ہاتھ میں موجود ہیری پوٹر کے ناول پر انگلی پھیرتی وہ گہری سوچ میں مگن تھی۔۔۔۔۔ اسے یہاں آئے ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا تھا۔ یہ ناول اسے کریم نے برتھڈے گفٹ کے طور پر دیا تھا یہ اس کا فیورٹ ناول تھا۔
اس ناول کو دیکھ وہ اپنے برتھڈے والے دن میں جاکھوئی تھی۔
“میم یہ میری طرف سے چھوٹا سا گفٹ!” کریم نے گفٹ ریپ میں موجود ناول اس کی جانب بڑھایا تھا۔
زویا نے خوشی خوشی گفٹ پیپر کھولا تھا مگر ناول دیکھ اس کے چہرے پر ایک تاریک سایہ لہرایا تھا۔
“کیا ہوا میم کیا پسند نہیں آیا؟” کریم نے فوراً سوال کیا
“نہیں۔۔۔۔ بہت اچھا ہے!” وہ زبردستی مسکرائی تھی۔
کریم اس احساس کے تحت کے اسے اردو پڑھنا نہیں آتی ہوگی انگلش ناول لیکر آیا تھا مگر جس کے لیے لایا تھا اسے تو سرے سے پڑھنا لکھنا ہی نہیں آتا تھا۔
اس دن کو یاد کرتے ایک آنسو اس کی آنکھ سے ٹوٹ ناول پر گرا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“ایک ماہ!۔۔۔۔ ایک ماہ ہوگیا ہے تم لوگوں کو مگر ابھی تک مجھے ایک کام کی انفارمیشن بھی نکال کر نہیں دے پائے تم لوگ؟ کس قسم کے جاسوس ہو؟” سنان ان آدمیوں پر برس رہا تھا۔
ایک ماہ ہوگیا تھا مگر اسے گڑیا کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ ہوسکا تھا۔۔۔
“سر ہم نے بہت کوشش کی مگر شبیر زبیری نے کوئی ثبوت نہیں چھوڑا۔ ہمیں کچھ پتہ نہیں چل رہا!”
“تو کچھ کرو وہاں کے نوکروں سے، گارڈز سے۔۔۔۔ کسی سے بھی معلوم کرو!”
“سر۔۔۔۔۔۔” اس سے پہلے وہ کچھ بول پاتے ان کا ایک ساتھی تیزی سے اندر داخل ہوا تھا
“سر بہت اہم انفارمیشن ملی ہے!”
“کیا؟”
“سر چند سال پہلے شبیر زبیری نے ایک لاوارث بچی کو ایڈوپٹ کیا تھا ۔۔۔ وہ بچی اپنی یادداشت کھوچکی تھی اور ایسے میں شبیرزبیری اسے اپنے گھر لے آیا تھا۔۔۔۔۔ مگر دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اس بچی کو ایڈوپٹ کرتے دوسرے ہی دن اس نے تمام نوکروں کو نوکری سے فارغ کردیا تھا۔۔۔۔۔ اور تمام سٹاف نیا ہائیر کیا تھا۔۔۔۔۔۔ یہ انفارمیشن مجھے انہی نوکروں میں سے ایک نے دی ہے اور خبر کے مطابق ان میں سے کسی نے بھی اس بچی کونہیں دیکھا!” اس کی انفارمیشن پر سنان نے آنکھیں بند کیے گہری سانس اندر کھینچی تھی۔
“مگر ہم کیسے یقین کرلے کہ وہ لڑکی گڑیا ہی تھی؟” وائے۔زی نے سوال کیا تھا۔
“ہم یقین نہیں کررہے، بس شک کررہے ہیں۔۔۔۔۔ اور اگر وہ واقعی میں گڑیا تھی تو میں اسے چھوڑوں گا نہیں!” سنان شاہ دانت پیستے گویا ہوا تھا۔
“سر ۔۔۔۔۔۔ معتصیم سر کی کال آرہی ہے!” اس کا اسسٹینٹ موبائل لے کر فوراً اس کی جانب بڑھا تھا۔
“ہیلو۔۔۔۔” نجانے آگے سے کیا بات کہی گئی تھی کہ سنان شاہ نے آنکھیں بند کیے گہری سانس خارج کی تھی۔
“معتصیم میری بات۔۔۔۔۔”
“ٹھیک ہے ہم آرہے ہیں پاکستان!” سر ہلائے اس نے کال کاٹی تھی۔
“کیا ہوا؟” اسے پریشان دیکھ وائے۔زی نے سوال کیا تھا۔
“وہی جس کے ہونے سے ڈرتا تھا میں۔۔۔۔۔ ہم پاکستان جارہے ہیں وائے۔زی جو بھی پیکنگ کرنی ہے کرلو۔۔
۔۔فلائیٹ بک کروانے والا ہوں میں!”
“مگر گڑیا۔۔۔۔”
“فلحال پاکستان جانا اہم ہے!” وائے۔زی کی بات کاٹے وہ بولا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آفس میں بیٹھا وہ ایک اہم ڈیل کی فائل پر کام کررہا تھا جب اس کا پی۔اے ناک کیے اندر داخل ہوا اور اسے ایک لفافہ دے کر گیا تھا جو کسی نے کورئیر کیا تھا۔
سنان سے بات کرکے وہ پاکستان میں ہی اس کے پیچھے اس کا بزنس سنبھالنے لگ گیا تھا جس میں کریم نے اس کا بےانتہا ساتھ دیا تھا۔
لفافے کو دیکھ وہ چونکا تھا وہ کورٹس کا نوٹس تھا۔۔۔ اسے کھول بیچ میں موجود پیپر باہر نکالا تھا، مگر اس پیپر کو دیکھ اس کی حیرت کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا تھا۔
وہ کورٹ کا نوٹس تھا، وہ خلع کے پیپرز تھے جو ماورا کی جانب سے اسے بھجوائے گئے تھے۔
معتصیم کو کچھ سمجھ نہیں آیا تھا۔۔۔۔۔۔ آٹھ سال پہلے ہی تو وہ ان پیپرز پر سائن کرکے اپنا اور اس کا رشتہ ختم کرچکا تھا تو اب پھر یہ کھیل کیسا۔
کچھ سوچتے ہوئے اس نے سنان کو کال کی تھی اور اس کے ہیلو کے جواب میں وہ پھٹ پڑا تھا۔۔۔۔
سنان کی ایک نا سنتے ہوئے اس نے اسے پاکستان آنے کی دھمکی دی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ آخر یہ قسمت کیسا کھیل کھیل رہی تھی اس کے ساتھ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کافی بناتے وہ اپنی زندگی کو سوچ رہی تھی جو دوبارہ 180 ڈگری پر گھوم چکی تھی۔
اسے آج بھی وہ رات یاد تھی جب تائی کی گود میں سر رکھے روتے اس نے اپنے تمام غموں کو ہلکا کیا تھا۔
اس نے تائی سے شہر بدلنے کے بابت سوال کیا تھا۔۔۔۔ تائی کے بتانے پر اسے معلوم ہوا تھا کہ اس کے غائب ہونے پر محلہ داروں نے مختلف کہانیاں پھیلانا شروع کردی تھی۔۔۔۔ جس کی وجہ سے انہوں نے گھر بیچ دیا تھا اور اب باقی چچا اپنی اپنی فیملی کے ساتھ دوسرے شہروں میں رہائش پذیر تھے۔
مگر جو یو ٹرن اس کی زندگی لینے والی تھی وہ تھی اپنے اور معتصیم کے رشتے کا خاتمہ۔۔۔ کیا وہ واقعی میں اس رشتے سے آزادی چاہتی تھی؟ اتبا سب کچھ ہوجانے کے باوجود بھی؟۔۔۔۔ مگر جواب نداد
دل میں انجان سا درد اسے محسوس ہوا تھ
“اففف ماورا کہاں کھوئی ہوئی ہو۔۔۔کب سے بلا رہی ہوں تمہیں۔۔۔۔کسٹمر شکایت کررہا ہے۔۔۔۔اس کی کافی ابھی تک نہیں ملی اسے” اس کی دوست ربیعہ نے اس کا شانہ ہلایا تھا۔
چونک کر وہ ہوش میں آئی تھی۔
ایک ماہ پہلے ہی اس نے اس کیفے میں ایک ویٹریس کے طور پر جاب شروع کی تھی۔۔۔۔ تایا ابا اس نوکری کے حق میں نہ تھے مگر اس کی ذہنی حالت دیکھ انہوں نے اجازت دے دی تھی۔۔۔۔
“سوری” سر جھٹکتی کافی ٹرے میں سجائے وہ کسٹمرز کی جانب بڑھی تھی۔
“لو جی یہ لڑکی بھی عجیب ہے۔۔۔۔ جاگتے ہوئے سوجاتی ہے” سر نفی میں ہلائے اپنا آرڈر اٹھائے ربیعہ اپنی ٹیبل کی جانب بڑھی تھی جہاں اس کی نظر ماورا پر گئی تھی جو اپنے لیٹ ہونے پر کسٹمر سے معافی مانگ رہی تھی۔۔۔۔ جنہوں نے زیادو کوئی واویلا کیے بنا معاف کر بھی دیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“بھائی؟” زویا ناشتے کی ٹیبل پر موجود سنان کو دیکھا چونکی۔۔۔۔
“مانو۔۔۔” سنان ٹیبل سے اٹھتا باہیں پھیلائیں اس کے سامنے آکھڑا ہوا تھا۔
زویا بھاگتی ہوئی اس میں جاسمائی تھی۔
“میں نے آپ کو بہت مس کیا” اس کے سینے سے لگے شکوہ کیا گیا تھا۔
“میں نے بھی۔۔۔۔” اس کا سر چومتا وہ بولا تھا۔
“آآااا۔۔۔۔۔ شکر ہے میں نے یہ سین مس نہیں کیا” ایک تیسری مگر کچھ جانی پہچانی آواز پر زویا اس سے الگ ہوتی وائے۔زی کی جانب بڑھی تھی۔
جہاں سنان نے آنکھیں گھمائیں تھی وہی وائے۔زی کو زویا نے اچھنبے سے دیکھا تھا۔
“آپ؟”
“وائے۔زی۔۔۔ نام تو سنا ہوگا؟” اس کی جانب ہاتھ بڑھائے وہ ایک ادا سے بولا تھا۔
“جی نہیں سنا۔۔۔۔” اس کے ہاتھ کو نظرانداز کیے زویا نے جواب دیا تھا۔
“آہ لڑکی یہ کیا بول دیا تم نے۔۔۔۔۔ مجھے تکلیف ہوئی” دل پر ہاتھ رکھے وہ افسوس سے بولا تھا۔
“اسے تنگ مت کرو وائے۔زی۔۔۔” سنان کی دھمکی پر واۓ۔زی نے لڑکیوں کی طرح آنکھیں مٹکائی تھی۔
“زویا یہ وائے۔زی ہے تمہاری بات ہوئی تھی اس سے تمہاری برتھڈے پر” سنان کے بتاتے ہی اس نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
اسے یاد آیا ۔۔۔۔۔ اس کی بات ہوئی تھی۔
“ناشتہ کرلو وائے۔زی معتصیم تھوڑی دیر میں آتا ہوگا۔۔۔۔ شائد ہی اس کے بعد ہم میں سے کسی کو کھانے کو کچھ نصیب ہو” ناشتے کی ٹیبل پر براجمان ہوتا وہ بولا تھا۔
وائے۔زی نے جلدی سے ناشتہ شروع کیا تھا۔
سنان کے الفاظ کے عین مطابق اب شام ہونے کو تھی اور معتصیم نے ان سب کو ایک نوالہ تک نہ کھانے دیا تھا۔
زویا تو اپنے کمرے میں جاچکی تھی جبکہ وہ چاروں اس وقت سٹڈی میں تھے۔
ایک میٹنگ کی وجہ سے معتصیم دوپہر کے کھانے سے کچھ دیر پہلے آیا تھا اور اب شام کی چائے بھی بھاڑ میں جاچکی تھی۔
“یہ کیا ہے سنان شاہ؟” خلع نامے کی جانب انگلی کیے اس نے سوال کیا تھا۔
“خلع نامہ” سنان نے ابرو اچکایا تھا۔
“وہ تو مجھے بھی نظر آرہا ہے مگر یہ مجھے کیوں بھیجا گیا۔۔۔۔۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے آج سے آٹھ سال پہلے ہی میں اس خلع نامے پر سائن کرکے اس رشتے کو ختم کرچکا ہوں تو دوبارہ اس کا آنا ۔۔۔۔ مجھے تو سمجھ میں نہیں آیا تمہیں آیا تو سمجھادو”۔ جتنے آرام سے معتصیم نے سوال کیا تھا اتنا ہی اس کی آنکھوں میں طوفان برپا تھا۔
“جواب صاف ہے معتصیم یا تم ابھی بھی نہیں سمجھے؟۔۔۔۔ تمہارا اور ماورا کا کبھی بھی ڈائیوورس ہوا ہی نہیں تھا۔۔۔۔ تم دونوں ابھی بھی ایک رشتے میں ہو” سنان کی بات پر اس نے گہری سانس اندر کھینچی تھی جیسے وہ اسی قسم کے کسی جواب کی امید لگائے بیٹھا تھا۔
“کیوں؟” جاننا چاہتا تھا کہ کیوں کیا اس کے ساتھ ایسا
“اس کا جواب تمہیں ارحام شاہ سے ملے گا”
“اور جس خلع نامے پر میں نے سائن کیے تھے وہ؟”
“نکلی تھا۔۔۔ ایسا کوئی خلع نامہ نہیں آیا تھا تمہارے لیے۔۔۔۔۔ تم خود سوچو معتصیم تم ہمارے ساتھ تھے اور یہ بات کسی کو معلوم نہ تھی تو ماورا کے گھر والے تمہیں کیسے خلع نامہ بھیج پاتے؟”
سنان نے اپنی کہی تھی مگر معتصیم کہی اور ہی پہنچا ہوا تھا۔۔۔۔ ہاں ماورا تو خلع نامہ تیار ہونے سے پہلے ہی صوفیہ اور حسان کی مکاری کا شکار ہوگئی تھی تو وہ کیسے ان پر سائن کرسکتی تھی؟۔۔۔۔ دماغ میں پہلے یہ سوچ کیوں نہ آئی تھی اس کے۔
“ارحام شاہ کو پاکستان بلواؤں سنان” سرخ نگاہیں اس پر جمائے وہ بولا تھا۔
“تمہارا کام پہلے ہی ہوچکا ہے۔۔۔۔۔ ارحام شاہ پاکستان آرہا ہے معتصیم۔۔۔۔۔ کل وہ پاکستان آجائے گا” سنان کی بات پر اس نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
خلع نامہ اٹھاتا وہ لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے جاچکا تھا۔
“اب کیا ہوگا؟” وائے۔زی نے اس کی پشت کو گھورے سوال کیا تھا۔
“معلوم نہیں۔۔۔۔ مگر مجھے مزے آنے والا ہے” سنان پراسرار سا مسکرایا تھا۔
وائے۔زی نے آنکھیں چھوٹی کیے اسے گھورا تھا, مگر کندھے اچکائے وہ وہاں سے جاچکا تھا۔۔۔۔ اس وقت کھانے سے اہم کچھ نہ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گاڑی یونہی سڑکوں پر چلائے وہ گہری سوچ میں گم تھا۔۔۔۔ مگر نجانے کیوں اب دل میں ایک اطمینان سا تھا۔
وہ اس کی تھی۔۔۔۔۔ اس کی ماورا اسی کی ۔۔۔۔ یہ سوچ دماغ میں آتے ہی لبوں پر اپنے آپ ایک خوبصورت مسکراہٹ در آئی تھی۔
دل نے اچانک اسے دیکھنے کی طلب کی تھی۔
گاڑی اس نے کیفے کی جانب موڑی تھی۔
اس وقت رات ہوگئی تھی۔۔۔۔ کیفے میں حد درجہ رش تھا۔۔۔۔
گاڑی میں سے اپنی کیپ اور ماسک نکالے وہ گاڑی سے نکلتا کیفے میں داخل ہوتا ایک الگ تھلگ ٹیبل پر جا بیٹھا تھا۔۔۔۔ یہاں سے وہ آرام سے کاؤنٹر دیکھ پارہا تھا۔۔۔۔ اس کی ایک جھلک دیکھنے کو بیتاب تھا دل۔۔۔۔ جب وہ نظر آئی تھی
ہاں وہ وہی تھی۔۔۔۔ ربیعہ کی کسی بات پر کھلکھلا کر ہنسی تھی وہ جب اچانک نظر معتصیم پر جا ٹھہری تھی جس نے فوراً نگاہیں جھکائے تھی۔
معتصیم نے اسے اپنی جانب آتے دیکھ محسوس کرلیا تھا ۔۔۔۔ اس کا چہرہ پیلا زرد ہوا تھا۔۔۔۔ تو کیا وہ اسے پہچان گئی تھی؟
“ہیلو سر میں آج آپ کی ویٹریس۔۔۔۔ آپ کا آرڈر؟” اس کی آواز سن بےساختہ نگاہیں اٹھائے اسے دیکھا تھا جس کی آنکھیں نوٹ پیڈ پر تھی۔
“یور آرڈر سر؟۔۔۔۔ سر؟ اس کے دوبارہ بلانے پر وہ ہوش میں آیا تھا۔
“ون ایسپریسو” گلا کھنکھارے اس نے آرڈر لکھوایا تھا۔
“اینی تھنگ ایلس؟” اس کے پوچھتے ہی اس نے سر جھٹ سے نفی میں ہلایا تھا۔
اس چند سیکنڈ کی اس نزدیکی نے جہاں دل کی دھڑکن بڑھائی تھی وہی اسے اندر تک سکون دیا تھا۔
ماسک کے پیچھے چھپے لب اپنے آپ مسکرائے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔
“سر۔۔۔۔” ائیرپورٹ سے باہر نکلتے اس شخص کو دیکھ کریم جلدی سے ان کی جانب بڑھا تھا۔
“کیسے ہو کریم؟” گاڑی میں سوار ہوتے ہی انہوں نے اپنی بھاری آواز میں سوال کیا تھا
“الحمداللہ ٹھیک سر” کریم۔نے گاڑی ڈرائیوو کرتے جواب دیا تھا۔
“سنا ہے سنان نے نیلامی سے ایک لڑکی کو اغوا کرلیا ۔۔۔۔ کافی کم عمر ہے اس سے؟۔۔۔۔ اٹھارہ کی اب ہوئی ہے۔۔۔۔۔ اگر اتنی ہی طلب تھی تو کسی بڑی عمر کی لڑکی سے گزارہ کرلیتا۔۔۔۔ مگر۔۔۔چچچچ۔۔۔ ایک بچی۔۔۔۔ آہ سنان آہ!” ارحام شاہ کی بات سن کریم کی گرفت سٹئیرنگ پر سخت ہوئی تھی۔
شیشے سے اس نے پچاس سال کے لگ بھگ کی عمر کے اس شخص کو دیکھا تھا۔۔۔
بڑھاپے میں بھی وہ ایک پرسنالٹی رکھتا تھا مگر اس کی سوچ اور زبان اس کے ظاہری حلیے کو مات دینے کو ہمیشہ حاضر ہوتی تھی۔
“یہ تو وہاں جاکر معلوم ہوگا کہ وہ کون ہے” کریم غصے سے بڑبڑایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...