22 مارچ سن 1948::
لاہور مہاجر کیمپ کی حالت تقیسم کے دنوں سے بہت حد تک بہتر ہوچکی تھی ۔
اجڑے خیمے اور مہاجروں کا رش کافی حد تک کم ہوگیا ہے کیونکہ بہت سے لوگوں کو حکومت پاکستان نے روزگار اور گھر آلاٹ کر دیے تھے۔۔
ایسے میں مین رجسٹرار کے سامنے کرسی پر ایک مضبوط قد کاٹھ کا مرد بیٹھا تھا عمر شاید بیس پچیس کے لگ بھگ ہوگی ۔
لیکن تقیسم کی سختیوں نے اس پر شاید گہرا اثر چھوڑا ہے
زردی مائل چہرہ گماں تھا کبھی سرخ و سفید رہا ہوگا صبیح پیشانی جس کےنیچے سجی بڑی بڑی روشن آنکھیں اور گہری مونچھیں ایسا لگتا تھا عروج کے دور مین کسی ریاست کا شہزادہ رہا ہوگا۔
اس وقت وہ پیارا سا جوان دھواں دھواں ہوتے چہرے کے ساتھ کسی بات پر استفسار کررہا تھا۔۔
جب رجسٹرار نے اچانک سے بات شروع کی دیکھیں سر جی آپکو دس مرتبہ بتا چکا ہوں کہ اس نام کی کوئی مہاجر خاتون اب تک نہیں پہنچی اللہ انہیں اپنے حفظ امان میں رکھے
جیسے ہی ہمیں کچھ پتا چلا ہم خبر پہنچا دیں گے۔
گہرے رنگ کے اونچے لمبے سپاہی نے بامشکل اپنی ناگواری کو چھپاتے ہوئے اس سے کہا تھا
وہ پیچھلے سات ماہ کی طرح آج پھر سے ناکام و نامراد لوٹ رہا تھا لیکن آج اسکے قدموں میں شکستگی تھی کھو دینے کا خوف یا شاید ہار جانے کا ڈر ؟ اسے لگا وہ کھو چکا ہے
حالات و واقعات بھی یہی کہتے تھے کہ وہ جو جسکا صرف نام ہی اسکی رگوں میں خون بن کر دوڑتا تھا ۔
وہ اب کہیں نہیں ہوگی یا ہوگی بھی تو؟ اس تو سے آگے وہ سوچنا نہیں چاہتا تھا اسکی روح کانپ جاتی تھی
کیونکہ یہ جو دل تھا
جو اس کے سینے میں دھک دھک کرکے دھڑکتا تھا
اسکا کہنا تھا وہ ہے اور ضرور ہے لیکن صرف اپنے دل کی مان کر وہ باقی سب کو دکھی نہیں کرسکتا تھا ویسے بھی اس کی تلاش میں اسے پھرتے سات ماہ ہونے کو تھے
آج ایک موہوم سی امید لیے وہ آخری بار لاہور مہاجر کیمپ آیا تھا
آج شام ہی کی ٹرین سے انہیں رحیم یار خان جانا تھا جہاں حکومت کی طرف سے انہیں حویلی اور زمین آلاٹ ہوئی تھی ۔
اس نے سوچ لیا تھا اماں کو اور دکھ نہیں دے گا اور چپ چاپ اپنی ذمہ داریاں سنبھالے گا لیکن اسے ڈھونڈنا بھی جاری رکھے گا۔۔
———————–
بٹوارے کے بعد اب حالات کسی حد تک سنبھل رہے تھے ۔
غیر منصفانہ اثاثوں کی تقسیم، ہندووں بلوائیوں کی خونریزی موسم کی شدت اور سب سے بڑھ کر لگائے گئے اندازے سے زیادہ مہاجرین کا ہندوستان سے ہجرت کرکے آنا ؟ یہ وہ مسائل تھے جن سے نبٹنا آسان نہیں تھا ۔
لیکن سلام ہو پاکستان کے رہنے والوں نے پر انہوں نے قربانی و ایثار کی ایک نئی مثال قائم کرتے اپنے مہاجر بھائیوں کے لیے دلوں اور گھروں کے دروازے کھول دیے اور حکومت کا بھرپور ساتھ دیا ۔۔
اس وقت ہر جگہ ایسا ہی مظاہرہ دیکھنے کو ملتا تھا جیسے ہجرت مدینہ( صلی اللہ وعلیہ وسلم) کے موقع پر انصار مدینہ نے ہیش کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ مدینہ منورہ کے بعد مملکت پاکستان ہی وہ پہلی ریاست تھی جو اسلام کے نام پر بنی تھی جس کی بنیادی اساس کلمہ حق تھی ۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان جو پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ تھی جسے کرم خدا وندی سے تاابد قائم رہنا تھا……
—————————–
سن1945
پنج آب پانچ دریاؤں کی سرزمین اور پنجاب کا دل امرتسر مسلمانوں کی چالیس فیصد سکھوں کی ساٹھ فیصد آبادی کا یہ علاقہ سارے پنجاب میں سب سے خوشحال اور پر امن تصور کیا جاتا ہے
جہاں دریاؤں میں پانی کی جگہ امرت بہتا ہے جس کے کھیت فصلوں کی جگہ محبت اگاتے ہیں جہاں کی مٹیاروں کے سترنگی آنچل ہر طرف محبت و امن کے رنگ بیکھرائے لہراتے پھرتے ہہیں۔۔
چوہدری عبداللہ اور تیجا سنگھ اس علاقے کے بڑے زمین داروں میں شمار ہوتے ہیں اور گہرے دوست بھی ہیں اگرچہ تیجا سنگھ کی زمین اور دیگر ذرائع عبداللہ چوہدری سے زیادہ ہیں۔
لیکن علاقہ میں عزت و تکریم کا اظہار عبداللہ چوہدری سے زیادہ کیا جاتا ہے وجہ اسکی ملنسار بے رعیا اور درد دل رکھنے والی شخصیت ہے۔ ۔
وہ امیر غریب ہندو سکھ مسلمان ہر طرح کی اونچ نیچ کو بھلائے سب کی مدد کرنے کو تیار رہتا ہے۔
۔تیجا سنگھ غصے اور مغرورانہ طبعیت کا ہے اتنی بڑی تبدیلی کے باوجود بھی وہ ایک دوسرے کے جوٹی دار ہیں دن کا ایک نا ایک پہر ایسا ضرور ہوتا ہے جب وہ چوپال میں مل بیٹھ کر کھاتے ہیں باتیں کرتے ہیں کبھی گاؤں والوں کے مسائل کا ذکر بھی چل نکلتا ہے
یہ انکی دوستی کا ہی ثمر ہے کے انکے گھرانے ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں جسکی نسبت انکے بچوں میں بھی گہری انسیت پائی جاتی ہے
چوہدری عبداللہ اپنے تین بیٹوں اور بیگم آسیہ بی بی کے ساتھ اپنی کچی حویلی میں رہتا ہے حویلی کا ایک حصہ تھوڑا الگ کرکے عبداللہ صاحب نے اپنے مرحوم بھائی کی بیوہ اور چودہ سالہ بیٹی مہرالانساء کے لیے مختص کیا ہے جہاں وہ ماں بیٹی بہت عزت کے ساتھ رہ رہی ہیں ۔
شیر حیدر چوہدری عبداللہ کا سب سے بڑا بیٹا ہے
جو کہ سرخ و سفید رنگت اور اونچی اٹھان کا سوہنا گبھرو جوان ہے تیجا سنگھ کے بیٹے گرومیت سنگھ عرف میت کے ساتھ میڑک کا امتحان دے چکا ہے
انکی دوستی اپنے بڑوں کی طرح سارے علاقے میں مشہور ہے
—————-
صبح صادق کا وقت ہے سب مرد حضرات اپنے اپنے کھیتوں کی طرف جاچکے ہیں عورتیں کچے صحن میں ایک سائیڈ پر بنے تنور کو گرمانے میں مگن ہیں تاکہ مردوں کے آتے ہی تازہ تازہ مکھن لگی تنور کی روٹیاں اور لسی کے جگ بھر کر انکو ناشتہ کروا سکیں.۔۔
جہاں سب ہی کسی نا کسی کام میں مشغول ہیں۔
وہیں گاؤں کی واحد پکی اینٹوں اور بڑے کواڑ والی حویلی کا دروازہ بہت آہستہ سے کھلا اور ایک اونچی لمبی سوہنی سی لڑکی چہرے کے گرد ڈوپٹے کا ہالہ بنائے انکھوں میں بھر کر کاجل ڈالے لبوں کو سندوری سرخ رنگ دیے اِدھر اُدھر محتاط نظروں سے دیکھتی باہر نکل آئی ۔
اس نے اپنے پیچھے کواڑ بند کیا ہی تھا کہ کسی نے اسکا شیشوں والا پراندہ کھینچا ۔
(ہائے گرو جی خیراں)
اس نے دھل کر سینے پر ہاتھ رکھتے گرو جی کو پکارا تھا۔
بلونت کورے تینوں میں نے کہا بھی تھا کہ لسی میں جھگا ( مدھانی) مار پھر کہاں بھاگی جارہی ہے؟
وہ جو ایک پل کو ڈر گئی تھی فوراً سنبھلی پھر خوشامدانہ لہجے مین بولی
بے بے میری چنگی بےبے وہ مہراں کی گڑیا کہ شادی ہے آ ج اس طرف جارہی کافی کام کروانے والے ہوں گے اور
نی مرجانیے کتنی واری کہا ہے
صح شکر دے ویلے نا پہنچ جایا کر مسلوں کے گھر
اس ٹیم اسکے تایازاد مرد گھر ہوتے ہیں
پر تجھے شرم حیا تو ہے کوئی نی
بے بے نے اسکی بات بیچ میں ہی ٹوک کر اچھا خاصہ جھاڑا تھا۔۔
اب وہ کیا بتاتی مہراں کے اسی تایازاد مرد کی ایک جھلک دیکھنے کو ہی تو صبح صبح جاتی ہے بلکہ کبھی کبھی تو اسکی راہوں، میں، کھڑی ہوجاتی ہے
لیکن وہ جو شیر حیدر چوہدری ہے اپنے نام کا ایک کائیاں، مرد مجال ہے جو کبھی ایک آنکھ بھی اٹھا کر دیکھا ہو
(مرجانا نیوی نیوی آنکھوں سے قتل کرتا ہے)
باقی سب بلونت کور نے سوچا تھا لیکن آخری بات اسکے سندوری رنگ ہونٹوں سے بڑبڑاہٹ کی صورت نکلی تھی جبھی ایک زور دار دھماکا اسکی کمر میں لگا تھا
نی کیا بڑ بڑ کر رہی ہے
آ آ آ بے بے کدی کدی بڑے ظالم ہوجاندے او تسی
اس نے کمر سہلاتے منہ بسورتے ہوئے کہا۔
وہ باہر جانے کا ارادہ ترک کر چکی تھی
آ ہا ہاں بے بے کدی کدی بڑی ظالم ہوجاندے او تسی ۔
بے بے نے اسکی نقل اتراتے ہوئے کہا
نی بوھتی بڑ بڑ نا کر تے واپس چل کر لسی بنا میرا گورمیت( میت) آنیوالا ہوگا
میت نا ہویا سودھا سنگھ ہوگیا
وہ منہ ہی منہ میں کہتے واپس اندر چلی گئی تھی—
————————-
بلونت کور تیجا سنگھ کہ بیٹی اور مہر کی دوست مضبوط کاٹھی کی پیاری لڑکی ہے
وہ اپنے گاؤں کی حسین ترین لڑکی مانی جاتی ہے جسکا اسے خود بھی احساس ہے وہ شیر حیدر کو پسند کرتی ہے۔
اسے لگتا ہے سوائے مہر کے تایازاد شیر حیدر چوہری کے کوئی اسکے جوڑ کا نہیں ہے
شیر اور وہ ایک دوسرے کے لیے بنے ہیں بس ایک مسلئہ ہے دھرم ؟
پھر وہ کبھی سوچتی ہے کہ دھرم تو انسانوں کی پہچان کے لیے بنائے گئے ہیں اصل چیز تو پریم ہے دلوں کا روحوں کا ملن ہے؟
اگر شیر حیدر کی روح اور دل کی رضامندی سے ہمارا ملن ممکن ہوا تو میں اسکا دھرم اپنا لوں گی۔۔
اور اگر وہ نا مانا تو بھی اسے ہر قیمت میں حاصل کرکے رہے گی
—————-
سن1960
لاہور صبح کا وقت ہے لوگ سکول کالج اور دفاترکی تیاریاں کررہے ہیں ۔
کینٹ کے مڈل ایئریا میں ایک نسبتاً اچھے دومنزلہ بنگلے کے باہر
( شیر حیدر علی) کے نام کہ تختی لگی ہوئی ہے۔
دفعتاً بس کا ہارن بجتا ہے تو فوراً گھر کا دروازہ کھول کر سکول یونیفارم میں ملبوس تین صحت مند بچے بھاگتے اٹھکیلیاں کرتے بس میں سوار ہوجاتے ہیں ۔۔۔
دروازے میں ایک خوبرو عورت جو شاید ان بچوں کی ماں اور گھر کی مالکن ہے مسکراتے ہوئے ہاتھ ہلاتے انہیں الگ حافظ کہہ رہی ہے۔
جیسے ہی بس دروازے سے آگے نکلتی ہے عورت کا ہاتھ پہلو میں گرتا ہے چہرے پر مسکراہٹ پھیکی پڑی اور آنکھوں کی جوت بجھ جاتی ہے
——————-
وہ بچوں کو الودع کہ کرجلدی سے کچن میں آئی برتن سمیٹتے کچن سنبھال کراپنے لیے چائے کا کپ لیے لاونج میں آبیٹھی ننھی ابیہا پاس ہی سوئی ہوئی تھی جب تک کام والی نا آجاتی تب تک فراغت تھی۔۔
عام روٹین میں بچوں کو بھیج کر وہ شیر حیدر کے کام شروع ہوجاتی تھی اسکے آفس کی تیاری وغیرہ میں لیکن آجکل شیر کسی کام کے سلسلے میں شہر سے باہر تھا جبھی وہ بلکل ہی فری تھی۔۔
وہ سعدیہ شیر حیدر علی تھی اسکے بارے سوچتےہی سعدیہ کے چہرے اور ہونٹوں پر مسکراہٹ اور اداسی یکدم آئی تھی ۔۔
شیر حیدر بلا شبہ ایک بھرپور جانثار مرد تھا جس نے اسے پوری آمادگی کے ساتھ قبول کیا۔
وہ انڈیا سے ہجرت کرکے تن تنہا یہاں پہنچی تھی اسے لاہور مہاجر کیمپ میں رلتے پانچ ماہ ہوگئے تھے جب ایک دن شیر حیدر کی اماں نے اسے وہاں دیکھ کر پسند کرلیا اور ماں کے شیر نے کسی بھی اختلاف کے بغیر انکی بات کا پاس رکھتے اسے اپنی زندگی میں شامل کرلیا تھا۔
شادی کی پہلی ہی رات اس پر واضح کردیا تھا کہ یہ میری دوسری شادی ہے بٹوارے سے پہلے میرا نکاح چچازاد کے ساتھ ہوچکا تھا آپکو سب کچھ ملے گا وفاداری عزت اہمیت پورا کو پورا شیر حیدر لیکن اس سے زیادہ نا میرے بس میں ہے اور نا آپ مطالبہ کیجے گا۔۔
سعدیہ نے چہرہ اٹھا کر سامنے بیٹھے اپنے محرم کو دیکھا جو نظریں جھکائیں ٹھنڈی پھوار جیسے لہجے میں بول کر چپ ہوگیا تھا ۔۔
اپنوں کے بچھڑ جانے کے بعد کوئی اپنا بنا تھا کسی نے اپنا آپ پوری عزت سے سونپا تھا وہ اسی خوشی کے زیر اثر شیر حیدر کے میٹھی پھوار جیسے لہجے میں بہنے لگی تھی ۔
اسی وجہ سے اسکی باتوں کی گہرائی نہیں جانچ پائی تھی۔۔۔
اور پہلی ہی رات اس جھکی آنکھوں والے جیدار سچے اور کھرے شیروں جیسے شیر حیدر علی پر مر مٹی تھی۔۔
——————–
اسے شادی کے تھوڑے عرصہ بعد ہی احساس ہوگیا تھا ۔
شیرحیدر ہر طرح سے سارے کا سارا اسکا ہے سوائے دل کہ
اور پتا ہے کیا
ایک عورت کے لیے اس سے بڑی ہار کوئی نہیں ہوتی کہ وہ اپنے من چاہے محرم کی پوری زندگی میں بڑے طمطراق سے ہو سوائے اسکے دل کے سعدیہ بھی اس بے ضرر سی ہار پر افسردہ ہوتے آہستہ آہستہ گھل رہی تھی یا دوسرے لفظوں میں ناشکری کر رہی تھی ۔
شیر حیدر سب دیکھتے سمجھتے بھی خاموش تھا کیونکہ سعدیہ کی خواہش پوری کرنا اسکے بس میں نہیں تھا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...