اقبال نوید (برطانیہ)
روایتیں بھی وراثتیں ہیں
کہ عہد موجود سے نکل کر ہم اپنے ماضی میں جی رہے ہیں
کہانیاں اپنی زندگی ہیں
ہمارے خوابوں کے پیڑ ایسے پھلوں کی آمد کے منتظر ہیں
کہ جو شکستہ گئے زمانے کی آندھیوں میں بکھر گئے تھے
اگرچہ ہر شے رواں دواں ہے
کہیں پہ کچھ منجمد نہیں ہے
مگر وہ مضبوط فکر کہرے میں سو رہی ہے
کہ جس کی دستک
ہمارے ذہنوں کے حبس موسم کی تازگی ہے
تمام دنیا ۔۔۔۔۔۔۔
نئے زمانے کی جستجو کے سفر کی دنیا
مگر ہم اب تک عقیدتوں کے اسیر۔۔۔۔۔
تاریک جنگلوں میں گھرے ہوئے ہیں
نظر نہ آتے ہوئے زمانے میں جی رہے ہیں
یقیں کی وادی کے ہم مسافر
جو معجزوں کی طلب میں مفلوج ہو چکے ہیں
روایتیں ہیں،عقیدتیں ہیں
کہ واہموں کے سراب آنکھوں میں بہہ رہے ہیں
ہماری خواہش
کہ آتی نسلیں اسی روایت کا ہاتھ تھا مے قدم اٹھائیں
کہ جس کی انگلی پکڑ کے اب تک بھٹک رہے ہیں
ہم اپنی ناکامیوں کو مشعل سمجھ رہے ہیں
مگر میں آ تے دنوں میں
ہر اک زباں پہ انکار دیکھتا ہوں
نگار خانۂ دل کے سارے بتوں کو مسمار دیکھتا ہوں