ہمیں سفر کرتے آج کتنے دن ہو گئے ہیں۔
یہی کوئی چالیس دن۔ اور منزل ابھی دور ہے۔
ہاں۔ شاید تین دن کی مسافت ابھی باقی ہے۔
چار د ن کہو ۔ احمد۔ اب ہم میں سفر کرنے کی ہمت کم ہوتی جا رہی ہے۔ ہاں ۔ جابر۔ بات تم ٹھیک کہتے ہو۔ دیکھو۔ صحرا کی رات کتنی خوشگوار ہے۔ ستاروں بھرا جگ مگ کرتا آسمان کتنا بھلا معلوم دے رہا ہے۔ ا س وسیع و عریض صحرا میں یہ خوشگوار رات کتنی غنیمت ہے۔ واقعی۔ اگر رات نہ ہوتی تو صحرا میں سفر کتنا مشکل ہوتا۔ صحرائی راتیں کیف آور ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیلانی راتوں کو ہنستے گاتے سفر کرتے ہیں۔ ہمیں بھی چاہئے کہ ان خوشگوار لمحوں میں کچھ کیف حاصل کریں۔ ان ساربانوں کی طرح جو اپنے اونٹوں کے ساتھ چلتے ہوئے رجزیہ گیت گاتے جاتے ہیں۔ صحرا میں سا ربانوں کے دم سے واقعی زندگی رنگین رہتی ہے۔ رجزیہ گیت حوصلوں کی مہمیز کرتے ہیں امنگوں کوولولے عطا کرتے ہیں اور روح کو تسکین۔
چلو۔ سفر کے ساتھ ساتھ کچھ تانیں اڑاتے چلیں۔ لائو تھوڑا سا پانی دو۔ جابر۔ بھائی احمد۔ پانی بہت ہی کم ہے اور میرا قیاس کہتا ہے کہ یہ نعمت ہمیں آگے میسر نہیں آئیگی۔
آگے دیکھا جائیگا۔ لائو پانی لائو۔ یہ لو۔ پانی پی کر احمد نے اپنی پاٹ دار آواز میں گیت کی تان اڑائی۔ اے صحرا ۔ تیرے بیٹے تجھ سے ملنے آئے ہیں۔ اپنی محبت ان پر وسیع کر۔ ان کو صحیح راستے پر رکھنا اور جا بجا نخلستان ان کی راہ میں بچھا دینا۔ تاکہ بھوک اور پیاس انہیں نہ ستائے۔ تمہاری محبت ہمیں نا مساعد حالات میں زندگی کرنے کا ہنر بتاتی ہے۔ جس طرح ہمارے آبائو اجداد نے تیری حرمت کے لئے اس گرم اور تپتی ہوئی ریت کو گرم خون سے ٹھنڈ ا کیا تھا۔ ہم مادرِ وطن ک لئے جان دینے والے ہیں اور اے عظیم صحرا تو ہماری مادرِ وطن کے گرد حصار بناتا ہے۔ ہم اور تم دونوں مادرِ وطن کے محافظ ہیںہمارے جسموں میں دوڑتا گرم لہو اور ہوا میں چاندی کی طرح اڑتے ہوئے تیرے گرم ذرے دونوں مادرِ وطن کے عشق میں سرشار ہیں۔ لہو کو آخر مٹی میں ہی ملنا ہے۔ مٹی اور لہو کا رشتہ اٹوٹ ہے۔ اسی رشتے کی لا ج ہم سب نے برسوں نبھائی ہے۔ یہ ہماری روایت ہے اور آج اے عظیم صحرا۔ مادرِ وطن کے شیدائی تیرے مہمان ہیں۔ اپنے ان مہمانوں کو اپنی نعمتوں سے نوازا۔ ہم بدو۔ مہمان نواز ازل سے ہیں۔ انسانوں کے علاوہ جانوروں سے محبت بھی ٹوٹ کر کرتے ہیں۔ بارش میں اگر ہمارا اونٹ بھیگنے لگے تو ہم اسے اپنے خیمے میں جگہ دیتے ہیں اور خود بھری برسات کا ہنستے گاتے سامنا کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
اے صحرا۔ ہمیں قسم ہے ان چمکتے ستاروں کی۔ ہم تجھے دنیا کی ہر چیز سے زیادہ چاہتے ہیں۔ تیری گرم تپتی ہوئی ہوا ہمارے لئے نسیم جانفراہے۔ تیری جھلستی ریت ہماری آنکھوں کا نور ہے۔ تیری ناقابل برداشت حدت کو ہمارے جسم ہنسی خوشی برداشت کرتے ہیں۔ بچپن میں کھجور اور قہوہ کا استعمال ہمارے لیے تیری مدتوں سے آشنائی کا پہلا زینہ ہوتا ہے۔ یہ حدت ہم میں اور تم میں قدرمشترک ہے اور یہی حدت ہمارا قومی اثاثہ۔ اے میری پیاری چاندی زمین۔ تو سارا دن جھلس کر کہیں نہ کہیں زندگی کی نمود ضرور کرتی ہے اورآج دو اجنتی تیرے گرم دامن پر اس لئے جھلس رہے ہیں کہ وہ اپنے ہم وطنوں کی زندگیوں میں انقلاب لے آئیں۔ تیرے چھپتے ہوئے خزانے ان کی دسترس میں دے دیں۔ اے مادر مہربان صحرا۔ اپنی محبت کی چادر میں ہمیں چھپالے۔
ہم تجھ سے یہی امید رکھتے ہیں کہ تو ہمارے جوان جسموں کو اپنی حدت سے اتنا تو انا اور تروتازہ کردے کہ زندگی بتانی آسان ہو جائے۔ تجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ تجھ پر کبھی بڑے سے بڑا سورما بھی فتح یاب نہیں ہے۔ غداروں نے کبھی یہاں بسیرا نہیں کیا ۔ ہاں اوللعزم ، با ہمت، جری مردانِ حق تجھ سے واسطہ رکھتے ہیں۔ اور تو اور ہمارے تمام شرفاء اپنی اولاد کی تربیت کے لئے اسے تیرے دامن میں پناہ لینے کیلئے بھیجتے ہیں تاکہ نسل نو کو اندازہ ہو جائے کہ زندگی کتنی کٹھنائیوں کا نام ہے۔
اے عظیم صحرا۔جب اندھیرا اپنی چادر لپیٹتا ہے اور صبح تیرے قدم چومنے کو بے قرار ہوتی ہے ۔ اللہ کے بھروسے تلاش رزق میں اڑنے والے پرندے جب اپنی لمبی اڑانوں کا آغاز کرتے ہیں۔ بھنورے پھولوں پر منڈ لانے کیلئے پر تولنے لگتے ہیںغنچے چٹختے ہیں اور خوشبو سے شناسائی پاتے ہیں۔ بادِ نسیم جسموں کو گداگداتی ہے تو اس دم شبنم کے پاکیزہ ننھے ننھے قطرے نباتات کا منہ دھوتے ہیں اور وہ جو پالنہار کے شیدائی ہیں۔ جب اس کی عظمت تیری وسعتوں میں بیان کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ اس سرمدی نغمے کو کائنات کی ہر چیز سنتی ہے۔ مسرور ہوتی ہے۔ اونٹ اپنے جسموں کو اک بار پھر محو سفر کرنے کیلئے تیار پاتے ہیں۔ مسافر چابک دستی سے اور سپاہی حوصلے سے اپنی اپنی منزلوں کی جانب کوچ کرتے ہیں۔
احمد۔۔۔ وہ دیکھو۔ اندھیرا آہستہ آہستہ کم ہو رہا ہے۔ ہاں جابر۔ اس ٹھنڈی ریت سے ہی تیمم کرتے ہیں ۔ آئو۔ اعلانِ حق کی منادی دیں۔ ذرہ ذرہ ہماری گواہی دیگا کہ ہم نے نا مساعد حالات میں بھی اپنی مدد کے لئے اسے ہی پکارا تھا جو بے شک پکارے جانے کے قابل ہے۔ جس کی عظمت اور کبریانی کا ہر ذی روح اقراری ہے۔ احمد نے اذان دی۔ دونوں نے نماز ادا کی۔ تھوڑا سا ستو منہ میں ڈالا۔ ایک ایک گھونٹ پانی کا پیا اور جھٹ پٹے میں صحرا کے دلفریب منظر کو دیکھتے ہوئے نہ جانے ان کی آنکھ لگ گئی تھی۔
سورج کی تپش نے انہیں جاگنے پر مجبور کر دیا تھا۔ احمد ۔ آگے بڑھو ۔ اور آگے بڑھو۔ یقینا جابر ہمیں آگے چلنا ہے ۔ آگے۔ اور آگے۔۔۔۔ چلو۔ دونوں نے اپنا سامان اٹھایا ۔ اور آگے بڑھنے لگے۔ جابر۔ تم جانتے ہو۔ ۔صحرا میں صرف اور صرف زندگی کی آزمائش ہی ہوتی ہے۔ ہاں۔ یہاں پل پل زندگی کے ہی لالے پڑتے ہیں۔ اس زندگی کو ۔۔۔ کسی اور مصرف میں بھی لایا جا سکتا ہے۔ ہاں عظیم خالق نے۔ ہر چیز کا مصرف بہت ہی عمدہ رکھا ہے۔ زندگی سب کو پیاری ہوتی ہے ناں۔ پھر ان لوگوں کے بارے میں کیا کہتے ہو جو ساری عمر میدانِ جنگ میں بتاتے ہیں۔ کبھی جیتتے ہیں کبھی ہارتے ہیں۔ وہ جو صرف دف بجاتے ہیں۔ وہ جو صرف رباب بجاناسیکھنے میں عمر گنواتے ہیں۔ وہ جو چنگ سے نغمے ڈھالتے ہیں۔ وہ جو چرواہے ہیں۔ وہ جو لکڑ ہارے ہیں وہ جو دھوبی ہیں۔
ہاں ہاں۔ سب ٹھیک ہے۔ سب اپنی اپنی ازلی ڈیوٹیاں نبھارہے ہیں۔ ہم بھی تو اپنی ڈیوٹی نبھا رہے ہیں۔ صحرا کی وسعتوں میں کھو کر کچھ پانا چاہتے ہیں۔ اپنے لئے۔ نہیں اپنے ہم وطنوں کے لئے۔ آئندگان کے بہتر مستقل کیلئے۔ ایک بات بتلائو جابر۔ کیا تمہیں یقین ہے کہ ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے۔ مجھے سو فی صدی یقین ہے کہ ہم انشاء اللہ ضرور کامیاب ہوں گے۔ ضرور۔ خلوص و محبت، بے غرضی اور راستی ہمارے لئے زادِ راہ ہے۔ تم شک کو اپنے دل میں جگہ مت دو۔ آگے بڑھتے رہو۔ دن رات سفر ہی سفر۔ منزل تک قدم تھکنے نہ پائیں۔ جسم جھکنے نہ پائیں ۔ اوسان خطا نہ ہوں۔ عقل دغا نہ کرے۔ تو ہم یقینا اپنی منزل پالیں گے ۔ احمد۔ ہم منزل کے قریب ہیں۔ تمہیں اندازہ ہے کہ ہم صحیح جگہ پرپہنچ جائیں گے۔ ذرا حساب لگا کر دیکھو تو۔۔۔ راستہ تو بھٹک نہیں گئے۔ سرابوں نے ہمیں بھٹکا تو نہیں دیا۔ محنت اکارت تو نہیں گئی۔
جابر۔ ہم نے آج تک کتنی صعوبتوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کیاہے۔ جب اتنے طویل سفر میں ہمارے قدم نہیں ڈگمگائے تو اب منزل پر پہنچ کرہم کیسے گم کردہ راہ ہو سکتے ہیں۔
تمہیںشاید اندازہ نہیں ہے کہ میں نے مسلسل سفر میں ریت کے ذروں پر نظر رکھی ہے۔ جہاں اس کی چمک مدھم ہوگی تو سمجھو وہیں ہماری منزل ہوگی۔ واقعی احمد۔ اگر ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے تو یقین کرو کہ لوگ اک بار پھر علم کی طرف راغب ہو جائیں گے۔ ہم نے صحرا کو گلزار بنانا ہے۔ لوگ سمندر کی تہہ میں چھپے خزانے تلاش لیں گے۔ علم پر دسترس انسان کو اشرف بناتی ہے۔ میں تمہارے علم کامداح ہوں۔ واقعی جب ریت کے ذروں کی چمک مدھم اور سرخی مائل ہوجائے۔ تو سمجھنا یہی ہماری منزل ہے۔ کتابوں میں یہی لکھا ہے۔ جابر۔ علم پر اترانا، اپنے پر ظلم کرنے کے مترادف ہے۔ میں اور تم دونوںطالب علم ہیں۔ ہم نے جو کتابیں پڑھی ہیں ان کی سچائی تو تب ظاہر ہوگی جب ہم اپنی منزل پالیں گے۔ فی الحال تو گمان اور خوش فہمی کو پلے باندھ رکھو۔ امید۔ بڑی طاقت ہے اور ہم میں سے اکثر اسی امید کے سہارے زندگی گزارتے ہیں۔ احمد۔ اس لق و دق تپتے ہوئے صحرا میں۔ گمان۔ خوش فہمی اور امید۔ میری سمجھ سے بالا تر ہے کیا خوابناک باتیں کرتے ہو۔ حقیقت سے منہ مت موڑو اور یہ دیکھو کہ منزل کتنی اور دور ہے۔
جابر ۔ میرے عزیز۔ گمان خو ش فہمی اور امید ہی تو وہ چیز ہے جو ہماری زندگیوں میں حرکت کی جوت لگائے ہوئے ہے۔ اور رہی بات منزل کی ۔ یہ سامنے ریت دیکھو۔ کہیں کہیں ذرے سرخی مائل ہیں۔ جب ہر سمت سرخی ہوگی۔ ساری ریت سرخی مائل ہوتی تو وہی ہماری منزل ہوگی۔
اچھا۔ جابر نے آہستہ سے کہا۔
جابر آہستہ آہستہ آگے بڑھتے چلو۔ اور ان لوگوں کو مت بھولو۔ جو ہماری واپسی کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ اچھا کہاتم نے۔ یہ سب باتیں تب سوچیںگے جب واپس اپنے گھر پہنچ جائیں گے۔ فی الحال یہ صحرا ہمارا گھر ہے اور ہماری امیدوں کا مرکز بھی۔
ہاں۔ میرا خیال ہے کہ ہم صحرا کے اس حصے میں ہیں جہاں ہماری منزل ہے۔ شاید ذرا سا اور آگے جا کر ہم صحیح جگہ پر پہنچ جائیں گے۔ میرے اللہ نے چاہا تو ایسا ہی ہوگا۔
احمد۔ میرے دل میں ایک خیال آیا ہے۔
کیا۔ احمد نے حیرت سے پوچھا۔
میں یہ سوچ رہا ہوں کہ اگر ہمیں منزل نہ ملی تو۔۔۔ اور پھر یہ خیال بھی ستارہا ہے کہ ہمارے پاس پانی کا ذخیرہ بھی بہت کم ہے۔ کیا ہوگا؟؟
میں نے تم سے پہلے بھی کہہ دیا تھا کہ حالات سے ڈرنا۔ بزدلی ہے اور یقینا عرب بزدل نہیں ہوتے۔ نئے نئے مقامات پر خطرے حالات اور دل دہلا دینے والے واقعات انسان کو تب ہی عاجز کرتے ہیں جب انسان میں قو ت ارادہ کی کمی ہو ۔ اپنی قوت ارادہ کو مضبوط رکھو۔ ہم ضرور کامیاب ہوں گے۔
میری نیک تمنائیں تمہارے ساتھ ہیں۔
میرا خیال ہے کہ ہمیں اپنی رفتار تیز کر دینی چاہئے۔ تاکہ جلد از جلد اپنی منزل پر پہنچ جائیں۔
ہاں رفتار میں تیزی لائی جا سکتی ہے۔ اس تیز دھوپ میں حدت دیکھ رہے ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم آگ کے دریا کو عبور کر رہے ہیں۔ لائو ذرا سا ستو منہ میں ڈالیں۔ اور دونوں ایک لمحے کے لئے ٹھہرے ۔ تھوڑا تھوڑا ستو منہ میں ڈالا اور آگے بڑھنے لگے۔ دو تین فر لانگ چلنے کے بعد احمد نے کہا۔
جابر دیکھو۔ ریت کے ذروں میں سرخی زیادہ ہو گئی ہے ۔ میں ذرا نقشہ دیکھ لوں۔ احمد بھائی آپ ضرور نقشہ دیکھیں۔
احمد نے جیب سے ایک کاغذ نکالا اور ریت پر پھیلا کر انگلی سے کچھ لکیریں دیکھنے کے بعد کہنے لگا۔ جابر ہم تقریباً اپنی منزل پر پہنچ گئے ہیں۔ اور خاصے تھکے ہوئے بھی ہیں۔ مگر پیارے ہم رات کو بھی آرام نہیں کر سکیں گے۔نا مساعد حالات اور خوراک کی کمی کی وجہ سے آج رات بھی ہمیںکام کرنا ہے۔
دو گھنٹے بعد سورج ڈوب جائیگا۔ ذراسی کمر سیدھی کر کے اپنا کام شروع کر دیں گے۔ میں ذرا جائزہ لیتا ہوں کہ ہمیں سب سے پہلے کھدائی کہاں کرنی ہے۔ احمد بھائی۔ آپ دیکھ لیں۔ میں ذرا یہاں بیٹھ جائوں۔ جابر نے سامان کاندھے سے اتارا اور زمین پر بیٹھ گیا۔ یہ جگہ جہاں ہم ہیں۔ بہت ہی مناسب ہے۔ تم نے سامان رکھ دیا ہے۔ اور یہیں قیام کرتے ہیں۔ فضا میں حد ت کم محسوس ہو رہی ہے۔ آسمان پر اکا دکا بادل نظر آرہے ہیں۔ احمد ۔ میرا دل چاہتا ہے کہ بڑی زور کی بار ش ہو۔ ہمارے تپتے ہوئے جسموں کو فرحت ملے اور پانی کا مسئلہ بھی حل ہو جائے۔ جابر دل کے چاہنے سے کیا ہوتا ہے۔ وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے وہ چاہے تو جل تھل کر دے۔ یا یونہی رہنے دے سب کچھ اس کی رضا سے مشروط ہے۔
ہاں ۔ بات ٹھیک ہے۔ بس دل کو بہلانے کے لئے میں نے یہ بات کہہ دی۔ جابر نے ہنستے ہوئے کہا۔
ہونٹوں پر پیاس اور دل میں لگن ہو تو کام کرنے کا مزہ آتا ہے۔ احمد نے آہستہ سے کہا۔
خوب جنون اسی کوکہتے ہیں۔
مگر جابر ۔ جذبہ نہ ہو تو جنوں کا کیا فائدہ۔
میرا خیال ہے کہ اگر ہم کامیاب ہو گئے تو یہاں صحرا میں گلشن بنائیں گے۔
خیال تو ٹھیک ہے۔
جابر۔ دو چار گھونٹ تو پانی ہوگا۔ لائو ایک ایک گھونٹ پی کر سوچتے ہیں۔
صبر۔ پانی بہت تھوڑا ہے اور کام بہت۔ چلو کھدائی شروع کرتے ہیں۔ پہلے میں کھودتا ہوں۔ تم ریت نکالنا۔
ٹھیک ہے۔ احمد۔ کھدائی کرتے ہوئے تمہیں کیا محسوس ہوتا ہے۔ جابر ۔ ایک خیال آتا ہے کہ جن لوگوں کی قسمت میں مزدور ہونا لکھاہوتا ہے وہ کیسی کیسی محنت کرتے ہیں۔
ٹھیک۔ یہی لوگ معاشروں کو ایک رنگ نو بخشتے ہیں۔ کیسے؟
یہ لوگوں کو باور کراتے ہیںکہ انسان رہنے کے لئے محل حویلیاں ، دو منزلہ ، سہ منزلہ ، کشادہ ، بڑے بڑے مکان، پختہ اور طویل گلیاں بناتے ہیں اور ان سب میں باہمی ربط ،ترتیب ، حسن اور نہ جانے کیا کیا جمع کر کے ذوق جمال کے ماروں میں نفاست اور سلیقہ پیدا کرتے ہیں۔ نفاست ہمیشہ مزدور کے باطن میں ہوتی ہے۔ تو یہ بات ہوئی کہ یہ مزدور ہی معاشرے کی تعمیر کرتے ہیں۔ اس لئے آج یہ مزدوری مجھے بھلی لگ رہی ہے جسم کا ذرہ ذرہ دکھ رہا ہے۔ مگر ایک فرحت اندر ہی اندر جنم لے رہی ہے۔ اگر ہم کامیاب ہو گئے تو ہماری وجہ سے ہمارا معاشرہ، اس کے افراد کتنے خوش حال ہو جائیں گے۔ ہم اس صحرا میں چھپے ہوئے اس خزانے کو تلاش کر رہے ہیں جس کی ہمیں اور ہمارے آئندگان کو اشد ضرورت ہے۔
مجھے یاد آیا۔ احمد۔ تم نے لندن میں مجھ سے کہا تھا۔ جابر تعلیم اسی لئے حاصل کی جاتی ہے کہ اس کے جائز استعمال کی وجہ سے معاشرے میں خیر کی ترقی ہو۔ محبتیں پروان چڑھیں۔ جہالت کے اندھیرے دور ہوں۔ احمد۔ تم دیکھ رہے ہو اندھیرا بڑھ رہا ہے۔ آئو ذرا سا سستالیں۔
ٹھیک ہے۔ ایک گھونٹ پانی اور ذرا سا ستو۔ دو۔ شاید ہم پھر سے تازہ دم ہو کر پھر سے کھدائی دوبارہ شروع کر دیں۔ یہ لو ستو۔ کھائو۔ پھر پانی بھی ملے گا ۔ مگر صرف ایک گھونٹ۔
تمہارے حساب سے ہمیں کتنے دل کھدائی کرنا ہوگی۔
شاید مہینوں۔ کیونکہ ہم صرف دو آدمی ہیں۔
مہینوں ۔ تو زندہ کیسے رہیںگے؟
یہ جذبہ تعمیر ہمیں زندہ رکھے گا۔
ویسے احمد تمہاری پلاننگ میں کچھ گڑ بڑ ہے۔ مجھے تو تمہاری کامیابی مشکوک نظر آتی ہے۔ جابر ۔ ہماری پلاننگ تو صحیح تھی۔ وہ تم نے سنا نہیں۔ ہم ہر چیز کو۔ اپنی خواہش کے مطابق پورا کرنے کی کوشش تو کر سکتے ہیں مگر اسے پورا کرنے کی قدرت ہم میں نہیں ہے۔ اگر ہمارے برتن میں سوراخ نہ ہوتا تو آج ہمیں پانی کی قلت محسوس نہ ہوتی۔ خیر تم فکر مت کرو۔ ہم ضرور کامیاب ہوںگے۔
یوں کہو۔ احمد۔ اگر اللہ نے چاہا تو۔ ہاں ۔ ہاں۔ ہاں۔
یا ر جابر ۔ لا ئو کدال لائو۔ چلو کھدائی شروع کرتے ہیں۔ سنا ہے کہ ملک فارس میں ایک شخص تھا جنوں کا پروردہ۔ جس نے پہاڑوں میں نہر جاری کر دی تھی۔
اور احمد۔ مجھے حیرانی اس شخص پر ہوتی ہے جس نے لیلیٰ لیلیٰ کرتے ہوئے صحرانوردی کی دھوم مچا دی تھی۔ ہم کیا ہیں؟ ہم صرف احمد اور جابر ہیں۔ دو انسان۔ درد مند دل رکھنے والے۔ اپنے عزم صمیم سے حالات کا رخ موڑنے کے خواب دیکھنے والے۔ بس یہ ہماری تعریف ہے۔ حالات انسان کو کیسے بے بس اور مظلوم بنا دیتے ہیں۔ میرے ہم سفر۔ بزدلی کی باتیں مت کرو۔ تب تک سانس تب تک آس ۔ ذرا ان لوگوں کے بارے میںسوچو جنہوں نے صدیاں قبل بار ہا اس طویل اور خوفناک صحرا کو عبور کرنے کی کوشش میں اپنی جانیں ہار دی تھیں۔ یہ سب کچھ انہوں نے بھی آئندگان کی بہتری کے لئے کیا تھا۔ اور بالآخر تم نے دیکھا کہ انسان نے صحرا تو صحرا سمندروں کو اس بے دردی سے روندھ دیا کہ آج انسان کی تدبیروں کے سامنے ہر چیز، ہیج ہے۔ خلا تک تو انسان نے رسائی حاصل کر لی ہے۔ سنو۔ کسی نہ کسی نے تو بستی بسانی ہے۔ درخت لگانے ہیں۔ کنویں بنانے ہیں۔ نت نئے راستے تلاش کرنے ہیں۔ جو بھی زندہ ہے اسے آخری دم تک زندگی کرنی ہے۔ منزل پر آکر مسافر اکثر بھٹک جاتے ہیں۔ مایوس مت ہو۔ حوصلہ بہت بڑی دولت ہے۔
میں مایوس نہیں ہوں۔ اب تم ہی بتلائو کہ دو دن سے ہم مسلسل کھدائی کر رہے ہیں۔ تمہارے اور میرے خشک لب پانی کوترس رہے ہیں۔ اسی پیاسی دھرتی کی مانند آج ہم کتنے پیاسے ہیں۔ شاید۔ پیاس ہماری ازلی ساتھی ہے۔ اس پیاس کو بھی بارہا انسان نے شکست دی ہے۔ کیا ہوا۔ اگر ہم نے دو دن سے پانی نہیں پیا۔ ذرا ان لوگوں کا خیال کرو کہ میدانِ جنگ میں زخموں سے چور چو ر پڑے ہیں۔ مگر کسی سے پانی نہیں مانگتے ہیں۔ کیوں؟ مانگنا مردوں کی شان، کے خلاف ہے۔ اے مردِ صحرائی اس طویل اور وسیع صحرا میں اگر میرا وقت آخر آگیا تو میں بالکل ہنستے ہوئے موت کی وادیوں کی طرف سفر کرونگا۔
احمد۔ تمہیں ہوا میں انبساط محسوس ہو رہا ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ شاید کوئی آرہا ہے۔
جابر ۔ یہاں کون آئیگا؟ بس ہم ہی دونوں ہیں اور سنو۔ میں نے تہیہ کیا ہے کہ اور دو دن پانی نہیں پیوں گا کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ وقت آخر۔ اس دنیا سے تشنگی لئے نہ جائوں۔ حوصلہ کرو۔ اورآئو پھر سے اپنا کام شروع کرتے ہیں۔
احمد۔ مجھے ایسا لگ رہاہے کہ جیسے بہت سی گھنٹیوں کی آوازیں آرہی ہیں۔ میرے ساتھی تمہیں رہ رہ کر نہ جانے کیا کیا خیال آرہے ہیں۔ یارانِ مخدوش اور ناقابل بیاں حالات میں تمہاری حسی جذبے بڑھ گئے ہیں۔ بیدار ہو گئے ہیں یا نفس امارہ تمہیں نئی نئی تاویلات سمجھا رہا ہے۔
احمد۔ وہ دیکھو کیسا گردو غبار ہے۔ شاید کوئی کارواں آرہا ہے۔ ذرا آسمان کی طرف دیکھو۔ صحرا میں جب سورج غروب ہونے لگتا ہے تو ایسا ہی لگتا ہے ویسے میرا خیال ہے کہ تم بہت تھک گئے ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی صحرائی طوفان ہماری جانب آرہا ہو۔
نہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوںکہ بس ہماری مدد ہونے ہی والی ہے۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ آئو ذرا سستالو۔ چاہو تو تم ایک گھونٹ پانی بھی پی لو۔ اور تم۔۔۔ نہیں میں پانی کی طلب محسوس نہیں کر رہا۔ مجھے تشنگی بہت مزا دے رہی ہے۔ تزکیہ نفس یہ بھی تو ہے کہ دل جو چاہے اسے نہ مانو۔ کبھی کبھی دل کا تڑپنا بھی باعث آرام ہوتا ہے۔
دیکھو۔ ڈوبتا سورج ہم سے کہہ رہا ہے کہ حالات میں ہمیشہ تغیر پایا جاتا ہے۔ ابھی دن اور کچھ دیر بعد رات۔ روشنی کے بعد اندھیرا۔ یہ کھیل یوں ہی ہوتا آیا ہے۔ آئو میرے دوست ہم کچھ دیر جھٹ پٹے کا مزہ لیتے ہیں۔ احمد۔ گھنٹیوں کی آوازیں مجھے پھر سنائی دے رہی ہیں۔ بہت سارے اونٹوں کے اٹھلا کر چلنے سے جولے پیدا ہوتی ہے ۔ وہ مجھے محسوس ہو رہی ہے۔ فضا میں مسرت اپنے ہونے کا پتہ دے رہی ہے۔ کوئی کارواں تیزی سے ہماری جانب آرہا ہے۔
جابر۔ اگر تم کہتے ہو تو میں مان لیتا ہوں ۔ اگر ایسا ہو جائے تو براہِ کرم بے تاب نہ ہو جانا۔ متانت ذی وقار لوگوں کا طرئہ امتیاز ہوتی ہے۔ احمد وہ دیکھو۔ روشنیاں۔ ہماری جانب بڑھ رہی ہیں۔ کارواں۔۔۔ آرہا ہے۔۔۔ کارواں۔۔۔ صحرا میں زندگی کا پیغامبر ۔ ہاں جابر۔ واقعی۔ تھوڑی ہی دیر بعد اونٹوں کے گلے میں بندھی ہوئی گھنٹیوں کی آوازوں میں کسی نے کہا۔ مسافرو۔۔۔ کیسے ہو۔۔۔۔ سنو۔ ہمارا کارواں آگے نہیں جائیگا۔ ہم تمہارے ساتھی ہیں۔ ہم اور آپ مل کر اپنے خوابوں کی تعبیریں تلاش کریں گے اور ہاں۔ یہ بھی سنو۔ ایک کے پیچھے ایک کارواں ہم سے ملنے کے لئے بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ صحرا میں کارواں در کارواں کی روایت جب تک زندہ ہے آئندگان کا مستقبل ہمیشہ محفوظ رہے گا اور قسمت ہمیشہ ہم پر مہربان رہے گی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...