احمد ہمیش(کراچی)
وہ بھی کیا زمانہ تھاجب پوربی علاقے میں لوگوں کے دل چڑیلوں اور پریوں دونوں سے بہ یک وقت آباد ہوا کرتے تھے۔شیکسپیر علیہ السلام کا ذکر صرف انگریزی کی درسی ریڈر میں ہوا کرتا تھا۔افسوس کج روی کے بارے میں ارشاداتِ عالیہ نہیں پائے جاتے۔سوائے اس کے کہ اُسے نظر انداز کیا گیایا نفرت کی اساس پر دنیا دیا گیا۔
دنیائے جانے کے پھیر میں لپیٹ لپیٹ کے کچومر کیا گیااور پُڑیوں میں باندھ باندھ کے بنیوں بقالوں کے سپرد کیا گیا۔ان بنیوں بقالوں سے ڈھیبوا ،ادھّنی ،پائی پیسہ ،روپلی یا مجموعی معنوں میں دمڑی اور چمڑی کو رواج دیا گیا ۔اس کے ساتھ ہی یہ دیکھا جانے لگا کہ چمڑی جانے لگی اور دمڑی دنیا میں رہنے لگی ۔البتہ اس رواج سے ایک تصور کرید نکالا گیا کہ بینک کی بنیاد عورت نے رکھی تھی۔اور وہ سرِ راہ ذاتِ مرد سے منسلک ہوگئی یا چپک گئی اور یہ بتانا مشکل ہوا کہ تانبے کے پیسے کے بیچ چھید کیوں کیا گیا اور عورت کی ناک کیوں چھیدی گئی!اگر اس میں کوئی قدرِ مشترک تھی تو کیوں تھی؟ اور اس خرابے سے قبرستان یا مرگھٹ کتنی دور تھا۔تب محبت کیااتنی ابھاگن تھی کہ کسی کو اپنا ہدف نہیں بناسکتی تھی۔وہ بھی کیا رات تھی کہ لگاتار پانی برس رہاتھا اور ہمارے گاؤں کی آسیہ نامی لڑکی اُسی رات مرگئی تھی اور اُسی رات اسے دفن کرنے کے لئے بارش میں آدھی ڈوبی ہوئی قبر میں دفن کیا گیا تھا۔کاش وہ مرنے سے پہلے کسی سوکھے گیلے مرد کا چہرہ دیکھ چکی ہوتی اور جی بھر کر مل چکی ہوتی ۔یہاں ذرا نظر کیجئے کہ اُس زمانے میں مرد کی ذات کیسی رہی ہوگی۔مثلاً کوئی مرد عرصۂ دراز تک کثرتِ زنا کا مرتکب رہا ہواور پھر اچانک اُس کی مردمی کم ہونے لگی ہو تو اُس نے دواؤں کا استعمال شروع کیا ہو،پھر کیا کوئی اندازہ کرسکتاہے کہ اصل زمانۂ مردمی اور نقل زمانۂ مردمی میں کیا فرق رہا ہوگا!
محبت اگر کسی دل کا نام تھاتو اُس کی تلاش میں کیا کوئی مائی کا لال نکلا ہوگا!حاتم طائی کا کوئی چیلا تو نہیں ہوگاپھر بھی جولوگ چار پانچ کوس پیدل چل لیتے تھے وہ کسی نہ کسی انجانی کھوج میں نکلے تو ہونگے۔اُنہیں اگر کچھ ملا بھی ہوگا تو کیا ملا ہوگا!اماّں کی ناک کی کیل تو کہیں نہیں ملی ہوگی۔پھر بھی یاد نہیں آتا کہ اباّمیاں نے دوسری شادی کب کی تھی۔صرف اُس سے جڑا ہوا وقوعہ یا دہے کہ اماّں کی ڈوبتی ہوئی آوازمیں بد نصیب لڑکے نے شہد ٹپکایا تھا،وہ شہد جو بل سنگھ پور کے جنگل کے کسی خاص پیڑ سے اتار کے لایا گیا تھا۔یہ شہد اتار کے لانے والے اصغر ناناہی تو تھے اور یاد ہے کہ انہوں نے ہی اماّں کو قبر میں اتارا تھا۔یا یوں کہاجائے کہ یہ ایک ایسی محبت کو قبر میں اتارنے کا منظر تھاجسے خدااور خدا کے بنائے ہوئے آدمی ہی دیکھ رہے تھے۔یہاں کچھ ایسا یاد آتاہے کہ وہیں پاس ہی سگڑا نام کی ایک برساتی گڑھی تھی جس میں کئی نوعمر لڑکے ڈوب گئے تھے۔وہ بھی جس دن ڈوبنے کو تھاتو اُسے ایسالگا کہ پانی کی تہہ میں کوئی ڈُبوانام کی مخلوق رہی ہوگی۔اس کے بعد تو ایک عرصہ بیت چکا تھا۔بانسپار والے بانسوں کے جھنڈ سے گھاگھرا اور سر جوُندی کا علاقہ بھاگل پوربھٹنی،گونڈا ور بہرائچ اور نان پارہ کی آبادیاں تھیں ۔جبکہ ٹرین سے سفر کرتے ہوئے’’ آگ کا دریا‘‘ کی مصنف قرۃ العین حیدر کو بہرائچ کے مضافات خوب نظرآئے تھے۔
ظاہر ہے یہ قصہ کچھ بیتے ہوئے زمانے کا ہوگاجب سنجوگ سے باپ بیٹی اور بیٹی کے لمس سے آشنا جِلاوطن لڑکا تینوں بھاپ سے چلنے والے انجن کے پیچھے ریل گاڑی میں سوار چلے جاتے تھے۔البتہ معلوم نہیں سرجُو کہاں تھی۔گھاگرا ندی کا علاقہ توبہت پیچھے کہیں چھوٹ گیا تھاسوائے اس کے کہ لڑکے نے لڑکی کی لال چنٹوں والی نیم گیلی نیم سوکھی ماس مجاّ میں انگلی ڈبورکھی تھی،مزہ توآرہا تھا مگر اس مزے میں مرنے والوں کی حسرت ناکی بھی یادآرہی تھی۔وہ شہد یاد آرہا تھاجو اُس نے اماّں کی ڈوبتی ہوئی آواز میں ٹپکایا تھا گویا کبھی نہ سمجھ میں آنے والی محبت کا تعاقب جاری تھا۔تب نہ کوئی سلسلۂ نقش بندی تھا،نہ چشتیہ تھا۔اباّمیاں کے بارے میں اتنا ہی سنا تھا کہ وہ شہر گورکھ پور میں ایک دستر خوان پر حسین احمد مدنی کی جوٹھی کرُکرُی ہڈی والی بوٹی عقیدت میں چباتے ہوئے مرید ہوگئے تھے۔البتہ اس کے کچھ ہی دنوں بعد اُنہوں نے فتح پور تال رتوئے والے میدان (جس میں کچھ سال گزرے ایک غیر ملکی ہوائی جہاز گر کر تباہ ہوگیا تھا)کے قریبی گاؤں میں ایک گہرے سانولے رنگ کی عورت سے شادی کرلی تھی۔ممکن ہو اس شادی کا ارادہ انہوں نے اہرامی ناک والی اماّں کے مردہ چہرے پرموت کی آخری جھلک دیکھ کرکیا ہوگا۔یہاں یاد آتا ہے کہ کیا وہ میں ہی تھا یا کیا وہ میں نہیں تھا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’گزرتے ہوئے وقت کی کسی سطح پر لکھا ہوا چلا آتا تھا کہ میرے گناہوں میں ابرہہ کے کچھ ہاتھی بھی شامل تھے اور میرے حصہ کے کعبہ کو بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے کچھ ابابیلیں بھیجی تھیں۔بلکہ ان کی چونچ سے کنکریاں میری طرف کے ہاتھیوں پر آگری تھیں۔بے شک اُن کی تباہی و بربادی کی آواز میرے قلب تک پہنچی تھی۔تبھی مجھ پر منکشف ہوا تھا کہ دنیا کے ہر آدمی کے حصہ کے کعبہ کو بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ ابابیلیں ضرور بھیجتا ہے۔جی ہاں! یہ ایک خیال تھا۔خیال ہی تو تھا کہ معاََ میرے باطن میں گونج گیا اور ایک عجب کوند ہوئی۔‘‘
(احمد ہمیش کے افسانہ ہیں خواب میں ہنوز۔۔۔۔۔۔۔سے اقتباس)