میں اس کو کھو نہیں سکتا میں اس سے بہت پیار کرتا ہوں ۔
اس نے اپنے ساتھ کھڑے بابا سے پوچھا ۔
27 سال پہلے میں نے بھی یہی فیصلہ کیا تھا عون ۔لیکن اس دن یہ معجزہ ہوا تھا کہ تیری ماں کے ساتھ تُو بھی بچ گیا ۔بابا نے پیار سے اسے پچکارا ۔
لیکن وہ بے یقینی سے ا نہیں دیکھ رہا تھا
آرزو مجھ سے ناراض تو نہیں ہوگی نہ اس نے کہا تھا
اسے یہ بچہ کسی بھی حال میں چاہیے وہ اپنی زندگی میں آگے بڑھنا چاہتی ہے وہ مجھے تحفہ دینا چاہتی تھی امی امی وہ مجھ سے ناراض تو نہیں ہو جائے گی نہ میں نے کچھ غلط تو نہیں کیا نا ۔
عون ان کا ہاتھ تھامیں پوچھ رہا تھا شاید وہ اپنی ساری ناراضگی سارا غم سارا دکھ بھول چکا تھا ۔
شاید وہ اس وقت یہ بھول چکا تھا کہ وہ کس کے سہارے بیٹھا ہے
شاید وہ یہ بھول چکا تھا وہ کس کے کندھے پہ سر رکھ کے رو رہا ہے ۔
نہ میری جان میرا بچہ آرزو تجھ سے ناراض نہیں ہوگی تو فکر نہ کر ۔
سب کچھ بالکل ٹھیک ہو جائے گا ۔
اندر آپریشن جاری تھا جبکہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اس کی ٹینشن بڑھتی جا رہی تھی
آپ کی وائف اب خطرے سے باہر ہے کچھ ہی دیر میں انہیں روح میں شفٹ کر دیا جائے گا ۔
نرس اسے خوشخبری سنائی اور واپس چلی گئی ۔
جب عون نے بنا سوچے سمجھے زبیدہ کو اپنے گلے لگایا تھا جبکہ باقی ڈاکٹری کاروائی سمیر اور حارث نے پوری کی تھی ۔
عون کے اس مشکل وقت میں وہ اس کے سب سے بڑے سہارے بن کر اس کے ساتھ کھڑے ہوئے تھے ۔
شاید فیملی ہوتی ہی اسی لیے ہے ۔
عون نے کمرے میں قدم رکھا تو آرزو نے نظریں پھیر لیں
پھوپھو کہہ دیجئے انہیں کہ یہاں سے چلے جائے مجھے ان کا چہرہ نہیں دیکھنا ۔
کیسے یہ اپنے بچے کو مار سکتے ہیں ۔
آج انکی خود ساختہ نفرت کی وجہ سے میں نے اپنا بچہ کھو دیا ۔
کہہ دیں ان سے کی میرا ان سے کوئی تعلق نہیں بھیجیں انہیں یہاں سے میں انکی شکل تک نہیں دیکھنا چاہتی ۔
آرزو اپنا سارا ڈر اور خوف بھلائے غصے سے چلائی تھی ۔
عون کو یقین نہیں آرہا تھا کہ آرزو اسے اپنے ہی بچے کا قاتل کہہ رہی تھی ۔
عون نے دو قدم آگے بڑھ کر اسے سمجھانا چاہا ۔
جبکہ آرزو کی اس بات پر اسے بہت غصہ آیا تھا
عون بیٹا باہر چلو یہ وقت سہی نہیں ہے بابا اس کے قریب آ کر کہنے لگے ۔
نہیں بابا وہ دیکھیں کس طرح سے بات کر رہی ہے وہ مجھ سے وہ مجھے میرے بچے کا قاتل تو رہی ہے عون غصے سے اس کی طرف بڑھ رہا تھا ۔
بیٹا پلیز میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو اس وقت وہ اس کنڈیشن میں نہیں ہے کہ تمہیں یا تمہاری کسی بات کو سمجھ پائے ۔
پلیز چلو یہاں سے وہ اس کا ہاتھ تھام کر اسے باہر لے آئے
عون نے آرزو سے ملنے کی اور بات کرنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ اس میں کوئی بات نہیں سُن رہی تھی
اس کا کہنا تھا کہ اسے عون سے بات نہیں کرنی
اگر وہ الگ مکان میں رہنے کی ضد نہ کرتا تو یہ سب کچھ نہ ہوتا
اس کی خودساختہ نفرت نے ان سے ان کے بچے کو دور کر دیا تھا ۔
کیا نہیں سوچا تھا ان دونوں نے اپنے ہونے والے بچے کے لیے اور کیا ہوگیا
اگر اس کے دن عون اس کی بات مان کر اسے زبیدہ کے پاس چھوڑ جاتا تو شاید آج اس کا بچہ بالکل ٹھیک ہوتا اسے عون سے کوئی شکایت نہیں تھی
وہ جانتی تھی کہ عون کو اپنا بچہ کھونے کا بہت دکھ ہے وہ بھی اس کے غم میں برابر کا شریک ہے لیکن وہ اس کو اس طرح سے معاف نہیں کرسکتی تھی ۔
اگر وہ عون کو اس طرح سے معاف کر دیتی تو وہ کبھی رشتوں کی اہمیت نہیں سمجھ سکتا تھا ۔آرزو کے پاس عون کو سمجھانے کا یہ آخری موقع تھا
وہ جانتی تھی کہ اسے آرزو کی ضرورت ہے
لیکن پھر بھی وہ اسے اکیلا چھوڑ چکی تھی تاکہ وہ ان رشتوں کے بارے میں سوچے ان کو سمجھنے کی کوشش کرئے
اور جب سے آرزو سے دور ہوئی تھی وہ گھر والوں کے قریب ہوتا جا رہا تھا شاید وہ ان کی اہمیت کو سمجھنے لگا تھا ۔
ورنہ وہ آرزو سے واپس گھر چلنے کا کہہ چکا تھا ۔
لیکن وہ اسے صاف انکار کرچکی تھی ۔
اس نے کہا تھا کہ وہ واپس اس کے ساتھ نہیں جانا چاہتی اور نہ ہی عون کے ساتھ رہناچاہتی ہے
انہیں گھر آئے ایک ہفتہ ہو چکا تھا تب سے عون دوسرے کمرے میں سورہا تھا ۔
گھر میں سبھی لوگ عون کا بہت خیال رکھ رہے تھے ۔سب کا کہنا تھا کہ آرزو اسے معاف کر دے گی ۔
عون صبح تیار ہو کر پولیس سٹیشن جانے لگا تو زبیدہ نے زبردستی ناشتے کیلئے روک لیا ۔
اس نے بہت انکار کرنے کی کوشش کی لیکن زبیدہ نے اس کی ایک بات نہ سنی ۔
تم مجبوراً اسے ناشتے کے لئے بیٹھنا پڑا ”
بیٹا ویسے میں نے تمہارے لیے پراٹھا بنایا ہے لیکن اگر تم کچھ اور کھانا چاہو تومیں ابھی بنا دیتی ہوں زبیدہ نے بہت محبت سے کہا ۔
نہیں یہی ٹھیک ہے میں کھا لوں گا تھینکس عون نے مروتاً کہا ۔
تو پاس بیٹھے بابا مسکرائے
ماں کو کون تھینکس بولتا ہے ۔۔؟ انہوں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا ۔
آپ چپ رہیں میرے معصوم بچے کو سکون سے ناشتہ کرنے دیں صبح صبح اس کے پیچھے مت پڑ جائے گا زبیدہ نے آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا تو بابا مسکرا دیا ۔
مطلب بیٹے کے سامنے شوہر کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے انہوں نے تایاابو کو دیکھ کر کہا تو وہ بھی مسکرانے لگے
بابا آپ کو تو اپنی پڑی ہے آج تو امی نے میرے لیے بھی پراٹھا نہیں بنایا ۔
سمیر نے بیٹھتے ہوئے شکایت کی عون اپنے ناشتے میں مصروف اپنی ہنسی دباگیا ۔
ارے نہیں نہیں ابھی بنا دیتی ہوں تو منہ مت بنا زبیدہ نے اٹھ کر نے مسکراتے ہوئے کہا
نہیں رہنے دہں میں آپ کے لاڈلے کے ساتھ شئیر کر لوں گا ۔
سمیر نے کہتے ہوئے عون کی پلیٹ سے بنا پوچھنے کی زحمت کیے کھانا شروع کر دیا ۔
لیکن عون کو اس کی یہ حرکت بُری نہ لگی تھی ان دونوں میں کبھی ایسا رشتہ نہ رہا کہ وہ ایک ہی پلیٹ سےکھاتے لیکن آج عون کو پہلی بار احساس ہوا تھا کہ وہ اس کا بھائی ہے ۔سمیر کی اس حرکت پر وہ بھی مسکراتے ہوئے اپنے ناشتے میں مصروف ہوگیا
سمیر مجھے ذرا میرے دوست کے گھر چھوڑ دو بہت دن ہو گئے چکر نہیں لگایا
بابانے سمیرکو مخاطب کیا
بابا میری گاڑی تو ورکشاپ میں ہے سمیر نے آخری نوالہ لیتے ہوئے کہا ۔
میں چھوڑ دوں۔ عون نے اٹھتے ہوئے پوچھا
ہاں تو تمہیں چھوڑو گے اور کون چھوڑے کا سنا نہیں جناب کی گاڑی بیمار ہے اسپتال میں پڑی ہے بابا نے نارمل انداز میں کہا تو وہ مسکراتا ہوا گاڑی نکالنے چلا گیا ۔
جبکہ سمیر نے ایک نظر زبیدہ کی طرف دیکھا جو آرزو کے کہنے پر یہ سب کچھ کر رہے تھے
انہیں آرزو ٹھیک لگی تھی عون کو ایک فیملی دینے کے لیے ایک فیملی کا اعتبار دینے کے لیے یہ سب ضروری تھا
عون کا راستہ دوسری طرف تھا لیکن وہ صرف ان کو چھوڑنے کے لئے اس سائیڈ آیا تھا
گاڑی میں عون نے دو تین بار آرزو کو فون کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے فون نہیں اٹھایا تو پھر میسج کر دیا پلیز کھانا کھا لینا
بابا اس کی ساری حرکتیں بہت غور سے دیکھ رہے تھے
فون نہیں اٹھا رہی وہ ۔۔۔۔؟بابا نے آرام سے پوچھاتو عون نے انہیں دیکھا پھر نفلی میں سر ہلایا
اسے وقت دو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ۔بابانے مسکرا کر کہا اس کی ناراضگی ختم نہیں ہو رہی
تمہاری ماں بھی ایسے ہی ناراض ہوتی ہے بابا نے کہا تو عون نے انہیں دیکھا
میں اور بچے نہیں چاہتا تھا لیکن تمہاری ماں کا کہنا ہے کہ تم اس کے نصیب کی اولاد ہومیں نے اسے سمجھایا کہ ہمارے پہلے ہی چار بجے سنبھالنا مشکل ہے لیکن تمہارے ماں نہیں مانی تو میں اس سے ناراض ہو گیا ۔
لیکن تمہاری ماں کے لیے میری ناراضگی سے زیادہ تم اہم تھے اسے تمہاری بہت فکر تھی میں اخراجات سے گھبرا گیا تھا میں چار بچوں کو بہت مشکل سے پال رہا تھا میں نے اس کی بات نہیں مانی تو وہ ضد پر اڑ گئی پھر تمہاری پیدائش میں تنگدستی کی وجہ سے اس کی طبیعت مزید بگڑگئی ۔
ڈاکٹر نے کہا کہ ماں یا بچے میں سے بس کسی ایک کو ہی بچایاجاسکتاہے
زبیدہ نے کہا کہ اس کا بچہ بچا لیا جائے لیکن زبیدہ مرجاتی تم میں پانچ بچے کیسے سنبھال عون ۔
میں اسے اپنے لیے نہیں بلکہ اپنے بچوں کے لئے بچانا چاہتا تھا ۔
میں ایک بچے کے لئے اپنے چار بچوں کی زندگی کو داؤ پر نہیں لگا سکتا تھا ۔
مجھے تمہارے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو بھی پالنا تھا میں مجبور تھا جب آپریشن ہوا تو اللہ نے تمہیں اور تمہاری ماں دونوں کو بچالیا میری خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی ۔
میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں ہاں لیکن تمہاری ماں سے زیادہ نہیں بابا پھر سے مسکرائے تھے عون نے ایک نظر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا پھر نظریں جھکا گیا ۔
سمیر بچپن سے ہی بہت ڈرپوک تھا اکثر نیند میں جاگ جاتا تھا پر کہیں کہیں دن اس ڈر میں رہتا میں نے ڈاکٹر سے مشورہ لیا تو انہوں نے کہا کہ وہ ڈرپوک بچوں میں شامل ہوتا ہے اسے ہر وقت ماں باپ کی ضرورت ہے اس کا ڈر اسے ایک کمزور انسان بنا سکتا ہے جس کی وجہ سے اس کی آگے کی زندگی مشکل ہو سکتی ہے
یہی وجہ تھی کہ میں نے اور زبیدہ نے تمہیں تمہارے دادا کے حوالے کردیا اور ہم سمیر پر دھیان دینے لگے وہ تمہیں بہت چاہتے تھے ہر وقت تمہیں اپنے قریب رکھتے تھے
جہاں جاتے تمہیں اپنے ساتھ لے کر جاتے تھے بابا نے مسکراتے ہوئے بتایا اس بات میں کوئی شک نہیں تھا کہ دادا اس سے بے انتہا محبت کرتے تھے ۔
ان کے ہوتے ہوئے ہمیں کوئی ٹینشن نہیں تھی تمہاری وہ تمہارے بہت قریب تھے ۔اور ہمیں پتہ بھی نہیں چلا کہ ہم کب تم سے اتنے دور ہوگئے بابا کے چہرے کی اداسی عون کو شرمندہ کر گئی تھی ۔
کوئی بھی والدین اولاد کو جان بوجھ کر مارنے کی کوشش نہیں کرتے اور تم ہمیں قاتل کہتے ہو وہ اسے مزید شرمندہ کر گئے
تم پانچوں ہمارے بچے ہو تم سب ہمارے لئے ایک برابر ہو خاص کرکے تم جو سب سے چھوٹے تھے پر ہمیشہ وہ سب کچھ کرتے جس سے مجھے غصہ آتا ہے تم اپنی غلطیوں کی وجہ سے مار کھاتے تھے ۔
بہت اچھے اور شریف بچے نہیں بلکہ بہت شرارتی بچے تھے ۔
کیا جاتا اگر میری بات مان کہ خاندانی کام سنبھال لیتے ہیں یونیفارم پہن کر بیٹھے ہو بابا نےاس کی یونیفارم پر چوٹ کرتے ہوئے کہا تو عون مسکرایا ۔
اب گاڑی واپس لے کر چلو میرے دوست کا گھر پیچھے چھوٹ گیا ہے بابا نے کہا تو عون نے پیچھے دیکھا واقعی گھر بہت پیچھے چھوٹ چکا تھا ۔
شاید ان کی باتوں میں اسے سمجھ نا آیا
آپ نے بتایا کیوں نہیں وہ منہ بسورکر بولا ۔
کیونکہ اور بہت کچھ بتانا تھا یہ زیادہ ضروری تھا بابا مسکراتے ہوئے گاڑی سے اترے تو وہ بھی ان کے پیچھے گاڑی سے اتر کر ان کے سامنے آیا اور جلدی سے ان کے سینے سے لگ گیا
ایم سوری بابا میں نے شاید بہت ساری غلطیاں کی ہیں لیکن سب کے لئے سوری مجھے پتا ہے آپ مجھے معاف کر دیں گے وہ ان کے سینے سے لگا کسی بچے کی طرح بول رہا تھا ۔
بابا نے اسے خود میں بیجا ۔
میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں عون تم میرے بچے ہو میرے لیے بہیت اہم وہ اسے اپنے سینے سے لگائے ہوئے کہا تو وہ کھل کر مسکرایا ۔
معافی مانگنا اتنا بھی مشکل نہیں تھا جتنا وہ سوچ رہا تھا
وہ شام کا گھر آیا تو زبیدہ کیچن میں کچھ کر رہی تھی وہ ان کے پاس کچن میں ہی آ گیا
اور انہیں دیکھنے لگا
کیا ہوا اور بھوک لگی ہے زبیدہ نے فکر مندی سے پوچھا تو عون نے ہاں میں گردن ہلائی
میرا بچہ میں ابھی روٹی ڈالتی ہوں وہ جلدی سے آٹا نکالنے لگی
میں کھیرکھاؤں گا اس نے فرمائش کی
ہاں میری جان میں ابھی بناتی ہوں زبیدہ نے خوشی سے کہا اور اس کے لیے کھیر بنانے کا سامان نکالنے لگی
میں آپ کو بہت تنگ کرتا ہوں آپ مجھ سے کبھی ناراض کیوں نہیں ہوتی اس کے اچانک سوال پر زبیدہ نے اس کی طرف دیکھا
اگر میں تم سے ناراض ہو جاتی تو تم مجھ سے اور زیادہ ناراض ہو جاتے تم تو پہلے ہی مجھ سے ناراض رہتے ہو ۔
تم تنگ نہیں کرتے تم جب غصہ ہوتے ہو تو ہم سے دور چلے جاتے ہو اور پھر مہینوں مہینوں واپس لوٹ کر نہیں آتے تھے میں تمہارا انتظار کرتی رہ جاتی زبیدہ نے اپنی آنکھوں کو صاف کرتے ہوئے کہا
تھپڑکیوں نہیں لگاتی تھی مجھے لگا دیتی تو ساری عقل ٹھکانے آجاتی ۔
آج اس کا انداز بہت الگ تھا ۔
بابا نے آتے ہی انہیں صبح کی ساری روداد سنائی تھی ۔
تیری شکل بہت معصوم تھی مارنے کا دل نہیں کرتا تھا کبھی تھپڑ نہیں لگایا تجھے اور تیرے دادا تو ویسے بھی تجھے کسی کو ہاتھ نہیں لگانے دیتے زبیدہ نے مسکرا کر کہا ۔
اس کی اور دادا کی محبت تو اس گھرمیں مثالی تھی ہر کوئی ان کی محبت سے واقف تھا ۔
جلدی بنائیں نہ مجھے بھوک لگی ہے عون نے کہا تو زبیدہ نے جانتے ہوئے بھی ابھی بہت وقت لگے گا کھیر دیکھنے لگی
بس تھوڑی دیر میں بن جائے گی زبیدہ نے مسکرا کر اسے دلاسہ دیا ۔
تم ایسا کرو تب تک فریش ہو جاؤتب تک تمہاری کھیر تیار ہوجائے گی
ہاں ٹھیک ہے آپ تیار کریں تب تک میں نہا کے آتا ہوں ۔
اور سمیر کو مت دکھائے کہ وہ بھوکا ساری چٹ کر جائے گا یہ ساری میری ہے میں اکیلا کھاؤں گا ۔
میں آپ سے معافی مانگتا ماں لیکن صبح بابا نے کہا تھا کہ ماں کو بھی کوئی تھینک یو بولتا ہے کیا تو پھر میں نے سوچا ماں کو تو کوئی سوری بھی نہیں بولتا
اور جانے سے پہلے بڑے پیار سے ان کا گال چوم کر گیا ۔
آرزوکی کہی ہر بات سچ ثابت ہوئی تھی ۔
عون ان لوگوں سے دور ہوا تھا تو وہ لوگ بھی عون سے دور ہونے لگے وہ اسے ایک فیملی کا اعتماد نہیں دیتے تھے جن پر وہ بھروسہ کرے ۔
لیکن آرزو کے بات مان کر وہ سب عون کے قریب آنے لگے تھے اور عون بھی ان کے بہت قریب آچکا تھا
سب کچھ ٹھیک ہو رہا تھا ان سب سے مل کر ہنسی خوشی رہنے لگا تھا ۔
آہستہ آہستہ وہ سب کو سمجھ چکا تھا وہ سب بھی اس کا خیال رکھنے لگے تھے اور وہ بھی ان کے ساتھ خوش تھا ۔
عمر بھی اب کافی مطمئن تھا ۔ وہ بھی اس کی عقل ٹھکانے لگنے پر بہت خوش تھا ۔
لیکن آرزو اب بھی اس سے ناراض تھیں اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ آرزؤ کو کیسے منائے
وہ اب بھی الگ کمرے میں سوتا تھا اس کا کہنا تھا جب تک آرزو خود اسے کمرے میں نہیں بلائے کی وہ کمرے میں نہیں جائے گا
اور آرزو اس سے کچھ نہیں کہتی تھی نہ وہ اس سے بات کرتی تھی اور نہ ہی اس کے انداز سے وہ ناراض لگ رہی تھی گھرمیں سبھی اس کی بے چینی سے واقف تھے
لیکن بابا کا کہنا تھا یہ ان دونوں کا پرسنل میٹر ہے جس میں کوئی نہیں بولے گا ۔