کلماتی ولاء کے خوبصورت ڈرائنگ روم میں عاص اور عارف صاحب موجود تھے۔ کچھ مدت کے بعد عاص نے وہ بات کرنے کا سوچا جس کے لیے وہ یہاں آیا تھا۔
“انکل اگر آپ برا نہ مانیں تو میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں۔” اس کی اجازت لینے پر عارف نے مسکرا کر اس کا حوصلہ بڑھایا۔
“میرا ایک دوست ہے۔ اٹلی میں ویل سیٹلڈ ہے۔ یہاں بھی اسکے ڈیڈ کا ٹیکسٹائل کا کاروبار ہے۔ اگر آپ کہیں تو میں آپ کی اور اس کے ڈیڈ کی میٹنگ ارینج کروا دوں؟ ” عاص نے تحمل مزاجی سے بات کہی۔
” کس بارے میں بیٹا؟” عارف صاحب کے سوال پر عاص نے پہلو بدلا۔
” مس ایلیاء کے لیے… ڈیڈ نے کہا تھا۔ آپ ان کے لیے بہتر رشتے کی تلاش میں ہیں۔” عاص کے جواب پر عارف صاحب کی مسکراہٹ مزید گہری ہوگئی۔
“میری پسند کا جو لڑکا تھا وہ تو میری بیٹی کے نصیب میں نہیں۔ اب جسے وہ پسند کرے گی۔ اسی پر مجھے راضی ہونا پڑے گا۔” عارف صاحب نے اس کے کندھے کو تھپکایا اور عاص گلہ کھنکار کر مسکرایا۔
“انشاء اللّه مس ایلیاء کہ نصیب میں ہماری سوچ سے زیادہ اچھا ہمسفر لکھا گیا ہوگا۔ ” عاص نے ان کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر ان ہمت بندھائی تھی۔
” انشاء اللّه… انشاء اللّه۔” عارف صاحب نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھے مسکراتے ہوئے کہا۔
دونوں ہی نصیب کے کھیل سے لاعلم تھے کہ کیسے نصیب کی ادلا بدلی ہونے والی تھی۔ ابھی سب لاعلم تھے اس طوفان سے جو کل صبح کا سورج اپنے ساتھ لانے والا تھا۔
••••••
“مسٹر عاص کا روم؟” ایلیاء نے مٹھی کو ریسیپشن ڈیسک پر مارتے ہوئے کہا۔ وہ صبح کی دھوپ کے ساتھ ہی آفس پر برس گئی تھی۔
“میڈم آپ کی اپائنٹمینٹ…”ریسیپشنسٹ کی رٹی ہوئی آدھی بات سن کر ایلیاء کے ماتھے کی رگیں تن گئیں۔
“شٹ اٙپ… آفس کہاں ہے یہ بتاو؟” ایلیاء نے آگے بڑھ کر ریسیپشنسٹ کا جبڑا اپنی گرفت میں لیا تھا۔ آس پاس سے گزرتے ایمپلائز تو ایلیاء کے تیور دیکھ کر حیران رہ گئے تھے۔
“یہاں کیا ہو رہا ہے؟” سلیمان بھی آفس میں ابھی داخل ہوا تھا۔ ایلیاء نے اس کی جانب دیکھا اور ریسیپشنسٹ کا جبڑا چھوڑ کر اس کی جانب بڑھی۔ سلیمان تو اس کے تیور دیکھ کر ایک قدم پیچھے ہوا تھا۔ کیا معلوم جس تیزی سے وہ اس کی جانب بڑھی تھی کہیں اسے کچل کر ہی نہ گزر جائے۔
“کہاں ہے تمھارا بھائی؟” ایلیاء نے ایک ایک لفظ چبا کر ادا کیا۔ سلیمان نے عاص کے آفس کی جانب اشارہ کیا اور ایلیاء نے اس سمت دیکھا۔
“تھینکس..” مسکرا کر سلیمان کا گال چھوٹے بچوں کی طرح تھپک کر ایلیاء آفس کی جانب بڑھ گئی۔
ایک جھٹکے سے وہ دروازے پر بنا دستک دئیے داخل ہوگئی۔
“تم سمجھتے کیا ہو خود کو؟” ایلیاء کے سوال پر میز کے گرد کھڑے ایمپلائز نے اس کی جانب دیکھا۔
“مس کلماتی..؟؟” سیٹ پر بیٹھے عاص نے حیرت سے اسے دیکھا۔ پھر حیران کھڑے اپنے چار امپلائز کو۔
” یہ سب یہی چھوڑ کر آپ سب باہر جائیں۔ ہم یہ بعد میں ڈسکس کریں گے۔” عاص کے احکام پر وہ سب وہاں سے چلے گئے۔
“یہ کیا طریقہ تھا کسی کے آفس میں داخل ہونے کا؟” عاص کی آواز پر ایلیاء نے ضبط کا سانس بھرتے ہوئے اسے خونخار نظروں سے گھورا۔
“وہی طریقہ تھا جو آپ نے میری زندگی میں داخل ہونے کے لیے اپنایا۔” ایلیاء آہستہ آہستہ چلتی ہوئی اس کے سامنے موجود میز تک گئی۔
” ایکسکیوز می؟ میں کیوں آپ کی زندگی میں مداخلت کروں گا؟” عاص نے اپنی نشست سے اٹھ کر سوال پوچھا۔
” پھر میرے بابا کو مالی غفور نے اپنے اٹلی والے دوست کا رشتہ بتایا تھا؟” ایلیاء کہ طنز کو سمجھنے کے لیے اسے کل سات سیکنڈ لگے تھے۔
“لسن مس کلماتی…” عاص نے اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہا۔
” آپ میری بات غور سے سنیں مسٹر عاص سلطان۔” ایلیاء نے انگشت سے اس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے دھمکی بھرے لہجے میں کہا۔ عاص کی بھویں بھی اب غصے کو ضبط کرتے ہوئے جڑ گئیں تھیں۔
“میری زندگی اور میری زندگی سے جڑے ہر فیصلے سے دور رہیں۔ ورنہ نتائج بہت سنگین ہوں گے۔ سنا آپ نے…” ایلیاء کی دھمکی پر عاص کے ہونٹوں پر تلخ مسکراہٹ بکھر گئی۔
“کیا آپ کسی اور کو پسند کرتیں ہیں؟” عاص کے سوال پر ایلیاء نے زرا چونک کر پلکیں جھپکائی۔
“آپ اپنے رشتے پر دھیان دیں۔ میری زندگی میں کیا چل رہا ہے.. دس از نن آف یور بزنس۔” ایلیاء نے پھر تلخ لہجے میں کہا اور رخ موڑ کر وہاں سے جانے لگی۔
“تو آپ واقعی کسی کو پسند کرتیں ہیں۔” عاص کے نارمل انداز پر ایلیاء کے تیزی سے سیاہ ہیلز میں اٹھتے قدم تھم گئے۔
“آپ سے مطلب ؟” ایلیاء نے رخ موڑ کر عاص کی نظروں میں دیکھا یا یوں کہیں کہ گھورا تھا۔ عاص کو اس کی دکھتی رگ دبا کربڑی راحت مل رہی تھی۔
“تو انکل کو اس کا نام بتادیں۔ وہ آپ کی پسند کو رد نہیں کریں گے۔” عاص کی پیشکش پر ایلیاء نے ہس کر دوسری جانب دیکھا۔ مسری نقش کی کھنکتی ہسی نے عاص کی توجہ کھینچی تھی لیکن حاضر دماغ کی سرزنش پر وہ ایلیاء کی ہسی نظر انداز کر گیا۔
“پاپا میری کسی بات کا انکار نہیں کرتے۔ آپ کو لگتا ہے میں ان کی وجہ سے خاموش ہوں؟” ایلیاء نے طنزیہ مسکراتے ہوئے سوال کیا۔
” میں صرف اس لیے خاموش ہوں کہ میرا ہاتھ تھامنے کے لیے فل وقت اس کے ہاتھ خالی نہیں ہیں.. جس دن وہ ہاتھ مجھے خالی نظر آئیں گے۔ میں قسم کھاتی ہوں میں ان ہاتھوں کو فوراً تھام لوں گی۔ ” ایلیاء نے با اعتماد اور امید سے بھرپور نگاہوں کے ساتھ جملہ ادا کیا۔
“تب تک آپ مجھ سے اور میری زندگی کے ہر فیصلے سے اسی دوری پر رہیں۔” ایلیاء نے اپنے اور عاص کے درمیان فاصلے کی جانب انگشت سے اشارہ کیا اور واپس جانے لگی۔
“تو آپ ایسے شخص کے پیچھے کیوں وقت ضائع کر رہیں ہیں..؟ جبکہ آپ اس سے بہتر ڈسرو کرتی ہیں۔” عاص کی آواز پر ایلیاء نے شانے ڈھلکا کر اس کی جانب رخ موڑا اور پاوں پٹختی ہوئی میز کے قریب رکھی سیٹ پر بیٹھ گئی۔
“آپ بول لیں جتنا بولنا ہے… نہیں تو میں یوں ہی جواب دے کر جانے کے لیے مڑوں گی اور آپ پھر کچھ کہہ کر مجھے روک لیں گے۔” ایلیاء کی اتنی صاف گوئی نے اسے واقعی حیران کیا تھا۔ وہ بس مسکرا کر رہ گیا۔
“ہال میں ایکسیڈینٹ کے بعد جب باغ میں آپ سے ملاقات ہوئی تھی۔ مجھے اس وقت لگا تھا آپ کم بولتی ہیں۔” عاص نے مسکرا کر کہا۔
“میں ابھی بھی آپ سے بات نہیں کرتی۔ اگر مسٹر شاہ آپ میری زندگی میں مداخلت نہیں کرتے۔” اس کے طنز پر عاص کا دل چاہ رہا تھا وہ قہقہ لگا کر ہسے لیکن صرف مسکراہٹ سے کام چلایا اور رسیور پر کافی کا آرڈر دیا۔
” میں یہاں کافی پینے نہیں آئی تھی۔ آپ نے جو بولنا ہے جلدی بولیں۔” ایلیاء نے رسیور کو ایک نظر دیکھ کر کہا۔
“ہم کیا چودہ ، پندرہ سال کے ٹینیجرز ہیں.. جو یوں بحث کر رہے ہیں؟” عاص کے سوال پر ایلیاء نے آنکھیں گھمائی اور پشت سیٹ سے ٹکائی۔ ابھی وہ سفید ہوڈی اور سیاہ جینز زیب تن کیے ہوئے تھی۔ لہروں کی بناوٹ رکھتے بال اونچی پونی ٹیل میں بندھے تھے اور دو لٹیں چہرے پر جھول رہیں تھیں۔
“پہلے تو میں معزرت چاہتا ہوں.. آپ کا یہ الزام بلکل غلط ہے کہ میں آپ کی زندگی میں مداخلت کر رہا ہوں۔ میں تو صرف عارف انکل کو تجویز پیش کر رہا تھا۔” عاص نے مسکرا کر کہا اور ایلیاء طنزیہ مسکرائی پھر ایک دم چہرے پر سنجیدگی کے تاثرات سجا کر میز پر ایک ہاتھ رکھے اس کی جانب جھکی۔
“تو اس تجویز پر خود عمل کر لیں۔” اس کی بات پر عاص نے ناسمجھی میں بھویں جوڑ کر اسے دیکھا۔
“مجھ سے شادی کر لیں۔” ایلیاء نے ایک آنکھ دبا کر طنزیہ کہا۔ یہ سنتے ہی عاص کے تیور بگڑ گئے۔ وہ مٹھیاں بھینچ کر ایلیاء کو گھور رہا تھا۔ ایلیاء نے اس کے ہاتھوں کو دیکھا اور فاتحانہ مسکراہٹ سجا کر اپنی نشست سے اٹھی۔
“ایک بار پھر کہہ رہی ہوں مجھ سے دور رہیں۔ یہ آپ کے مشوروں کا جواب ہے۔ پھر کوئی مداخلت کی تو رد عمل آپ بلکل برداشت نہیں کر سکیں گے۔ ” ایلیاء نے جتانے کے انداز میں کہا۔
“مس کلماتی..” عاص کہ باروب آواز سن کر آفس کا دروازہ دھکیلتی ایلیاء کے ہونٹوں پر مسکراہٹ مزید گہری ہوگئی۔ اس نے پلٹ کر دیکھا۔ عاص اپنی نظروں میں کوئی طوفان سنبھالے اسے گھور رہا تھا۔
“آپ جانتی ہیں صرف انکل کی وجہ سے میں یہ سب نظر انداز کر رہا ہوں۔” عاص نے سرد لہجے میں کہا۔
“لیکن میری وارنگ کو نظر انداز نہیں کیجئے گا۔ اللّه حافظ۔” ایلیاء نے مسکرا کر سر کو ایک جانب جھکا کر کہا اور آفس سے باہر نکل گئی۔ عاص نے سختی سے جبڑے کسے۔
“دیکھتے ہیں…” عاص نے میز پر انگلیاں بجاکر دروازے کی جانب دیکھتے ہوئے زیر لب کہا جہاں کچھ دیر پہلے ایلیاء موجود تھی۔
••••••••
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...