“آزر۔۔۔م۔۔۔مت کریں ایسا”وہ ہاری ہوئی لہجے میں بولی۔
“پلیز۔۔۔ریحہ۔۔۔میں مرجاونگا”وہ ٹوٹتے ہوئے بولا۔
“میں بھی مر گئی تھی میری تکلیفوں کا اندازہ نہیں ہے آپ کو میں نے کیا کیا سہا ہے آپکی بے وفائی پہ”وہ پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے بولی۔
“میں اپنی غلطیوں کی سچے دل سے معافی مانگتا ہوں تم سے تمہیں اب کوئی تکلیف نہیں دونگا میں ازالا کرنا چاہتا ہوں”وہ بھرائی ہوئے آواز میں بولا۔
“آپ کس کس تکلیف کا ازالا کریں گے آزر احمد شاہ کیا میرے ہاتھ کاٹنے کا ازالا کرسکتے ہیں کیا میری راتوں کو اٹھ اٹھ کر تلیکف سے رونے کا ازالا کرسکتے ہیں کیا زندہ لاش بنانے کا ازالا کرسکتے ہیں”وہ اک دم سے ہزیانی انداز میں چیختی ہوئی بولی اور اپنا بازو دکھایا جہاں کٹ کے نشان تھے۔
“ف۔۔۔فریحہ یہ سب۔۔۔”وہ پسٹل سائیڈ پہ کرتے ہوئے تڑپ کر اسکا ہاتھ پکڑ کر بولا اور اسکے کٹ پہ اپنے ہونٹ رکھنے چاہے۔
“بس آزر آپ کسی چیز کا ازالا نہیں کرسکتے آپنے مجھے اتنے زخم دئے ہیں نا آپ چاہ کر بھی میری تکلیفوں کا مداوہ نہیں کرسکتے”وہ اسکو پیچھے کی طرف دھکہ دیتے ہوئے بولی۔
“میں مانتا ہوں میں نے بہت غلط کیا تمھارے ساتھ بہت تکلیف پہنچائے تمہیں پر پلیز اک موقع دیدو مجھے پلیز چھوڑ کر مت جاؤ ورنہ میں خود کو شوٹ کردونگا”وہ روتے روتے ضدی لہجے میں بولا۔ اسنے دوبارہ سے پسٹل اپنی کنپنی میں رکھ دی تھی۔
“ٹھیک ہے نہیں جارہی آپ کو چھوڑ کر لیکن مجھ سے کسی چیز کی امید مت کیجئے گا آپ یہ بندوق ہٹائے پہلے”وہ اسکی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔
“تھینک یو سو م۔۔۔”وہ خوشی سے بولتے ہوئے اک دم اسکے گلے لگنے لگا۔
لیکن ریحہ نے ہاتھ کے اشارے سے اسے اپنے پاس آنے سے روکا۔
آزر نے آنسوں بھری آنکھوں سے اسے دیکھا تھا اسکے ایسا کرنے پر آزر کا دل بری طرح ٹوٹا تھا۔
ریحہ اسکی طرف دیکھتے ہوئے روتے ہوئے واشروم میں گھس گئی تھی۔
اور دروازے سے لگ کر بری طرح رونے لگی۔
آزر بھی اسکے پیچھے گیا لیکن تب تک اسنے دروازک بند کردیا تھا۔
وہ بھی وہی دروازے سے لگ کر رونے لگا تھا دونوں کے درمیان دروازہ تھا۔
دونوں بےبسی سے رورہے تھے اک پچتاؤے سے دوسرا تکلیف سے۔۔۔
***
شیلا بیگم اور شہزاد صاحب کو واپس آئے ایک ہفتہ ہوچکا تھا۔
فریحہ اپنے کام خوش اسلوبی سے انجام دے رہی تھی اسنے بہت جلد کھانا پکانا بھی سیکھ لیا تھا۔
آزر اور اسکے بیچ ابھی تک کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوا تھا۔
“فریحہ بیٹا ذرا میرے لئے ایک کپ چائے تو بنا دو سر درد ہورہا ہے میرا”شیلا بیگم نے اسے کہا۔
“جی ابھی بنا دیتی ہوں “وہ بولتے ہوے اٹھی کچن میں چلی گئی۔
“السلام علیکم ماما کیسی طبیعت ہے آپ کی”آزر ابھی آفس سے آیا تھا صوفے پر بیٹھتے ہوئے ان کو سلام کیا۔
“سر درد ہورہا ہے بیٹا طبعیت ٹھیک نہیں لگ رہی ہے”انہوں نے اپنا سر دباتے ہوئے کہا۔
“لاۓ میں آپکا سر دبادیتا ہوں”وہ اپنا آفس بیگ ٹیبل میں رکھتے ہوئے بولا۔
“نہیں بیٹا تم ابھی آفیس سے آئے ہو تھک گئے ہوگے”انہوں نے منع کرتے ہوئے کہا۔
“کوئی بات نہیں ماما میں دبا دیتا ہوں “وہ بولتے ہوئے ان کے قریب بیٹھ گیا اور سر دبانے لگا۔
تھوڑی دیر بعد ریحہ شیلا بیگم کے لئے چائے لےکر آگئی اور چائی کی پیالی انکے ہاتھ میں پکڑائی۔
اور آزر کو دیکھتے ہوئے نیشا کی روم کی طرف جانے لگی۔
“ریحہ میرے لئے ایک کپ چائے لے آؤ”وہ اس سے بولا۔
اسکی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی تھی وہ پھر بھی شیلا بیگم کیلئے چائی بناکر لے آئی تھی۔
لیکن اب پھر سے فرمائش پر اسنے آزر کو غصے سے دیکھا۔
آزر نے اسکے دیکھنے پر معصوم سی صورت بنائی۔
“جاؤ بیٹا تم ریسٹ کرو میں چائی پی رہی ہوں سر مت دباؤ اب”شیلا بیگم نے اسے منع کیا۔
“ٹھیک ہے ماما آپ اپنا خیال رکھیں میں ریسٹ کرنے جاتا ہوں “وہ بولتے ہوئے کچن کی طرف جانے لگا۔
“بیٹا تمھارا روم کچن کی طرف تھوڑی ہے”شیلا بیگم نے مسکراکر کہا۔
“جی ریحہ سے کچھ کام تھا” وہ گڑبڑاکر بولا اور جلدی سے کچن کی طرف چلا گیا۔
“اپنا غصہ ان بیچارے چیزوں میں کیوں نکال رہی ہو ” وہ جو پٹخ پٹخ کر کام کررہی تھی اسکی آواز پر مڑکر دیکھا۔
“میں آپ سے بحث کے موڈ میں نہیں ہوں احمد جائے یہاں سے”وہ بگڑے تیور لئے بولی۔
“ایسا بھی کیا کہہ دیا میں نے صرف چائی ہی بنانے کا کہا تھا اگر میرا کام کرنا تمہیں برا لگ رہا ہے تو ٹھیک ہے مت کرو “وہ اسکے انداز پہ ناراض لہجے میں بولا۔
“میری طب۔۔۔”وہ جو اپنی طبیعت کا بتانے لگی تھی اک دم سے اسے زور کا چکر آیا تھا۔
“فریحہ۔۔۔”وہ اسے گرتے ہوئے دیکھکر بھاگتا ہوا آیا تھا اور اسے گرنے سے بچایا۔
“میں ٹھیک ہوں”وہ خود کو سنبھالتے ہوئے بولی۔
“کیا ہوا ہے “وہ پریشان ہوکر اسکا ماتھا چیک کرتے ہوئے بولا۔
“کچھ نہیں بس چکر آرہے تھے”وہ کہتے ہوئے اس سے دور ہوئی۔
“چلو روم میں شرافت کے ساتھ “وہ اسکا ہاتھ پکڑ کے روم میں لے جانے لگا۔
“چھوڑے آزر یہ پیار مت جتائے آپ جائیے جاکر اپنا کام کریں مجھے پریشان نا کریں “وہ اسکا ہاتھ جھٹک کر بولی۔
“فریحہ تمھاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے یہ ناراضگی بعد میں بھی کرلینا لیکن پہلے روم میں چلو”اسنے پریشانی سے بولتے ہوئے پھر سے اسکا ہاتھ پکڑا۔
“آزر میں نے کہا نا مجھے۔۔۔ت۔۔۔ن۔۔۔گ”وہ اک دم سے ہائپر ہوکر چیخنے لگنے لگی تھی۔
لیکن ایک دم سے اسکے آگے اندھیرا چھا گیا اور ہوش و گرد سے بیگانا ہوگئی۔
بے ہوش ہونے سے پہلے اسے احساس ہوا تھا کسی نے اسے پکڑ لیا ہے۔
آزر نے فریحہ کا بے ہوش وجود دیکھا وہ شاک میں تھا اسے لگا اسنے فریحہ کو کھو دیا ہے۔
“کیا ہوا آزر بیٹا یہ کون چیخ۔۔۔”شیلا بیگم شور کی آواز پر اپنے روم سے باہر آئی تھیں۔
لیکن سامنے کا منظر دیکھکر بھاگتی ہوئی انکے پاس آئیں۔
“آزر بیٹا کیا ہوا فریحہ کو یہ بے ہوش کیوں ہوگئ”شیلا بیگم نے پریشانی سے ریحہ کا چہرہ تھپتھپاتے ہوئے پوچھا۔
“میں نہیں جانتا ماما اک دم سے بے ہوش ہوگئی”وہ اپنے آنسوں کو کنٹرول کرتے ہوئے بولا فریحہ کے معاملے میں وہ خود کو کافی کمزور محسوس کرتا تھا۔
اسکی یہ حالت دیکھکر اسکی آنکھوں میں آنسوں آگئے تھے۔
“آزر اسے روم میں لے جاؤ میں ڈاکٹر کو کال کرکے بلاتی ہوں اللہ خیر کرے”شیلا بیگم جلدی سے بولتے ہوئی کال ملانے لگیں۔
آزر اسے گود میں اٹھاکر اپنے روم میں لے گیا اور بیڈ پر لٹادیا اور پریشانی سے چکر کاٹنے لگا۔
***
وہ بری طرح رورہی تھی اسکے لئے فرحان کو بھولنا بہت مشکل لگ رہا تھا اس کے ماں باپ نے اسکی خاطر سب کچھ کیا تھا لیکن شاید قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
آج نزہت بیگم نے اسے اچھے سے سمجھایا تھا وہ فرحان کو بھول جائے اور اپنی آگے کی زندگی کے بارے میں سوچے وہ اسکے لئے اک پروپوزل لیکر آئیں تھیں۔
جو فہیم صاحب کے بھائی کی طرف سے آیا تھا۔
فیملی دیکھی بھالی تھی انکی بیٹی کے لحاظ سے بہتر تھی۔
اسنے نزہت بیگم سے سوچنے کا ٹائم لیا اور اس وقت اپنے ناکام عشق کا سوگ منارہی تھی۔
مبائل کی رنگ ٹون پر اسنے اپنی نظریں مبائل پر ڈالی جہاں شایان کالنک لکھا تھا۔
اسنے اپنے آنسوں پونچھتے ہوئے کال اٹھائی۔
“ہیلو”شایان نے اسکے فون اٹھاتے ہی کہا۔
“ہاں بولو کس لئے کال کی “وہ بے رخی سے بولی۔
“سوری کرنا تھا تمہیں بتائے بغیر پروپوزل بھیج دیا کم سے کم تم سے پوچھ لینا چاہئے تھا شاید تم خوش نہیں ہو”شایان نے آہستہ سے کہا وہ اسکے تایا کا بیٹا تھا۔
اور بچپن سے ندا کو پسند کرتا تھا یہ بات ندا بھی جانتی تھی لیکن کبھی اس پہ غور نہیں کیا۔
“نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے “وہ خود کو سمبھال کر بولی۔
“ندا مجھے تم سے کچھ بات کرنی تھی”وہ نرم لہجے میں بولا۔
“بولو “وہ اپنے آنسوں صاف کرتے ہوئے بولی۔
اور اپنے آپ کو نارمل کرنے کی کوشش کرنے لگی۔
“میں تمہیں بچپن سے پسند کرتا ہوں محبت کرتا ہوں کبھی تم سے نہیں کہہ پایا چاہتا تھا کہ جب ہم کسی بندھن میں بندھ جائیں گے تم تمہیں بتاؤنگا لیکن جب کل ماما تمھارے لئے مان گئی اور تمھارے گھر بھی آگئیں تو سوچا تم سے اپنی چاہت کا اظہار کردوں مجھے ڈر ہے کہ تم کہیں منع نا کردو پلیز ندا منع مت کرنا میں تمہیں بہت خوش رکھونگا جس بھی خواہش کا اظہار کروگی میں وہ پوری کرنے کی کوشش کرونگا “وہ اس سے اپنی چاہت کا اظہار کرتے ہوئے آخر میں ملتجی ہوکر بولا۔
“ڈیڈ جیسا چاہیں گے میں ویسا ہی کرونگی اور وہ تمھارے حق میں ہے اور۔۔۔میں بھی”وہ کچھ سوچ کر فیصلہ کرتے ہوئے بولی۔
“تھینکس ندا تم نہیں جانتی تم نے مجھے کتنی خوشی دی ہے “وہ خوش ہوکر بولا۔
“اچھا شایان میں تم سے بعد میں بات کرتی ہوں ماما بلا رہی ہیں”اسنے نزہت بیگم کی آواز پر اسے کہا اور کال کٹ کی۔
اور آسودگی سے اپنی آنکھیں بند کی اسے کہیں پڑھے ہوئے الفاظ یاد آرہے تھے۔
شادی اس سے مت کرنا جس سے آپ پیار کرتے ہیں اس رشتے میں گارنٹی نہیں ہے کب تک چلے۔
لیکن شادی اس سے کرو جو آپ سے پیار کرے جو آپکی عزت کرے یہ رشتہ ہمیشہ چلتا ہے۔
ماں باپ جس رشتے میں خوش ہوتے ہیں
اس میں دل و جان سے راضی ہوجانا چاہیے وہ کبھی آپکا برا نہیں چاہینگے۔
***
ابھی ڈاکٹر جو کہہ گئی تھی اسے سن کر آزر کے پیر زمین میں نہیں ٹک رہے تھے۔
باپ بننے کی خوشی ہی ایسی تھی فریحہ یہ نیوز سن کر خاموش تھی۔
شیلا بیگم الگ خوشی سے پھولے نہیں سمارہی تھیں۔
انہوں نے یہ بات نیشا اور شہروز صاحب کو بھی سنادی وہ بھی کافی خوش تھے۔
سب نے آکر مبارک باد دی اور انکے روم سے جانے کے بعد آزر اسکے پاس آیا اور اسکے قریب بیٹھ گیا۔
“فریحہ تم نے مجھے اتنی بڑی خوشی دی ہے نا مجھے سمجھ نہیں آرہا میں کیسے رب کا شکر ادا کروں”وہ خوشی سے کہتے ہوئے اسکا ہاتھ تھام گیا۔
“دعا کریں بیٹی پیدا نا ہو کہیں بڑی ہونے کے بعد اسکے باپ جیسا کوئی مرد اسے نا توڑدے اندر سے”وہ تمخسر سے بولی۔
آزر نے شاک سے اسکی طرف دیکھا اسکا دل کیا کہ زمین پھٹے اور اس میں سما جائے۔
اسکا دل بری طرح ٹوٹا تھا اسکی خوشی فریحہ کے الفاظ سن کر ملیا میٹ ہوچکے تھے۔
اسکے دل میں اک دم سے خوف آگیا تھا۔
“ف۔۔۔فری۔۔۔حہ ایسے مت کہو پلیز”وہ ٹوٹے لہجے میں بولا۔
“اب ڈر کیوں لگ رہا ہے آپکو اس وقت ڈر نہیں لگا جب آپ کسی کی بیٹی کے دل کیساتھ کھیل رہے تھے” اسنے زہرخند لہجے میں کہا وہ اسے اپنے الفاظوں سے پل پل مار رہی تھی۔
“اگر اپنی باتوں سے مجھے ازیت دیکر سکون میں رہتی ہو تو دیتی رہو مجھے ازیت !
تمھارا سکون زیادہ عزیز ہے مجھے
وہ اسکی طرف بولتا ہوا اٹھا۔
اور کمرے سے باہر چلا گیا فریحہ دم سادھے اسے جاتا دیکھتی رہی۔
***
“یا اللہ مجھے معاف کردے ریحہ نے جو الفاظ نو مہینے پہلے کہیے وہ میں آج تک نہیں بھولا اگر اسکی بات سچ ہوگئی تو یہ سوچ کر میرا دل کانپ اٹھا ہے مالک میرے گناہوں کی سزا میری بیٹی کو مت دینا
میں نے جن جن کا دل دکھایا میں نے ان سے معافی مانگ لی لیکن دل اندر ہی اندر ڈررہا ہے کہیں میری بیٹی کو میرے کئے کی سزا مل گئی تو یااللہ مجھے معاف کردے مالک تو رحمان ہے کریم ہے انسانوں سے غلطیاں ہوجاتی ہیں مجھ سے بھی ہوگئی میں بہت پچتارہا ہوں مالک اپنے کئے پر مجھے معاف کردیں جو بھی آج تک گناہ کئے۔
میرے اللہ ریحہ کی ڈیلیوری خیرو عافیت سے ہوجائے نوا مہینہ لگ گیا اسکا نجانے کس وقت ٹائم ہوجائے میں بھلے اسکی کڑوی کسیلی باتیں سن لوں پھر بھی خوش ہوں لیکن اسے کچھ ہو میں برداشت نہیں کرپاؤنگا اس سے دور رہنا میرے لیئے ناممکن ہے”وہ رات کے آدھی پہر تہجد پہ اللہ سے باتیں کررہا تھا۔
یہ اسکا روز کا معمول بن چکا تھا سونے کے بعد اٹھکر تہجد پڑتا اور اللہ سے باتیں کرتا اسے سکون محسوس ہوتا تھا۔
“آہہہہ۔۔۔”فریحہ کی تکلیف بھری آواز پہ اسنے جلدی سے جائے نماز لپٹی اور ریحہ کے پاس گیا جہاں وہ درد سے تڑپ رہی تھی۔
“ریحہ۔۔۔میری۔۔۔جان کیا ہوا “وہ جلدی سے اسکے پاس آیا اور اسکا ہاتھ تھام کر بولا۔
“آزر۔۔۔مجھے۔۔۔ب۔۔۔بہت۔۔۔درد۔۔ہورہا ہے۔۔۔مم۔۔۔مجھسے بر۔۔۔داشت نہیں ہورہا”وہ اٹک اٹک کر تکلیف سے تڑپتے ہوئے بولی۔
“صبر رکھو جان میں ماما کو بلاتا ہوں”وہ گھبراتے ہوئے جلدی سے بولا اور شیلا بیگم کو بلانے کیلئے چلا گیا۔
وہ درد اور تکلیف سے تڑپنے لگی تھی شاید اسکا ڈیلیوری کا ٹائم ہوگیا تھا۔
***
اسکو اک پیاری سی بیٹی ہوئی تھی وہ خوش بھی تھا لیکن اسکے دل میں اک ڈر تھا۔
جس کی وجہ سے وہ چاہکر بھی ٹھیک سے خوشی نہیں منا پارہا تھا۔
“مبارک ہو ننی سی پری آئی ہے دنیا میں “مہرین نے اسے مبارک دیتے ہوئے کہا۔
وہ اسکی بات پر دھیرے سے مسکرایا اور فریحہ کی طرف دیکھا۔
جو اسے ہی دیکھ رہی تھی اسکی آنکھوں میں خوشی تھی ماں بننے کی۔
“تم دونوں بات کرو ہم چلتے ہیں”شیلا بیگم بولتے ہوئے سب کو باہر لے گئیں۔
“مبارک ہو آزر بیٹی ہوئی ہے”ریحہ نے مسکراکر کہا۔
آزر نے چونک کر اسکی طرف دیکھا وہ سمجھا اسنے اس پہ طنز کیا ہے لیکن ریحہ کے چہرے پہ مسکراہٹ تھی۔
“تمہیں بھی مبارک ہو ریحہ”وہ بھی مسکراتے ہوئے اسکے پاس بیٹھا۔
اور ریحہ کے پہلو سے اپنی بیٹی کو اٹھاکر پیار کیا۔
“بلکل میری جیسی لگ رہی ہے “آزر نے مسکراتے ہوئے بھرائی آواز میں کہا۔
اسکے آنکھوں سے تشکر سے آنسوں نکل رہے تھے۔
“ریحہ آج اک بات کہنا چاہتا ہوں تم سے پلیز سن لو”وہ اپنی بیٹی کو فریحہ کو دیتے ہوئے بولا۔
“جی بولیں “وہ اسکی طرف دیکھ کر بولی۔
“ریحہ میری جان مجھے آج تم نے بہت بڑی خوشی دی اسی خوشی کے بدلے میں مجھے معاف کردو میں چاہتا ہوں میں نورمل لائف جیوں اپنی بیوی بچوں کیساتھ تمھارا ناراض رہنا اب بہت ہوچکا مجھسے اب برداشت نہیں ہوتا پلیز اب بند کردو ناراضگی “وہ ملتجی ہوکر بولتے ہوئے اسکا ہاتھ پکڑا۔
“میں بھی یہی چاہتی ہوں آزر میں اب آپکے ساتھ ٹھیک سے رہونگی ہمارے بیچ پرانی تلخیوں کے بارے میں اور کوئی بات نہیں ہوگی میں نہیں چاہتی کہ ہمارے رشتے کی تلخیوں اور دراڑوں کا سایہ بھی ہماری بیٹی پہ پڑے “وہ مسکراتے ہوئے بولی اور آزر کے ہاتھ کے اوپر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔
“تھینک یو سو مچ جان”وہ خوشی سے کہتے ہوئے بولا اور آہستہ سے فریحہ کے چہرے پہ جھک گیا۔
“ک۔۔کیا کررہے ہیں یہ ہاسپٹل ہے “وہ شرماتے ہوئے گھبرا کر بولی۔
“مجھے فرق نہیں پڑتا ویسے بھی تمھارے لئے کب سے ترس گیا ہوں “وہ بولتے ہوئے پھر سے اس پر جھکا ریحہ نے اس بار اسے نہیں روکا تھا وہ بھی اسکے پیار کیلئے ترس گئی تھی۔
اک عرصے بعد آزر اور فریحہ نے کھلی ہوا میں سانس لی تھی۔
***
چار سال بعد
“ماما مجھے نہیں تھانا یہ گندہ ہے”چار سالہ مہمل نے اپنی توتلی آواز میں ریحہ سے کہا۔
“مہمل بری بات ہے بیٹا آپ کھانا کھاتے ہوئے ہمیشہ نکھرے کرتی ہیں اس بار میں نہیں سنونگی آپ کو کھانا کھلاکر ہی چھوڑونگی”فریحہ نے مہمل سے کہا۔
وہ اسکو کھانا کھلارہی تھی اور مہمل نکھرے کرنے میں مصروف تھی۔
“مجھے نہیں تھانا “وہ اب رونے کا ناٹک کرنےلگی تھی۔
“کیا ہوا میری بیٹی کو کیوں رلایا جارہا ہے ہاں”آزر جو آفس سے آیا تھا اپنی بیٹی کی آواز پر اس طرف آیا اور پوچھا۔
“آپکی بیٹی ہمیشہ مجھے پریشان کرتی ہے ڈھنگ سے کھانا نہیں کھاتی مجھے مار مار کے کھلانا پڑتا ہے “وہ عاجز آکر بولی۔
“ماما گندی ہے مجھ سے پیال نہیں کرتی بابا اچھے ہیں” مہمل موقعہ سے فایدہ اٹھاتے ہوئے چئیر سے اتر کر آزر کے پاس چلی گئی۔
“یہ ہوئی نا بات میری گڑیا”وہ اسکو پیار سے گود میں اٹھاتے ہوئے بولا۔
فریحہ نے غصے سے اسکی طرف دیکھا اور خاموشی سے کچن میں چلی گئی۔
آزر نے اسکا ناراض چہرہ دیکھ لیا تھا۔
“مہمل دادی کے پاس جاؤ “وہ مہمل کو گود سے اتارتے ہوئے بولا وہ اترتے ہی بھاگ کر شیلا بیگم کے روم میں چلی گئی۔
وہ بھی مسکراتے ہوئے ریحہ کے پیچھے کچن میں گیا۔
“ہاں میں ہی بری ہوں دونوں باپ بیٹی تو ایسے کرتے ہیں میں انکی کچھ لگتی ہی نہیں مجھے ہی برا بولتے ہیں”وہ بڑبڑاتے ہوئے پلیٹ دھورہی تھی آزر نے اسکی بڑبڑاہٹ سنی اور مسکرایا۔
“میری جان کیوں اتنے غصے میں ہے”وہ اسکے پیچھے آکر ہگ کرتے ہوئے مسکراکربولا۔
“جائیں یہاں سے بڑے آئے پیار جتلانے والے باہر کیا کہہ رہے تھے میں بری ہوں ہاں”وہ اسکی طرف رخ کر کے غصے سے بولی۔
“م۔۔۔میں ت۔۔۔ت۔۔۔تھوڑی نا ک۔۔۔ک۔۔۔کہہ رہا تھا وہ تو م۔۔۔مہمل ک۔۔۔کہہ رہی تھی”وہ اس سے ڈرنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے بولا۔
اسکے اس انداز پہ ریحہ نے کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھا اور غصے سے اسے اپنے سے دور کرنے کی کوشش کی۔
“آپ زیادہ ڈرام۔۔۔ے”وہ جو اسے پیچھے دھکہ دیتے ہوئے پیچھے کرنے لگی تھی۔
آزر کے اک دم اسکے ہونٹوں پہ جھک جانے کی وجہ سے اسکا منہ بند ہوچکا تھا۔
ریحہ اپنی آنکھیں بند کئے اسکی قربت محسوس کررہی تھی۔
آزر کی انگلیاں اسکی کمر سے نیچے سرک رہی تھی۔
تھوڑی دیر بعد آزر نے اسے چھوڑا اور پیار سے دیکھا۔
فریحہ کے چہرے پہ شرمیلی سی مسکراہٹ تھی سکون تھا۔
“تمہیں کوئی کام تو نہیں کرنا؟”آزر نے مخمور لہجے میں اس سے پوچھا۔
“نہیں مہمل کو کھانا کھلارہی تھی اس نے بھی نہیں کھایا اب بس آپکے لئے کھانا لگاونگی آپ فریش ہو جائے میں کھانا لگ۔۔۔”وہ جو تفصیل سے بتانے لگی تھی آزر نے اسکے ہونٹوں پہ اپنی انگلی رکھ کر چپ کروادیا۔
“چلو روم میں کھانا بعد میں کھاونگا” آزر نے مخمور لہجے میں اس سے کہا۔
“کیوں”اس نے حیران ہوکر پوچھا۔
وہاں جاکر بتاتا ہوں کیوں”آزر نے کہتے ہوئے اسے آپنی باہوں میں اٹھایا اور اپنے روم کی طرف چلا گیا۔
***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...