غالب احمد شاعروں اور ادیبوں کی اس سینئر صف سے تعلق رکھتے ہیں جس میں ناصر کاظمی، احمد مشتاق، انتظار حسین، حنیف رامے، مظفر علی سید، شہزاد احمد وغیرہ کے اسماء شامل ہیں۔ تاہم تخلیقی لحاظ سے متحرک ان تخلیق کاروں کے مقابلہ میں غالب احمد کے تخلیقی سفر کی رفتار کافی دھیمی رہی۔ ۱۹۵۰ء سے ادبی رسائل میں مسلسل چھپنے کے باوجود ابھی تک ان کا صرف ایک ہی شعری مجموعہ ’’راحتِ گمنام’‘ شائع ہوا تھا، اب ان کا دوسرا مجموعہ شائع ہوا ہے جوان کی شاعرانہ قدر و قیمت کے تعین میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ غالب احمد کی غزل میں ایک انوکھی نوعیت کا فکری تغزل ملتا ہے۔ چند اشعار سے اس فکری تغزل کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
منظرِ ہوش سے آگے بھی نظر جانے دے
جا رہا ہے یہ مسافر تو اُدھر جانے دے
زنجیر میں ہیں دیرو حرم، کون و مکاں بھی
ہے عشق ہمیں ان سے نہیں جن کا گماں بھی
کیوں وقت کی لہریں مجھے لے جائیں کسی اور
دائم دل دریا ہوں میں موجوں میں رواں بھی
ابر برسا سُراب کی صورت
چار سُو عکسِ آب کی صورت
خواب کی کیا کوئی حقیقت ہے
ہے حقیقت تو خواب کی صورت
غالب احمد کی نظمیں ان کی زندگی کے مختلف النوع تجربات سے گزرتے ہوئے ادوار کی ترجمانی کرتی ہیں۔ ان میں ایک خاص نوع کی روحانی بالیدگی اور ترفع بھی ملتا ہے۔ ’’نظمِ نَو’‘ ان کے نظمیہ ارتقاء کو واضح کرنے کے ساتھ نظم نگاری میں ان کے مقام کے تعین میں بھی فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔ نظم کی اختتامی سطروں سے اس طویل نظم کی اہمیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے اور غالب احمد کی نظم نگاری کے تیور بھی سمجھے جا سکتے ہیں :
’’وہ دیکھو کہ پھر رحمِ مادر سے نکلا ہوا طفلِ نوزائیدہ، وقتِ نو کہہ رہا ہے
زمیں سے ضمانت نہ مانگو
رگِ جسم و جاں سے شہادت نہ مانگو
کہ ضامن ہو تم اس زمیں کے
زمانے کے تم خود امیں ہو
جہانِ ہنر میں نئی زندگی کی طلب کے
نئے آشیانے بساؤ، نیا گھر بناؤ
کہ یہ نفس کا نقطۂ آسماں ہے
کنارِ یقیں ہے، نئی سرزمیں ہے
زمانے کو آواز دو، ابنِ آدم بلاؤ
کہو سب کو آؤ
نیا گھر ہمارا کھلا ہے
یہ وقتِ دعا ہے
نئی نظم کی ابتدا ہے!’‘