” دیکھو بیٹا کچھ باتیں آپ کو ابھی سمجھ نہیں آ سکتیں۔
ان کو سمجھنے کے لیے عمر درکار ہوتی ہے کیوں کہ وہ آپ کو زندگی گزارنے کے تجربے وقت کی اونچ نیچ اور رشتوں کی بھٹی میں تپ کر سیکھنی پڑتی ہیں۔ ابھی آپ کا ذہن بہت معصوم ہے۔ آپ نے لاکھانی لاج سے باہر کی دنیا دیکھی ہی نہیں ہے ابھی آپ کی دنیا تو لاکھانی لاج کے چند لوگوں سے شروع ہو کر انہی پر ختم ہو رہی ہے۔”
” بوا آپ کیا کہہ رہی ہیں مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا ہے کون سی باتیں میں نہیں سمجھ سکتی؟ میں نے ایک سیدھا سا سوال پوچھا تھا کہ زرغم کون ہے اور اس کا ہم سب سے کیا رشتہ ہے؟” خدیجہ کی ذو معنی باتوں پر الجھتی منہ بسورتی وہ بولی تو دھیمے سے مسکرا دیں۔
” کچھ سوال سیدھے تو ہوتے ہیں لیکن ان کے سینوں میں بہت سے گمبیھر طوفان دفن ہوتے ہیں اور اگر ان کو چھیڑا جائے تو غم و غصے کی زور آور بے مہر موجیں وہ سب کچھ بہا کر لے جاتی ہیں جن پر برسوں سے ضبط اور برداشت کا بند بندھا ہوتا ہے اس لیے بیلہ بیٹا ان زخموں پر کھرنڈ جما رہنے دو اس راکھ کو کریدنے سے ہاتھ زخمی ہوں گے یا کالے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” خدیجہ مسلسل پہیلیاں بجھا رہی تھیں اور بیلہ گنگ سی ان کو دیکھے جا رہی تھی۔
” خدیجہ بوا کچھ نہیں بتانا تو نہ بتائیں مگر پلیز اس طرح کی باتیں کرکے مجھے مزید الجھائیں تو نہیں ناں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!” بیلہ اکتائے انداز میں بولی تو خدیجہ ایک نظر اس کو دیکھ کر رہ گئیں۔
” ساری غلطی فاطمہ کی ہے جس کی بنیاد شک اور ضد کی وجہ سے آج زرغم اپنی اصلی پہچان سے محروم ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔” خدیجہ نے اپنے مخصوص ٹھہرے ٹھہرے لہجے میں بولنا شروع کیا تو جہاں بیلہ چونکی وہاں فاطمہ کا نام سنتے ہی ساریہ کے قدم بھی جم گئے۔
” کیا فاطمہ چچی کی غلطی۔۔۔۔۔۔۔کیا مطلب بوا؟” بیلہ کی حیرت سوا نیزے پر تھی ساریہ بھی دم سادھے کھڑی تھی۔
” ساریہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چندا یہاں کیوں کھڑی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب طبیعت کیسی ہے؟” باہر سے آتی سعیدہ کی آواز نے خدیجہ اور بیلہ دونوں کو چونکا دیا۔
” کک۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ نہیں پھپو۔۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔وہ میں بیلہ سے ملنے اندر جا رہی تھی۔” ساریہ کی گھبرائی ہوئی آواز سماعت سے ٹکرائی تو خدیجہ نے بیلہ کو لیٹ جانے کا اشارہ کیا۔
” چلو شاباش اندر چلو بیلہ اندر ہی ہے۔ سعیدہ اس کو لیے اندر داخل ہوئی تو خدیجہ نے ساریہ کو دیکھا اس کی اڑی رنگت سٹپٹایا انداز صاف ظاہر تھا کہ اس نے ان کی باتیں سنی ہیں ۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی بیلہ کے پاس آ کر رک گئی تو بیلہ نے ایک نظر خدیجہ بوا کو دیکھا جو ناگواری سے ساریہ پر نظریں جمائے بیٹھی تھیں لیکن بیلہ کی سمجھ میں کچھ نہ آ رہا تھا بالآخر اس نے ساریہ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس بٹھایا۔ ساریہ بیلہ کے پاس بیٹھی مسلسل نظریں جھکائے کسی سوچ میں گم تھی۔
” اچھا بیلہ بیٹا آپ ریسٹ کرو میں کھانا بھجواتی ہوں۔” وہ ساریہ کو مکمل طور پر نظر انداز کرتی وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئیں تو بیلہ کو خدیجہ بوا کا رویہ اچھا نہ لگا اس نے ساریہ کو دیکھا جو ڈبڈباتی نظروں سے خدیجہ بوا کو دیکھ رہی تھی۔
” خدیجہ بوا۔۔۔۔۔۔۔۔” بیلہ ان کو بلانے ہی لگی تھی کہ ساریہ کی بھرائی آواز سماعت سے ٹکراتی تو اس نے یک دم ساریہ کو دیکھا خدیجہ کے قدم رکے لیکن وہ پلٹی نہیں تھیں۔
” خدیجہ بوا میری مما نے کیا کیا تھا؟” ساریہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی ان کے پیچھے جا کھڑی ہوئی تو اس کے سوال پر خدیجہ نے پلٹ کر اس کو دیکھا تو ان کے لبوں پر بہت استہزائیہ مسکراہٹ ابھری تھی۔
” رہنے دیں ساریہ بی بی آپ ان جھمیلوں میں نہ ہی پڑیں تو اچھا ہے۔” وہ ہاتھ اونچا کرکے بولیں اور قدم واپسی باہر کی جانب بڑھانے چاہے لیکن ساریہ نے ان کا ہاتھ پکڑ کر ان کو روک لیا۔
” خدیجہ بوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں جانتی ہوں آپ ہی کیا اس گھر کا کوئی بھی فرد مجھے اور مما کو پسند نہیں کرتا یہاں تک کہ بابا بھی ہم سے ہمیشہ دور رہے ہیں کیا میری مما کا یہ قصور کبھی معاف نہیں ہو گا کہ انہوں نے بابا سے پیار کیا اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
” کیا۔۔۔۔کیا۔۔۔۔۔۔کیا کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔بابا سے پیار؟” خدیجہ بوا نے اس کی بات کاٹ کر تیز لہجے میں استفار کیا۔
” کیا مطلب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا یہ سچ نہیں ہے بوا؟” ساریہ سٹپٹائے لہجے میں بولی جبکہ بیلہ گنگ بیٹھی ان کی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔
” اپنی مما سے ہی پوچھو کہ یہ کتنا سچ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” وہ اس کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے بولیں۔
” نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔۔” وہ یک دم ان کے رستے میں آئی۔
” میں بھی وعدہ کرتی ہوں بوا کبھی کسی کو نہیں پتہ چلنے دوں گی کہ ساریہ سچائی سے واقف ہوں ۔ آج آپ مجھے بتائیں کہ آخر وہ کیا وجہ ہے جس کی بنا پر لاکھانی لاج کا ہر فرد مما سے نفرت کرتا ہے اور ساریہ لاکھانی کو نا کردہ گناہ کی سزا کیوں مل رہی ہے؟ پلیز بوا میں اپنی مما کو اپنے سامنے سر جھکائے نہیں دیکھ سکتی۔
مجھے بتائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” وہ آنسو بہاتی ہاتھ جوڑے ان کے سامنے کھڑی تھی۔ اور خدیجہ بوا حیران سی اس کو دیکھے جا رہی تھیں۔ اس صورت حال ساریہ کے طرز کلام پر بیلہ کی حیرت بھی سوا نیزے پر تھی۔
” بوا بیلہ کے ساتھ جو بھی ہوا اس کی میں معافی مانگنے آئی تھی یہاں آپ دونوں کی باتیں میں جان بوجھ کر نہیں سنیں مما کا نام لیا آپ نے مجھے تجسس ہوا اور میں رک گئی۔” خدیجہ نے مشکوک نظروں سے اس کو دیکھا تو ساریہ خاموش ہو گئی۔
” بوا مجھے سمجھ نہیں آ رہا اگر غلطی میری مما کی ہے تو پھر میری مما میری شادی زرغم سے کیوں کرنا چاہ رہی ہیں؟”
ساریہ پر سوچ انداز میں خدیجہ سے مخاطب تھی تو اس بات پر وہ بھی چونکیں۔
” شاید وہ تاریخ کو دہرانا نہیں چاہتی اس لیے ۔”
خدیجہ اس پر نظریں جمائے بولیں۔
” ساریہ بیٹا سب کو معاف کر دینا تم نا حق سب کی نفرت کا نشانہ بن رہی ہو لیکن اس میں بھی قصور وار فاطمہ ہی ہے۔” خدیجہ کو اس کے آنسوؤں میں ندامت نظر آئی تو وہ ساریہ کو اپنے ساتھ لگائے مدھم آواز میں بولیں تو ساریہ زارو قطار سے روتی چلی گئی۔
” مجھے معاف کر دینا بیلہ میری وجہ سے زرغم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
” اونہہ۔۔۔۔۔۔۔” بیلہ نے اس کو چپ رہنے کا اشارہ کیا۔
” زرغم نے ضروری کام سے جانا تھا اس لیے وہ چلا گیا ہے تمہاری یا کسی کی وجہ سے نہیں۔ سب ٹھیک ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” بیلہ اس کے پاس بیٹھتے اس کے بازو پر ہاتھ رکھتے مدھم مسکان کے ساتھ بولی تو خدیجہ بوا نے بھی اس کو دیکھا۔
” یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں ” لاکھانی لاج” میں آئی تھی۔” وہ دونوں بیٹھیں تو خدیجہ نے ان دونوں کو سب بتانے کے لیے اپنی بات شروع کی۔
” خدیجہ بوا آپ کون ہیں؟” بیلہ کے معصوم سے سوال پر خدیجہ اور ساریہ دونوں ہنس پڑیں ۔
” نہیں میرا مطلب ہے کہ آپ یہاں پر کیسے آئیں؟” بیلہ نے اپنی بات کلئیر کی۔
” میرا آپ لوگوں سے کوئی خون کا رشتہ نہیں ہے بیٹا۔۔۔۔۔۔۔۔یوں سمجھ لو لاکھانی لاج نے ایک لا وارث بے سہارا کو آسرا دیا دو وقت کی روٹی اور سر چھپا نے کو چھت اور عزت دی ۔” خدیجہ مدھم آواز میں کھوئے کھوئے لہجے میں بولیں۔
” نہیں بوا آپ ہماری اپنی ہو بہت زیادہ اپنی آپ کے بغیر تو میں رہ ہی نہ سکتی۔” بیلہ ان سے لگتی جزباتی لہجے میں بولی ۔
” مرتضی لاکھانی۔۔۔۔۔۔۔۔تم لوگوں کے دادا۔۔۔۔۔۔۔۔عجیب ہی انسان تھے ان کی سمجھ نہیں آتی تھی کہ اچھے ہیں کہ برے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔” خدیجہ بوا ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ بولیں۔ بیلہ اور ساریہ نظریں ان کے چہرے پر گاڑے سن رہی تھیں۔
” ہمیشہ لوگوں کی مدد کرتے تھے بارعب انسان تھے پورے علاقے میں ان کا دبدبا تھا ایمان دار تھے غلط بات پر خوب طیش میں آتے تھے جس وجہ سے لوگ ان سے ڈرتے تھے ۔ ان کی دو اولادیں مجیدالحسن لاکھانی تمہارے پاپا انہوں نے ساریہ کی طرف اشارہ کیا۔
” اور علی الحسن لاکھانی ۔۔۔۔۔۔۔۔تمہارے پاپا ۔” پھر بیلہ کو کہا۔
” سب کچھ ٹھیک تھا کپڑے کا بزنس تھا جو خوب چل رہا تھا اسی کو آگے بڑھاکر آج مجیدالحسن اور علی الحسن نے فیکڑی بنائی ہے۔ مرتضی لاکھانی کے ایک بھائی تھے عبدالحق لاکھانی جو اپنی شادی کے سات مہینے بعد کار ایکسیڈنٹ میں چل بسے ان کے جانے کے پانچ مہینے بعد عندلیب کے ہاں سعیدہ کا جنم ہوا اور سعیدہ کوئی چار پانچ ماہ کی ہی تھی کہ بڑوں کی باہمی رضا مندی سے عندلیب کا نکاح اس کے چچا زاد سے کر دیا اور سعیدہ مرتضی لاکھانی اور فریحہ کی زیرنگرانی آ گئی۔ چونکہ سعیدہ بہت چھوٹی تھی تو فریحہ نے اس کو ماں کی طرح پالا اور یوں سعیدہ علی الحسن اور مجیدالحسن کی دودھ پلائی بہن بن گئی اور وہ دونوں بھائیوں کو بہت عزیز بھی رہی ۔ اس پر جان چھڑکتے تھے لیکن خاندانوں کے ہزار بکھیڑے ہوتے ہیں بیٹا جو انہی کو سمجھ آتے ہیں جن پر بیت رہی ہوتی ہے فاطمہ اور نسرین دونوں بہینیں تھیں۔”
” کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟” خدیجہ بوا نے پل کی پل ان کو دیکھا جانتی تھی کہ یہ ان دونوں کو نہیں پتہ ہو گا۔
” ہاں یہ سچ ہے لیکن آدھا ادھورا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔” خدیجہ گہرا سانس لیتے ہوئے بولی۔
” کیا مطلب آدھا ادھورا کیسے؟” ساریہ تیز لہجے میں بولی تو بیلہ نے بھی اس کی طرف دیکھا۔
آدھا ادھورا ایسے کہ دونوں سوتیلی بہینیں تھیں۔
فاطمہ نے کبھی اس کو اپنی بہن نہیں جانا بدرالنساء نے چاہا کہ فاطمہ کی شادی علی الحسن سے ہو اور فاطمہ بھی انہی کے جیسی ان کے نقش قدم پر چلنے لگی لیکن علی الحسن کی طبیعت اور اس طرح کی تھی ان کا اور فاطمہ کا کوئی میل ملاپ نہ تھا بہر حال باہمی صلاح و مشورے سے ان کے گھر رشتہ لے کر گئے لیکن فاطمہ کا نہیں علی الحسن کے لیے نسرین کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بدرالنساء نے ہاں تو کر دی لیکن شرط رکھی کہ مجیدالحسن کے لیے فاطمہ کا ہاتھ مانگیں اور ابھی طے کریں یوں مجیدالحسن کو بتائے بغیر ان کا رشتہ فاطمہ سے طہ پا گیا جب مجیدالحسن کو پتہ چلا تو ان کا اعتراض ایک فطری عمل تھا کہ ان کو پتہ ہی نہیں اور ان کی زندگی کا اتنا اہم فیصلہ منٹوں میں بغیر سوچے سمجھے کیا گیا لیکن یہ اعتراض چند دنوں کا ہی تھا لیکن فاطمہ کا اعتراض آج تک برقرار ہے۔ جس میں اس نے ساریہ کو بھی بھینٹ چڑھا رکھا ہے۔” بیلہ اور ساریہ خاموش بیٹھی سب سنتی جا رہی تھیں۔ خدیجہ نے ساریہ کو دیکھا تو اس کے ماتھے پر چمکتی بوندیں اس کی اندرونی کیفیت کو ظاہر کر رہی تھیں۔
” ساریہ بیٹا کچھ سچ بہت کڑوے ہوتے ہیں ان کو ہمت سے برداشت کرنا پڑتا ہے ۔” خدیجہ نے اس کے یخ بستہ ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر اس کو تسلی دی۔
” دونوں بھائیوں کی شادی ایک ہی دن رکھی گئی اور سب بخوبی ہو گیا لیکن اس فنکشن میں ایک انہونی یہ ہوئی کہ بدرالنساء کے بھائی معیدالرحمان عباسی کے بیٹے قمر عباسی کو سعیدہ پسند آ گئی۔”
“معیدالرحمان عباسی٬قمر عباسی٬ زرغم عباسی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” بیلہ زیر لب بڑبڑائی تو خدیجہ بوا نے مدھم مسکان کے ساتھ اس کو دیکھا جبکہ ساریہ خاموش بیٹھی ان کو دیکھ رہی تھی۔
” مطلب زرغم سعیدہ پھوپو کا بیٹا ہے؟” بیلہ یک دم اونچی آواز میں بولی۔
” شش۔۔۔۔۔۔۔” خدیجہ نے یک دم اس کو خاموش رہنے کو کہا۔
” اور پھر کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی کہ کب اور کیسے سعیدہ اور قمر عباسی کی ملاقاتیں ہوتی رہیں اور اس سارے ڈرامے کے پیچھے تمہاری نانی بدرالنساء اور فاطمہ کا ہاتھ تھا۔
لاکھانی لاج میں بھونچال اس وقت آیا جب ایک صبح سعیدہ جاگی تو اس کی طبعیت خراب ہوئی بار بار قے اور ان کے چکروں نے لاکھانی لاج کی دیواروں کو ہلا کر رکھ دیا۔
سعیدہ ماں بننے والی تھی یہ خبر کسی دھماکے سے کم نہ تھی اس دن پہلی بار علی الحسن اور مجیدالحسن نے سعیدہ پر ہاتھ اٹھایا تھا۔ اگر نسرین بیچ بچاؤ نہ کراتی تو نجانے کیا ہو جاتا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...