دھند کی نمی چہرے پر پڑنے سے روفہ کی آنکھ سردی کی شدت سے کھلی ۔۔ساری رات دسمبر کی ڈھنڈ میں کام کرنے سے گردن بری طرح اکڑ گئی تھی۔ہاتھ پاوں کے ناخن نیلے پڑ گئے تھے ۔
اپنا سارا سامان ایک ہاتھ میں پکڑ کے کمرے میں داخل ہوئی نظریں بے اخیتار ہی سامنے کو اٹھیں جہاں فودیل بیڈ پر ٹانگ پر ٹانگ جمائے بڑی فرصت سے اس کو دیکھ رہا تھا ۔۔
روفہ بغیر کسی ردعمل کے سیدھا الماری سے کپڑے لے کر باتھ روم چلی گئی ۔
” بڑے دل گردے والی بندی ہے ویسے ۔ساری رات ٹھنڈ میں رہ کر بھی چست نظر آرہی ہے کوئی اور اس کی جگہ ہوتی تو اب تک بخار میں گری پڑی ہوتی ۔”
روفہ کی برداشت کا جانے انجانے میں وہ قائیل ہوا ۔اتنی سخت جان لڑکی پہلے نظر سے گزری کہاں تھی ۔
ابھی وہ یہ سب ہی سوچ رہا تھا کہ روفہ سادہ گرین رنگ کے گرم سوٹ پر گرم شال سر پر ٹکا کر ایک کندھے پر بیگ ڈالے باہر آئی ۔
” یہ کس حلیے میں باہر جانے لگی ہو ۔تمہیں یاد دلادوں بدقستی سے کل ہی شادی ہوئی ہے ہماری ۔”
فودیل کے طنز پر روفہ نے کوئی ردعمل نا دیا البتہ غصے کو قابو کرتی شال اتار کر سر پر بندھے جوڑے کو کھولنے لگی ۔
“میں تم سے مخاطب ہوں ۔ان دیواروں سے نہیں جو یوں میری بات کو نظر انداز کر رہی ہو ۔۔”
اس سے وہ کچھ اور بھی بولتا کہ روفہ کا جوڑا ایک ہی جست میں کھل گیا دراز بال کھل کر پوری کمر پر ایک جھٹکے سے پھیل گئے ۔۔فودیل نے پہلی بار اس کے بال دیکھے تھے ورنہ وہ سب کے سامنے ان کو جوڑے میں قید رکھتی یا سر پر ڈوپٹا جما کر رکھتی ۔۔
” اتنے لمبے بال ۔۔حد ہے ساری حرکتیں ہی مڈل کلاس والی ہیں آج کل کے دور میں اتنے لمبے بال بھلا کون سی لڑکی رکھتی ہو گی ۔مگر اس خلائی مخلوق سے کسی سی بھی چیز کی توقع کی جاسکتی ہے ۔۔”
اس کو روفہ کے لمبے چمکتے آنکھوں کے رنگ کے ڈارک براون بالوں سے چڑ سی ہوئی ۔۔جس موڈرن لڑکی کا سکیچ اس نے اپنے ہمسفر کے طور پر کھینچا تھا روفہ اس پر کہیں سے بھی نا اترتی تھی ۔۔
” یونی جانا ہے مجھے ۔”
اپنے بال برش کرکے چادر اوڑھ کر بغیر اس کی محویت کو کسی خاطر میں لائے بے تاثر لہجے میں بول کر نیچے چلی گئی ۔
فودیل اس کی یونی والی بات پر الجھا سا وہیں کھڑا رہا۔
” اپنے ولیمے کے دن کون لڑکی یونیورسٹی جاتی ہے ۔۔”
غصے سے ہوا میں سر مارتا اس کے پیچھے ہی چلا گیا ۔
ہائیسم باتھ روم سے واپس آیا تو نجمہ نا صرف ترتیل کو چینج کروا چکی تھی بالکہ اب اس کے بالوں میں برش پھیر رہی تھی ۔۔ہائیسم فریش ہونے سے پہلے ترتیل کو اٹھا کر گیا تھا اس کا ارادہ واپس آ کر ترتیل کو چینج کروانے کا تھا ۔مگر ترتیل کی چالاکی پر اب اس کے ماتھے پر بل پڑے تھے ۔۔
” آج کے بعد میں نے تمہیں اپنے کمرے میں یا اس کا کوئی کام کرتے دیکھا تو یاد رکھنا وہی دن تمہاری نوکری کا آخری دن ہوگا ۔اب نکلو فورا یہاں سے ۔۔”
ہائیسم کے سرد لہجے پر نجمہ کے ساتھ ترتیل بھی بری طرح ڈر گئی تھی ۔۔نجمہ تو فورا سے پہلے کمرے سے نکلی ۔۔
ترتیل نے بلاشبہ ہائیسم سے بچنے کے لیے یہ سب کیا تھا مگر اب اس کے تاثرات دیکھ کر اس کو اپنی خیر معلوم نہیں ہورہی تھی ۔۔
ہائیسم نے سوچ لیا تھا ترتیل کے سوچوں کے دھاگے صرف اپنے نام میں الجھا دے گا اس کو اپنا عادی بنا کر جلیس کا خیال تک اس کے دماغ سے نکال باہر کرے گا مگر اب ترتیل کی فرار پر ہائیسم کے جبڑے تک تن گئے ۔۔جبکہ وہ کافی کول پرسن تھا ۔۔
” یہ کیا کررہے ہیں ہائیسم پلیز چھوڑیں۔۔ مجھے نہیں جانا وہاں میں چینج کر چکی ہوں ۔چھوڑیں ۔”
اب کی بار اونچی آواز میں بھڑک کر بولی ۔۔ہائیسم کا انداز اس کو سخت برا لگا تھا۔۔
” اگر تمہاری آواز بھی اس کمرے سے باہر نکلی تو میں سختی کرنے پر مجبور ہوجاو گا ۔۔اب تمہارا کوئی لفظ میرے کانوں میں نا پڑے ۔۔”
بے حد سخت لہجے میں بول کر اس کو زبردستی گھسیٹ کر ڈریسنگ روم میں لے گیا ۔۔
” بتاو کون سے کپڑے پہننے ہیں ۔۔میں نے سر جھکانے کو نہیں بولا تالی ۔۔جلدی بتاو نیچے بھی جانا ہے ۔۔”
اپنے نارمل موڈ میں واپس آکر نرمی سے پوچھا ۔۔مگر ترتیل اس وقت اس سے بات بھی نہیں کرنا چاہتی تھی ۔۔ایسا رویہ وہ پہلی بار کسی کا دیکھ رہی تھی ۔۔جس کو قبول کرنا بہت دقت آمیز تھا ۔۔
کچھ دیر تک کھلی الماری کے سامنے اس کو سر جھکائے بے تاثر چہرے سے دیکھتا رہا پھر خود ہی پستہ رنگ کی ہلکے کام والی نیٹ کی فراک نکال کر ڈریسنگ روم کا دروازہ بند کردیا
باہر آکر برش پکڑ کر اس کے شولڈر کٹ بال جو پہلے پیٹ تک آتے تھے ان کو کنگھا کرنے لگا
اس دوران ترتیل نے ایک بار بھی اس کے چہرے کی طرف نا دیکھا ۔۔بس غصے سے بھرے سرخ چہرے کے ساتھ آنکھوں میں نمی لیے اس کی کاروائی برداشت کرتی رہی ۔۔
” اگر تم روئی یا فودیل کو ہماری پرسنل بات بتانے کی کوشش بھی کی تو اس ہی دن اسلام آباد جانے کے لیے خود کو تیار کر لینا ۔۔”
اس کی چپی سے اکتا کر ہائیسم نے جان بوجھ کر بولا ۔۔
ترتیل نے ایک جھٹکے سے اس کے ہاتھ خود سے دور کرکے اپنے بال چھڑا لیئے ۔۔
” میں بتاو گی ضرور بتاو گی ۔آپ کی ایک ایک حرکت بتاوں گی اور یہ بھی کہ آپ بات بات پر اسلام آباد جانے کی دھمکی بھی دیتے ہیں ۔۔”
بھرائی آواز میں تیزی سے بولتی ہوئی ہائیسم کو مسکرانے پر مجبور کر گئی ۔۔
” اچھا یہ بات ہے تو پھر ٹھیک ہے آج کی رات سونے کا پروگرام کینسل سمجھو ۔ تمہاری ٹائیم لیمٹ آج کی رات ختم ہوتی ہے ۔”
” آپ میرے ساتھ ایسا کچھ نہیں کریں گے ۔۔ورنہ میں آپ کو چھوڑ دوں گی ۔”
ہائیسم کے مطالبے پر گھبراتی جو منہ میں آیا بول گئی مگر اپنی بات کے ردعمل پر ہائیسم کی آنکھوں میں شعلے بھری لالی دیکھ کر سہم کر پیچھے ہٹی ۔۔
شاید کچھ زیادہ ہی جذباتی پن ہو گیا تھا ۔۔
” یہ صرف تمہارے بھونڈے خیالات ہیں ۔جو کبھی بھی پایہ تکمیل تک نہیں پہنچے گے ۔دوبارہ ایسا مت بولنا نہیں تو مجھے جاہل بننے میں دیر نہیں لگے گی ۔اب چلو نیچے ۔”
اس کے سخت لہجے پر ترتیل کی دھڑکن ایک دم کو تھم سی گئی ۔۔آنکھوں کو انگلی سے رگڑتی وہاں ہی کھڑی رہی ۔۔ایک قدم بھی چل نا سکی ۔
” کیا ہوا ہے اب یہاں جم کر کیوں کھڑی ہوگئی ہو ۔۔”
اس کی زرد رنگت پر پریشان سا آگے بڑھا ۔۔
” آپ مجھے ماریں گے اگر میں نے دوبارہ کوئی بدتمیزی کی یا کوئی الٹی سیدھی بات کی ۔”
جھجھک کر پوچھتی وہ ہائیسم کو بہت معصوم لگی جو بار بار اپنے کندھے پر پڑی چادر کو ہاتھ سے درست کرکے اس سے آنکھیں چرا رہی تھی ۔۔
” یہاں دیکھو میری طرف ۔کیا تمہیں لگتا ہے میں تمہیں سخت ہاتھ بھی لگا سکتا ہوں ؟؟اور مارنا سیریسلی ؟؟تم میرے بارے میں بہت ہی غلط سوچ رکھتی ہو ۔خیر کبھی مجھے جاننے کی کوشش کی ہوتی تو میرے خیالات کا پتا چلتا نا ۔۔”
اس نے شکوہ سا کیا۔۔۔
” میں آپ کے بارے میں کچھ کیوں سوچتی ؟؟مگر اب آپ کا رویہ ضرور مجھے آپ سے بدگمان کردے گا ۔”
ترتیل کی صاف گوئی پر ہائیسم نے آبرو اچکا کر تعجب سے دیکھا ۔۔
بازو سے کھینچ کر اس کو ایک ہی جست میں اپنے حصار میں لیا ۔۔ترتیل ہی چینخ نکلتے نکلتے رہ گئی ۔
” میں ایسی کوئی نوبت ہی نہیں آنے دوں گا ۔۔اور میرا وعدہ ہے ایک دن تم اس قدر مجھ میں کھو جاو گی کہ اپنا نام بھی یاد نہیں رہے گا ۔۔تمہارے حافظے پر صرف میری سوچوں کا قبضہ ہوگا ۔۔”
اس کے کان پر سرگوشی کرکے اپنے دانتوں سے اس کی کان کی لو پر کاٹ لیا ۔ترتیل جو اس کی تپتی سانسیں اپنے کان پر محسوس کر رہی تھی اس کی حرکت پر کسمسائی مگر ہائیسم کی گرفت مزید سخت ہو چکی تھی ۔۔
” کہا نا مجھ سے جان نہیں چھڑا پاو گی پھر خود کو ہلکان کرنے کی بےتکی حرکت کیوں ؟؟
اس کی بھاری دلکش آواز پر ترتیل نے آنکھیں بند کر لیں ۔
ہائیسم کے ہونٹوں کا لمس اپنے کندھے پر بنے برتھ مارک پر محسوس کرکے وہ بےجان سی ہوگئی ۔۔
” ہائیسم مت کریں ۔۔نیچلے چلیں ۔۔مجھے بھائی سے ملنا ہے ۔”
فودیل کے ذکر پر ہائیسم بدمزہ ہوا ۔اس وقت وہ کم ازکم اس کا نام تو نہیں سننا چاہتا تھا ۔
“جب میں تمہارے قریب ہوں تو مہربانی کرکے اپنے بھائی کانام مت لینا ۔ وہ بدتمیز انسان پہلے ہی تمہاری میری شادی کے خلاف تھا خیر اس کو تو میری بہن سے بھی اللہ واسطے کا بیر ہے ۔”
اس کی کمر پر ویسے ہی ہاتھ جما کر ہائیسم نے فودیل کی شان میں عزت افزائی کی ۔جس پر ترتیل خفگی سے اس کو دیکھنے لگی ۔
” میرے بھائی ایسے نہیں ہیں ۔بہت اچھے ہیں اور روفہ بھی ان کے ساتھ خوش رہے گی ۔میرے بھائی کو دوبارہ برا مت کہنا آپ ۔۔”
انگلی اٹھا کر تنبیہ کی ہائیسم نے مسکراہٹ دبا کر اس کی انگلی چوم لی ۔۔
” چلو اب جلدی سے مجھے میرا ویڈنگ گفٹ دو ۔۔”
” کون سا گفٹ ؟؟”
ترتیل نے اس کی بےتکی بات پر ناسمجھی سے پوچھا ۔۔
” افف لڑکی ۔۔اچھا ویڈنگ گفٹ کو گولی مارو میری پیشانی پر اپنے لمس چھوڑ دو یہ ہی کافی ہے میرے لیے ۔”
دانتوں میں ہونٹ دبا کر بولا۔۔ترتیل کے فق چہرے پر ترس بھی آرہا تھا مگر فل حال ترس کھانے کا دل نہیں کیا ۔۔
” آپ شادی سے پہلے تو اتنے اچھے ریزرو ہوتے تھے ۔۔مجھ سے ایسی کوئی بات نہیں کرتے تھے ۔اب کیا ہو گیا ہے آپ کو ۔۔”
” Tarteel your are waisting our time ..
Quickly do that as I say ..Hurry up girl ”
اس کے بارعب لہجے پر ترتیل نے گہری سانس لے کر اپنی کمر سے اس کے ہاتھ ہٹا کر اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر ایڑھیاں اونچی کرکے اس کی کشادہ روشن صاف پیشانی پر اپنے نرم سے ہونٹ رکھ کر ہٹا لیئے ۔اس سے پہلے کہ ہائیسم آنکھیں کھولتا وہ کمرے سے نکل چکی تھی ۔۔
” تمہیں خود سے محبت کروانا اتنا بھی مشکل نہیں ۔۔”
دلکشی سے سوچتے ایک نظر آئینے میں دیکھ کر نچلے پورشن میں چلا گیا ۔۔۔
ڈائینگ ٹیبل پر سب کو مشترکہ سلام کرکے وہ اپنی مخصوص کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی ۔۔اس گھر میں صرف روفہ ہی ایک واحد تھی جو صبح سب کو سلام کرتی تھی نہیں تو اس کے ماں باپ سمیت سب ہی ہائے ہیلو سے کام چلاتے ۔۔مگر یہ الفاظ اس کو زہر لگتے تھے ۔۔
فضا اور عالم کی تفتیش اور تفکر بھری نظریں وہ صاف خود پر محسوس کرسکتی تھی ۔۔مگر سب کو نظرانداز کیئے فل حال اس کو ناشتہ کرنا تھا ۔۔
” روفہ بیٹے یہ صبح صبح آپ کہاں جارہی ہو ۔۔”
فضا اس کی چادر اور بیگ کو دیکھ کر پریشان سی بولیں اس دوران ہائیسم ترتیل اور فودیل بھی آچکے تھے ۔۔کچھ مہمان اب بھی باقی تھے وہ ولیمے کے بعد جانے والے تھے ۔۔
” محترمہ روفہ عالم یونی جانے کا ارادہ رکھتی ہیں ۔۔”
فودیل کی طنزیہ آواز پر ہائیسم نے مٹھی بھینج لی جبکہ عالم کا دل تو اس کا منہ توڑنے کو کر رہا تھا ۔۔
” میرا ٹیسٹ ہے اور میجر سبجیکٹ کی پریزنٹیشن بھی ہے ۔آپ فکر نا کریں تین گھنٹے میں آجاو گی ۔”
کیٹل سے چائے نکال کر فضا کو عام سے انداز میں بولی البتہ فودیل کی بات اس کو بری طرح چبھی تھی ۔۔
” اچھا بچے آج ڈرائیور کے ساتھ چلی جانا ۔۔اکیلے مت جانا ۔ویسے بھی میرے الیکشن قریب ہیں میں کوئی رسک نہیں لینا چاہتا ۔۔”
” زندگی موت کا فیصلہ میرے اللہ کے ہاتھ میں ہے بابا۔مجھے آپنے کام خود کرنے کی عادت آپ جانتے ہیں ۔اس لیے میں خود ہی جاوں گی ۔۔”
عالم کی ہدایت کو رد کرتی اب کی بار بھی نرمی سے بولی ۔فودیل کو یہ سب ڈرامے بازیاں ہی لگیں تبھی منہ میں بڑبڑا کر جوس پینے لگا ۔۔ترتیل نے اس کو گھور کر منع کیا مگر وہ پھر بھی سر جھٹک کر روفہ کو ہی ناگوار نظروں سے گھورنے لگا ۔۔خاص کر اس کی چار گز کی چادر کو۔۔
” روفہ ترتیل آپی آپ دونوں کو منہ دکھائی میں کیا ملا ۔جلدی دکھاو مجھے ۔میں کب سے آپ دونوں کا انتظار کر رہی تھی ۔”
روفہ کی خالہ کی چودہ سالہ بیٹی نے اشتیاق سے پوچھا ۔۔جس پر ترتیل نے اپنے ہاتھ میں پہنی انگوٹھی چادر ہٹا کر اس کو دکھائی ۔۔
” بہت ہی لاجواب ہے تالی آپی ۔۔اور آپ کے ہاتھ میں اچھی لگ رہی ہے مگر آپ دوسرے ہاتھ میں پہنتی نا ۔”
سارہ کی بات پر ترتیل کے مسکراتے لب یک دم سکڑے ۔۔ہائیسم نے اس کے چہرے پر تکلیف کے آثار صاف محسوس کیئے ۔۔
” میں نے ہی تالی کے اس ہاتھ میں پہنائی ہے ۔کیونکہ یہ رنگ میں نے آڈر پر دائیں ہاتھ کے حساب سے بنوائی تھی ۔اور بالکل پرفیکٹ لگ رہی ہے just made for her ۔۔”
سب کے سامنے اس کے مفلوج ہاتھ کو تھام کر محبت اور مان سے بولا اپنے ہاتھ پر اس کے گرم لمس کا احساس ترتیل کو ٹھنڈی میٹھی چھاوں کی طرح محسوس ہوا ۔۔دل کی دھڑکن پوری رفتار سے تیز ہوئی ۔اب ہائیسم سب کی پرواہ کیے بغیر اس کو اپنے ہاتھ سے ناشتہ کرانے لگا ۔ ترتیل ہونٹ کاٹتی چپ کرکے کھانے لگی۔
سب ہی ہائیسم کے انداز پر مسکرائے تھے ۔سب سے زیادہ تو فودیل مطمئین ہوا تھا ۔۔مگر اب سارہ روفہ سے منہ دکھائی کا پوچھ رہی تھی ۔۔
” یااللہ اب کیا کروں ۔۔اب سب کے سامنے بے عزتی ہوجانی ہے ۔۔کچھ سوچ فودیل کچھ سوچ نہیں تو ہائیسم کا رویہ اگر ترتیل سے بدل گیا تو نقصان تمہارا ہی ہونا ہے۔”
خود سے کہتے کوئی بہانا سوچنے لگا مگر بروقت بہانا بھی نا سوجھ رہا تھا ۔۔
” یہ دیا ہے ۔۔”
روفہ کی مدھم سی آواز پر فودیل نے چونک کر دیکھا جو کلائی میں پہنا بریسلیٹ سارا کو دیکھا رہی تھی ۔وہ نہیں جانتا تھا یہ بریسلیٹ کہاں سے آیا ۔۔مگر وہ الجھن اور حیرت سے روفہ کے چہرے کی نرم مسکرہٹ دیکھنے لگا جو سارہ کی کسی بات پر آئی تھی ۔۔
جو بھی تھا وہ بے عزتی سے بچ گیا تھا مگر روفہ نے ایسا کیوں کیا یہ سمجھ سے باہر تھا ۔۔وہ چاہتی تو رات کی انسلٹ کا بدلہ ابھی اس کو سب کے سامنے شرمندہ کرکے لے سکتی تھی ۔۔مگر اس نے تو عزت رکھی تھی اس کی ۔۔
” یہ بریسلیٹ میں نے کہاں دیکھا ہے ۔کہیں تو دیکھا ہے ۔۔”
ترتیل کے منہ میں نوالہ ڈال کر ہائیسم نے سوچا ۔مگر اچانک ہی اس کو یاد آیا ایسا ڈیزائین اس نے روفہ کے موبائل کی گیلری میں دیکھا تھا ۔۔جب ایک کال کے لیے اس نے روفہ سے موبائل مانگا تھا ۔۔
وہ سمجھ گیا روفہ نے خود یہ بنوا کر پہنا ہے ۔ایک کڑی نظر فودیل پر ڈالی جو روفہ کو دیکھ رہا تھا ۔۔
فودیل نے نظروں کی تپش پر ہائیسم کو دیکھا مگر اس کی آنکھوں میں ایسا کچھ ضرور تھا جس سے فودیل نے نظریں چرا لیں ۔۔
” ماما بابا دعا کرنا میرا ٹیسٹ اچھا ہوجائے ۔۔اللہ حافظ ۔جلدی آجاوں گی ۔۔”
دونوں کے آگے سر جھکا کر پیار لیتی چلی گئی ۔یوں دعا بھی صرف وہ واحد ہی لیتی تھی ۔۔
فودیل کی نظروں نے دور تک اس کو دیکھا جب تک وہ منظر سے غائیب نہیں ہوگئی ۔۔ناشتے سے اب اس کا دل اچاٹ ہو چکا تھا ۔۔
رات کے بارہ بجے کا ٹائیم تھا جب فودیل تھکا ہارا گھر پہنچا ۔۔ولیمے کو گزرے بھی چار دن بیت چکے تھے ۔اس دوران ان دونوں کے درمیان ضروت کے علاوہ یا فودیل کے بلاوجہ کے طنز کے علاوہ کوئی بات نا ہوئی تھی ۔۔
روفہ ہر رات کو باہر سوتی ۔ رات کو دیر تک پڑھنا اس کی عادت تھا مگر فودیل لائیٹ چلانے نہیں دیتا تھا ۔۔وہ جتنا ہو سکے ان چار دنوں میں اس کو زچ کر چکا تھا ۔۔مگر اس کی نظر میں روفہ بھی کسی ڈھیٹ مٹی کی بنی تھی جس پر کچھ اثر نا ہوتا
بالکہ وہ یوں ہوتی جیسے اس نے کچھ سنا ہی نہیں ۔۔
مگر اب اس کو اپنے بیڈ پر بیٹھ کر کام کرتے دیکھ کر فودیل کے چہرے کے زاویے بدلے تھے تبھی اس کے سر پر کھڑے ہو کر بولا ۔۔
” خیریت ہے آج میرے بیڈ پر بیٹھی ہو کیا ہمت جواب دے گئی تمہاری یا میری ضروت محسوس ہو رہی ہے ۔”
اس کی اس قدر گھٹیا بات پر روفہ کا دل مر جانے کو کیا ہاتھ مین پکڑےنوٹس بیڈ پر گر گئے ۔مگر پھر بھی آخر ایک بندے میں کتنی برداشت ہو سکتی ہے ۔۔
” عورت ضروت پڑنے پر بھی مرد کی طرح بے لگام نہیں ہوتی ۔۔اللہ نے حیا کا پردہ اس کی فطرت میں رکھا ہے ۔”
روفہ کے پرسکون جواب پر فودیل کے چہرے سے طنزیہ معنی خیز مسکرہٹ یک لخت سمٹی ۔۔
” اس دن تم سب کو اپنی طرف سے منہ دکھائی دکھا کر مجھ پر کیا ثابت کرنا چاہتی تھی ۔۔اگر تو مجھے شرمندہ کرنے کی کوشش تھی تو افسوس کے ساتھ تم ناکام ٹھہری ہو ۔”
اس کے مرد ذات پر چوٹ کرنے سے وہ موضوع بدل گیا ۔وہ جانے کیوں اس کو بری طرح زچ کرنے پر تلا ہوا تھا ۔
” میں نے آپ کی نہیں اپنی عزت کا پردہ رکھا تھا ۔۔اگر سب کے سامنے میں اپنے ہی سر سے چادر اتاروں گی تو میری خود کی ذات بےآبرو ہو گی کسی کا کچھ نہیں بگڑے گا ”
روفہ نے نوٹس سے نظر اٹھا کر اس کی آنکھوں میں اپنی چشمہ لگی آنکھیں ڈال کر کہا ۔۔فودیل جو اس غلط فہمی میں تھا کہ یہ سب اس کو ایمپریس کرنے کا ایک طریقہ ہے وہ دور ہو گئی کیونکہ اس کے بادامی نین الفاظ کی سچائی کے گواہ تھے
” تم ایک بہت ہی عجیب قسم کی لڑکی ہو جس کو سمجھنے میں شاید ایک عمر بیت جائے ۔عجیب الجھی سی مشکل ترین بندی ہو۔”
فودیل کے لہجے میں اس کو الجھن صاف محسوس ہوئی
” میرا خود کے بارے میں بھی یہ ہی خیال ہے ۔۔”
کندھے اچکا کر کہتی دوبارہ نوٹس پر جھک گئی ۔۔
” اچھا تو تم ابھی تک بیڈ سے اٹھی نہیں مطلب تم واقعی انٹریسڈڈ ہو کہ ہمارے بیچ کچھ ہونا چاہیے ۔۔”
بیڈ پر اس کے بے حد قریب لیٹ کر بازو سے کھینچ کر خود پر گرا کر بولا ۔روفہ کی سرخ رنگت شرم سے ہوئی تھی یا غصے سے وہ سمجھ نا پایا
” کوئی جواب نہیں دیا تم نے ۔۔”
اس کی سرگوشی پر روفہ نے اس کے سینے سے سر اٹھا کر براہراست اس کی آنکھوں میں جھانکا ۔گرنے کی وجہ سے اس کا چشمہ اتر گیا تھا
اس کی آنکھوں کی تحریر پر فودیل ساکت سا ہوا ۔جہاں رضامندی کے ساتھ چیلنج بھی صاف دکھائی دے رہا تھا ۔۔اسی کی بادامی آنکھوں میں کھونے کے ڈر سے فودیل نے ایک جھٹکے سے اس کو خود پر سے بری طرح ہٹا کر دور پھینکا ۔۔
” اپنے خوابوں سے باہر آجاو بی بی ۔۔میں تم پر اپنا ایک منٹ بھی ضائع نا کروں کجا کہ تمہیں اپنی قربت سے نوازوں ۔صرف اپنی بہن کی وجہ سے تمہیں برداشت کررہا ہوں ۔۔ورنہ میرا ارادہ تو برات کے دن ہی تمہیں چھوڑنے کا تھا ۔۔”
روفہ کو لگا جیسے کسی نے کھینچ کر اس کے منہ پر تماچہ دے مارا ہو ۔۔اتنی ذلت توہین ۔۔اپنی بات کہہ کر فودیل اسی وقت چینج کر کے لائیٹ آف کر کے لیٹ گیا۔
مگر وہ اب بے حس و حرکت بیڈ کے ایک کونے پر نائیٹ بلب کی روشنی میں آیت الکرسی کی سینری پر نظریں جمائے لیٹی رہی ۔۔
دونوں اپنی اپنی جگہ بے حس و حرکت لیٹے تھے ۔۔نیند دونوں کی آنکھوں سے روٹھی ہوئی تھی ۔۔
فودیل جانے کیوں اپنے الفاظ پر شرمندہ ہوا ۔مگر غلطی قبول کرنے میں انا آڑے آرہی تھی اس لیے کروٹ کے بل لیٹا رہا ۔۔
اچانک ہی روفہ کو لگا جیسے کمرے میں آکسیجن کی مقدار نا ہونے کے برابر ہو گئی ہے دل پر بوجھ اس قدر بڑھ گیا کہ سانس لینا دشوار ہو گیا
وہ تو بس اپنی طرف سے اس انسان کو اور اس رشتے کو ایک موقع دینا چاہتی تھی ۔۔مگر یہ کہاوت آج اس کو سو فیصد درست لگی ۔
Wounds heal but harsh words did not heal
” کاش یہ کہنے سے اچھا تھا تم میرے منہ پر سچ میں
تھپڑ ماردیتے مگر یہ نا کہتے ۔۔”
آنسو کا گولا گلے میں محسوس ہوا مگر بے بسی ایسی تھی کہ یہ آنسو آنکھوں سے بہنے سے بھی قاصر تھے ۔تبھی آہستہ سے فودیل کے پہلو سے اٹھ کر نوٹس ہاتھ میں پکڑ کے کمرے سے باہر چلی گئی ۔۔
دروازے کے بند ہونے کی آواز پر فودیل نے مڑ کر دیکھا روفہ باہر جا چکی تھی ۔۔
وہ لب بھینجے بے تاثر نگاہوں سے چھت کو گھورنے لگا ۔اس کا مقصد روفہ کو تکلیف دینا ہی تھا مگر اب اس کو خود بھی دل میں ایک انجانا سا درد محسوس ہورہا تھا ۔۔اپنے الفاظ پر اس کی بادامی آنکھوں میں رقم دکھ اور بے یقینی سونے نا دے رہی تھی اور اب اس کے کمرے سے چلے جانے پر دماغ بھی ملامت کرنے لگا
سویمینگ پول ایریا کا گلاس ڈور کھول کر اندر جاکر پول کے پاس فرش پر بیٹھ گئی ۔۔
نیلے پانی پر تاروں کی چمک جگنو کی طرح ٹمٹما رہی تھی ۔۔مگر اس کا دیہان تو آسمان پر چھائی کالی سیاہی پر تھا ۔۔۔
اپنے پیچھے کسی کی موجودگی کے احساس سے چونک کر سر موڑا جہاں ہائیسم آرام دے کپڑوں میں اس کو پریشان سا دیکھ رہا تھا ۔۔
” کیا ہوا یار یہاں کیوں بیٹھی ہو ۔۔ایک بج رہا ہے اور تم بغیر کسی شال یا جیکٹ کے ادھر بیٹھی ہو ۔۔”
” ہاں نیند نہیں آرہی تھی اور پڑھ پڑھ کر تھک بھی گئی تھی اس لیے یہاں آگئی ۔۔”
ہائیسم کی جانچتی نظریں خود پر محسوس کرکے وہ جھنجلائی ۔۔
” کیا ہے ہائیسم ایسے کیوں دیکھ رہے ہو ۔۔”
خفگی سے بولی اس وقت وہ تنہائی چاہتی تھی ۔۔
” میں اچھی طرح جانتا ہوں فودیل اور تمہارے بیچ کچھ بھی سہی نہیں ہے ۔اس لیے بہتر ہے کہ مجھ سے کچھ بھی چھپانے کی بجائے مجھے صاف صاف سب بتاو ”
روفہ نے خود سے چھ سے بڑے بھائی کو دیکھا ۔یہ احساس اس کو حوصلہ دے گیا کہ وہ اکیلی نہیں ہے اس کے ماں باپ اور بھائی ہر حال میں اس کا ساتھ دیں گے۔
” پہلے وعدہ کرو ۔۔اس سب کا اثر ترتیل اور تمہاری زندگی پر نہیں پڑے گا ۔۔”
” میں کیا تمہیں فودیل کی طرح بےوقوف لگتا ہوں جو کسی اور کا بدلہ کسی تیسرے انسان سے لوں گا ۔۔ترتیل محبت ہے میری اس کو تکلیف دینے کا سوچوں تو لعنت ہو ایسی دل لگی پر ۔۔”
روفہ مسکرا دی ۔۔ہائیسم ترتیل کو لے کر کتنا جذباتی تھا یہ بات اس سے چھپی ہوئی نہیں تھی ۔۔
اور پھر روفہ نے شادی سے پہلے فودیل کے انکار کے لیے اس کے کمرے میں آنے سے لے کر ابھی کے واقعے تک سب بتا دیا ۔۔
” تمہیں یہ شادی نہیں کرنی چاہیے تھی روفہ ۔۔کیا ضرورت تھی ماما بابا کے لیے اپنی زندگی داو پر لگانے کی ۔۔فودیل اتنا خبیث اور گرا ہوا نکلے کا کبھی سوچا بھی نہیں تھا میں نے ۔۔میرا بس چلے تو گولی سے اڑا دوں اس کو ۔۔”
ہائیسم کی خطرناک حد تک سنجیدگی اور غصے کو دیکھ کر روفہ نے گہرا سانس بھرا ۔۔
” اب اتنا بھی جذباتی ہونے کی ضروت نہیں ہے ۔۔اپنے مسئلے میں خود حل کر لوں گی ۔۔جیسے ہمیشہ سے کرتی آئی ہوں ۔۔تمہیں بتا کر بس اپنا دل ہلکا کرنا چاہتی تھی ۔۔”
” تم اتنا نارمل ردعمل کیسے دے سکتی ہو ۔یار ؟؟”
ہائیسم اس کے پرسکون ہونے پر دنگ تھا ۔۔کوئی اور ہوتی ہو اب تک رو رو کر اپنی قسمت کو کوس رہی ہوتی ۔۔ترتیل کی مثال اس کے سامنے تھی جو زرا زرا بات پر رونے بیٹھ جاتی ۔۔
” کیونکہ میں روفہ ہوں ۔۔”
اس کے کندھے اچکا کر بولنے پر ہائیسم اس کو دیکھ کر رہ گیا ۔
” اگر وہ میرا بہنوئی اور سالہ نا ہوتا تو میں نے اس کی کتے والی کرنی تھی ۔”
ہائیسم ایک بار بھر جلے دل سے بولا ۔۔
“اگر وہ میرا شوہر نا ہوتا تو میں بھی ایسا ہی کرتی ”
روفہ کے آنکھیں گھما کر کہنے پر ہائیسم نے بے اختیار ہنس کر اس کو سینے سے لگا کر ماتھے پر بوسا دیا ۔۔
روفہ کی بہادری اور اس کے حوصلے پر اس کو کبھی کوئی شک نہیں رہا تھا ۔۔