرین اس میں شکر گزاری والی کون سی بات ہے تمہاری بیٹیاں میری بھی تو بیٹیاں ہی ہیں ناں۔
اور میرے روحاب اور موحد کے ہوتے ہوئے میں سجل اور انعم کو غیروں میں کیسے جانے دیتی۔
اب تو ماشاللہ موحد نے بھی بزنس اچھی طرح سے سنبھال لیا ہے بس انعم کی پڑھائی ختم ہو جاۓ پھر تم بھی انعم کے ہاتھ پیلے کرنا اور میں بھی اپنے موحد کے سر پر سہرا سجا دیکھوں۔
اور میرا تو ارادہ ہے کہ ان کے ساتھ ساتھ روحاب اور سجل کی شادی کی تقریب بھی رکھ دوں۔
کتنے ارمان ہو گے ناں ان کے بھی مگر حالات نے موڑ ہی ایسا لیا کہ انہیں جلدی میں نکاح کرنا پڑا۔
مگر دیکھنا میں دونوں بیٹوں کی شادی دھوم دھام سے کر کے ان کے سارے ارمان پورے کروں گی۔
بس اللّه ہمارے بچوں کی دلی خواہشات پوری کرے۔انکی خوشیاں انہیں اور ہمیں بھی دکھانا نصیب کرے۔۔۔
آمین۔۔۔
شہلا کی بات پر ثمرین نے بھی آمین بولا۔
ان دونوں کے پیچھے کھڑی ثانیہ آمین کہنے کی بجاۓ سواۓ جلنے کڑکنے کے اور کیا کر سکتی تھی۔
کیوں کہ ان کی باتوں کے بیچ سب بچوں کا ذکر تھا سواۓ اس کے۔
کیا باتیں ہو رہی ہیں۔سجل ان کے پاس آبیٹھی۔
ہم تو یہ باتیں کر رہے تھے کہ تم اپنا بلکل بھی خیال نہیں رکھتی جب دیکھو ادھر سے ادھر ٹیہلتی پھرتی ہو کبھی بیٹھ بھی جایا کرو۔
شہلا بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا۔
ارے بڑی ماما آپ سب ہیں تو سہی میرا خیال رکھنے کے لئے اور ویسے بھی آپکو تو پتا ہی ہے کہ میں چلنے پھرنے سے زیادہ بیٹھنے سے تھک جاتی ہوں۔
خیر یہ سب باتیں چھوڑیں اور مجھے یہ بتائیں کہ کل سب لوگ جا رہے ہیں ناں معارج کی طرف۔
ہاں بیٹا سب نے اتنے پیار اور محبت سے بلایا ہے جانا تو پرے گا ہی تم چلو گی۔
نہیں ماما میں گھر پر ہی رہوں گی۔
اور ثانیہ تم؟؟؟؟
ثمرین بیگم نے نا جانے کیوں اس سے بھی پوچھ لیا۔مگر ارادہ ان کا کوئی بھی نہیں تھا اس کو ساتھ لے جانے کا کیوں کہ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ثانیہ وہاں جا کر کوئی فضول بات کرے جو ثانیہ کے سسرال والوں کو بری لگے۔
ارے واہ ماما کہیں آپ نے غلطی سے تو مجھ سے نہیں پوچھ لیا۔
کیوں کہ وہ کیا ہے ناں مجھے کوئی فضول شوق نہیں ہے یوں ہی منہ اٹھا کر کسی کے بھی گھر چلے جانے کا۔
ثانیہ نے اپنے اندر بھرا غصہ نکالا۔
تمیز سے بار کرو ثانیہ وہ کوئی اور نہیں بلکہ تمہاری بہن کے سسرال والے ہیں۔
ثمرین بیگم کو اس کی بات پر غصہ ہی تو آگیا تھا مگر ثانیہ کو کیا پرواہ تھی اس غصے کی۔
چھوڑیں ماما کیوں خواہ مخواہ ان سے بات کر کے خود کو پر ہائیپر کر رہی ہیں آپ۔
ان کو کبھی کسی کی خوشی سے کوئی مطلب ہوا بھی ہے۔
سجل نے ثانیہ کو کن نظروں سے دیکھتے ہوئے ثمرین سے کہا۔
جبکہ ثانیہ یہ سوچتی ہوئی کہ آج تک اتنا کچھ ہو جانے کے باوجود بھی کبھی سجل اس کے خلاف نہیں بولی۔
اب یوں اچانک کیا ہوگیا جو یہ اس سے اس طرح بات کر رہی ہے۔
اس طرح تو وہ اسے بیوقوف بنانے میں کامیاب نہیں رہے گی۔
یہ تو کچھ زیادہ ہی چالاک بنتی جا رہی ہے غصے سے وہاں سے واک آوٹ کر گئی۔
۔**********************
سب معارج کی طرف گئے ہوئے تھے۔
سجل اور ثانیہ گھر پر ہی تھیں۔
روحاب کی آج شائد نائٹ ڈیوٹی تھی جو وہ صبح ہی صبح اپنے دوستوں کی طرف چلا گیا تھا اور اب واپس آرہا تھا۔
سجل چاۓ بنا دو پلیز سر دکھ رہا ہے۔
جی ابھی بنا کے لائی۔
سجل لاؤنج میں صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی اٹھ کر چاۓ بنانے چلی گئی۔
روحاب اس کی جگہ پر بیٹھ گیا۔
سجل نے دودھ کی کیتلی فریج سے نکال کر چولہے پر رکھی اور ماچس جلانے لگی۔
سجل یہ کیا کر رہی ہو تم۔
روحاب نے جلدی سے آکر اس کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی ماچس فرش پر گرا دی۔
کیا مطلب کہ کیا کر رہی ہو چولہہ جلانے لگی تھی آپ نے خود ہی تو کہا ہے کہ چاۓ بنا کر لاؤ۔
سجل نے معصومیت سے جواب دیا۔
روحاب نے آگے ہو کر گیس چیک کی تو وہ کھلی ہوئی تھی۔
سجل تمہیں ذرا بھی سمیل نہیں آئی یہ چاروں کے چاروں چولہے کھلے پڑے ہیں۔
پورے گھر میں گیس پھیلی ہوئی ہے مجھے وہاں بیٹھے کو سمیل آگئی اور تمہیں پاس کھڑی کو پتا ہی نہیں چلا۔
ابھی اگر ذرا سی بھی ماچس کی تیلی لگ جاتی تو جانتی ہو کیا ہونے والا تھا۔
آگ لگ جاتی ہر طرف اور ساتھ ہی تمہیں۔۔۔۔۔۔
روحاب بولتے بولتے ایک پل کے لئے خاموش ہوا مگر پھر دوبارہ بولا۔
آخر دھیان کہاں رہتا ہے تمہارا۔
اب یوں کھڑی ہونقوں کی طرح دیکھ کیا رہی ہو نکلو کچن سے باہر۔
روحاب اسے لئے کچن سے باہر لان میں آیا۔
اور پھر خود جا کر گھر کے تمام کھڑکیاں دروازے کھولنے لگا۔
جبکہ سجل باہر بت بنی کھڑی تھی۔
ساری بات سمجھنے میں اسے ایک منٹ کا بھی وقت نا لگا۔
اس کی آنکھوں سے دکھ اور غصے کی شدت سے آنسو بہہ نکلے۔
ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے ابھی وہ کچھ کر ڈالے گی مگر خود کو نہیں بلکہ ثانیہ کو۔
سجل آنسو صاف کرتی ہوئی اندر جانے لگی جب لاؤنج کے دروازے سے نکلتی ہوئی ثانیہ لان میں آئی۔
وہ سیدھا سجل کے پاس آئی اور بولی۔
تمہیں اگر مرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو اکیلی مرو ناں۔ہم سب کو بھی اپنے ساتھ ساتھ مارنے پر کیوں تلی ہوئی ہو۔
کیوں سارے گھر میں گیس پھیلا رکھی ہے اتنی سی بھی عقل تم میں ہے یا نہیں۔
ثانیہ نے اپنی طرف سے سارے کا سارا ملبع اس پر تھوپنا چاہا۔
مگر سجل اب اس کی تمام چالاکیاں سمجھ چکی تھی۔
سجل بولی تو کچھ بھی نہیں مگر اس کا ہاتھ خود باخود اٹھا اور ثانیہ کے گال پر نشان چھوڑتا چلا گیا۔ثانیہ اس اچانک حملے پر ہکا بکا رہ گئی۔
مجھ پر ہاتھ کیسے اٹھایا تم نے جاہل لڑکی۔
تم نے مجھ پر ہاتھ اٹھا کر بہت بڑی غلطی کی ہے اب دیکھو تم۔
بدلے میں ثانیہ نے بھی اپنا ہاتھ اٹھایا مگر وہ ہوا میں ہی رہ گیا۔
کیوں کہ اب سامنے روحاب کھڑا تھا۔
اس نے ثانیہ کا ہاتھ سختی سے پکڑا اور بولا۔
نہیں ثانیہ بی بی ایسی غلطی کبھی مت کرنا ورنہ بہت برا ہوگا یہ یاد رکھنا تم۔
تم کیا سمجھتی ہو کہ میں اندھا ہوں مجھے کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا۔
تمہاری تمام چالیں اچھے سے سمجھتا ہوں میں۔تمہارے دماغ میں جو چل رہا ہے ناں وہ اچھے سے جانتا ہوں میں۔
میرا اور سجل کا رشتہ ختم کرنا چاہتی ہو ناں تم واپس میری طرف پلٹنا چاہتی ہو ناں تم مگر بھول جاؤ کہ ایسا کبھی ہوگا۔
میں تو تمہاری شکل تک دیکھنا پسند نہیں کرتا۔
اس رشتے کے خاتمے سے پہلے میں تمہیں ہی ختم کر دونگا۔
روحاب نے غصے سے اس کا ہاتھ پڑے جھٹکا۔
روحاب چپ ہی ہوا تھا کہ سجل بول پڑی۔
صرف یہی نہیں روحاب انہوں نے تو میرے بچے کو مارنے کی بھی کوشش کی آج ہی نہیں پہلے بھی۔
آپ کیا سمجھتی تھیں کہ مجھے کبھی پتا نہیں چلے گا کہ آپ کیا چاہتی ہیں۔
ارے میں کیا سب جانتے ہیں کہ آپ جیسی لڑکی کبھی اپنے علاوہ کسی اور کی خوشی برداشت ہی نہیں کر سکتی۔
دوسروں کی خوشیاں چھیننا دوسروں کے گھر برباد کر کے جشن منانا تو اب شائد آپ کا مقصد بن چکا ہے۔اگر آپکو اتنا ہی شوق ہے یہ سب کرنے کا تو چلی جائیں ناں اس گھر سے کہیں اور جا کر کریں یہ سب کم از کم ہماری زندگیاں تو عذاب میں مت ڈالیں۔
میرے ساتھ جو کچھ بھی ہوا صرف اور صرف آپ کی وجہ سے ہوا۔
اور اب جب کہ میں نے یہ سب قبول کے لیا ہے اپنی زندگی میں خوش ہوں تو آپ سے یہ بھی برداشت نہیں ہو رہا۔
کون ہیں آپ کیا میری ہی بہن ہیں مجھے تو یقین ہی نہیں آتا۔
آخر کیسی لڑکی ہیں جس سے اپنی ہی بہن کی مسکراہٹ تک نہیں دیکھی جاتی۔
ارے لوگ تو کیا کچھ نہیں کرتے اپنی بہن کے چہرے پر ایک ہلکی سی ہی مسکراہٹ لانے کے لئے۔
مگر آپ تو نجانے کن بہنوں میں سے ہیں جو مسکراہٹ لانے کی بجاۓ ختم کرنے کے در پر ہے۔
خوشیاں بانٹنے کی بجاۓ خوشیاں چھیننے کے در پر ہے۔مجھے تو شرم آرہی ہے آپ کو اپنی بہن کہتے ہوئے۔آپ پاگل ہو چکی ہیں بلکل پاگل کیوں کہ ایسا کوئی نہیں کرتا جیسا آپ کر رہی ہیں۔
ہاں ہوگئی ہوں میں پاگل۔
ثانیہ واقعی میں پاگلوں کی طرح چلائی۔
تم لوگوں نے مجھ سے میری خوشیاں چھینیں تو اب میری باری ہے۔
ہاں جلتی ہوں میں تم سب سے کیسے اپنی زندگی میں ہنس کھیل رہے ہو۔
کیسے مطمئن ہو اپنی زندگی سے۔
اور جو میری زندگی اجیرن بن گئی ہے اسکا تو کسی کو کوئی خیال ہی نہیں ہے۔
آپ نے اپنی زندگی خود اجیرن کی ہے طلاق لے کر خود گھر میں بیٹھیں۔
پہلے روحاب کے دل کے ساتھ کھیلا اور پھر زارون کے۔کتنے لوگوں کے دل توڑے آپ نے ماما پاپا کو کتنی تکلیف پہنچی ہے آپ کے اس طرح طلاق لے کر چلے آنے سے۔
مگر آپکو کیا پرواہ آپ نے تو ایک دفعہ بھی ان سے معافی نہیں مانگی۔
ایک دفعہ بھی انکے سامنے جا کر اپنی شرمندگی کا اظہار نہیں کیا۔
سجل اسے بیچ میں ٹوک کر بولی۔
تم نے کی میری زندگی عذاب۔
میں کیوں مانگتی معافی کیوں ہوتی میں شرمندہ جب میرا کوئی قصور کوئی غلطی ہی نہیں ہے۔
تمہاری وجہ سے زارون نے مجھے طلاق دی۔
تم نے معصوم بن کر اسے اپنی طرف کھینچا اس پر ڈورے ڈالے خیر کچھ کم گھٹیا تو وہ بھی نہیں۔
اس کے پاس بھی تم اپنی مرضی سے گئی تب ہی تو یہ سب۔۔۔۔۔
اوه جسٹ شٹ اپ۔۔۔۔۔
روحاب نے غصے کے مارے اسے ایک زور دار تھپڑ دے مارا۔
ثانیہ کی باقی کی بات تو منہ میں ہی رہ گئی۔
ثانیہ کچھ پل تو گال پر ہاتھ رکھ کر اسے گھورتی رہی مگر پھر کسی پاگل کی طرح روحاب کو کاٹ کھانے کو دوڑی۔
گھٹیا انسان بیہودہ جاہل تو نے مجھ پر ہاتھ بھی کیسے اٹھایا تیری اتنی مجال۔
ثانیہ نے اس کے سینے پر مکے برسانے شروع کر دیے۔روحاب نے اسے پکڑ کر پڑے دھکیلا تو وہ جا کر لان میں پڑی کرسیوں کے ساتھ لگی۔
ایک دم ثانیہ کو نجانے کیا ہوا اس نے پلیٹ میں پڑی چھڑی اٹھائی اور بولی آج میں تمہیں نہیں چھوڑوں گی۔
سن سجل میری زندگی کا سب سے بڑا کانٹا تم ہی ہو آج تو تجھے اکھاڑ کر پھینک ہی دونگی۔
ثانیہ چھڑی کی نوک سجل کی طرف کئے آگے بڑھی۔اس نے سجل کے دل پر وار کرنا چاہا۔
سجل ہکا بکا کھڑی ہی رہی اور اپنی جگہ سے ہل ہی نا سکی۔
روحاب نے جلدی سے آگے بڑھ کر ثانیہ کو روکنا چاہا مگر اس سے پہلے ہی کسی نے سختی سے ثانیہ کا ہاتھ پکڑ لیا۔یہ موحد تھا۔
یہ کیا کر رہی ہیں آپ پاگل ہوگئی ہیں کیا۔
اپنی بہن کی ہی جان کی دشمن بنی ہوئی ہیں۔
موحد چھوڑ دو اسے میں بھی دیکھتا ہوں کہ میرے ہوتے ہوئے یہ سجل کو ہاتھ بھی کیسے لگاتی ہے۔روحاب نے موحد کو اسے چھوڑنے کا کہا۔
نہیں بھائی یہ اس وقت اپنے بس میں بھی نہیں ہیں۔میں انکو چھوڑنے کی حماقت نہیں کر سکتا۔
موحد کے بچے چھوڑ مجھے۔
بڑے آئے اس کے ہمددرد بننے۔
چھوڑ مجھے ورنہ اس سے پہلے تجھے ختم کر دوں گی۔
اس سے پہلے کہ موحد اسے چھوڑتا یا وہ خود کو چھڑواتی کسی نے اسے اپنی طرف کھینچا اور اس طرح مارا کہ وہ خود کو سنبھال ہی نا پائی اور زمین پر جا گری۔
اس کے سامنے رمیز صاحب کھڑے تھے۔
انہیں دیکھ کر لگ رہا تھا کہ آج وہ اسے جان سے ہی مار ڈالیں گے۔
انہوں نے اسے بری طرح سے مارنا شروع کر دیا کسی نے بھی انہیں روکا نہیں۔
یہاں تک کہ ثمرین نے بھی جو کہ ماں تھی اور اپنی بیٹی تو اس طرح مار کھاتا دیکھ خاموش کھڑی تھیں۔
چھوٹے پاپا کیا کر رہے ہیں آپ چھوڑیں اسے۔
آخر روحاب نے آکر انہیں روکا۔
مجھے مت روکو روحاب آج تو میں اسے جان سے مار دونگا۔
بہت برداشت کر لیا اس کی حرکتوں کو۔
ہر بات پر ہر کام پر چپ رہا اس کے مگر اب یہ کسی کا قتل کرنے کا سوچے گی اور وہ بھی اپنی بہن کا تو میں کیسے چپ بیٹھوں کیسے آخر۔
چھوڑ دو مجھے روحاب تا کہ آج میں اس کا قصہ ہی تمام کر دوں۔
کاش تم پیدا ہوتے ہی مر جاتی کیوں ہمیں اتنے دکھ دکھانے کے لئے زندہ رہ گئی۔
اب کی بار ثمرین بیگم اس کے پاس آئیں اور بولیں۔تم اندر چلو ثمرین تمہاری طبیت خراب ہو رہی ہے۔
شہلا بیگم اسے سہارا دیتی ہوئی اندر لے جانے لگیں۔روحاب اس کو چھوڑ آؤ پاگل خانے یہ وہیں رہے تو اچھا ہے ایسے پاگلوں کی ہمارے گھر میں کوئی گنجائش نہیں۔
چھوٹے پاپا آپ کچھ مت کہیں سنبھالیں اپنے آپ کو۔کیوں نا کچھ بولوں اتنا کچھ ہوگیا اتنی بڑی باتیں چھپائیں اس نے ہم سے اور تم کہہ رہے ہو کہ میں ابھی بھی چپ رہوں۔
موحد بڑے پاپا کو اندر لے جاؤ۔روحاب نے دیکھا کہ رمیز صاحب کا غصے سے بول بول کر سانس اکھڑ رہا تھا اس لئے موحد کو انہیں اندر لے جانے کا بولا۔
موحد انہیں لئے اندر کی طرف بڑھا۔
مجھے بھی کوئی شوق نہیں ہے اس جہنم میں سڑنے کا۔
میں مر جاؤں گی مگر اب تم لوگوں کے ساتھ کبھی نہیں رہوں گی۔
ثانیہ چلاتی ہوئی اندر بھاگ گئی۔
جبکہ سجل اپنا سر تھامتی چکراتی ہوئی زمین پر گر گئی۔
سجل کیا ہوا تمہیں۔
روحاب کی اس پر نظر پڑی تو جلدی سے اس کی طرف بڑھ گیا۔
۔********************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...